Baseerat Online News Portal

ماہ رمضان میں کثرت ِتلاوت کی اہمیت۔سلف صالحین کا معمول اورہمارا طرزعمل

 

تحریر :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
9905387547

ماہ رمضان المبارک وہ عظیم مہینہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنا لازوال کلام، کتاب ہدایت قرآن کریم کو نازل فرمایا. اس مہینے کی عظمت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے علاوہ بھی جتنی کتابیں اور صحیفے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کیلئے نازل کیے؛ وہ سب کے سب اسی مہینے میں نازل کئے گئے. قرآن کریم مکمل کا مکمل لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اسی ماہ میں نازل ہوا. پھر وہاں سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بتدریج حسبِ ضرورت 23سال کے عرصے میں نازل ہوا۔قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’انا انزلناہ فی لیلۃ القدر، یعنی ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا. شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن. رمضان کا مہینہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا.
قرآن کریم کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تمام صحیفے اسی ماہ کی یکم یا 3کو نازل ہوئے۔حضرت داؤد کو زبور18یا 12رمضان کو ملی، حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تو ریت 6رمضان کو اتاری گئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل 12یا 13رمضان کو ملی ۔
ان تفصیلات سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ماہ رمضان المبارک کو کلام الٰہی سے خصوصی مناسبت ہے۔ اسی وجہ سے اس ماہ میں کثرت سے تلاوت کلام پاک کی تاکید کی گئی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں کثرت سے تلاوت فرمایا کرتے تھے اور آپ کی ہدایت کے مطابق حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین کا معمول رمضان المبارک میں کثرت سے تلاوت قرآن کریم تھا.
سنن نسائی کی روایت ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رمضان المبارک میں روزانہ تشریف لاتے اور نبی کریم کو قرآن سنا تے ۔بعض روایت میں آیا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام خود آنحضرت سے قرآن کریم سنتے تھے.
امام ابن رجب یہ بھی فرماتے ہیں کہ جبریل امین نبی کریم ؐسے رات میں دور کیا کرتے تھے اسی لئے رات میں قرآن کی تلاوت کی کثرت مستحب ہے۔ اور سب سے زیادہ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: حضرت جبریلؑ رمضان کی ہر رات میں حضرت نبی کریم ﷺ سے ملتے تھے اور آپ ﷺ انھیں قرآنِ کریم سناتے تھے۔[ بخاری، مسلم]
حدیث شریف میں ہے کہ ماہِ رمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابراور ایک فرض کا ثواب ستّر فرضوں کے برابر ملتا ہےیعنی جو عمل بھی ماہِ رمضان میں کیا جائےوہ غیر رمضان کے عمل سے ستر گنازیادہ ہوتا ہے۔لہذاگر کو ئی رمضان المبارک کے مہینے میں ایک حرف کی تلاوت کرے تو اُسے اِس کے بدلے سات سو نیکیاں ملیں گی اور اگر کوئی مسجدِ حرام میں اس مبارک مہینے میں ایک حرف کی تلاوت کرے گا،اُسے ستّر لاکھ نیکیاں ملیں گی او رجو شخص پورا قرآن وہاں ختم کر لے،اُس کا ثواب۳۳؍کھرب،۸۵؍ارب اور ۱۸؍ کروڑ ہو جائے گا۔
[مستفاداز فضائلِ حفظِ قرآن]
حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضور اقدس سے نقل کیا ہے: جو شخص ایک آیت کلام اللہ شریف کی سنے گا اس کیلئے دوچند نیکی لکھی جاتی ہے اور تلاوت کرنے والوں کیلئے قیامت کے دن ایسا نور ہوگا جو سورج سے زیادہ روشن اور تابندہ ہوگا ۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس نے ارشاد فرمایا: روزہ اور قرآن شریف دونوں بندے کیلئے قیامت کے وزشفاعت کریں گے ۔روزہ بارگاہِ خداوندی میں عرض کریگااے اللہ میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور نفسانی خواہشات پر عمل کرنے سے روکے رکھا میری شفاعت قبول کیجئے اورقرآن کریم کہے گا اے اللہ میں نے رات کواسے سونے سے روکے رکھا ، میری شفاعت قبول کیجئے ، پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائیگی ۔ (مسنداحمد 2/176)
