مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

اے ایم یو کے شعبہ لسانیات کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز نے قومی کانفرنس میں شرکت کی
علی گڑھ، 28 اپریل: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ لسانیات کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز کے ایک گروپ نے شعبہ کے چیئرمین پروفیسر محمد جہانگیر وارثی کی قیادت میں ’’مادری زبان،کثیر لسانیت اور قومی تعلیمی پالیسی 2020‘‘ کے موضوع پرپنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ کے شعبہ لسانیات و پنجابی لغت نویسی کی جانب سے منعقدہ نویں آل انڈیا لسانیات کانفرنس میں شرکت کی۔ کانفرنس کا انعقاد سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز، میسور، پنجابی لسانیات ایسوسی ایشن، پٹیالہ، اور نارتھ ریجنل لینگویج سنٹر، پٹیالہ کے اشتراک سے کیاگیا تھا۔ پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ کے وائس چانسلر پروفیسر اروندنے کانفرنس کا افتتاح کیا۔
پروفیسر محمد جہانگیر وارثی نے مادری زبان کی تعلیم اور قومی تعلیمی پالیسی کی معنویت موضوع پر افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لیکسیکوگرافی یا لغت نگاری قومی تعلیمی پالیسی 2020 کا ایک اہم حصہ ہے اور پنجابی یونیورسٹی کے شعبہ لسانیات و پنجابی لغت نگاری کی خدمات کو ایسی صورت میں بالکل بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جب حکومت ہند مقامی اور علاقائی زبانوں کے لیے لغات مرتب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مادری زبان بچے کی علمی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے حالانکہ ہم نے انگریزی کو بنیادی ذریعہ تعلیم بنا کر اپنی اقدار اور علمی نظام کو نظر انداز کر دیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی گفتگو کی کہ ہندوستان کے کثیر لسانی ماحول پر کس طرح انگریزی کا غلبہ ہوگیا کیونکہ نوآبادیاتی ذہنوں نے انگریزی کے غلبہ میں مدد کی۔
ڈاکٹر پلّو وشنو، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ لسانیات نے ہندوستانی گرامر کی روایات پر دونی چندر میموریل لیکچر دیا اور زبان اور سماجی تغیر پر ایک مقالہ بھی پیش کیا۔ شعبہ لسانیات کے گیسٹ فیکلٹی ممبر ڈاکٹر نعمان طاہر نے ’اے سنٹیکٹک اسٹڈی آف ککرالہ اردو‘‘ موضوع پر مقالہ پیش کیا۔
کانفرنس کے مختلف سیشن کے دوران ریسرچ اسکالرز سومیہ عابدی اور عظمیٰ آفرین نے ’’کووڈ 19 وبا: سماجی، نفسیاتی اور لسانی سطح پر زبان کے استعمال کا ایک مطالعہ‘‘ موضوع پر ایک مشترکہ مقالہ پیش کیا، جبکہ محبوب زاہدی نے اے ایم یو میں سینئر سکنڈری انگلش لینگویج ٹیچرز کی پرفارمنس اور ان کی پیشہ ورانہ ترقی پر مبنی اپنا مقالہ پیش کیا۔ اسی طرح نیلہ پرویز اور سید طلحہ نے مشترکہ طور پر ڈجیٹل لوک روایات پر ،جب کہ ریسرچ اسکالر یاسر حسان احمد القدیمی اور پروفیسر شبانہ حمید نے یمنی ای ایف ایل طلباء میں انگریزی سیکھنے کے نقطہ نظر پر مقالہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ عفرہ زماں نے لکھمینیاوی بولی کے سماجی مطالعہ پر اپنا مقالہ پیش کیا۔
٭٭٭٭٭٭
پروفیسر عاصم صدیقی، دفتر رابطہ عامہ کے نئے ممبر انچارج مقرر
علی گڑھ 28 اپریل: پروفیسر محمد عاصم صدیقی، شعبہ انگریزی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کو اگلے احکامات تک کے لئے یونیورسٹی کے دفتر رابطہ عامہ کا ممبر انچارج مقرر کیا گیا ہے۔
