Baseerat Online News Portal

عید الفطر: اہمیت و آداب

 

عالمہ حمیرا حسین مومناتی (ایم اے )

شیخ پورہ دانی , دربھنگہ, بہار [email protected]

عید اہل اسلام کا ایک اہم تہوار ہے اور ماہِ صیام کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ سے انعامات پانے کا دن(یوم الجوائز) ہے، یہی وجہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں اِس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔ ’’ عید کا لفظ ”عود“ سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ”لَوٹنا“ کے ہیں، یعنی عید ہر سال لَوٹتی ہے، اس کے لَوٹ کے آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ اور ”فطر“ کے معنیٰ ”روزہ توڑنے یا ختم کرنے“ کے ہیں۔ چوں کہ عید الفطر کے روز، روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو رمضان کی عبادتوں کا ثواب عطا فرماتے ہیں، لہذا اِسی مناسبت سے اسے ”عید الفطر“ قرار دیا گیا۔ *عید، انسانی فطرت کا تقاضا:*

سال میں چند ایام جشن، تہوار اور عید کے طور پر دنیا کی تمام اقوام و ملل اور مذاہب میں منائے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر قوم، مذہب و ملت کے لوگ اپنے ایامِ عید کو اپنے اپنے عقائد، تصورات، روایات اور ثقافتی اَقدار کے مطابق مناتے ہیں،لیکن اس سے یہ حقیقت ضرور واضح ہوتی ہے کہ تصور ِعید انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک قدر مشترک ہے۔

مسلمان چوںکہ اپنی فطرت، عقائد و نظریات اور ملی اقدار کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہے۔ اس لئے اس کا عید منانے کا انداز بھی سب سے نرالا ہے، بقول علامہ اقبال ؒ :

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی۔ اقوام کی عید محافل ناؤ نوش و رقص و سرود بپا کرنے، دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھوجانے، مادر پدر آزاد ہوکر بد مستیوں میں ڈوب جانے، تمام اخلاقی اَقدار کو تج دینے، نفسانی خواہشات اور سفلی جذبات کو فروغ دینے اور ’’آج یا پھر کبھی نہیں‘‘ کے مصداق ہَوَسِ نفس کا اسیر بن جانے کا نام ہے۔

اس کے برعکس اسلام میں روح کی لطافت، قلب کے تزکیے‘ بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عجز و انکسارا ور خشوع و خضوع کے ساتھ تمام مسلمانوں کے اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدۂ بندگی اور نذرانہء شکر بجالانے کا نام عید ہے۔۔ *اسلام میں عید کا آغاز*

خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن،معاشرت اور اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینۂ منوّرہ میں ہوا۔ چناںچہ رسول اللہ ﷺ کی مَدَنی زندگی کے ابتدائی دور یکم شوال 2 ہجری بمطابق 27 مارچ 624 ء میں عید سعید کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہل ِمدینہ دو دن بطور ِتہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ (یعنی ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟) انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد ِجاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرمادیئے ہیں، یوم (عید) الاضحی اور یوم (عید) الفطر۔‘‘(سنن ابو داؤد)۔ چونکہ اسلام دین ِفطرت ہے اس لیے اس نے جہاں اپنے ماننے والوں کو لادینی نظریات سے محفوظ رکھا وہاں ان کے صحیح جِبِلِّی اور فطری تقاضوں کی آبیاری بھی کی، عید منانا انسانی فطرت کا تقاضا تھا لہٰذا مسلمانوں کو ایک عیدکے بجا ئے د و عیدوں( عید الفطراورعیدالاضحی) کی نعمت عطا فرمائی. نبی کریمﷺ اس دن کو مذہبی تہوار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ”إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا“ (بیشک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری:952)۔حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’عید الفطر وہ دن ہے جب لوگ رمضان کے روزوں سے فارغ ہوتے ہیں اور عید ا لاضحی وہ دن ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں‘‘(ترمذی:781)
اس سے معلوم یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں کے لیے صرف دو عیدیں ہیں۔بعض لوگوں نے جو دوسری عیدیں ایجاد کر رکھی ہیں وہ بدعت ہیں اور شریعت میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے. *نمازِ عید*