حضرت ابوذر ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس کا ارشاد ہے : کوئی بندہ قرآن کریم کی تلاوت سے زیادہ کسی اور چیز کے ذریعے بارگاہ رب العزت میں تقرب حاصل نہیں کرسکتا ۔(ترمذی )
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام اور سلف صالحین ہمہ وقت تلاوت کلام پاک میں مصروف رہتے۔ اس میں تدبر و تفکر کرتے، اس کی تعلیمات و ہدایات پر عمل کرتے اور اس کے احکام کے خلاف ایک لمحہ بھی نہیں گزارتے، خاص طور پر رمضان المبارک کا مہینہ ان کے لئے نعمت غیرمترقبہ شمار ہوتا تھا۔ وہ اس کے قیمتی لمحات کی بھرپور قدر کر تے اور قرآن پاک کے علوم و معانی کے بحرِ ناپید ا کنارمیں غواصی کرتے رہتے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ ایک رکعت میں پورا قرآن ختم کرلیا کرتے تھے (فضائل القرآن لابن کثیر ص۲۵۷ بسند حسن)
اسی طرح حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ ایک رکعت میں پورا قرآن ختم کرلیا کرتے تھے (ایضا وصححہ ابن کثیر)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رمضان میں ۳ دن میں قرآن پڑھا کرتے تھے (فضائل القرآن لابن کثیر ص۲۵۵ وقال ابن کثیر اسناد صحیح وحسنہ ابو اسحاق الحوینی)
عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس امر کو پسند فرماتے تھے کہ سات دن میں قرآن کریم مکمل کیا جائے اور تین دن سے کم میں قران مجید ختم نہ کیا جائے بلکہ وہ اپنے تلامذہ کو اس سے منع فرماتے تھے ۔[التفسير من سنن سعيد بن منصور – محققا 2/ 442)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے متعلق روایت ہے کہ جب رات کی تاریکی چھا جاتی اور ہر طرف سکون پھیل جاتاتو آپؓ نہایت اہتمام سے وضو کرکے نماز میں مشغول ہوجاتے اور تہجد میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہتے اور شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح ان کے سینے سے رونے کی آواز آتی۔
امام شافعی سے منقول ہےکہ آپ رمضان المبارک میں ساٹھ مرتبہ قرآن ختم کیا کرتے تھے۔ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: «كُنْتُ أَخْتِمُ فِي رَمَضَانَ سِتِّينَ مَرَّةً» (حلية الأولياء ج۹ ص۱۳۴ وسندہ صحیح)
امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد مسبح بن سعید آپ کا یہ معمول نقل کرتے تھے کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی تو آپ اپنے اصحاب کو جمع کرتے اور انھیں تراویح پڑھاتے اور ہر رکعت میں بیس آیات کی تلاوت کرتے. آپ کا یہی معمول رہتا یہاں تک کہ قرآن کریم مکمل ہوجاتا. اسی طرح سحر کے وقت ثلث سے نصف تک قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور ہر تین دن میں ایک مرتبہ قرآن مکمل فرمالیتے اسی دن میں ہر روز ایک قرآن مجید ختم کرتے اور فرماتے ہر قرآن ختم کرنے پر دعا قبول ہوتی ہے (شعب الایمان ج٣ ص۵۲۴ وسندہ صحیح) وكان يختم بالنهار كل يوم ختمة، ويكون ختمه عند الإفطار كل ليلة ويقول: ” عند كل ختمة دعوة مستجابة "[شعب الإيمان 3/ 524]
رمضان کا بابر کت مہینہ آتا تو حضرت سفیان ثوریؒ تمام نفلی عبادات سے الگ ہو کر تلاوتِ قرآن میں مشغول ہو جاتے۔
حضرت امام نخعیؒ پورے رمضان میں ہر تین دن میں ایک قرآنِ کریم ختم فرماتے اور آخری عشرے میں ہر رات میں ایک ختم فرماتے تھے۔
حضرت قتادہؒ عام دنوں میں ہر سات دن میں ایک ختم فرماتے تھے اور رمضان المبارک میں ہر تین دن میں ایک ختم فرماتے تھے اور آخری عشرے کی ہر رات میں ایک قرآنِ کریم ختم فرماتے تھے۔[نداء الریان]
