Baseerat Online News Portal

رمضان کی رونقیں دوبالا کرنے میں عورتوں کا اہم حصہ

از: مفتی محمد عبدالرحیم نشتر فاروقی
ایڈیٹر ماہنامہ سنی دنیا و مفتی مرکزی دارالافتاء بریلی شریف
رمضان المبارک رحمت و برکت، فضل و کرم اور بخشش و مغفرت کا مہینہ ہے، جیسے ہی رمضان کا چاند نظر آتاہے اہل ایمان کے قلب و جگر میں ایک روحانی کیف و سرور چھاجاتا ہے، ذہن و فکر میں پاکیزگی کی لہر دوڑ جاتی ہے، عبادت و ریاضت کا شوق انگڑائیاں لینے لگتا ہے، پیشانیوں میں سجدوں کی تڑپ بڑھ جاتی ہے، ہر روز روز عید اور ہر شب شب برأت کے دل کش مناظر پیش کرتے ہیں، طبیعت جھوم جھوم جاتی ہے، قلب مچل مچل جاتے ہیں۔
دن روزے کی خیر و برکت سے معمور ہوتا ہے تو رات تراویح کی بہاریں لیے ہوتی ہے، صبح و مسا روزہ داروں کی خاطر و مدارت کے سو سو جتن ہوتے ہیں، کہیں فرحت بخش مشروبات تیار ہوتے ہیں، کہیں لذیذ مطعومات کی مسحور کن خوشبو پھوٹتی ہے، کہیں انواع و اقسام کے میوہ جات زینت دسترخوان نظر آتے ہیں تو کہیں طبیعت کو سرشار کر دینے والی مٹھائیاں اپنی بھینی بھینی خوشبو بکھیرتی ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے کسی ہر دل عزیز مہمان کی آمد آمد ہے، جبھی تو گھر کا ہر فرد اپنے عزیز کی خاطر داریوں کی تیاری میں مگن ہے، بچے الگ چہک رہے ہیں، بوڑھے الگ مگن ہیں، جوانوں کے الگ انداز ہیں، عورتوں کے جدا رنگ ہیں۔
ان سبھی گہما گہمیوں اور تیاریوں کی بھیڑ میں صرف عورتوں کی ذات ایسی ہے جو سبھی تیاریوں کو تکمیل کے منازل سے ہمکنار کرتی ہے۔
ذرا غور کریں کہ عورتیں مردوں کی طرح خود بھی رکھ کر قریب دو پہر سے افطار کی تیاریاں شروع کرتی ہیں اور رات گیارہ بجے تک مسلسل مصروف رہتی ہیں، پھر ڈھائی تین بجے رات سے سحری کی تیاریوں اور اس کے انتظامات میں مصروف ہو جاتی ہیں، اس دوران وہ خود مشکل سے افطار و سحری کر پاتی ہیں، پھر سحری اور فجر کے بعد روز مرہ کے معمولات جیسے بچوں کو تیار کرنا، ان کے لیے ناشتہ اور لنچ تیار کرکے اسکول بھیجنا اور گھر کی صفائی ستھرائی کرتے کرتے دن کے نو دس بج جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انھیں نیند اور آرام و راحت کے لئے بمشکل تمام صرف تین سے چار گھنٹے ہی مل پاتے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود ان کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں آتی، وہ مسلسل ہر کام خنداں پیشانی سے انجام دیتی ہیں، اس دوران من پسند اور مرغوب غذاؤں اور ڈشیز کی فرمائشیں بھی کچھ کم نہیں ہوتیں۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جب روزہ دار شام کو رب کی بے شمار نعمتوں سے سجے دسترخوان پر بیٹھتا ہے تو روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی انواع و اقسام کی اشیائے خورد و نوش کی بھینی بھینی خوشبو اسے یہ احساس کرا دیتی ہے کہ اللہ نے روزہ دار کے لیے آخرت میں عظیم الشان انعام و اکرام تو رکھا ہی ہے، دنیا میں بھی کچھ کم نعمتیں نہیں عطا فرماتا، چند گھنٹے بھوک و پیاس برداشت کرنے کے عوض ایسی نادر و نایاب نعمتوں کا حصول یقیناً کوئی گھاٹے کا سودا نہیں، اس وقت روزہ داروں کے چہرے سے جو مسرت و اطمینان مترشح ہوتا ہے وہ انمول ہے جو کسی حد تک عورتوں کا مرہون منت ہوتاہے۔
دوسری طرف اگر کسی گھر میں عورتیں تھوڑی سی بھی سستی کر دیں تو وہاں سحری اور افطار کی رونق ماند پڑ جاتی ہے، قابل غور بات یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک میں عموماً مرد حضرات اپنی مصروفیات کم کر دیتے ہیں جبکہ عورتوں کی مصروفیات دوگنی ہو جاتی ہیں، اگر عورتیں بھی روزے کی سختی کا حوالہ دے کر اضافی مصروفیات سے جی چرانے لگیں تو یقین جانیئے ہمارے دسترخوان سے انواع و اقسام کے مشروبات و مطعومات کی رونقیں غائب ہوتے دیر نہیں لگے گی، عورتیں روزے کی کلفت و مشقت برداشت کر کے روز مرہ کے معمولات کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ہر روز نئی نئی اشیائے خورد و نوش سے ہمارے دسترخوانوں کو سجاتی ہیں یہ صرف انھیں کے دل گردے کی بات ہے، اللہ رب العزت انھیں اس کا بہتر اجر عطا فرمائے۔
مرد حضرات تو صرف روزہ رکھنے کے سبب ہی اپنے روز مرہ کے مشاغل میں کمی کر لیتے ہیں جبکہ عورتوں کے روز مرہ کے معمولات میں کٹوتی کے بجائے اچھا خاصا اضافہ ہو جاتا ہے، اس لئے ہم مردوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹائیں، تاکہ انھیں تھوڑی بہت راحت کی سانس مل سکے، اس سے ان کی معاونت تو ہوگی ہی، ساتھ ہی میاں بیوی کے درمیان الفت و محبت بڑھے گی اور ان کے باہمی رشتے مضبوط ہوں گے سو الگ!
آقائے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تو عام دنوں میں بھی اپنی ازواج مطہرات کے گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے، جب مالک کون و مکاں نے اپنی ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹایا ہے تو ہم تو ان کے غلام ہیں، ہمیں بھی اپنے گھر کی خواتین کا ہاتھ بٹانا چاہئے، حضور کا یہ عمل یقیناً ہمارے لیے درس عمل ہے۔

Comments are closed.