Baseerat Online News Portal

قوم کے دور اندیش رہنما ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد سے علیزےنجف کا ملکی مسائل پہ خصوصی انٹرویو

 

انٹرویو نگار: علیزےنجف

سیاسی وفاداری کوئی عقیدہ نہیں جسے بدلا نہ جا سکے، سیاسی نظام میں سارا کھیل مفادات کا ہے، جس نے اس کلیہ کی روح کو سمجھا وہ بامراد ہوا۔ یہ جملے ڈاکٹر افتخار احمد کے ہیں جو بلیغ فکر کے حامل تاریخ داں، علم الکلام کے ماہر، مصنف، مبصر، صحافی، خطیب، سیاسی گلیاروں کے چانکیہ، انفرادی و اجتماعی نفسیات کے پیچ و خم سے آشنا اور قوم کا شعوری سرمایہ ہیں۔ کتاب اسلام کا نظام حکومت کے مطابق ” حکومت ہر ہر حیثیت سے آسمان و زمین کے باجبروت فرماں روا کا حق ہے” مگر جب جبروت ملکوت کا پرتو بن جائے تو صلح کل کی زمےداریاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ اتفاق نہیں کہ ملک کے دو سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ ، اٹل بہاری واجپئی کے مشیر رہے اور موجودہ وقت میں ارباب حل و عقد ان کے مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہ ان کی غیر معمولی ذہانت و فطانت اور دوراندیش رہنما ہونے کی دلیل ہے، بیوروکریسی اور متعدد سفارتکاروں کے الجھے مسائل آپ کے ڈرائنگ روم تک پہنچ کے ختم ہو جاتے ہیں۔
دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جو دین اور قوم کے لئے ہمیشہ مثبت سوچتے ہوں، اور سیماب صفت نظریات سے متاثر ہونے کے بجائے اپنی بصیرت اور تجزیات کے حاصل پہ قائم رہتے ہوں، اور اپنی فکر کو برپا کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہوں۔ خواجہ صاحب بین المذاہب مفاہمت اور ہم آہنگی کو فروغ دینے والوں میں سرفہرست ہیں یہ ایک نظریہ ساز اور وقت شناس شخصیت ہیں ان کی اب تک 14 تصانیف منصہء شہود پہ آ چکی ہیں ، جن میں تازہ تصنیف ’ذہنی وفکری ہم آہنگی : آرزو وجستجو‘ ہے جس میں انھوں نے ایک صدی سے زیادہ عرصے پہ مشتمل ہندوستانی سیاست کا نہایت باریکی بینی اور بصیرت کے ساتھ تجزیہ کیا ہے حقیقت کے سارے پہلوؤں پہ روشنی ڈالی ہے، اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک منفرد اور ممتاز کتاب ہے جو حکومت وقت اور عوام دونوں کو سوچنے پہ مجبور کرتی ہے اور اپنے اندر کئی ملکی مسائل کا حل رکھتی ہے۔
مرنجان مرنج طبیعت، طلسماتی شخصیت، انکسار کا پیکر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد آج ہمارے مہمان خاص ہیں ملک کے موجودہ حالات میں ہم کچھ معروضات لے کر حاضر ہوئے ہیں، جن کے جواب انھوں نے منطق اور فلسفے کی بنیاد پہ دئیے، ہمارا ان سے پہلا سوال یہ تھا۔

علیزے نجف: ہندوستانی معاشرت میں بلا تفریق مذہب و ملت نوجوان طبقہ جس طرح عدم تحمل عدم رواداری اور انتہا پسندی کا مظاہرہ کر رہا ہے اس کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں، ایک مستحکم معاشرے کی تشکیل کے لئے آپ انھیں کن اصولوں کی پابندی کرنے کی تاکید کریں گے؟

خواجہ افتخار احمد: مکالمہ مفاہمت کو زمین اور بنیاد دونوں فراہم کرتا ہے جب اس عمل سے استفادہ ترک یا کم کر دیا جاتا ہے تو غلط فہمیوں سے زیادہ بدگمانیاں پیدا ہونے لگتی ہیں مستحکم معاشرہ فکری اعتدال اور عدل پسندی سے وجود میں آتا ہے اس کے لئے کسی دوسرے فریق کا انتظار یا اس کی فکری پہل کا انتظار نہیں کیا جاتا البتہ فکری پختگی کا تقاضہ قدم بڑھانے میں ہوتا ہے اس کو پیچھے کھینچنے میں نہیں۔

علیزے نجف: گنگا جمنی تہذیب ہندوستان کی عالمی سطح پر نمایاں شناخت ہے جس پہ شدت پسند عناصر کی جانب سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے ایک طرف ہندوؤں کو اپنا مذہب خطرے میں دکھ رہا ہے دوسری طرف مسلمانوں کو اپنے تحفظات اور بنیادی حقوق کا غم لاحق ہے اس پورے منظرنامے کو آپ کس طرح سے دیکھ رہے ہیں ؟