حضرت اسود بن یزید ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آجاتا تو ہر چیز سے کنارہ کش ہوجاتے اور کلی طور پر تلاوت کلام پاک میں مصروف ہوجاتے ، ہمہ وقت اس میں مصروف رہتے اوردودنوں میں قرآن پاک ختم کرنے کا اہتمام کرتے ۔
حضرت سعید بن جبیر ؓ کا بھی یہی معمول تھا کہ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی تمام دنیوی مصروفیتوں کو ترک کردیتے اور تلاوت کلام پاک میں ہمہ تن مشغول ہوجاتے ،۔
امام دار الہجرہ حضرت مالک بن انس ؓ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی ہر چیز سے دست بردار ہوجا تے یہاں تک کہ احادیث مبارکہ کی تدوین وتالیف ،بحث و تحقیق اور اہل علم کے ساتھ نشست و برخواست سے علیحدگی اختیار کرلیتے اور تلاوت کلام پاک میں مصروف ہوجاتے ۔
حضرت قتادہ ؓ عام دنوں میں 7دنوں میں قرآن کریم ختم فرماتے تھے لیکن جب رمضان کا مہینہ آجاتا تو ہر 3دنوں میں ایک قرآن پاک ختم کرنے کا اہتمام کر تے اور جب اخیر عشرہ آجاتا تو روزانہ ایک قرآن کریم ختم کرتے ۔
حضرت طاؤوس ؒ جب بستر پر جاتے تو جہنم کے خوف سے ان کی نیند اڑجاتی ،گھبراتے ہوئے کھڑے ہوجاتے اور وضوکرکے نماز پڑھنے لگتے اس حالت میں پوری رات گزاردیتے ۔ حضرت امام حسن ؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ تہجد گزار کے چہرے اس قدرروشن اور پررونق کیوں ہوتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ جب ساری دنیا نیند کی آغوش میں ہوتی ہے تو یہ اللہ رب العزت کے برگزیدہ بندے اپنے نرم نرم بستروں کو چھوڑ کر بارگاہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور نمازوں میں اس سے مناجات کررہے ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں نور کی ایسی خلعت عطا کرتا ہے جس سے ان کے چہرے پرُرونق ہوجاتے ہیں۔
حضرت عبدالعزیز بن رواد ؒ کے متعلق سیرت کی کتابوں میں موجود ہے کہ جب رات ہوجاتی او ر وہ اپنے بستر پر جاتے تو بستر کی طرف مخاطب ہوکر فرماتے کہ اے بستر !تو بہت زیادہ نرم اور گداز ہے لیکن جنت کا بستر تجھ سے زیادہ نرم اور گداز ہے اسکے بعد بستر چھوڑ دیتے ، وضوکرکے نماز پڑھنے لگتے۔
حضرت فضیل بن عیاضؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ رات آتے ہی نماز،تلاوت کلام پاک اور اور اد و اذکار میں ہمہ تن متوجہ ہوجاتے، بعض سلف صالحین کا معمول تھا کہ رمضان المبارک میں تہجد میں 7راتوں میں ایک قرآن ختم کرتے جبکہ بعض 10راتوں میں تہجد کی نمازوں میں ایک قرآن پاک ختم کرنے کا اہتمام کرتے۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر سے منقول ہے کہ وہ ایک رکعت میں پورا قرآن مجید ختمکرتے تھے ۔(طحاوی ج1ص205 ،قیام اللیل ص63)
حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ شہادت 94ھ ایک رکعت میں پورا قرآن مجید ختم۔ (قیام اللیل ص64، تذکرہ ج1 ص72)
ثابت بن اسلم بنانی م123ھ رات دن میں ایک قرآن مجید ختم۔ (قیام اللیل ص64)
امام ابو حنیفہ رمضان المبارک میں دن رات میں دو قرآن کریم مکمل فرمایا کرتے تھے ۔(الجواہر المضیئۃج2 ص554)
مشہور محدث اور فقیہ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک رکعت میں ختم قرآن کرنے والوں کی تعداد کا شمار ممکن نہیں ہے متقدمین میں عثمان بن عفانؓ ،تمیم داری،سعید بن جبیر ؒ ایک رات میں قرآن ختم فرماتے تھے (التبیان48)
یہی معمول ہمارے اکابر علماء دیوبند کا بھی تھا۔ شیخ الحديث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں: حضرت اقدس مولانا شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ تراویح کے بعد سے صبح کی نماز تک نوافل میں مشغول رہتے تھے اور یکے بعد دیگرے متفرق حفاظ سے کلام مجید سنتے رہتے تھے.
حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری قدس سرہ کے یہاں تو رمضان المبارک کا مہینہ دن ورات تلاوت ہی کا ہوتا تھا کہ اس میں ڈاک بھی بند اور ملاقات بھی ذراگوارا نہ تھی ۔بعض مخصوص خدام کو صرف اتنی اجازت ہوتی تھی کہ تراویح کے بعد جتنی دیر حضرت سادی چائے کے ایک دو فنجان نوش فرمائیں ،انتی دیر حاضرِ خدمت ہو جایا کریں۔ [ماخوذ از :فضائل رمضان]
خود شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ کا برسہا برس یہی معمول رہا،تحریر فرماتے ہیں:۱۳۳۸ھ سے ماہِ مبارک میں ایک قرآن روزانہ پڑھنے کا معمول شروع ہوا تھا، جوتقریباً ۱۳۸۰ھ تک رہا ہوگا؛ بلکہ اس کے بھی بعد تک۔۔۔اللہ کے انعام وفضل سے سالہا سال یہی معمول رہا ،اخیر زمانے میں بیماریوں نے چھڑا دیا۔[ماخوذ از:آپ بیتی]
رسول اﷲﷺنے قرآن پڑھنے والوں کو اہل اﷲ اور اﷲ تعالیٰ کے خاص بندے قرار دیا ہے : اھل القرآن ھم اھل اللّٰه وخاصتہ (الترغیب والترھیب:۲؍۵۴) یہ قرآن قیامت کے دن قرآن والوں کے لئے سفارشی بن کر کھڑا ہوگا : ’’ القرآن شافع ومشفع ‘‘ اس لئے تلاوتِ قرآن مجید کا اہتمام تو ہمیشہ ہونا چاہئے ؛ لیکن رمضان المبارک میں تلاوت کا خصوصی اہتمام مطلوب ہے ، دن و رات میں سے کوئی وقت گھنٹہ ، ڈیڑھ گھنٹہ کا تلاوت کے لئے مخصوص کرلیجئے ، ظہر کے بعد عصر کے بعد ، سحری سے پہلے ، یا فجر کے بعد ، جو وقت مناسب حال ہو ، عام طورپر نصف گھنٹہ میں تو ایک پارہ مکمل ہوہی جاتا ہے ، اس گھنٹہ ، ڈیڑھ گھنٹہ میں کچھ وقت تلاوت کے لئے رکھیئے اور باقی اوقات میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ لیجئے ، جو ترجمہ مستند و معتبر ہو ، اس سے قرآن سے آپ کا رشتہ مضبوط ہوگا ۔
تلاوتِ قرآن مجید کے اس نظام کو رمضان المبارک تک محدود نہ کیجئے ؛ بلکہ سال بھر کا معمول بنالیجئے اور وقت اپنی سہولت سے طے کیجئے ۔ضرت عبداﷲ بن عمر و بن عاصؓ کا معمول روزانہ روزہ رکھنے اور پوری شب قرآن مجید کی تلاوت کا تھا ، رسول اﷲ ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی ، آپ نے ان سے استفسار کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قرآن پڑھتے ہو ؟ انھوں نے عرض کیا : ہاں ! اے اﷲ کے نبی ! لیکن میرا ارادہ اس سے خیر اورنیکی ہی کا ہے ، آپ ﷺنے فرمایا کہ تمہارے لئے ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا کافی ہے ، اوررہ گیا قرآن تو ہر ماہ میں ایک ختم کرلیا کرو ، کہنے لگے کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، آپ ﷺنے فرمایا : بیس دن میں ختم کرلو ، میں نے عرض کیا : اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، تو ارشاد ہوا کہ سات دن میں ختم کرو اور اس سے زیادہ نہ پڑھو ؛ اس لئے کہ تم پر تمہاری بیوی کا ، آنے والوں کا ، اور تمہارے جسم کا بھی حق ہے ۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۹۷۸)اس حدیث سے اندازہ ہوا کہ تین دن سے کم میں ختم قرآن کریم کا معمول بنا نا اس وقت مناسب نہیں ہے جب اہل وعیال کی حق تلفی کا خدشہ ہو۔