پروفیسر عاصم صدیقی جو کہ شعبہ انگریزی کے چیئرمین بھی ہیں، 30 سال سے زائد کا تدریسی تجربہ رکھتے ہیں اور یونیورسٹی کی طویل خدمات کے دوران مختلف عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ سابقہ رابطہ عامہ کمیٹی کے رکن رہ چکے ہیں۔
انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، سی یو پی روٹلیج(ٹیلر اینڈ فرانسس)،اورینٹ بلیک سوان، بلومسبری اور دیگر اشاعتی اداروں سے علمی کاوشیں شائع کی ہیں۔ وہ ڈاکٹر راحت ابرار کے ساتھ ’جہان سید‘ (2017) اور ڈاکٹر راحت ابرار اور ڈاکٹر فائزہ عباسی کے ساتھ ’اے ہسٹری آف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ (2021) کے ایڈیٹر اور معاون رہے۔ ان دونوں کتب کو ٹائمز آف انڈیا نے شائع کیا۔ ان کی تازہ ترین تصنیف، شہریار (2021) پر ہے، جسے ساہتیہ اکادمی نے میکرز آف انڈین لٹریچر سیریز کے تحت ایک مونوگراف کے طور پر شائع کیا ہے۔ وہ 2007 میں نیویارک یونیورسٹی میں فلبرائٹ فیلو تھے۔
پروفیسر عاصم صدیقی باقاعدگی سے جرائد اور کتابوں میں تحقیقی مضامین اور بک ریویو لکھتے رہتے ہیں ۔ وہ دی گارجین، دی ہندو، ہندوستان ٹائمز، دی اسٹیٹس مین، ریڈف ڈاٹ کام، اسکرول ڈاٹ اِن، این ڈی ٹی وی، فرنٹ لائن ،انڈیا ٹوڈے، دی بک ریویو اور ببلیو سمیت مختلف اخبارات و رسائل اور نیوز پورٹلز کے لیے آرٹ اور کلچر پر کالم لکھتے ہیں۔
وہ اردو اور ہندی سے انگریزی میں ترجمہ بھی کرتے ہیں اور ان کے تراجم متعدد کتابوں اور جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ وہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی کلیات کے اردو ترجمہ کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں جو ڈاکٹر امبیڈکر فاؤنڈیشن، وزارت سماجی انصاف و اختیاردہی، حکومت ہند کا ایک پروجیکٹ ہے۔ انہوں نے انجمن ترقی اردو ہند کے لیے اردو ادب و زبان پر مبنی انگریزی کتابوں پر ایک پندرہ روزہ ویب کاسٹ کی بھی میزبانی کی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو میں اگنو اسٹڈی سینٹر کی تجدید شدہ عمارت، ای کانٹینٹ لیب، سائبر سیکیورٹی و ڈجیٹل فارنسک لیب کا افتتاح
علی گڑھ، 28 اپریل: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے یونیورسٹی رجسٹرار مسٹر محمد عمران (آئی پی ایس) اور پروفیسر عاصم ظفر (چیئرمین، شعبہ کمپیوٹر سائنس) کے ہمراہ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اگنو) اسٹڈی سینٹر (2713) کی تجدید شدہ عمارت ، ای کانٹینٹ ڈیولپمنٹ لیب اور سائبر سیکورٹی و ڈجیٹل فارنسک لیب کا کمپیوٹر سائنس شعبہ میں افتتاح کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر گلریز نے کہا کہ اگنو اسٹڈی سینٹر، اے ایم یوایک سرگرم مطالعاتی مرکز ہے، جو طلباء کو بہترین اساتذہ اور ٹرینر سپورٹ کے ساتھ ساتھ جدید ترین تعلیمی بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ پروفیسر عاصم ظفر کو ان کی کاوشوں پر مبارکباد دیتے ہوئے پروفیسر گلریز نے شعبہ کمپیوٹر سائنس کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کو سراہا اور کہا کہ ای کانٹینٹ ڈیولپمنٹ لیب اور سائبر سیکیورٹی و ڈجیٹل فارنسک لیب کا قیام ایک بروقت اقدام ہے اور یہ سہولت اعلیٰ معیار کا ای مواد تیار کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔
جدید ترین سائبر سیکیورٹی و ڈجیٹل فارنسک لیب کے قیام کی تعریف کرتے ہوئے رجسٹرار مسٹر محمد عمران (آئی پی ایس) نے کہا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے اور یہ بنیادی ڈھانچہ سائبر سیکورٹی، سائبر جرائم اور فارنسک تحقیقات کے میدان میں اعلیٰ تحقیقی مطالعہ کے لئے طلباء کی ہمت افزائی کرے گا۔ تجدید شدہ اسٹڈی سنٹر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگنوفاصلاتی تعلیم کے ذریعہ وسیع پیمانے پر معاشرے کے سبھی طبقات کو اعلیٰ معیار کی تعلیمی خدمات فراہم کرتا ہے۔