خواجہ افتخار احمد: میرا یہ پختہ عقیدہ و موقف ہے کہ مذہب کو کبھی خطرہ نہیں ہوتا دراصل اس کے بےجا استعمال و استحصال کرنے والوں کے لئے زمین دونوں جانب سے کی گئی نادانیوں کے حوالے یا براہ راست گستاخیوں کے نتیجے میں زرخیزی یا بنجر ہونے کے حوالے سےاپنے رنگ بدلتی رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں آج بھی ہمارا معاشرہ ایک مہذب اور پرامن اور صلح پسند معاشرہ ہے، لازم یہ ہے کہ رائے زنی کے عمل میں تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا جائے ایک مکمل وحدت پر چند سرپھرے لوگوں کے مؤقف یا مذموم حرکات کو چسپاں کرنے سے گریز کرنا چاہئے، بہتر یہ ہے کہ اشتراک عمل کو اپنا شعار بناتے ہوئے فریقین آپس میں مذاکرے کے ذریعے ہر مسئلے کا پر امن حل تلاش کرنے کو ترجیح دیں، بےجا جذباتیت فکری خودکشی کے مترادف ہے جس سے ہر حال میں بچنا چاہئے باہمی ربط نہ ٹوٹے اس کا ہمیشہ خیال رکھا جائے۔

علیزے نجف: اس وقت ملک کی سیاسی صورت حال غیر یقینی ہے ۔ رواداری مفقود ہے اخلاقی قدریں زوال آمادہ ہیں ۔ دستور سے زیادہ اقتدار کو غلبہ حاصل ہے یہ صورت حال کسی بھی جمہوری ملک کے لئے تشویشِ کا باعث ہے پچھلی نصف صدی سے ہندوستان کی سیاست پہ آپ کی گہری نظر ہے آپ کے خیال میں سیاسی عدم استحکام اور سورش ملک کو کس سمت میں لے جا رہا ہے اس کی ذمےداری کس پر عائد ہوتی ہے؟

خواجہ افتخار احمد: سیاست میں کوئی شورش برپا نہیں آج اس نظریہ جماعت و قیادت کے پاس وطن عزیز کا اقتدار ہے جن سے مسلمانان ہند نے دانستہ دوری بنا رکھی ہے اس حوالے سے باہمی نفرت و منافرت کو زمین دی ہے روابط بنانے یا ہموار بنانے کا موقع بہت کم دیا ہے، مخالفت کو مخاصمت کے رنگ میں رنگا ہے جب اس رنگ اور زاویے سے آپ چیزوں کو دیکھیں گے تب یہ انتہا پسندانہ موقف وجود میں آ جائے گا۔ اقتدار کا حصول ہی تو سیاست میں بالعموم اور جمہوری سیاست میں بالخصوص ہمیشہ مقدم رہتا ہے کیوں کہ اس کے توسط سے تو تبدیلی و ترقی کا عمل جڑا ہوتا ہے، فی الوقت سیاسی عدم استحکام کہاں ہے یہ عوام کی نمائندہ ووٹ کی طاقت کے استعمال کے ذریعے بی جے پی نریندر مودی کی قیادت میں برسراقتدار ہے، عدم استحکام اور سیاسی خلفشار تو اپوزیشن میں ہے، نو سال سے ملک میں کوئی سیاسی عدم استحکام نہیں آپ کا یہ سوال زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ قلم منطقی فکر کے تابع نہیں ۔

علیزے نجف: اس وقت ہندو اور مسلم کمیونٹی کے درمیان ایسی خلیج پیدا ہو چکی ہے کہ جو دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے انتظامیہ میں شدت پسند نظریات کو درست ماننے والوں کااثر ہے آر ایس ایس کے سرکردہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہم مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں وہ یہاں رہ سکتے ہیں ۔ وہیں ارباب اقتدار کے یہاں نفرت انگیزی عروج پر ہے وہ مسلمانوں کے تشخص اور قومیت کو متنازعہ بناتے نظر آتے ہیں ایسے میں سوال یہ ہے کہ یہ تضاد کیوں؟ جب وہ اپنی ہی کمیونٹی کے لوگوں کو اپنے نظریات سے قائل نہیں کر پارہے تو 140 کروڑ عوام کو بھلا کیسے مطمئن کر پائیں گے؟ اور پھر عالمی رائے عامہ کا کیا ہوگا ۔

خواجہ افتخار احمد: آپ کا یہ سوال کئی نکات پہ مبنی ہے ۔۔۔ اختلاف رائے یا کسی حوالے سے مختلف یا متصادم رائے کا ہونا ایک فطری تقاضہ ہے خلیج بہت سخت اصطلاح ہے جس سے گریز کرنا چاہئے انتظامیہ پہ آخری اور قطعی طور پہ متعصب ہونے کا الزام لگانا درست نہیں ! میں ایسے واقعات سے انکار نہیں کر رہا ہوں مگر سابقہ پانچ دہائیوں میں ایسا کوئی دور نہیں دیکھا جس میں یہ سب نہ دیکھنے کو ملا ہو فسادات پہ کتنے کمیشن بنے اورکتنی سفارشات پہ عمل ہوا یا کرایا گیا متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں یہ یک طرفہ رائے زنی درست نہیں۔