رسول اﷲ ﷺ کی اس ہدایت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ تلاوتِ قرآن مجید کی کیا اہمیت ہے ؟ اور اسلام کا مزاجِ اعتدال بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی حسب ِسہولت مقدار کا انتخاب کرے ؛ لیکن ہمیشہ پڑھا کرے ، شاید اسی سات دن کی مناسبت سے بعد کے اہل علم نے قرآن کو سات منزلوں پر تقسیم کردیا ہے کہ روزانہ ایک منزل پڑھی جائے تو ہفتہ میں ایک بار ختم ہوجائے اور کچھ اور وقت گذرنے کے بعد لوگوں کی تن آسانی کو دیکھتے ہوئے تیس پارے کردیئے گئے ؛ تاکہ روزانہ ایک پارہ پڑھے تو ارشادِ نبوی ﷺ کے مطابق مہینہ میں ایک ختم ہوجائے ۔
اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اتنے کم وقت میں مکمل قرآن نہیں پڑھا جاسکتا، بعض لوگوں کو اس قدر تلاوتِ کلام پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ یہ ممکن ہی کیسے ہے ؟ جب کہ انسان کے ساتھ بہت سی ضروریات ہر وقت لگی ہوئی ہیں،اس کا جواب ‘برکت’ ہے ، جو معترضین کی زندگیوں میں موجود نہیں۔تو یہ ان بزرگوں اور ان کے حالات کو اپنے زمانے اور اپنی شخصیات پر قیاس کرنے کی وجہ سے ہے، جس کا کوئی جوڑ نہیں
ہے۔ اور قرآن کریم کو جو جتنا زیادہ پڑھتا ہے، اس کے پڑھنے میں اتنی ہی روانی آجاتی ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہمارے وقت میں برکت نہیں رہی، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سلف بھی اس "برکت”سے خالی تھے۔ جبکہ ہمارے زمانہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو رمضان المبارک میں بشاشت کے ساتھ تین دن کے اندر اندر قرآن مجید مکمل کرلیتے ہیں۔
تین دن سے کم ایک دن اور رات میں، ایک رکعت یا دو رکعتوں میں قرآن ختم کرنے والوں میں صحابہ کرام، تابعین اور خیر القرون کے لوگوں کے نام شامل ہیں، اگر ان پر یہ اعتراض درست ہوتے، تو یہ واقعات ان اعتراضات کے بغیر نقل نہ ہوتے، اس حوالے سے اگر ان پر اعتراض ہوتا تو تاریخ میں یہ واقعات اعتراض کے ساتھ منقول ہوتے. جب کہ ایسا نہیں ہے۔
دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حدیث میں ہے؛ لَا یَفقَہ من قرأ القرآنَ فی أقل من ثلاث۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم کیا ،وہ اُسے سمجھ نہیں سکا۔[ابوداود، ترمذی]لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ تفقہ اور تلاوت میں فرق ہوتا ہے۔جہاں تک تفقہ اور فہم قرآن کا معاملہ ہے ، تو ہمارے جیسے تو حدیث میں بیان کردہ آخری حد چالیس دن بھی لگائیں، تو شاید ’لم یفقہ‘ یعنی قرآن مجید کو نہ سمجھنے والوں کی قطار میں ہی آئیں گے۔
