Baseerat Online News Portal

فن خطاطی کا آغاز، عروج اور زوال

عارف عزیز،بھوپال
قدرتِ خداوندی نے حضرتِ انسان کو جن بے شمار صلاحیتوں سے نواز ان میں جو ہر خطابت جہاں ایک بیش بہا عطیہ ہے وہیں اعجازِ قلم بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ بالخصوص قلم کی مصوری، رنگ سازی اور فرمانروائی کا نقش تو لوحِ ذہن پر ہی مرتسم نہیں ہوتا، اس کا برپا کیا ہوا انقلاب نہایت دور رس نتائج کا حامل ہوتا ہے، عصر حاضر میں دنیا کی تمام متمدن اقوام قلم کی برکتوں سے مالا مال ہیں اور ذہن وفکر کی جلاء میں اس کا بھر پور استعمال کررہی ہیں، قلم کی اس طاقت بلکہ عظمت کو آج کی متمدن دنیا ہی تسلیم نہیں کرتی ازل سے اس کے گوناگوں اعجاز کا اعتراف کیا جارہا ہے، خود قرآن حکیم نے اس کی عظمت کی قسم کھائی ہے۔ ’’قلم اور اس کی تحریر کی قسم‘‘ (سورہ ن) ’’ اور تمہارا رب کرم والا ہے جس نے قلم سے تحریر سکھائی ‘‘ (سورہ علق) ۔ یہ وہ پہلی آیت ہے جو نبوت سے سرفرازی کے بعد آنحضرت ﷺ پر غارِ حرا میں نازل ہوئی، صحیح حدیث میں منقول ہے ’’نبی ﷺ نے فرمایا کہ خالق کائنات نے سب سے پہلے قلم کی تخلیق کی پھر اس سے کہا لکھ، تو قلم نے لوحِ محفوظ پر وہی تحریر کیا جو تقاضائے کن تھا‘‘ لہذا صفحہ کائنات کے ہر حرف بلکہ ہر نقطہ سے کاتبِ ازل کے نورِ کبریائی کا ظہور ہوتا ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ ’’قلم کو رب العالمین کا حکم ہوا کہ میثاقِ عرش پر پہلے اس کلمہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو لکھے، قلم نے چار سو برس تک صرف لاالٰہ الا اللہ تک لکھا ، ایک اور روایت میں ہے کہ قلم نے اس کے بعد عرض کیا کہ یا رب العالمین تو بے مثل ہے پھر تیرے نام کے ساتھ یہ برگزیدہ ہستی کس کی ہے ، باری تعالیٰ نے حکم دیا کہ یہ نام میرے حبیب کا ہے تو لکھ محمد رسول اللہ، جب قلم نے اسے لکھا تو ’’م‘‘ کے بعد ’’ح‘‘ کی کشش پر قلم ترخ گیا یعنی نوک قلم پر شگاف پڑ گیا، اسی لئے قلم کی نوک یانب میں شگاف لگایا جانے لگا، ’’تبیان‘‘ میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے حضرت آدمؑ کو لکھنا تعلیم فرمایا اور جس نے سب سے پہلے لکھا وہ حضرت ادریسؑ تھے، قلم کی ایجاد بھی ان سے منسوب ہے۔
کعب بن مالک ؓ کو راوی قرار دے کر ابن ندیم نے ’’الفہرس‘‘ (باب اول مطبوعہ جرمنی ۱۸۸۱ء) میں درج کیا ہے کہ رسم الخط کے موجد حضرت آدمؑ ہیں، انہوں نے اپنی وفات سے تین سو سال قبل رسومِ خط کو کچی اینٹوں پر ثبت کرکے اور ان اینٹوں کو آگ میں پکاکر زمین میں دفن کردیا، طوفانِ نوح کے بعد جب یہ اینٹیں برآمد ہوئیں تو ان کے نقوش کو رسم الخط سے تعبیر کیا گیا گویا حضرت آدمؑ نے رسم الخط اور اس کے رواج کے لئے حضرت ادریسؑ نے قلم ایجاد کیا۔