آر ایس ایس اپنے سیاسی، ثقافتی، سماجی اور اخلاقی حوالوں سے بہت واضح موقف رکھتی ہے اس سے اختلاف یا اتفاق آپ کا بنیادی حق ہے تاہم وہ مسلم مخالف ہیں ایسا نہیں ہے، قومیت ، حب الوطنی ، تاریخ و تہذیب کے حوالے سے اس کے اپنے زاویے ہیں، آج اکثریت اس کی ہمنوا ہے اہل حکومت و اہل اقتدار پہ یہ سیدھا الزام کہ وہ نفرت پھیلا رہی ہے درست نہیں ! وزیر اعظم جو طاقت و اقتدار دونوں کا مرکز و سرچشمہ ہیں انھوں نے تو آج تک اسلام یا مسلمانوں کے خلاف کوئی زہر افشانی کی ہو ایسا تو کہیں نہیں البتہ اس کے برعکس صوفی کانفرنس اور علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کے صد سالہ تقریبات کے موقع پر ان کی تقاریر تاریخی ہی نہیں بلکہ سرسید اور یونیورسٹی کے قومی کردار کی ادائیگی کے حوالے سے عدل و انصاف پہ مبنی ہے۔

جہاں تک ہندو اکثریت کو مطمئن کرنے کا تعلق ہے یا دیگر قومی وحدتوں کو مطمئن کرنے کا معاملہ ہے تو شاید آپ یہ بھول رہی ہیں کہ آج اگر بھرپور اکثریت سے بی جے پی اقتدار میں ہے تو وہ عوام کی حمایت کی وجہ سے ہی ہے لگ بھگ 9 فیصد مسلم بھی بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں نریندر مودی مسلم ممالک میں پزیرائی کے حوالے سے تمام سابقہ وزرائے اعظم کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں عالمی ذرائع و ابلاغ میں ایک مخصوص طبقہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت اچھل کود کرتا رہتا ہے۔

علیزے نجف: ہندوستان میں مسلمان کی حیثیت دوسری بڑی اکثریت کی ہے مگر ان کا سیاسی و اقتصادی ضروریات انتہائی مخدوش حالت میں ہے جامع قیادت، آپسی اتحاد کے نہ ہونے کے سبب یہ پستی بڑھتی جا رہی ہے مسلم کمیونٹی کی باشعور حقیقت پسندانہ قیادت اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے آپ اس کے لئے کیا کر رہے ہیں اس حوالے سے عوام کو اپنی عام معاشرتی زندگی میں کیا انقلاب برپا کرنا چاہئے ؟

خواجہ افتخار احمد: مسلمانان ہند کو بالعموم اور مسلم قیادت کو بالخصوص اپنی فکری سمت درست کرنے کی اشد ضرورت ہے دیوار پہ لکھا ہوا پڑھیں آج کی ترجیحات میں اپنی زمین تلاش کریں روایتی حمایت و مخالفت کے زاویوں کو ترک کریں مخالفت کو اختلاف رائے کے زمرے میں رکھیں مخاصمت میں تبدیل نہ کریں، محض توقعات کو اپنا شعار نہ بنائیں آپ من حیث القوم اکثریتی طبقہ کے ساتھ کس رواداری کے متحمل ہو سکتے ہیں اس پہ سنجیدگی سے غور کریں ذاتیات پہ اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنے والے جب قوم و ملت کے حوالے سے تقریریں کرتے، مؤقف اختیار کرتے اور مشورے دیتے دکھائی دیتے ہیں تو میں ذاتی تجربے کی بنیاد پہ ایسا کہہ رہا ہوں افسوس ہوتا ہے۔ مسلمانان ہند کی اقتصادیات کا تعلق بنیادی طور پر unorganised sector سے زیادہ ہے اور وہاں وہ بہت اچھا کر رہے ہیں آج مسلمانوں کی خریداری کا معیار ، ان کے مقامی بازار، رہائشی علاقے، نئے مدارس، تعلیمی ادارے اور بڑھتی علمی بیداری تو کسی خاموش انقلاب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں آنکھیں کھول کر حقائق کو دیکھئے اب روایتی اور دقیانوسی اصطلاحات اور زاویوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔

علیزے نجف: ایسا مانا جاتا ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت سے مسلمانوں کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ رابطے کی عدم دستیابی کی وجہ سے بدگمانیاں بڑھ رہی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان ڈائلاگ کے ذریعے اس خلا کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اپنے ہی لوگ اسے معتوب قرار دیتے ہیں ۔ بات چیت کا مطلب موقف سے ہٹنا نہیں ہوتا۔ بڑھتی خلیج کو پُر کرنے کے لئے آپ مسلم قائدین اور عوام کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے ؟

خواجہ افتخار احمد: یہ مفروضہ قطعا غلط اور بےبنیاد ہے تمام مسلم اکابرین اور قیادت براہ راست اور بالواسطہ حکومت وقت اس کی قیادت، ذمہ داران آر ایس ایس کے رابطے میں ہے جیسا آپ نے سمجھا شاید ایسا نہیں ہے ۔ لوگ اس طبقے اور حلقے سےسات دہائیوں سے دانستہ دوریاں بنائے ہوئے ہیں اس لئے ایسے مفروضوں کو بنیاد مل جاتی ہے جو لوگ فکری طور پہ مستحکم ہوتے ہیں وہ اپنی عقل اور ذاتی ادراک سے فیصلے کرتے ہیں کوئی ان کو معتوب کرے گا یا انھیں اپنے موقف کی وجہ مقبولیت حاصل ہوگی اس سے ان کی پہل متاثر نہیں ہوتی مثبت اور تعمیری فکر ہر مسئلے کا حل فراہم کرتی ہے ۔