نمازِ عید کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتا ہے۔ احناف کے نزدیک عید کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ فرض ہے، دیگر ائمہ میں سے بعض کے نزدیک فرضِ کفایہ ہے اور بعض کے نزدیک سنت مؤکدہ ۔ نمازِ عید بغیر اذان و اقامت کے پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔ نمازِ عید کا وقت چاشت سے لے کر نصفُ النّہار شرعی تک ہے۔ عید الفطر ذرا تاخیر سے پڑھنا اور عید الاضحی جلدی پڑھنا مستحب ہے۔ نمازِ عید کے بعد امام کا دو خطبے پڑھنا سنت ہے۔ احناف کے نزدیک نمازِ عید میں چھ زائد تکبیریں ہیں جو پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے تین اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں امام کے ساتھ پڑھنی چاہئیں۔ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھنا *سنت* ہے۔ البتہ بارش، آندھی یا طوفان کے سبب مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔۔ *عیدین کے مسنون اعمال*

(۱) شریعت کے موافق اپنی آرائش کرنا۔

(۲) غسل کرنا۔

(۳) مسواک کرنا۔

۴)عمدہ سے عمدہ کپڑے جوپاس موجود ہوں پہننا۔

(۵)خوشبو لگانا۔

(۶)صبح کوبہت سویرے اٹھنا۔

(۷)عیدگاہ میں بہت سویرے جانا۔

(۸)عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز جیسے چھوہارے وغیرہ کھانا۔

(۹)عیدگاہ جانے سے پہلے صدقۂ فطر دے دینا۔

(۱۰)عیدکی نماز عیدگاہ میں جاکر پڑھنا۔

(۱۱)جس راستے سے جائے اس کے سوا دوسرے راستے سے واپس آنا۔

(۱۲)پیدل جانا۔

(۱۳)راستے میں اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔۔ *صدقہ فطر ادا کرنا:*
عید الفطر کی مناسبت سے ایک اہم کام صدقہ فطر کی ادائیگی ہے۔روزے کے دوران انسان سے جو بھول چوک یا غلطی ہوتی ہیں ،اس کی تلافی کے لیے رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر کا حکم دیا ہے جو کہ ہر صاحب نصاب مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے۔۔حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے صدقہ فطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کی روزی کے لیے مقرر فرمایا(ابوداؤد:1609) اب ایک اہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ صدقۃ الفطر کی ادائیگی کن چیزوں کے ذریعہ سے کی جائے گی؟اس سلسلہ میں پانچ اشیاء کاذکراحادیث میں مذکور ہے:(۱)شعیر( جو)(۲)تمر(کھجور)(۳)زبیب(کشمش)(۴)اقط(پنیر)(۵)طعام(غلہ)، حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ کے رسولﷺ کی زندگی میں ہم ایک صاع غلہ، یاایک صاع جو، یاایک صاع کھجور، یاایک صاع کشمش ، یاپھرایک صاع پنیر زکات فطر(صدقۂ فطر) میں نکالتے تھے‘‘(سنن الترمذی، حدیث نمبر:476، صحیح البخاری، حدیث نمبر: 1504)، جوشخص جَو، کھجور، کشمش اورپنیرسے اداکرناچاہے تووہ ایک صاع (تقریبا: 3.180grms تین کلوایک سواسی گرام)کے حساب سے اداکرے؛ البتہ اگرگیہوں سے اداکرناچاہتاہے تونصف صاع(تقریباً:1.590grms ایک کلوپانچ سونوے گرام) کے حساب سے اداکرے۔۔ **عید سعید کا پیغام* عید کا مقصد اور اس کا پیغام یہ ہے کہ ہم انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی خوشیاں اخوت ومحبت کے ساتھ منائیں، غریبوں کو سہارا فراہم کرکے، ٹو ٹے دلوں کو جوڑ کر، روٹھے عزیزوں کو مناکر عید منائیں، روحانی وجسمانی کدورتیں دلوں سے نکال کر بلاتفریق ہرکسی سے ملیں، آپسی رنجشوں اور اختلافات کوفراموش کرکے محبت واخوت اوربھائی چارگی کا پیغام آپس میں گلے مل کردیں، کیونکہ عید دید بھی ہے، اور گفت وشنید بھی،اور اسلا م ہمیں اجتماعیت کا درس دیتا ہے،خود غرضی کا نہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ عید کا دن ایک وقار اور شائستگی وسنجیدگی کے ساتھ منائیں،دوسری قوموں کی طرح لہولعب میں پڑنا دین فطرت کے خلاف ہے، اور اپنے اسلامی و تہذیبی تشخص و وقار کو ٹھیس پہنچانے کے مرادف ہے ،ہم اسلامی ذوق، اسلامی ہدایات و آداب کالحاظ کرکے ہم اپنے ان برادران وطن کو ایک مثبت پیغام دیں جو غیر مہذب انداز میں تہوار مناتے ہیں۔
خدا ہمیں عید کی حقیقی خوشیوں ، مسرتوں اور پیغام سے مالامال فرمائے۔ آمین

Comments are closed.