مختلف زبانوں کے حروف، نقاط اور رسوم خط کی اختراع کے بارے میں متضاد نظریات ودعوے ملتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ باقاعدہ لکھنے کا آغاز اشوریوں سے ہوا، احمریوں کے طرزِ کتابت کو مسندی کہتے ہیں جس میں ہر لفظ الگ الگ رقم کیا جاتا تھا اور ان کی زبان عربی تھی، اس لئے عربی خط کو تمام خطوں کی ماں کہا جاتا ہے، احمریوں کے دورِ حکومت میں عربی فنِ کتابت نے ترقی کی، بصرہ اور کوفہ میں اس کو فروغ ہوا جس کا عکس خط کوفی میںملتا ہے، یہی رسم الخط کا پہلا ترقی یافتہ نمونہ تسلیم کیاجاتا ہے جو عالمِ عرب کے مشرق میں رائج تھا، بعد میں اس کی ترقی وتوسیع موجودہ خطِ نسخ کی صورت میں ہوئی اور ان خطوط میں فنی مہارات پیدا کرنے کو خطاطی یا خوش نویسی سے موسوم کیا گیا۔ طلوع اسلام کے بعد خطاطی کے اس فن کو مسلمانوں نے کافی فروغ دیا اور اس میں جمالیاتی حسن کے وہ نمونے پیش کئے کہ اپنے عہد کا یہ ایک مہذب ومحترم فن بن گیا۔
مصوری و خطاطی کی بنیادی ہیئت میں کچھ زیادہ فرق نہیں لیکن مصوری کے لئے اسلامی معاشرہ میں پابندی عائد ہونے کی وجہ سے آرائش وزیبائش کے جذبہ کی تسکین کی فطری ضرورت کے طور پر بھی فن خطاطی کو فروغ ملا او ریہ اہل ذوق واہل ثروت کی سرپرستی میں اظہار کا ایک موثر وسیلہ بن گیا، شاہوں سے فقیروں تک کے لئے اس میں مہارت پیدا کرنا اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ایک اعزاز تصور کیا جانے لگا۔
عربی میں فنِ خطاطی کے آغاز کے بارے میں عام طو رپر ماہرین کا اختلاف ہے لیکن یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کو بعثت شریف کے بعد اس وقت عروج حاصل ہوا جب عربی قرآن حکیم کی زبان بن گئی اور اس کے رسم الخط میں اس صحیفہ آسمانی کو رقم کیا جانے لگا، پہلی وحی الٰہی یعنی قرآن کی ابتدائی آیات کو لکھنے کا شرف خالد بن سعد بن العاصؓ کو حاصل ہوا، مکی زندگی میں چاروں خلفائے راشدینؓ کو بھی یہ سعادت نصیب ہوئی، مدنی زندگی میں کاتبانِ وحی کی تعداد چالیس تک پہونچتی ہے۔ ان میں سب سے نمایاں نام حضرت ابی بن کعبؓ کا ہے جنہیں آخری وحی لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ حضرت عبداللہ بن سعید اصحاب صفہ میں شامل ایک خوش نویس صحابی تھے جو طلباء کو لکھنا پڑھنا سکھاتے تھے (شاہ مصباح الدین شکیل، مضمون ’’سرور کونین معلمِ کتاب و حکمت‘‘ ، روزنامہ ’’آزاد ہند‘‘ کلکتہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء صفحہ ۳)
مشہور مورخ بلاذری نے لکھا ہے کہ ظہور اسلام کے وقت مکہ میں قریش کے صرف ۱۷ افراد نوشت وخواند (پڑھنے و لکھنے) سے واقف تھے حالانکہ وہ خود کو عرب کہتے تھے جس کے معنی ’’زبان آور‘‘ کے ہیں، انہیں اپنی فصاحت وبلاغت پر اس حد تک ناز تھا کہ باقی ساری دنیا ان کے نزدیک عجم یعنی ’’گونگی‘‘ تھی، اسیرانِ بدر میں سے بعض کو فدیہ کے طور پر انصار کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دینے کے بعد ایک خاصی تعداد فنِ کتابت سے آشنا ہوگئی، امہات المومنینؓ نے بھی اس فن میں کمال حاصل کیا۔
محمود حسن قیصر کی تحقیق کے مطابق پہلی صدی ہجری میں چمڑے پر لکھے ہوئے قرآن پاک کے ۳۴ اوراق ملے ہیں جن کو حضرت علیؓ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اسی طرح حضرت عثمان غنیؓ کے ہاتھ کا بکری کی کھال پر تحریر قرآن کریم کاایک قدیم نسخہ انڈیا لائبریری لندن میں اور دوسرا تاشقند میں محفوظ ہے، (محمد ضمیر الدین نظامی، مضمون ’’خطاطی‘‘ روزنامہ سیاست حیدرآباد، ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۶ء صفحہ ۵)