علیزے نجف : بات قیادت کی ہو رہی ہے تو میرا اگلا سوال بھی اسی ضمن میں بے ۔ کیا سبب ہے کہ مسلمانوں کے یہاں آر ایس ایس کے طرز کی کی نہ کوئی تنظیم ہے اور نہ قیادت جیسا کہ آپ نے کہا کہ یہاں سبھی امام بنے بیٹھے ہیں مقتدی کوئی نہیں اس کی وجہ کیا ہے کس طرح سے وقت کے ان اماموں کے ان کے اصل فرائض سے جوڑا جا سکتا ہے اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

خواجہ افتخار احمد: جب معاشرے کی تمام وحدتیں اپنے اپنے میدان عمل میں پوری تندہی سے سرگرم عمل ہوتی ہیں تو نتائج برآمد ہوتے ہیں، ہمارے یہاں قومی تنظیموں، اداروں، تحریکوں ، اور شخصیات کی بھرمار ہے ہم میں سے ہر ایک اپنا کردار چھوڑ کر قائد ملت بننا چاہتا ہے، اہلیت، فہم و فراست، عقل و ادراک، تجربہ، مشاہدہ ؟بصیرت، تاریخ پہ گہری نظر حالات حاضرہ سے آگاہی، عالمی پس منظر، ابھرتے سوالات ، چیلینجز، اور مواقع کی متناسب سمجھ اتنا کچھ ہو تو قیادت کا دم بھرنے کا سوچیں، محض سوٹ پہن کر، ٹوپی، عمامہ، جبہ، شیروانی، پہننے سے آپ قائد نہیں بن جاتے، آج ان نکات کا جن کی طرف میں نے اشارہ کیا اس کا قحط ہے بات کڑوی ضرور ہے لیکن سچ اور حقیقت یہی ہے۔

علیزے نجف: ہندوستانی سیاست میں ایک جملہ سُننے میں بہت آ رہا ہے کہ ہندوستان عالمی قیادت کا دعویدار ہے ہم وشو گرو بنیں گے ، میرا سوال یہ ہے کہ اس وشو گرو کی تعریف کیا ہے کیا یہ مفروضہ آئیڈیل ازم کی کوئی شکل ہے یا زمینی سطح پہ اس کی اپنی کوئی حقیقت بھی ہے موجودہ وقت میں ہندوستان اگر اپنے اندر موجود داخلی انتشار کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا اپنے پڑوسی ملکوں سے اپنے تعلقات ٹھیک نہیں کرتا تو عالمی سطح پہ عالمی قیادت کا دعویٰ کرنا کہاں تک درست ہوگا ؟

خواجہ افتخار احمد: وطن عزیز ہندوستان اپنی آبادی، وسائل، علمی و تحقیقی صلاحیت، مذہب و روحانیت کے میدان میں اس کے کمالات، کامیاب جمہوریت و جمہوری عمل ، مضبوط و مربوط قومی قیادت، مستحکم ادارے، علمی و عقلی شعور، ہمہ جہتی ادراک اور کھلا ذہن یہ وہ بنیادی خصوصیات ہیں جس کی وجہ سے ہندوستان اور ہندوستانی ذہن تمام دنیا میں اپنا لوہا منوا رہا ہے، اتنے بڑے ملک کی سوچ میں تمام عالم کی قیادت کرنے کا جنون پیدا ہونا میری نظر میں ایک جائز اور واجب فکری و فطری عمل ہے، جہاں تک اندرونی و بیرونی مسائل، چیلنجز، اور خطرات کا سامنا کرنے یا نمٹنے کا سوال ہے تو یہ سب ہمارے بڑے اور مزید بڑے ہونے کی طرف واضح اشارے ہیں، ہندوستان وشو گرو بننے کا ہر اعتبار سے مستحق ہے۔ لیکن اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ابھی سخت محنت کی ضرورت ہے۔

علیزے نجف: کسی بھی قوم کی بقا و ارتقاء کا انحصار اس کے قائدین پہ ہوتا ہے کسی بھی قوم کی اشرافیہ پر قوم کی فلاح کا انحصار ہوتا ہے مشکل اس وقت سوا ہو جاتی ہے جب قیادت دانشمندی سے عاری ہو ہندوستانی مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات کو آپ نے انتہائی قریب سے دیکھا ہے آپ مسلمان دانشوروں کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں کیا قوم کو اس بند گلی میں پہنچانے کے لئے وہ ذمے دار نہیں ۔

خواجہ افتخار احمد: کسی ایک طبقے کو کسی حوالے سے ملزم بنا دینا یا مجرم قرار دے دینا نہ عقلی تقاضہ ہے اور نہ ہی درست فکری سمت البتہ یہ ضرور ہے کہ علمی و اقتصادی اعتبار سے فارغ البال طبقہ اور دانشوران جن کی بصیرت انفرادیت کے اعتبار سے کسی امتیاز کی متحمل ہو یہ دو وہ کسی معاشرے کے ایسے حلقے ہیں جن سے فکری جدت و جدیدیت کی توقع کی جاتی ہے اگر یہاں دقیانوسیت اور فکری جمود نے پناہ لے لی ہو تو وہ انجام ہوتا ہے جس کا آپ رونا رو رہے ہیں، دوسرے خود احتسابی و خود اصلاحی کے لئے جو معاشرہ تیار نہیں ہوتا وہ پچھڑ جاتا ہے، مسلم معاشرہ اس کے نام نہاد اکابرین و قائدین، تحریکیں، تنظیمیں، ادارے، دانشوران اور دیگر مقتدر شخصیات آج بھی بند گلی میں ٹکریں مارتے دیکھے جا سکتے ہیں، ایک نئی نفسیات ، ایک نئی سوچ کی طرف زمین اور دیوار کو پڑھ کر کب آگے بڑھیں گے؟ تنقید، تنقیص، الزام تراشی، باہمی رسہ کشی، ایک دوسرے پہ فتوے اور بےجا رائے زنی، اور اس سے بڑھ کر ایک فرضی دشمن گڑھ کر کب تک قوم و ملت کا یوں ہی تماشہ بننے دیں گے آپ حضرات گرامی!

