Baseerat Online News Portal

جو لوگ اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتے!

 

از: خورشید عالم داؤد قاسمی
Email: [email protected]

قرآن کریم میں زکوٰۃ کا حکم:
نماز، روزہ، حج وغیرہ کی طرح زکوۃ بھی اسلام کا ایک ستون ہے۔ جس طرح نماز کا ذکر قرآن کریم میں بار بار آیا ہے، اسی طرح زکوۃ کا ذکر بھی قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر آیا ہے،جہاں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو زکوۃ دینے کا حکم فرمایا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا﴾. (المزّمل: 20) ترجمہ: "اور نماز کی پابندی رکھو اور زکوۃ دیتے رہو، اور اللہ کو اچھی طرح قرض دو، اور جو بھی نیک عمل اپنے لیے آگے بھیج دو گے، اس کو اللہ کے پاس پہنچ کر، اس سے اچھااور اجر میں بڑھا ہوا پاؤگے”۔ اس طرح قرآن کریم میں درجنوں مقامات پر نماز اور زکوۃ جیسے فرائض کا ذکر ساتھ ساتھ موجود ہے۔ جس طرح زکوۃ دینے کے متعدد فوائد اور اجر وثواب ہیں، اسی طرح زکوۃ نہ ادا کرنے پر مختلف وعیدیں اور سزائیں قرآن وحدیث میں آئیں ہیں۔

زکوٰۃ دینے کے فوائد:
جس مال کا آدمی مالک ہے، وہ مال اللہ تعالی نے ہی اس شخص کو دیا ہے۔ پھر زکوۃ کا حکم بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہے؛ لہذا مال کی زکوۃ ادا کرنے میں خوش دلی سے کام لینا چاہیے۔ جتنی زکوۃ آدمی کے مال پر فرض ہو، اس کو فقراء ومساکین وغیرہ کا حق سمجھ کر خوشی خوشی ادا کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہو کہ مال کی اتنی محبت دل میں بیٹھ جائے کہ آدمی کو زکوۃ دینے میں بھی تکلیف ہو۔ زکوۃ ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ آدمی کے دل سے مال کی محبت نکل جائے۔ وہ اس بات کو سمجھ سکے جس اللہ نے اسے اس مال کا مالک بنایا ہے، اسی اللہ پاک کا حکم ہے کہ وہ مال کی زکوۃ مستحقین تک پہنچائے۔ پھر مزید یہ ہے کہ زکوۃ ادا کرنے پر، بہت سے دینی ودنیوی فائدے بھی ہیں۔

زکوۃ دینے کے چند فوائد یہ ہیں کہ جب بندہ زکوۃ دیتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس بندے سے خوش ہوتے ہیں۔ زکوۃ دینے سے مصیبتیں ٹلتی ہیں۔ بندہ جتنا زکوۃ میں خرچ کرتا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ اس کو اجر ملتا ہے۔ زکوۃ ادا کرنے سے مال میں بڑھوتری اور برکت ہوتی ہے۔ جس مال کی زکوۃ ادا کردی جائے، وہ مال سماوی آفات اور دوسری ہلاکتوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ جس شخص نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کی، اس کا مال قیامت کے دن اس کے لیے سایہ کا کام کرے گا۔ معاشرہ اور سماج میں جو فقیر ومسکین ہیں، زکوۃ سے ان کے معاشی واقتصادی مسائل آسانی سے حل ہوجاتے ہیں۔ زکوۃ دینے سے امیر وفقیر کے درمیان سے نفرت وعداوت اور دوری ختم ہوتی ہے، اور ان کے درمیان پیار،محبت،الفت اور ہمدردی پروان چڑھتی ہے۔

زکوۃ نہ ادا کرنے پر وعید اور سزا:
اگر کوئی "صاحب نصاب” شخص اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتا ہے؛ تو ایسے آدمی کے خلاف قرآن واحادیث میں متعددسزائیں اور وعیدیں آئی ہیں۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ. يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ﴾. (التوبۃ: 34-35) ترجمہ: اور جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، ان کو ایک دردناک عذاب کی "خوشخبری” سنادو۔ جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیاں اور ان کی کروٹیں اور ان کی پیٹھیں داغی جائيں گی، (اور کہا جائے گا کہ:) "یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا! اب چکھو اس خزانے کا مزہ جو تم جوڑ جوڑ کر رکھا کرتے تھے۔”

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یعنی زکوۃ نہ ادا کرنے والوں کو یہ عذاب الیم (دردناک عذاب) اس دن ہوگا جب کہ ان کے جمع کیے ہوئے سونے چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پشتوں پر داغ دیے جائیں گے، اور ان سے زبانی سزا کے طور پر کہا جائے گا کہ یہ وہ چیز ہے جس کو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ سو اپنے جمع کیے ہوئے سرمایہ کو چکھو! اس سے معلوم ہوا کہ جزاء عمل عین عمل ہے۔ جو سرمایہ ناجائز طور پر جمع کیا تھا، یا اصل سرمایہ تو جائز تھا ،مگر اس کی زکوۃ ادا نہیں کی؛ تو خود وہ سرمایہ ہی ان لوگوں کا عذاب بن گیا۔‘‘ (معارف القرآن 4/ 368)