لیکن اس سے پہلے اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لئے جو مکتوب ہم عصر بادشاہوںیا حکمرانوں کو بارگاہِ نبوت سے ارسال کئے گئے اور جن میں سے بیشتر آج مطبوعہ شکل میں موجود ہیں ان کے مطالعہ وجائزہ سے واضح ہوتا ہے کہ عربی رسم الخط اس زمانہ میں کتنا ترقی کرچکا تھا، یہ آج کے خط نسخ کے بجائے خط کوفی سے زیادہ قریب ہے، خط کوفی میں ہی فنِ خطاطی کا باقاعدہ آغاز ہوا جس کی بنیاد کوفہ میں پڑنے کی وجہ سے اسے کوفی کہا جانے لگا، اس طرزِ تحریر میں تکلف ہوتا ہے اور اس کے حروف عمومی شکل کے ہوتے ہیں۔ (ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، مضمون ’’خطہ شکستہ کے عروج کی داستان‘‘ ، روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور ۲۹ جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ نمبر۲)
اس کے بعد ۳۱۰ھ؁ میں خطاط ابن مقلہ نے خطِ معقلی اور کوفی میں کچھ حروف کی تبدیلی کرکے چھ خط ثلث، ریحان، توقیع، محقق، نسخ اور زفاع اختراع کئے اور ہر خط کوایک جداگانہ صورت سے ممیز کیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے آغاز سے کوئی سات سو سال تک یعنی اموی و عباسی عہد میں فتنۂ تاتار تک خط کوفی عوام و خواص کا مرکز نگاہ بنا رہا (جلال الدین اسلم مضمون ’’اردو کا خطِ نستعلیق‘‘ سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی ۲۶ جنوری ۱۹۷۸ء) اور ماہرین نے اس میں اپنے فن کے وہ جوہر دکھائے کہ صدیوں بعد بھی اس کے نمونے دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے، اس سے مسلمانوں کے ذوقِ جمال اور ایجاد و اختراع کی صلاحیت کا ثبوت ملتا ہے ، اس خط میں جو ملکوتی حسن ہے وہ بھی مسلمانوں کی فنی حس کو بیدار کرنے کا باعث بنا، مثال کے طو رپر لفظ ’’اللہ‘‘ کا جائزہ لیا جائے تو اس کی مخروطی شکل انسان کو اپنی جانب از خود راغب کرتی ہے، خط کوفی کے اس زیبائشی اور جمالیاتی پہلو نے مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقوام کو بھی اپنا گرویدہ بنایا اور مساجد، مقابر، کلیسا نیز دوسری عمارتوں میں زیب وزینت کے طور پر اس کا استعمال ہونے لگا ، بالخصوص مسیحی اپنی عبادت گاہوں کو عربی کی منقش تحریروں سے آراستہ کرنے لگے، ان کو عربی عبارت کے مطلب ومعنی کا کچھ اندازہ نہیں تھا بلکہ یوروپ کے کاریگر جو عربی رسم الخط سے عام طو رپر نابلد تھے، بطور نقش ونگار اس کو اپناتے گئے، یہاں تک کہ صقلیہ میں مسلمانوں کے جانشین، نارمنوں نے اپنے سکے پر عربی میں کلماتِ توحید و رسالت برقرار رکھے وہ اس کی شکل وصورت سے اس حد تک مانوس ہوگئے تھے کہ صلیب پر کوفی خط میں بسم اللہ لکھوادیا کرتے تھے۔
یوروپ میں فن خطاطی کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اس لئے عربی الفاظ وعبارت کا حسن دیکھ کر وہاں کا کاریگر معنی ومطلب سمجھے بغیر اس کی نقالی پر مجبور تھا، اس دور میں عبا کی آستینوں اور گریبانوں پر عربی حروف کی نقش ونگاری کی جاتی، ریشمی پارچہ جات، ملبوسات، شمع داں اور پیتل کے ظروف جو مشرق سے یوروپ برآمد کئے جاتے ان پر بھی پہلے خط کوفی میں اور بعد میں خط نسخ کی نقاشی کو دیکھ کر دل عش عش کر اٹھتا۔
