Baseerat Online News Portal

عارف اور سارس پر شکنجہ

اظفر منصور 8738916854
امیٹھی کے ایک نوجوان عارف اور ایک زخمی پرندہ سارس کئی دنوں سے خوب سرخیوں میں ہیں، اور عارف کی خوب جم کر تعریف بھی ہو رہی ہے، اور اسکے جذبہ کو سلام کیا جا رہا ہے کہ اس نے کیسے ایک ایسے بسمل پرندہ کی جان بچائی ہے جو نطق و گویائی سے محروم ہے، جسے اپنا درد بیان کرنے کے لیے الفاظ کی نہیںدل دردمند رکھنے والے انسان کی ضرورت ہے، اور سارس کو اس کا مقصود خضر راہ ملا محمد عارف کی شکل میں۔
واقعہ مختصراً کچھ یوں ہے کہ ایک جگہ عارف نامی نوجوان کو سارس زخمی حالت میں ملا، تو عارف کا جذبہ ِحب جوش میں آیا تو اس نے اسے اپنے گھر لا کر علاج و معالجہ کی کاروائی کی، زخم مندمل ہونے کے بعد سارس کو پھر اسی جگہ چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ اپنے دوستوں میں چلا جائے مگر ایسا نہیں ہوا، اور سارس نے عارف کے گھر کو ہی اپنا مسکن مان لیا، دونوں میں دوستی بڑھتی گئی پھر جب کسی ذریعے سے ویڈیو منظر عام پر آئی تو لوگوں نے کھلی آنکھوں دو متضاد مخلوق میں اس قدر دوستی کا عنصر دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے۔ بس یہیں سے عارف کی کہانی بھی شروع ہو جاتی ہے، اور مقبولیت و تعریف کی لمبی قطار لگ جاتی ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک شخصیت ملاقات کے لیے پہنچنے لگتی ہے، حتیٰ کہ اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو بھی پہنچے، یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ عارف کو دیگر لوگوں کی طرح ایک فون آتا ہے اور گھر کا پتہ پوچھ کر آنے کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے، تھوڑی ہی دیر میں محمد عارف کیا دیکھتے ہیں کہ ”ون وبھاگ“ کی ٹیم اپنی گاڑی کے ساتھ حاضر ہے، عارف کو نوٹس دیا جاتا ہے کہ ”آپ نے ایک صوبہ کے قومی پرندہ کو قید کر کے رکھا ہوا ہے اسی لیے اسے ہم لیجانا چاہتے ہیں“ گاؤں کے عارف جسے ان سرکاری معاملات سے کبھی سابقہ ہی نہیں پڑا تھا، بغیر رخنہ و مزاحمت کے سارس دے دینے پر راضی ہوگئے، ادھر یہ ویڈیو بھی منٹوں میں مختلف عناوین کے ساتھ وائرل ہوگئی، اکھلیش یادو تک بھی پہنچی، وہ ٹویٹ کے ساتھ ساتھ پریس کانفرنس بھی کرتے ہیں۔ اسطرح یہ پورا واقعہ کئی مرحلوں سے گذر کر ایک نیشنل و انٹرنیشنل خبر بن جاتی ہے۔ واضح رہے کہ سارس ایک ایسا پرندہ ہے جس کی خصوصیات باقی پرندوں سے قدرے علیحدا ہے، اسی وجہ سے اسے اترپردیش میں قومی پرندہ ہونے کا اعجاز بھی حاصل ہے، جس بنیاد پر کوئی بھی اسے قید کر کے اپنے گھر یا کسی بھی جگہ نہیں رکھ سکتا، عارف پر حکومت کی نظر بھی اسی لیے پڑی، مگر جیسا کہ مشہور ہے کہ حکومت اور اس کے کارندے پہلے مجرم کو قید کرتے ہیں، پریشان کرتے ہیں، پھر جرم کی تحقیق کرتے ہیں، یہی مسئلہ ہے عارف اور سارس کا، ون وبھاگ کو خبر ملی کہ امیٹھی میں سارس ایک نوجوان کے پاس ہے اور بس نوٹس دے دیا کہ آپ نے اسے جبراً رکھا ہوا ہے حالانکہ حقیقت خود عارف کی زبانی بالکل الگ ہے، بقول عارف ”سارس کو اس نے نہ کبھی باندھا نہ کبھی قید کیا، بلکہ ہم نے تو بار ہا کوشش کی کہ وہ پریوار، دوست و احباب میں واپس چلا جائے مگر ایسا نہیں ہوا، ہمیشہ اس نے ہمارے ساتھ ہی رہنے کو ترجیح دی، جب کبھی اسے جانا ہوتا تو نکل جاتا اور شام ہوتے ہی میرے پاس لوٹ آتا“۔ اس کھلی حقیقت کے بعد بھی سرکار کا اپنی بات پر اٹل رہنا ظالمانہ شکنجہ اور کاروائی ہی کہی جا سکتی ہے، عارف نے چند سیکنڈ کی ایک ویڈیو میں وضاحت کی ہے کہ حکومت نے سارس کو قید کر کے رکھنے کے جرم میں اس پر کاروائی کی بات کی ہے، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک پرندہ کو اس کے دوست سے الگ کرنے کی خاطر کیا کیا سطحی کاروائیاں کی جا رہی ہیں، ایک ننھی سی جان تھی اور ایک ننھا سا انسان، نہ ہی اسے تکان تھی اور نہ ہی اسے کوئی خلجان، ہنسی خوشی دونوں کی زندگی بسر ہو رہی تھی کہ حکومت نے اپنا ظالمانہ شکنجہ گاڑ دیا، اور جنوں کے عالم میں مضحکہ خیز و بچکانہ حرکت پر اتر آئی، مانا کہ قومی پرندہ کو آزاد رہنا چاہیے، قید کرنا قانوناً جرم ہے مگر کیا اس نے نہیں دیکھا کہ سارس باوجود کوشش کے اسے کی پکڑ سے نکل گئے، پھر دوبارہ زخمی ہوگیا، اس کی حالت پھر خراب ہو رہی ہے، ایسے میں اگر واقعی سرکار خیر خواہ ہوتی تو پہلی ہی کوشش ہارنے کے بعد عارف کو اسکا دوست واپس کر دیتی، مگر یہاں تو معاملہ بالکل برعکس اور انسانیت سوز ہے، کبھی کبھی قانون سے اوپر انسانیت اور مانوتا نامی چیز بھی ہوتی ہے، مگر عارف اور سارس پر چل رہے آپریشن نے سب کو شرمسار کر دیا۔

Comments are closed.