جو لوگ اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتے، ان لوگوں کے متعلق ایک لمبی روایت صحیح مسلم میں ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جو شخص اپنے خزانہ کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو، اس کے خزانہ کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس کی چوڑی تختیاں بنائی جائیں گی۔ پھر اس کے دونوں پہلوؤں اور پیشانی کو اس سے داغا جائے گا۔ عذاب کا یہ سلسلہ جنت یا جہنم کا فیصلہ ہونے تک جاری رہے گا۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں: «مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا أُحْمِيَ عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُجْعَلُ صَفَائِحَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبَاهُ، وَجَبِينُهُ حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ بَيْنَ عِبَادِهِ، فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ، إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ». (صحیح مسلم: 987) ترجمہ: جو خزانے والا بھی ایسا ہو جو اس کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو، اس کے خزانے کو اس کے لیے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس کی چوڑی تختیاں بنائی جائیں گی، پھر اس کے دونوں پہلوؤں اور اس کی پیشانی کو اس سے داغا جائے گا (عذاب کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا)؛ تا آں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے درمیان قیامت کے اس دن میں فیصلہ نہ کردیں، جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی۔پھر اسے اس کا راستہ دکھلا دیا جائے گا، یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔

ایک حدیث شریف میں ہے کہ وہ شخص جو اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتا، ویسے لوگوں کے خلاف قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں، اس کے سامنے لایاجائے گا اوراس کو طوق بنا کر، اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ پھر وہ سانپ صاحب مال کو ڈنک مارے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں: «مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ – يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ – ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلاَ: (لَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ)» الآيَةَ (صحیح بخاری: 1403) ترجمہ: "اللہ نے جس شخص کو مال عطا کیا اور اس نے اس کی زکوۃ ادا نہیں کی؛ تو اس کا مال، قیامت کے دن گنجے سانپ کی شکل میں اس کے سامنے لایاجائے گا ، جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے ، اس کو قیامت کے دن (اس کا) طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔ پھر وہ اس کے دونوں جبڑے کو پکڑے گا ، پھر کہے گا: میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "اور نہ خیال کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں” الآیہ(آل عمران: آیت: ۰۸۱)۔”

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی جماعت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم زکوۃ دیا کرو؛کیوں کہ قیامت کے دن تم میں سے زیادہ تر خواتین جہنم میں جانے والیوں میں سے ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ القِيَامَةِ.” (ترمذی: 635) ترجمہ: "اے عورتوں کی جماعت! تم زکوۃ ادا کیا کرو، اگر چہ تمھارے زیور وں میں سے ہی کیوں نہ ہو؛ کیوں کہ قیامت کے دن تم میں سے زیادہ تر جہنم میں جانے والوں میں ہوں گی۔”

خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد، کچھ لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا۔ اس موقع سے آپ نے اصولی طور پر، قسم کے ساتھ اپنی بات کو موکد کرتے ہوئے، فرمایا کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ایک "رسّی” بھی زکوۃ میں دیتا تھا؛ تو اسے آج بھی وہ رسی دینا ہوگا؛ کیوں کہ زکوۃ مال کا حق ہے۔ اگر کوئی ایک "رسّی” بھی دینے سے منع کرتا ہے؛ تو اس کے منع کرنے پر اس شخص سے جہاد کیا جائے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے الفاظ یہ ہیں: «وَاللهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ المَالِ، وَاللهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ». (صحیح البخاری: 7284) ترجمہ: خدا کی قسم میں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکوۃ (کی فرضیت) کے درمیان فرق کرے گا؛ کیوں کہ زکوۃ مال کا حق ہے۔ خدا کی قسم اگر وہ مجھے ایک "رسّی” بھی دینے سے منع کریں گے، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرتے تھے؛ تو میں ان سے اس کے منع کرنے پر جہاد کروں گا۔

جو مال ودولت انسان کے پاس ہے، وہ اللہ تعالی کا طرف سے عطا کردہ ایک بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت کو اسلامی ہدایات ورہنمائی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔ شریعت نے جہاں فضول خرچی سے منع کیا ہے، وہیں بخل سے بھی بچنے کی ہدایت دی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ آدمی کے مال میں جس طرح صاحبِ مال کا حق ہے، اسی طرح ایک حد تک فقراء ومساکین کا بھی حق ہے۔ آدمی کو جب ضرورت ہو؛ تو اپنے مال میں سے معتدل طریقے سے خرچ کرے۔ مال میں جو فقراء ومساکین کا حق ہے، اسے بھی بغیر کسی دریغ اور کمی اور کوتاہی کے بر وقت ادا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ زکوۃ وصدقہ سے مال گھٹتا نہیں ہے؛ بل کہ بڑھتا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ، وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلِمَةً فَصَبَرَ عَلَيْهَا إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ عِزًّا، وَلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا». (سنن الترمذي: 2325) ترجمہ: صدقہ کی وجہہ سے کسی آدمی کا مال نہیں گھٹتا ہے، جب کسی آدمی پر ظلم کیا جائے، وہ اس پر صبرکرے؛ تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں اور جب بھی کوئی شخص (اپنے لیے) سوال کا دروازہ کھولتا ہے؛ تو اللہ پاک اس پر فقر وتنگ دستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کو سمجھنے، عمل کرنے اور نشر واشاعت کی توفیق عطا فرمائے! آمین!***

Comments are closed.