کاغذ کی ایجاد چینیوں نے کی لیکن وسط ایشیا کا علاقہ جو بیشتر چینیوں کے زیر اثر تھا جب مسلمانوں نے فتح کیا اور ان کی معروف تجارتی شاہراہِ ریشم کا اپنی تجارتی سرگرمیوں کے لئے استعمال شروع کیا تو چینیوں کی تہذیب، تمدن اور ایجادات سے انہیں متعارف ہونے کا موقع ملا، ۷۰۴ء؁ میں سمرقند فتح ہوا جہاں کاغذسازی کے چینی کاریگر موجود تھے، مسلمانوں نے کاریگروں سے کاغذ بنانے کا فن سیکھا، ۱۲ ویں صدی عیسوی میں یہ فن مسلمانون کے ذریعہ یوروپ پہونچا، خود مسلمانوں نے اسپین اور سسلی کے اندر کاغذ کے کارخانے قائم کئے، سسلی سے باآسانی کاغذ تیار کرنے کا یہ فن اٹلی میں رواج پانے لگا، اس کے بعد تو یوروپ میں بہت جلد کاغذ کا استعمال بھی شروع ہوگیا لیکن اس سے کافی پہلے نویں صدی میں عربی مسودات وملفوظات لکھنے کے لئے کاغذ کا استعمال ہونے لگا تھا، مجلد کتب وجود میں آئیں اور جلد سازی کا فن بھی فروغ پانے لگا (اخلاق احمد، مضمون ’’فن خطاطی ، مسلمانوں کا اچھوتا فن‘‘ ہفت روزہ’’ اجالا ‘‘ کلکتہ ۳۰ مارچ ۸۶ء صفحہ ۳)
ایرانیوں کے ذوقِ جمال کی بدولت فنِ خطاطی میں وہ ترقی ہوئی جو پہلے نہیں ہوسکی بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اس فن کے بارے میں مسلمانون کی جو عام روش تھی اس میں انقلاب پیدا ہوا، اس انقلابِ زمانہ نے جب ارتقائی مراحل طے کئے تو خط نستعلیق کی صورت اختیار کی، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ماہرین فن نے ’’خط توقیع‘‘ اور ’’رفاع‘‘ سے تراش وخراش کرکے ’’خط تعلیق‘‘ کو ترقی دی اور کیونکہ نستعلیق مرکب امتزاجی ہے، اس کی اصل میں نسخ وتعلیق لہذا کثرتِ استعمال سے وہ نستعلیق بمعنی ’’نگارش- آویزش‘‘ ہوگیا۔
خط نستعلیق کو فنی باریکی سے آراستہ وپیراستہ کرنے کا سہرا خواجہ میر علی بن الیاس التبریزی کے سربندھتا ہے اور اس کا ایک نمونہ برٹش میوزیم لندن میں ’’مثنویات خواجہ کرمانی کے مصور نسخہ میں ملتا ہے، یہ ۷۹۸ھ میں رقم کیا گیا اور اس کی تصاویر ایک دوسرے مصور جنید سلطانی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں اگرچہ یہ فنِ نستعلیق کا ابتدائی نمونہ ہے اور اس کی پختہ شکل بعد میں خواجہ میر علی کے سلسلہ تلمذ میںقبلۃ الکتاب سلطان علی مشہدی اور ان کے تلمیذ میر علی ہروی کے یہاں ملتی ہے۔
’’خط نستعلیق ‘‘ شہنشاہ بابر کے ذریعہ ہندوستان آیا اور اس کا ابتدائی نمونہ ’’تزکِ بابری‘‘ کے مصور نسخہ میں ملتا ہے، اسے علی الکاتب نے شہزاد ہمایوں کے لئے بابر کی زندگی میں ۹۳۷ھ میں تحریر کیا، جب ہمایوں ایران سے واپس ہندوستان آیا تو اپنے ہمراہ عبدالصمد شیریں قلم اور میر علی تبریزی بن مصور وغیرہ ماہر خطاطوں کو بھی لایا اور انہوں نے یہاں ایران کے مایہ ناز مصور و خطاط کمال الدین بہزاد نیز سید میر علی ہروی جیسے خط نستعلیق کے ماہروں کے نقش قدم پر چل کر کئی معرکہ آرا کارنامے انجام دیئے، عہد اکبری میں سلطان بایزید ابن میر نظام مشہور بہ دوری جیسے خطاط ہندوستان آئے جن کے طرز نستعلیق کی مہارت ونفاست کا گرویدہ ہوکر اکبر نے انہیں ’’کاتب الملک‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا ، اسی طرح عبدالرحیم عنبریں قلم اور عبدالرشید دیلمی کا وجود بھی ملتا ہے جنہوں نے ایران سے ہندوستان آکر جہانگیر اور شاہجہاں کے درباروں کو رونق بخشی، تاج محل پر ثبت تحریریں بھی ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں، دورِ مغلیہ میں اس فن کی مقبولیت کا ایک اہم سبب یہ بھی رہا کہ مغل شہنشاہوں نے اپنے عہد کے باکمال خطاطوں کا اعزاز واکرام کرنے کے علاوہ اس فن میں خود بھی ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا، شاہ جہاں کے لکھے ہوئے قرآن پاک کے نسخے آج بھی عجائب گھروں کی زینت ہیں، اورنگ زیب عالمگیر باقاعدہ قرآن مجید کی کتابت کرتے تھے، کہتے ہیں کہ اپنی ذاتی ضرورتیں وہ اسی کام سے پوری کرتے تھے، آخری مغل حکمراں بہادر شاہ ظفر بھی خوش نویس تھے، اس فن میں ان کے کئی شاگرد ہوئے، اس زمانہ میں خطاطی ہی نہیں بلکہ عام خط کی مشق بھی تختیوں، دفتیوں اور وصلیوں پر کرائی جاتی تھی جس کے نتیجہ میں عام لوگوں کے خط بھی نہایت پختہ وپاکیزہ ہوتے تھے۔ اس عہد میںنستعلیق کے ساتھ درباروں کی دستاویز و فرمان لکھنے کے لئے خط دیوانی کو فروغ دیا گیا تاکہ باآسانی اس کی نقل نہ کی جاسکے بعد میں اس کا نام خط شکستہ ہوگیا (سید محمد ازہر شاہ قیصر مضمون ’’اردو کتابت اور خوش نویسی‘‘ ہفت روزہ ’عزائم لکھنو‘ ۱۴ سے ۲۱ نومبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱۸)
شاہوں اور سلطانوں کا دور ختم ہوا تو نوابوں، جاگیرداروں اور تعلقہ داروں کی بساط بجھ گئی، انہوں نے خطاطوں اور وخوشنویسوں کی پذایرائی کی، اسی زمانہ میں طباعت یعنی لیتھو کی پرنٹنگ کا آغاز ہونے سے خطاطی و خوشنویسی کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ کتب و رسائل کے علاوہ اردو اخبارات کیلئے خوش خطوں کی ضرورت محسوس ہوئی، لہذا بڑے پیمانے پر اس فن کو سیکھنے وسکھانے کا سلسلہ چل پڑا، اس دور کے باکمال خوشنویسوں میں منشی شمس الدین اعجاز رقم، منشی حامد حسین سہارنپوری، مولوی اشتیاق احمد دیوبندی، مولانا عبدالسلام بلند شہری، یوسف دہلوی، مجید دہلوی، عبدالعبید پروین رقم، محمد الدین کلیمی اور قدرت اللہ مرادآبادی کے نام شامل ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان میں عربی خط نسخ اور اس سے کہیں زیادہ نستعلیق کا رواج ہوا۔ نستعلیق میں دائرے اول تو بیضاوی ہوتے ہیں یا پھر آفتابی علاوہ ازیں یہاں خط کی ایک قسم اور متعارف ہوئی اس کو ’’خط لاہور‘‘ کہتے ہیں اس خط میں دائرے بیضاوی سے قدرے سمٹے ہوئے ہوتے ہیں، لاہوری طرز کا استعمال پاکستان میں زیادہ ہے اور اس میں تاج الدین زریں رقم نے کافی شہرت حاصل کی، اس خط کی اختراع کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ دہلی کے بعد خطاطی کا دوسرا بڑا مرکز زمانہ قدیم سے لکھنؤ رہا ہے، ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ اس فن میں مہارت پیدا کرنے کے لئے وہاں پہونچتے تھے اور سکھانے والوں کی بھی کمی نہ تھی، مولانا عبدالحلیم شرر نے اپنی مشہور کتاب ’’گوشۂ لکھنؤ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’لکھنؤ کے امراء اور شوقین لوگ اپنے مکانوں کو بجائے تصویروں کے قطعات سے آراستہ کیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے علی العموم قطعوں کی بے انتہا مانگ تھی اور جہاں کسی اچھے خوش نویس کے ہاتھ کا قطع مل جاتا اس پر لوگ پروانوں کی طرح گرتے اور آنکھوں سے لگاتے‘‘ ان ماہر