اپنے خطبہ استقبالیہ میں پروفیسر عاصم ظفر (کوآرڈینیٹر،اگنو اسٹڈی سنٹر ، اے ایم یو) نے اگنو اسٹڈی سینٹر کی مختصر تاریخ بیان کی اور مختلف کورسیز کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے عمارت کی مرمت و تجدید کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر ظفر نے ای کانٹینٹ لیب اور سائبر سیکیورٹی و ڈجیٹل فارنسک لیب کے قیام کے مقاصد پر روشنی ڈالی، جس میں اعلیٰ درجے کے پرسنل کمپیوٹر اور سرور موجود ہیں۔ انہوں نے موجودہ تعلیمی ماحول میں ای کانٹینٹ کے فروغ کی اہمیت پر زور دیا۔ اگنو کے علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر صفدر اعظم نے اگنو کے مختلف کورسیز اور انھیں چلانے میں اے ایم یو کے تعاون کے بارے میں گفتگو کی۔ پروگرام میں یونیورسٹی کے افسران، اساتذہ، عملے کے اراکین اور طلباء نے شرکت کی۔ تقریب کی نظامت ڈاکٹر ارمان رسول فریدی نے کی اور ڈاکٹر سید حسین حیدر نے شکریہ ادا کیا۔
٭٭٭٭٭٭
جی-20 یونیورسٹی کنیکٹ کے تحت اے ایم یو میں 12 ہفتوں کی شیور ورکشاپ اختتام کو پہنچی
علی گڑھ، 28 اپریل: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ کامرس کے زیر اہتمام 12 ہفتوں پر محیط ’’اسٹیمولیٹنگ اربن رنیول تھرو انٹریپرینئرشپ (شیور) ‘‘ ورکشاپ کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچی جس نے متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلباء، کمزور مالی وسائل والی کمیونٹیز کی خواتین اور اسی طرح کے دیگر افراد پر مشتمل شرکاء کو ایک تعلیمی اور نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم فراہم کیا۔ ورکشاپ کا انعقاد جی 20یونیورسٹی کنیکٹ پروگرام کے تحت باؤر کالج آف بزنس، یونیورسٹی آف ہیوسٹن، امریکہ کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔
اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریزنے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستا ن دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے ، اور چونکہ مائیکرو، اسمال و میڈیم انٹرپرائزز (ایم ایس ایم ای) روزگار کے بہت مواقع پیدا کرتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ لوگ اس طرف متوجہ ہوں اور اپنا کاروبار شروع کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ انتریپرینیورشپ مستقبل کی ترقی کی شاہ کلید ہے۔ شیور ورکشاپ یقینا اس میں بہت مددگار ثابت ہوگی۔
پروفیسر گلریز نے کہا کہ اے ایم یو ایک عوامی ادارہ ہے جو پوری تندہی کے ساتھ قوم کی خدمت کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اے ایم یو نے پانچ گاؤں گود لیے ہیں جہاں یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات عوامی توجہ کے مسائل پر بیداری پیدا کرتے ہیں اور ان کی ترقی میں مددگار بن رہے ہیں۔
مہمان اعزازی مس مینو رانا، اے ڈی ایم، ایف اینڈ آر، علی گڑھ نے کہا کہ انتریپرینیورشپ پروگرام نئی مہارتیں سیکھنے اور معلومات و صلاحیتوں کو بڑھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ شرکاء سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے مضبوط پہلوؤں کی شناخت کریں اور اپنی مہارت بڑھانے کی کوشش کریں جو ترقی اور کامیابی کی کلید ہے۔ انھوں نے شرکاء سے کہاکہ اپنا فرم اور ادارہ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے معیشت کو فروغ ملے گا اور ملک کی جی ڈی پی میں اضافہ ہوگا۔