علیزے نجف: مدارس کے تئیں حکومت کے رویے سے اور اس کے سروے کے عمل سے اختلاف یا اتفاق سے قطع نظر آپ ملک کے مدارس کے نظام کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے اور آپ ملک کے لاکھوں مدارس کے منتظمین کو کیا پیغام دیں گے ۔

خواجہ افتخار احمد: مدارس اسلامیہ کو اپنے تعلیمی نکات کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، مذاہب کے تقابلی مطالعے کو اب ایک لازمی مضمون کے طور پہ متعارف کرانا چاہئے، ماہرین تعلیم کی صلاحیتوں سے استفادے کی ضرورت ہے، تعلیم کو ایک ایسی شکل دینے کی ضرورت ہے جس میں دینی و دنیاوی تعلیم دونوں میں بروقت انتخاب کے لئے ضروری قواعد و ضوابط میں آسانی رہے، مدارس اسلامیہ پہ جس طرح کے بےبنیاد الزام لگ رہے ہیں اس کے جواب میں مدارس کے دروازے ایسے لوگوں کے لئے کھولیے کہ جو مدارس میں مہمان بن کر آئیں اور اپنی آنکھ سے حقائق کو دیکھیں، سمجھیں، اور ان کا تجزیہ کریں۔ اسی طرح اپنی آمدنی و اخراجات کا ضوابط کے مطابق ریکارڈ رکھیں اور ان کا بر وقت آڈٹ کرائیں دنیا کے مختلف ممالک میں دینی تعلیم کا جو نظم ہے اس کا مطالعہ کریں اور ایک ایسا نصاب تیار کریں جس میں وہ وسعت و بلاغت ہو جو دین اسلام میں فطری طور پہ موجود ہے آج کی صورتحال میں ایک سکڑن پائی جاتی ہے۔

علیزے نجف: مساجد و مدارس وہ جگہ ہیں جس سے ہر مسلمان عقیدت رکھتا ہے اس سے اس کے جذبات بھی جڑے ہوتے ہیں مدارس میں مسلم کمیونٹی کی اکثریت پڑھے نہ پڑھے لیکن مساجد میں جمعہ کے دن ان کی اکثریت ضرور پہنچتی ہے وہ خطبہ سنتی ہے جو کہ زیادہ تر دینی معاملات پہ مبنی ہوتے ہیں کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس منبر کے ذریعے مسلمانوں کے اندر سماجی و عصری مسائل کے تئیں شعور و بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے غیروں کی ہلاکت کی دعا کئے بغیر اپنی اصلاح کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے اس حوالے سے آپ علماء و مصلحین سے کیا کہنا چاہیں گے؟

خواجہ افتخار احمد: ائمہ مساجد، علماء کرام جو براہ راست ممبر و مصلی سے جڑے ہوئے ہیں ان کو چاہئے کہ اسلام و قرآن میں علم و تعلیم کا میدان علوم کائنات ہیں اس دینی و دنیاوی، عصری و روایتی بنیاد پر تفریق ایک ایسی بدعت ہے جس کو دانستہ طور پہ ہمارے یہاں پیوست کیا گیا ہے، یہ سب سے بڑا چیلنج ہے سابقہ روایات میں صدیوں تک یہ تفریق نہیں رہی ہمارے مکاتب نے بڑے بڑے فلسفی، محقق، سائنس داں، مفکرین، جرنیل، معلمین، اور دانشور اس دنیا کو دیئے۔ پھر آج کی صورتحال تو اس سے آگے کی ہونی چاہئے تھی کہاں یہ سفر اپنی اصل سے پیچھے چھوٹ گیا اس فکر کو اب مساجد ، مدارس خانقاہوں اور دیگر دینی و فلاحی اداروں، تنظیموں و تحریکوں کے ذریعے بالخصوص ان کے قائدین و ذمہ داران کے توسط سے اب عام کرنے کی ضرورت ہے۔

علیزے نجف: کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیمی اداروں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے تعلیم شعور کی نشوونما میں معاون ہوتی ہے سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کا شرح خواندگی ہندوستان کی کئی دوسرے اقلیتی طبقے سے کمتر ہے ستم بالائے ستم عصری اور مذہبی تعلیم کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹنے کی وجہ سے بھی یہ بدحالی بڑھی ہے اس کی وجہ سے ان کی سیاسی اور معاشی پستی اور زبوں حالی کا شکار ہے اس پورے منظرنامے کو آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں اور کس طرح اس ذہنی اور اخلاقی پسماندگی کو دور کیا جا سکتا ہے اس کے لئے آپ کے پاس کیا تجاویز ہیں ؟