نستعلیق نگاروں میں محمد اسلم، میر عطا حسین تحسین، سید اعجاز رقم، حافظ نوراللہ، مرزا محمد علی، مقبول نبی خاں، قاضی نعمت اللہ، منشی عبدالحمید، منشی عبدالحئی، مولوی ہادی علی اور مولوی اشرف علی کے نام نہایت عزت سے لئے جاتے ہیں جبکہ منشی شمس الدین اعجاز رقم اور منشی حامد علی نے خط نستعلیق کو اس عروج پر پہونچادیا جہاں سے اس کا مزید آگے بڑھنا ممکن نہیں، ان میں سے بیشتر کا اپنے دور کے معروف مطبع نول کشور پریس سے بھی تعلق رہا۔
اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں فنِ خطاطی نے جتنی ترقی کی بیسویں صدی کے نصف آخر میں یہ فن اتنا ہی تنزل کا شکار ہوگیا، تاہم اس دور میں بھی کچھ اہم خطاط ایسے ضرور رہے جنہوں نے اپنے قلم سے ماضی کی روایات کو روشن رکھا، ایسے خطاط پہلے بھی انگلیوں پر گنے جاتے تھے اور آج تو امتدادِ زمانہ کے نتیجہ میں اور بھی کم ہوگئے ہیں ، دہلی جو کسی زمانہ میں اس فن کا سب سے بڑا مرکز شمار ہواتھا ماضی قریب تک وہاں خلیق ٹونکی، مولانا محمد یوسف اور انیس صدیقی جیسے چند خطاط باقی بچے تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اس فن کی نذر کردی، مولانا یوسف قرآن کریم کی کتابت (خط نسخ ) میں غیرمعمولی مہارت رکھتے اور پورے ہندوستان میں کلام پاک کی کتابت میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ انہوں نے ایک الفی قرآن بھی لکھا ہے جس کی ہر سطر الف سے شروع ہوتی ہے۔ خلیق ٹونکی کے قلم میں غضب کی پختگی اور شائستگی تھی، پانچ برس کی عمر سے انہوں نے جو قلم سنبھالاتو اپنے خلوص، محنت، لگن اور دیانتداری سے اس فن کو معراجِ کمال تک پہونچادیا، انیس صدیقی جو مولانا یوسف اور خلیق ٹونکی کے شاگردوں میں شامل ہیں ان کے قلم کی باریکی، حسن اور توازن بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، خلیق صاحب کے شاگردوں میں بھوپال نژاد سید عبدالحنان بڑے خوش وضع، خوش رو اور سنجیدہ نوجوان ہیں جنہوں نے خطاطی کی ابتداء تو بھوپال میں کی لیکن اس کی تکمیل دہلی میں ہوئی اور آج وہ ہریانہ اردو اکادیمی میں برسرکار ہیں۔
دہلی اور لکھنؤ کے بعد ہندوستان میں فنِ خطاطی کے تین اہم مراکز ٹونک بھوپال اور حیدرآباد رہے ہیں،ٹونک جو نوابوں کی ایک چھوٹی سی ریاست تھی وہاں کے ’’مولاناآزاد عربک اینڈ پرشین انسٹی ٹیوٹ‘‘ میں کیلی گرافی (خطاطی) کا ایک شعبہ قائم ہے، اس ادارہ میں ٹونک اور ریاست راجستھان کے ہزاروں مخطوطات کا ذخیرہ بھی محفوظ ہے، بھوپال میں بیگمات کے عہد سے فنِ خطاطی کی طرف رجحان رہا لیکن انیسویں صدی کے آخر میں جب نواب صدیق حسن خاں نے یہاں تصنیف وتالیف کے کام کا آغاز کیا تو مختلف علوم وفنون کے ماہروں کے ساتھ خطاطوں کو بھی بلایا گیا۔ اسی زمانہ سے یہاں کے مدارس میں خطاطی کے شعبے قائم ہوئے، نواب سلطان جہاں بیگم کے میر منشی عبدالسبحان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ نہایت اچھے خطاط تھے اس فن کے دوسرے ماہروں میں استاد سید اختر حسین مرغ باز کا کافی شہرہ رہا ہے، حافظ علی حسین صدیقی کو اسی زمانہ میں لکھنؤ سے یہاں طلب کیا گیا جن کے دو بیٹے رضا، حسین اور اصغر حسین کے علاوہ پوتے صادق حسین نے بھی اس فن میں مہارت حاصل کی، ان