Baseerat Online News Portal

رمضان المبارک کی قدر کیسے کریں۔!

 

 

محمد امین الرشید سیتامڑھی

 

رمضان المبارک اسلامی تقویم کا نواں مہینہ ہے۔مسلمانوں کے لئے اس پورے مہینے میں روزے رکھنے فرض ہیں۔شب قدر،بھی اسی مہینے میں ہے۔ قرآن کے مطابق ”اس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔” اس مہینے کی اہم ترین عبادت میں روزہ رکھنا، قرآن مجید کی تلاوت، آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب بیداری کرنا، دعا و استغفار، مؤمنین کو افطاری دینا اور فقیروں اور حاجت مند کی مدد کرنا شامل ہے۔

رمضان کے مہینے میں مسلم ممالک اور معاشرہ میں بہت سے دینی شعائر کا اہتمام کیا جاتا ہے، مثلاً: نماز تراویح اور آخری عشرہ میں اعتکاف وغیرہ۔ اسی طرح بہت سے اعمال و رسوم بھی ادا کئے جاتے ہیں، جیسے افطار کے دسترخوان کا اہتمام اور دوسروں کو افطار کی دعوت وغیرہ۔

روزہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے۔ جسے عربی میں’ صوم’ کہتے ہیں۔رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی کے نو رمضان المبارک کے روزے رکھے۔

رمضان المبارک وہ بابرکت مہینہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو اﷲ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطاء فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

”شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔”(سورة القدر)

رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم ﷺکی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ فرمایا:”جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔”

یعنی ایسا ماہ مبارک جس میں شیطان کے بہکاوؤں سے بچنے کی بھی آسانی کردی گئی ہے۔

رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم ﷺکی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

”جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔” بخاری

رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔

اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ؐنے فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے ”شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک ندا دینے والا پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔

روزے کی حالت میں کھانے پینے کی حلال اور پاک چیزوں سے ہم خود کو روک ہی تو لیتے ہیں۔ نفس کی ہر اس جائز خواہش سے خود کو باز رکھتے ہیں کہ جس کی روزے کی حالت میں مناہی ہے۔ روزوں کی غرض و غایت بھی یہی ہے کہ ہم خود پر اتنا قابو رکھنا سیکھ جائیں کہ اختیار ہونے کے باوجود بھی خود کو گناہوں اور بُرائیوں سے بچا سکیں۔ یہی وہ اصل مفہوم ہے، جس پر غور کرنے کے بجائے ہم میں سے اکثر رمضان اور روزوں کے ساتھ رسم و رواج جیسا برتاؤ کرتے نظر آتے ہیں۔

ہر عبادت کی ایک روح، ایک مقصد، غرض و غایت ہوتی ہے اور روزوں کی حکمت بھی رضائے الہیٰ کی خاطر خود کو اُن چیزوں سے باز رکھنا ہے، جن سے ہمارے ربّ نے منع فرمایا ہے۔ صرف ماہِ رمضان میں پانچ وقت کی نماز، نوافل، ذکر اذکار اور تلاوت وغیرہ کا اہتمام کرکے اگر ہم یہ کہیں کہ ہم نے رمضان کا حق ادا کردیا، تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ان سب کا حکم تو ہمیں سال کے باقی مہینوں میں بھی ہے۔ نماز کسی حالت میں معاف نہیں۔ بحیثیت مسلمان کوئی عاقل، بالغ جان بوجھ کر نماز قضا نہیں کر سکتا۔

اس لئے ضرورت اس بات کی ہے روزے کے ایام میں انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ان لوگوں کے احوال پر بھی نظر رکھے جو ایک وقت کی روٹی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ، تاکہ رمضان المبارک کا یہ پہلو بحسن و خوبی انجام پائے اور اس کے لئے اس انعام کا حصول ممکن ہو جس کا خدا نے وعدہ کر رکھا ہے ، ان سب کے علاوہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے باطنی حالات پر بھی توجہ دیتا رہے کہ ایا ان کے روزے سے ان کی باطنی کیفیت میں کوئی تبدیلی آرہی ہے یا نہیں ، ایسی کوئی حالت پیدا ہوتی ہے تو ٹھیک ورنہ ہمیں رضائے الٰہی کے لئے مزید کوشش کرنی چاہئے کیونکہ روزہ انسان کے نفس اور قلب وباطن کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک و صاف کر دیتا ہے ،اور مسلسل روزے کے عمل و مجاہدے سے تزکیہ نفس کا عمل تیز تر ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے روح کثافتوں سے پاک ہو کر پہلے سے کہیں زیادہ لطیف تر اور قوی ہو جاتی ہے ،۔

الغرض تزکیئہ روح اور تصفیئہ باطن کا موثر ترین ذریعہ روزہ ہی ہے جس سے محبوب حقیقی کا قرب و وصال نصیب ہوتا ہے اور بندہ ان کیفیات و لذات سے آشنا ہوتا ہے جن کے مقابلے میں دنیا و ما فیہا کی کوئی شیٔ نہیں آسکتی، تو آیئے ہم عہد کریں کہ رمضان کو اسی انداز سے گزارینگے جو اللہ کو پسند آئے، ورنہ اگر ہم نے ان ایام کو بھی غفلت میں گزار دیا تو اسے ہم اپنی بدقسمتی کے سوا کچھ قرار نہیں دے سکتے۔

سال بھر کے مہینوں میں ماہ رمضان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے تین عشروں میں تقسیم کیا جاتا ہے: پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنّم سے آزادی کا ہے۔ اس مہینے کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر ایک نیکی کا اجر دس سے ستر گنا اور ایک مقام پر تو سات سو گنا بتایا گیا ہے

رمضان کا مبارک مہینہ اپنی تمام تر بر کتوں اور سعادتوں کے ساتھ ایک بار پھر ہم پر سایہ فگن ہے ،عام طور پر اس اس مبارک مہینہ کے آتے ہی پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذہنوں میں خوشی ومسرت اور جشن و سرور کی ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو جا تی ہے اور ہر کویٔ اپنے دل میں اس ماہ کی عظمت و وقعت کا احساس پیدا کر کے مختلف عبادات کی ادایگی کے ذریعہ حتی الامکان اس کی قدر دانی کی کو شش کر تا ہے ، کیو نکہ اللہ رب العزت نے اس مہینہ کو خاص فضیلت عطا فر مائی ہے ،اور باری تعالیٰ اس مہینے میں بندوں کو اپنی نوازش شاہانہ کی دولت سے نوازتے ہیں

اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو رمضان کے بقیہ ایام کی قدر کرنے کی توفیق و ہمت دے آمین

Comments are closed.