خواجہ افتخار احمد: سابقہ سوال کے جواب میں بڑی حد تک اس کا جواب دے چکا ہوں، آج الحمدللہ مسلمانان ہند میں تعلیمی بیداری موجود ہے ہر سطح پہ تعلیمی ادارے وجود میں آ رہے ہیں، ہر شخص اب تعلیم کی اہمیت کو سمجھ چکا ہے کسی بھی شعبہء حیات کی بدحالی یا زبوں حالی کا تعلق دو چیزوں پہ ہوتا ہے پہلا ادراک عمل کا فقدان ہے اور دوسرا اس سے اخذ ہونے والی فکر کو تحریک میں تبدیل نہ کرنا یعنی ادارہ سازی کی طرف پیش قدمی کا نہ ہونا۔ البتہ اب زمینی صورتحال کو محض تنقید کے زمرے میں رکھنا عدل شناسی کا تقاضہ نہیں ! آج جو سنجیدہ کوششیں ہو رہی ہیں ان سے آگاہی حاصل کریں ، ان کو عام کریں ، ان سے استفادہ کریں، اتنا ہی نہیں بلکہ ان سے حوصلہ حاصل کرتے ہوئے آپ بھی خود اپنی اجتماعی و انفرادی سطح پہ کسی پہل کا حصہ بنیں۔ آج ہر شخص کو ضرورت ہے کہ وہ کیا کر سکتا ہے اس پر غور کرے اور اتنا کرنے کے لئے آگے بڑھے، تقریر کم ، تنقید سے کنارہ کشی، تنقیص کو طلاق اور مثبت تعمیری عمل کو فوقیت یہ وہ ترتیب ہے جو بڑی زوروں سے زمین پہ پنپتے دیکھ رہا ہوں، مایوسی کی فضا سے باہر آئیے اب بہت کچھ ایسا ہے اور ہو رہا ہے جو آپ کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کافی ہے۔

علیزے نجف: موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اس غیر یقینی صورتحال میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر کیا کرنا چاہئے؟

خواجہ افتخار احمد: منفی فکر، منفی طرز عمل، منفی طرز تحریر اور بیانیے کی قید سے باہر آ کر آزاد فضا میں سانس لینا سیکھنا چاہئے جس صورتحال کو آپ تنگ سمجھ رہے ہیں میں اس کو غنیمت سمجھتا ہوں آپ حجروں اور کمروں سے باہر آئیے بہت کچھ آپ کا انتظار کر رہا ہے، آپ کا سارا وقت اور صلاحیت تنقیدی مجلسوں اور ایک دوسرے کو بونا کرنے پہ صرف ہو رہا ہے، ہر مسئلے کا حل موجود ہے بشرطیکہ اس کے لئے آپ اپنی نفسیات کو اس کے لئے تیار کرنے پر آمادہ ہوں۔

علیزے نجف: موجودہ حکومت کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ مسلمان طبقہ انھیں پسند نہیں کرتا اور مطلقاً ووٹ نہیں دینا چاہتا جب کہ ارباب حکومت نے بہت سے ایسے مثالی کام کئے ہیں جس سے مسلمانوں کو براہ راست فائدہ پہنچا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سورج جب نکلتا ہے تو اس کی روشنی سے سب فیض ياب ہوتے ہیں وہ ہندو مسلمان نہیں دیکھتا۔آپ کے خیال میں اس خلیج کو کیسے پاٹا جا سکتا ہے؟ آخر مسلمان آپ کی بات کب سمجھے گا کہ سیاست میں کوئی کسی کا نہ مستقل دوست ہوتا ہے نہ دشمن ۔۔۔ سارا کھیل مفادات کا ہے

خواجہ افتخار احمد: یہ آپ کا مفروضہ ہے کہ حکومت ایسا سمجھتی ہے کہ مسلمان اس کو پسند نہیں کرتا یہ بیانیہ مخصوص حلقوں کی طرف سے بنایا گیا ہے ان کے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے اس کی آبیاری کی جاتی ہے، حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے، تمام سرکاری فلاحی پہلیں اس کا براہ راست فائدہ آج سب کو مل رہا ہے اس میں کوئی ہندو مسلم نہیں ہے، آج مفت علاج کی پانچ لاکھ روپیہ تک کی سہولت، براہ راست پیسوں کا کھاتوں میں ٹرانسفر، پردھان منتری آواس یوجنا سے بنتے کروڑوں مکانات، زچہ بچہ کی سہولیات، اعلی تعلیم و مقابلہ جاتی امتحانات کے لئیے وظائف اور ان گنت اسکیمیں سب کو سب کا فائدہ مل رہا ہے، المیہ یہ ہے کہ مسلم نفسیات ان مفادات کے بجائے ان بیانیوں سے متاثر ہوتی ہےجو جذبات کو جنون میں تبدیل کر تے ہیں اور حکومت وقت سے مفاہمت کے بجائے مخاصمت پہ کام کر کے فضا میں بدگمانی پیدا کرنے کو ہی قوم کی خدمت تصور کرتے ہیں، یہ زاویہ اور بیانیہ کون سی عقل کا تقاضہ ہے کہ آپ بی جے پی کے خلاف یہ فرمائیں کہ ہر قیمت پر اسکی مخالفت کرنی ہے،کسی بھی قیمت پہ اس کے امیدوار کو الیکشن میں ہرانا ہے یہ عقلی دیوالیہ پن نہیں تو اس کو اور کیا کہا جائے ووٹ دینا یا نہ دینا اپنی جگہ مگر اس زاویے کو رکھنا اور پھر نتائج کے بعد سبکی کا سامنا، یہ کیا مزاج ہے سیاست اپنا مفاد دیکھتی ہے سیاست دان اس پہ اور اس کے لئے کام کرتا ہے جو اس عمل میں اس کا ہم سفر ہو جاتا ہے وہ اس کی ہو جاتی ہے بس اس کے آگے عقلمند کو اشارہ کافی ہے۔