خلاصہ یہ کہ بلاشبہ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے، لیکن بلا فہم بھی صرف تلاوت قرآن بھی باعث ثواب ہے، تلاوت قرآن کی مثالی مدت تین سے لیکر چالیس دن ہے، لیکن لوگوں کی طبیعت اور ذوق کے مطابق اس میں کمی بیشی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ماضی قریب کے عظیم محقق و محدث مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اس حدیث کے دیگر بیان کردہ مطالب کے علاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم نہ کرو (امت پر شفقت اور ترحم کے سلسلہ میں ہے۔ تاکہ ان دنوں میں غور وفکر سے قرآن کریم پڑھا جائے اور اس کے معانی کو سمجھا جاسکے۔ کیونکہ ہر آدمی تو مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نہیں کہ مسئلہ اجماع کو سمجھنے کے لیے تین دن میں نو مرتبہ قرآن کریم ختم کرے اور منتہائے نظر یہ ہو کہ مسئلہ استنباط کرنا ہے۔ ہر ایک کو بھلا یہ مقام کہاں نصیب ہو سکتا ہے؟ (مقام ابی حنیفہ ص 243)
نیز علامہ طیبیؒ فرماتے ہیں : یہاں مراد یہ ہے کہ جس شخص نے تین دن یا تین رات سے کم میں قرآن ختم کیا ، وہ قرآن کے ظاہری معنی تو سمجھ سکتا ہے لیکن قرآن کے حقائق و معارف اور دقائق و نکات تک اس کی رسائی نہیں ہوتی ، کیوں کہ ان چیزوں کو سمجھنے کے لیے تین دن تو بہت دور کی چیز ہے، بڑی سے بڑی عمریں بھی ناکافی ہوتی ہیں ، نہ صرف یہ بلکہ اس مختصر سے عرصے میں تو کسی ایک آیت یا ایک کلمے کے دقائق و نکات بھی سمجھ میں نہیں آسکتے ۔ نیزیہاں نفی سے مراد سمجھنے کی نفی ہے ،نہ کہ ثواب کی نفی، یعنی ثواب تو ہر صورت میں ملتا ہی ہے۔ پھر یہ لوگوں کی سمجھ میں تفاوت و فرق ہے، بعض لوگوں کی سمجھ زیادہ پختہ ہوتی ہے، وہ کم عرصے میں بھی قرآنی حقائق و دقائق سمجھ لیتے ہیں ، جب کہ بعض لوگوں کی سمجھ بہت ہی کم ہوتی ہے ، جن کے لیے طویل عرصہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
سلف میں سے بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے، چناں چہ ان لوگوں کا معمول تھا کہ وہ ہمیشہ تین ہی دن میں قرآن ختم کرتے اور تین دن سے کم میں ختم کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے ، جب کہ دوسرے لوگ اس کے بر خلاف عمل کرتے تھے ۔ چناں چہ بعض لوگ تو ایک دن رات میں ایک قرآن ختم کر لیتے تھے اور بعض لوگ دو دو بار ، اور بعض لوگ تین تین بار ختم کر لیتے تھے ، بلکہ بعض لوگوں کے بارے میں تو یہاں تک ثابت ہے کہ وہ ایک رکعت میں ایک قرآن ختم کر لیتے تھے۔ہو سکتا ہے ان لوگوں نے یا تو اس حدیث کے بارے میں یہ خیال کیا ہو کہ اس کا تعلق اشخاص کے اعتبار سے مختلف ہے.
یعنی ممکن ہے کہ اس حدیث کا تعلق اُن لوگوں سے ہو جو سریع الفہم نہیں ہوتے ہیں اور وہ اگر تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم کریں تو اس کے ظاہری معنی بھی نہ سمجھ سکتے ہوں، یا پھر ان کے نزدیک یہ بات ہو کہ اس حدیث میں فہم کی نفی ہے ، اس صورت میں ظاہر ہے کہ جتنی بھی کم سے کم مدت میں قرآن ختم کیا جائے گا ، ثواب ملے گا۔ [مظاہرِ حق جدید]
٭٭٭٭

Comments are closed.