ورکشاپ کے چیئرمین اور اے ایم یو کے فائنانس آفیسر پروفیسر محسن خاں نے کہا کہ انتریپرینیورشپ کو اکثر اقتصادی ترقی کے اہم انجن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا ’’ہندوستان جیسے ابھرتے ہوئے ملک میں جس کی آبادی اب چین سے زیادہ ہے اور بے روزگاری کی شرح 7.45 فیصد ہے، اس کا واحد حل انتریپرینیورشپ ہے۔ حکومت ہند اس سمت میں تمام اہم قدم اٹھا رہی ہے اور میک ان انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا اور آتم نربھر بھارت ابھیان جیسی مختلف اسکیموں کے ذریعے اسٹارٹ اپ ماحول کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی 20 سربراہی اجلاس کا مقصد اسٹارٹ اپ کلچر کو آگے بڑھانا اور ہندوستان میں اختراعات اور انتریپرینیورشپ کے لیے ایک جامع ماحولیاتی نظام کی تشکیل کرنا ہے۔
شیور ورکشاپ کی ڈائرکٹر اور کنوینر پروفیسر آسیہ چودھری کہا کہ ورکشاپ کا آغاز 12 فروری 2023 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ کامرس میں ہوا تھا جس میں 58 شرکاء بشمول انتریپرینیور اور کنسلٹنٹس شریک ہوئے اور اس کا اختتام 26 اپریل کوہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس میں اکاؤنٹنگ، بینکنگ، ڈی آئی سی، مارکیٹنگ، قانونی امور وغیرہ پر مختلف سیشن منعقد کیے گئے۔ ورکشاپ کے خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد ہوئے ۔مثال کے طور پر انجینئرنگ کے 4 طالب علموں کا ایک گروپ جنہوں نے پہلے ہی تعلیمی سافٹ ویئر تیار کر لیا ہے، وہ جلد ہی اپنا اسٹارٹ اپ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، جبکہ مسز سنجیدہ بیگم اور الفت جلد ہی سلائی وٹیلرنگ اور سائنس و ریاضی کی کلاسز کے لیے کوچنگ سینٹر شروع کر رہی ہیں۔ انہوں نے نیٹ ورکنگ اور ہینڈ ہولڈنگ سیشن سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔
اسی طرح مسٹر عبدالرحمٰن اپنے شیشے کے کاروبار کو بڑھا رہے ہیں جبکہ محترمہ نورین اور ہدیٰ نے ماحولیات دوست کاغذی تھیلے کے اپنے کاروبار کو آگے بڑھایا ہے۔
شیور ورکشاپ میں تربیت حاصل کرنے کے بعد اقرا اور عدینا نے فیشن کوچنگ انسٹی ٹیوٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، جبکہ محترمہ فرح ورکشاپ کے فوراً بعد ایک جمنازیم قائم کرنے کے عمل میں مصروف ہیں۔
ڈین، فیکلٹی آف کامرس پروفیسر محمد ناصر ضمیر قریشی نے اس موقع پر کہا کہ کووڈ کے بعد معیشت سست ہوئی یا کاروبار مکمل طور پر بند ہوگئے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور ٹیکس کی کم وصولی کے حالات پیدا ہوئے ۔اس پس منظر میں مائیکرو انتریپرینیورشپ کا تصور زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایم ایس ایم ای دنیا بھر میں کثیر تعداد میں ہیں اور یہ روزگار پیدا کرنے اور عالمی اقتصادی ترقی میں ایک اہم شراکت دار ہیں ۔
پروفیسر قریشی نے کہا کہ ہندوستانی معیشت میں ایم ایس ایم ای کا جی ڈی پی میں حصہ تقریباً تیس فیصد، مینوفیکچرنگ میں پینتالیس فیصد، اور برآمدات میں چالیس فیصد ہے اور یہ سیکٹر 113 ملین لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
پروفیسر ایس ایم امام الحق نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ محترمہ نازش اور مسٹر دیویانش شانڈیلیا نے ورکشاپ کے دوران اپنے تجربات بیان کئے۔ ڈاکٹر انوار احمد نے شکریہ ادا کیا۔ مشاہد علی شمسی اور محمد عبداللہ نے پروگرام کی نظامت کی۔

Comments are closed.