کے علاوہ میر پنجہ کش، صوفی شیریں رقم، امداد علی، منشی سمیع الدین، سجاد حسین، سراج الدین، حافظ امان اللہ، ان کے بیٹے احمد اللہ اور حافظ وحید اللہ، منشی انور علی (شاگرد داغؔ دہلوی) نے سالہا سال کی ریاضت کے بعد قلم کو آخری بلندیوں تک پہونچادیا تھا، اسی طرح صوفی محمد یوسف ان کے بیٹے مولوی ابراہیم خلیل، حافظ برکت اللہ، مولوی نصیرالدین انصاری، مولوی عبدالحلیم، مولوی عبدالجبار کا اچھے خطاطوں میں شمار ہوتا تھا (ادریس الحسینی، مضمون’’فنِ خطاطی و خوش نویسی‘‘ روزنامہ ندیم بھوپال سلور جوبلی نمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۹) اس فن میں اپنی مہارت کا لوہا منوانے والوں میں ایک اورنام محمد ظفر خاں المعروف ظفر آرٹسٹ کا ہے جو اپنی زندگی کی ۳۵-۴۰ بہاریں بمبئی میں گزار کر اور وہاں کے اخبارات و رسائل کے علاوہ فلموں میں اپنے قلم کے جوہر دکھاکر کوئی ۲۸ برس پہلے وطن لوٹے تو روزنامہ ’’بھوپال ٹائمز‘‘ کو اپنی فنی کاوشوں سے سنواتے رہے، دوسرے تجارتی کاموں کے ساتھ حفاظ کے لئے ایک مخصوص قرآن مجید کی کتابت میں مصروف رہے علاوہ ازیں اردو، ہندی کا ایک معنوی کلینڈر بھی تیار کررہے تھے، جو ان کی موت سے مکمل نہیں ہوسکا، مقصود آرٹسٹ، حافظ حامد محمد خاں، ان کے بیٹے ساجد محمد خاں، ضیاء الدین، عزیز الدین، خورشید حسن، محمد عمر، مبارک شاہ خاں، ادریس الحسینی اور وکیل بستوی بھی ان خطاطوں میں شامل ہیں جنہیں فن کے تئیں اپنی خودسپردگی کے باعث یاد رکھا جائے گا۔
خطاطی کی آراستگی و پیراستگی میں اہل دکن بالخصوص حیدرآباد کے فنکاروں کا اہم حصہ ہے، یہاں کے خطاطوں نے نستعلیق ونسخ کے جو نادر نمونے پیش کئے ڈاکٹر زور کی دلچسپی و کوشش سے ان کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ ہوگیا ہے۔ حیدرآباد کا سالار جنگ میوزیم بھی آرٹ وفن کے شیدائیوں کے لئے ایک اہم مرکز کا درجہ رکھتا ہے۔ ان کے علاوہ فنِ خطاطی و خوشنویسی کے فروغ میں ملک کی مختلف ریاستوں میں کام کرنے والی اردو اکادمیوں نے کافی کام کیا ہے، مرکزی حکومت کے ادارے ترقی اردو بیورو (جس کانیا قالب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ہے) نے دہلی اور دوسری ریاستوں کے دارالحکومتوں میں اپنے وسائل سے ٹریننگ سینٹر شروع کئے جہاں لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی بڑی تعداد میں کتابت کی ٹریننگ حاصل کرتی رہی ہیں لیکن ان میں شاید ہی کوئی اچھا خطاط بن کر نکلا ہو۔
اس تفصیل سے یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ ہندوستان میں اردو رسم الخط کی بقا اور اس کی ترویج واشاعت میں خط نستعلیق کے ماہروں کی غیر معمولی خدمات ر ہیں جنہوں نے ہر دور میں اس خط کو سنوارنے اور عوام الناس میں مقبول بنانے میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، لیکن ان کے جانشینوں کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان کا رشتہ فن کے تخلیقی سوتوں سے منقطع ہونے سے دیگر فنون کی طرح یہ بھی ایک عام فن بن گیا ، رہی سہی کسر آج کے ان سرپرستوں نے پوری کردی جن کا اردو زبان کی لطافت یا اس کے تہذیبی رچائو سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہا تو وہ فن خطاطی کی باریکیوں یا نزاکتوں کی کیا حوصلہ افزائی کرتے۔ اس زوال وادبار کی دوسری وجہ فن خطاطی کو اپنانے والوں کا پیشہ ور ہو جانا بھی ہے، جنہوں نے اسے یافت کا ذریعہ بنا لیا ہے اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مالی منفعت کی مجبوری نے انہیں فن کے بارے میں سمجھنے اور اس میں گہرائی پیدا کرنے کا موقع نہیں دیا، علاوہ ازیں آج کے مادی دور نے جہاں استاد وشاگرد کا پرانا رشتہ کمزور کردیا وہیں مشق وریاض کی پرانی روایت بھی ختم ہوگئی ہے، نئی نسل کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ اپنی سانسوں کو روک کر ایک ایک حرف کوحسن و زیبائش سے نکھارے لہذا قلم برداشتہ اخبارات کے کالم یا کتابوں کے صفحات پر کرنے کی ہوس کا نام ہی فنکاری ہوگیا تھا، فن کے تئیں اس عدم توجہی بلکہ ناقدری کو بھی ایک عرصہ تک گوارہ کیا جاتا رہا لیکن مختلف خطاطوں کے خطوں میں عدم مطابقت، کرسی، کشش، دائرے اور لفظوں میں عدم توازن، خطاطوں یا کاتبوں کی سست رفتاری نے اردو صحافت کے لئے یہ مسئلہ پیدا کردیا کہ وہ کس طرح کمپیوٹر کے اس عہد میں دوسری زبانوں کی صحافت کا مقابلہ کرے۔
’’ضرورت ایجاد کی ماں ہوا کرتی ہے‘‘ یہ اردو کا پرانا محاورہ نہیں ایک حقیقت ہے جس کا اطلاق فنِ خطاطی و خوشنویسی پر بھی اس لئے ہوتا ہے کہ موجودہ عہد کی برق رفتار اور مشینی زندگی کی ضرورتوں کا یہ فن ساتھ نہیں دے سکا تو اس کے متبادل کی تلاش شروع ہوگئی، پہلے پاکستان میں نوری نستعلیق کے نام سے ٹائپ کی فوٹو ٹائپ سیٹنگ کمپیوٹر مشین ایجاد ہوئی جسے لندن کی ایک فرم نے تیار کیا تھا لیکن یہ سسٹم نہایت گراں ہونے کی وجہ سے مقبول نہیں ہوسکا۔ کمپیوٹر ٹکنالوجی کی ترقی کے نتیجہ میں نسبتاً کافی کم لاگت والے کمپیوٹر بازار میں آگئے اور حال کے بیس برس میں تو ہندوستان و پاکستان کے بیشتر اخبارات ورسائل کے لئے ان کا ہی استعمال ہورہا ہے۔
شروع میں ان مشینی خطوں کی ساخت وپرداخت آنکھوں پر گراں گزرتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ ’’بے جان مشینوں میں یہ قدرت کہاں کہ وہ خط کے حسن اور فن کے رموز کو گرفت میں لاسکیں‘‘ لیکن جوں جوں نظریں کمپیوٹر کے خطوں کی عادی ہوتی گئیں اور ان میں اصلاح وترقی کا عمل جاری رہا تو اب کہا جانے لگا کہ ’’ مشین آدمی ضرور بناتا ہے لیکن مشین سے جو کام یکسانیت اور تیزی کے ساتھ ہوسکتا ہے وہ آدمی نہیں کرسکتا۔‘‘ غور وفکر کے زاویہ میں پیدا ہونے والی اس بنیادی تبدیلی کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ خطاطی کو جس کی ایک طویل اور روشن تاریخ رہی ہے اور جو اپنے دامن میں بے پناہ خزانے سمیٹے ہوئے ہے، اس کی افادیت و ضرورت کو برقرار رکھ کر برصغیر میں اسے زندہ رکھا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسے کسبِ معاش کے ساتھ فنی بلندیوں سے بھی ہم کنار کیا جائے تاکہ جو نگاہیں کمیت کے بجائے کیفیت کی متلاشی ہیں یا جو کسی شئی میں صفاتی حسن کے طلبگار ہیں وہ قدردانی پر مجبور ہوجائیں کیونکہ بقول شاعر ع
’’جو ہو ذوق نظر پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں‘‘
wwww.arifaziz.com
E-mail:[email protected]
Mob.09425673760

 

Comments are closed.