علیزے نجف: مسلمان مخاصمت و مزاحمت پہ کیوں آمادہ ہے ۔ مخاصمت دلوں میں نفاق پیدا کرتا ہے پیدا کی گئی نفرت نکلتی ضرور ہے یہ کلیہ ہے ۔ مفاہمت کی راہ اپنانے کے لئے آپ مسلمان طبقہ کو کس طرح قائل کریں گے؟

خواجہ افتخار احمد: میں نے تو اپنی ساری زندگی اسی مد میں لگائی ہے اور الحمدللہ ہر دور میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہوں میں مخالفت میں یقین نہیں رکھتا مخاصمت کا تو سوال ہی نہیں! اشتراک عمل کو میرے یہاں پہلی اور آخری ترجیح حاصل ہے، میری تمام تصانیف اور کوششیں و پہلیں سابقہ پانچ دہائیوں میں اسی سمت میں ہیں، سنگھ اور مسلمانان ہند کے درمیان میری حالیہ تحریر اور تحریک اسی زمرے میں ہے، ‘ذہنی و فکری ہم آہنگی’ سابقہ پچیس سالہ محنت، مطالعے و مشاہدے کا ثمرہ ہے۔

علیزے نجف: یہ دنیا کن افکار کی زد میں ہے کیا یہ میکالے اور چانکیہ کے نظریات کی پیروی کر رہی ہے اگر ہاں تو پھر اس کا انجام کیا ہوگا ؟

خواجہ افتخار احمد: نظریات نہ مستقل ہوتے ہیں اور نہ ہی قطعی بنیادوں پر مستحکم ! انسانی نفسیات کے فروغ و زوال میں تجزیے نئے نئے محرکات کا اضافہ کرتے رہتے ہیں، ہر دور کے اپنے چانکیہ ہوتے ہیں، سیاست بازی گروں کا کام ہے، مفکرین تو ایک نظریہ دے دیتے ہیں مگر اس سے کھیلتے ہر دور میں سیاست دان ہی ہیں اور وہ ہی اس کے پہلے و آخری فائدہ و نقصان اٹھانے والے بھی ہوتے ہیں چانکیہ یا میکالے اصطلاحات کے طور پہ صرف دو نام ہو سکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

علیزے نجف: انسانی معاشرے میں معیشت ایک بڑی طاقت ہے اس وقت دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں معاشی بحران کی زد میں ہیں جیسے امریکہ جاپان ترکی روس اس بحران کا سبب کیا ان کا مسلسل حالت جنگ میں رہنا ہے یا کچھ اور ۔۔۔۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

خواجہ افتخار احمد: میرا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پہ تنازعات کا نہ حل ہونا اور دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں جنگ کا جاری رہنا اس سرمایہ دارانہ نظام کا تحفہ ہے جس میں اسلحہ کی صنعت ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جنگوں کی تاریخ کا اگر آپ مطالعہ کریں گے تو جو میں کہہ رہا ہوں اس کی حقیقت آپ کے سامنے عیاں ہو جائے گی، ایک خطے میں جب تک پوری طرح امن بحال نہیں ہوتا دوسرا مسئلہ تیار کر لیا جاتا ہے، پہلے جنگ کے لئے ہتھیار فروخت ہوتے ہیں پھر جب امن کا معاہدہ کرا دیا جاتا ہے تو آگے جنگ کے فریقین کم ہمت نہ ہوں ، پسپائی محسوس نہ کریں اس کے لئے ضروری عسکری توازن کو قائم رکھنے کے لیے ہتھیار فروخت ہوتے ہیں اس مزاج کی فروخت کے لئے جنگ کا ہونا ضروری ہے اسکے بعد جنگ پہ قابو پانے کے لئے امن کی پہل ضروری ہے اسی کے گرد و نواح میں عالمی سیاست، معیشت، و سفارتکاری گشت کرتی رہتی ہے بقیہ سب شاعری و لفاظی ہے حقیقت تلخ ہوتی ہے یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہے!

علیزے نجف: ہندو توا کیا ہے؟ ہندو اسٹیٹ کیا رام راج کا نام ہے ؟ کیا اس میں اقلیتوں کے لئے کوئی جگہ ہوگی؟

خواجہ افتخار احمد: ہندوتوا آج کا نہیں بلکہ ایک صدی پرانا نظریہ ہے آئیڈیا آف انڈیا جس کی کوکھ میں گاندھی ، نہرو، آزاد اور پٹیل ہیں جہاں اس میں ان کے کثرت میں وحدت پہ مبنی سیکولر سیاسی نظریات ہیں وہیں انڈین نیشنل کانگریس بحیثیت قومی سیاسی جماعت بمع اس کی اجتماعی قومی قیادت کے ان میں ایک دوسرے کے ما بین لازم و ملزوم نوعیت کے رشتے ہیں ۔ ہندوتوا اس کا متبادل نظریہ ہے اس میں ہندو تہذیب و تمدن، روایات، اقدار و نظریات کی بالادستی ہے ہندو صحیفے ، ویدک فلسفہء حیات، اپنیشد، اور ان پہ مبنی دھارمک عقائد کی قطعی حاکمیت و بالا دستی ہے۔ رام راجیہ کا تصور گاندھی کے ہاں بھی تھا سنگھ پریوار کے یہاں پہ بھی اس کی اپنی کلپنا ہے جب اس کی اصل شکل سامنے آئے گی تب ہی اس پر قطعی رائے کا اظہار مناسب ہوگا، البتہ تاریخ میں اس کے حوالے سے جو حوالات موجود ہیں وہ قدرے حوصلہ افزا ہیں۔

علیزے نجف: کامن سول کوڈ کے مکمل نفاذ سے کیا اوقاف پہ ضرب نہیں پڑے گی ؟

خواجہ افتخار احمد: کامن سول کوڈ کی جب تک قطعی شکل سامنے نہیں آتی ہے تب تک ہر حوالے سے خدشات ہیں اور یہ خدشے اکثریتی حلقے میں بھی اتنے ہی ہیں جتنے کہ اقلیتی وحدتوں میں پائے جاتے ہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے بےجا قیاس آرائیاں مزید پیچیدگیوں کا باعث ہوں گی۔

علیزے نجف: کیا سبب ہے کہ لیڈر باہمی اتفاق کے بجائے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے ان کے درمیان تھنک ٹینک کا کامیاب عملی نمونہ دور دور تک نظر نہیں آتا ایسے میں مسلمانوں کا لائحہء عمل کیا ہونا چاہئے؟

خواجہ افتخار احمد: پہلی بات تو یہ ہے کہ قومی سطح پہ ایسی کوئی قیادت ہمارے یہاں موجود نہیں بیشتر حالات میں شخصیات یا وہ جماعتی نظم ہے جو کسی شخصیت کے گرد گردش یا گشت کرتا ہے اس کو لے کر چھوٹے یا بڑے حلقے ہیں دینی معاملات میں شدت پسندی و اختلاف در اختلاف، باہمی تقسیم در تقسیم کو لے کر دعووں اور وعدوں کا انبار ہے خاس بات یہ ہے کہ یہ سب قومی نوعیت کے ہیں مگر ایسے دعویدار جب انتخابات میں طبع آزمائی کرتے ہیں تو قلعی کھل جاتی ہے، سیاست میں بھی کچھ ریاستوں میں یہ نظم کہیں استحکام کے ساتھ اور کہیں غیر یقینی کے ساتھ موجود ہیں عموما مسلمانان ہند قومی سطح کی قیادت، شخصیات، و جماعتوں کی طرف ہی رہنمائی کے لئے دیکھتا ہے گو کہ اس کے تجربے حوصلے شکن زیادہ ہیں حوصلہ افزا برائے نام۔

علیزے نجف: اس انٹرویو کے ذریعے آپ مسلمان عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے اور مسلم دانشوروں سے کن شعبوں میں کام کرنے کا مشورہ دینا چاہیں گے اور کن پہلوؤں سے گریز کرنے کی ترغیب دیں گے؟

خواجہ افتخار احمد: بےجا بیان بازی اور بےوقت کی جملے بازی سے پرہیز کریں، ذاتی تشہیر سے زیادہ بردبار رویوں کو اختیار کریں جس میں اعتدال اور رواداری کو زیادہ زمین حاصل ہو نا کہ کسی طبقہء خاص یا جماعت خاص یا ان کی قیادت کو نشانہ بنانے پہ زیادہ زور ہو، دھمکی آمیز لہجہ اختیار نہ کریں مکالمہ و مفاہمت زیادہ پیش نظر رہے ، مسلم دانشور اکثر و بیشتر گفتگو قوم پر کرتے ہیں مگر اپنے پروفائل کو پیش کرتے اور ذاتی تقرریوں پہ زیادہ محنت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج تک ہم بیس کروڑ کی کثیر آبادی میں ایسے سو پچاس لوگوں کا تھنک ٹینک بھی نہ بنا پائے جو صرف رضاکارانہ طور پر تحقیق اور اس پہ مبنی فکر سازی کے لئے وقف ہوں۔
مجلسی ضیافتوں میں مجلسی گفتگو و بیان بازی کا دور دورہِ ہے، اکثر جگہ ہم تقریر کے موڈ میں پائے جاتے ہیں مکالمے کی اب تک شاید ہم “م “ کو بھی نہیں پا سکے ہیں یہ ملی المیہ بھی ہے اور لمحہء فکریہ بھی!
مسلمانان ہند کو میرا پیغام یہ ہے کہ وہ سیاست اور سیاست دانوں سے احتیاط برتیں اپنی اولاد، کاروبار، تعلیم و تربیت، گلی و محلے کو صاف رکھنے پر توجہ کریں، جلسے و جلوسوں، تقریر کی نشستوں اور شعلہ بیان مقررین سے اپنے آپ کو اور اپنے گردو نواح کو محفوظ کریں ترقی اور اخلاقیات دو میدان میں جتنا آگے اپنے آپکو لے جا سکتے ہیں اتنا آگے لے جائیں ۔

Comments are closed.