بین مذہبی شادی کے واقعات اوران کا تدارک :(۲)

 

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی

جنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جونعمتیں دی ہیں، ان میں ایمان اور زندگی کے بعد سب سے بڑی نعمت والدین اوراولاد ہیں، والدین کی حیثیت ایک ایسے درخت کی ہوتی ہے جو اپنی اولاد کو سایہ فراہم کرتاہے، جیسے درخت دھوپ کی تپش کو برداشت کرتاہے اور اپنے سائے میں بیٹھنے والوں کو ٹھنڈاماحول فراہم کرتاہے، اسی طرح ماں باپ حالات کی تپش کو برداشت کرتے ہوئے اپنے بچوں کو ٹھنڈا سایہ فراہم کرتے ہیں، اوربچے کیسے بھی ہوں، وہ بھرپور پیار ومحبت کے ساتھ ان کی پرورش کرتے ہیں، اسی طرح اولاد انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی پھل ہوتاہے، اس کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، اور وہ بڑھاپے میں ماں باپ کیلئے سہارابنتے ہیں، ماں باپ کی اہمیت ان بچوں سے پوچھئے جو باپ یا ماں کی دولت سے محروم ہوگئے ہوں اوریتیمی کا داغ سہہ رہے ہوں، اوراولاد کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھئے جن کو اللہ نے ا س نعمت سے محروم رکھاہے، وہ کس قدر تڑپتے ہیں، اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں اوراپنے مستقبل کے بارے میں خوف وتشویش میں مبتلارہتے ہیں۔

اسی لیے والدین اور اولاد دنوں کی ایک دوسرے سے متعلق بڑی ذمہ داریاں ہیں، پہلامرحلہ والدین کی ذمہ داریوں کا آتاہے؛کیوں کہ اس وقت بچے ان کے ضرورت مند ہوتے ہیں، دوسرامرحلہ اولاد کی ذمہ داریوں کا آتاہے کیونکہ جب جوانی ڈھلتی ہے اورماں باپ بوڑھاپے میں قدم رکھتے ہیں تو اب ان کو قدم قدم پر اولاد کی ضرورت ہوتی ہے، اگرماں باپ نے اپنی ذمہ داریاں صحیح طورپر اداکی ہوں تو عام طورپر ان کا بڑھاپابھی بہتر گزرتاہے، بچے ان کے قدر شناس ہوتے ہیں، ان کے ایک ایک حکم کی تعمیل کیلئے کھڑے رہتے ہیں، ان کی ایک ایک ضرورت کوپوری کرنا اپنے لیےسعادت کی بات سمجھتے ہیں، ان کی خوش اخلاقی، دینداری اور پاکیزہ زندگی سے والدین کا د ل بھی خوش ہوتاہے، اوران کو ایک روحانی سکون ملتاہے کہ ہم ایسی اولاد کو چھوڑ کر جارہے ہیں جو ان شاء اللہ آخرت میں نفع کا سودا ثابت ہوںگی، اس لیے والدین سے جو ذمہ داریاں متعلق ہیں، ان کی خصوصی اہمیت ہے، وہ آج درخت لگائیں گےتو کل اس کا پھل کھاسکیں گے۔

والدین کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں رسول اللہﷺ نے ایک بڑا ہی واضح اور جامع اصول مقرر فرمایاہے،آپﷺ نےارشاد فرمایا:

آگاہ ہوجائو! تم سب کے سب چرواہےیعنی ذمہ دار ہو، جن لوگوں کی ذمہ داری تم سے متعلق ہے، تم سب ان کے بارے میں جواب دہ ہو، امیر اپنے زیر امارت لوگوں کا ذمہ دار ہے،اوران کے بارے میں جوابدہ ہے ، ہر شخص اپنے گھر کے لوگوں کاذمہ دار ہےا وران کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے مال اوراس کی اولاد کے بار ے میں ذمہ دار ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، غلام اپنے مالک کے مال کے سلسلے میں ذمہ دار ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے، خبردار!تم سب کے سب اپنے اپنے دائرہ میں ذمہ دار ہو اور اپنے ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہو۔(بخاری عن عبداللہ بن عمرؓ،حدیث نمبر:۲۵۱۴)

یہ نہایت ہی جامع ارشاد ہے، آپ ﷺ نے ہرشخص کو متوجہ فرمایاہے کہ جولوگ اس کے ماتحت ہیں، وہ ان کا ذمہ دار ہے، اوراس ذمہ داری کے بارے میں اللہ کے پاس بازپرس ہوگی، اگراس نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تو اس کو اس کی سزادی جائے گی، اس حدیث میں ذمہ دار شخص کیلئے ’’راعی‘‘کا لفظ استعمال کیاگیاہے،اورجواس کے ماتحت ہوں،ان کو’’رعیت‘‘ کہاگیاہے، ’’راعی‘‘کے معنی ’’چرانے والے‘‘کے ہیں اور جن جانوروں کو وہ چراتاہے، ان کو رعیت کہتے ہیں، یہ ایک بہت ہی بلیغ تعبیر ہے،چرواہا جن جانوروں کو چراتاہے، سختی کے ساتھ ان کی نگرانی کرتاہے، کہیں سانپ ان کو ڈس نہ لیں، کہیں کتے ان پر حملہ نہ کردیں،کہیں کوئی جانور دور بھاگ کر اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے، وہ جانوروں کو قابو میں رکھنے کیلئے سختی بھی کرتاہے، پھٹکار بھی لگاتاہے،ان کی قوت برداشت کا لحاظ رکھتے ہوئے مارپیٹ بھی کرتاہے، اوران سے غایت درجہ محبت بھی کرتاہے، ان کے چارے اورپانی کی فکر کرتاہے، اس کو ٹھنڈک ، گرمی اور بارش سے بچاتاہے، علاج کراتاہے، غرض کہ اس کی تما م ضروریات کا خیال رکھتاہے۔

جب ایک شخص کو اپنے گھر کے بارے میں چرواہا قراردیاگیاتواس میں اس بات کا بھی اشارہ موجود ہے کہ جو فکر ایک چرواہے کو اپنے جانوروں کے بارے میں ہوتی ہے، وہی ایک سربراہ خاندان کو اپنے خاندان کے بارے میں ہونی چاہئے،اگروہ اس میں کوتاہی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے پاس جواب دہ ہوگا، اورآپﷺ نے یہ بھی واضح فرمایاکہ یہ ذمہ داری اورجوابدہی صرف مردہی کی نہیں ہے، عورت کی بھی ہے، ایک عورت اپنے زیر پرورش بچوں کی ذمہ دار ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس سلسلے میں جواب ہے، عورت پر بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری نہیں ہے؛لیکن تعلیم وتربیت کی ذمہ داری میں وہ بھی شریک ہے۔

اولاد کی ضروریات دوقسم کی ہیں، ایک:دنیوی زندگی کی ضروریات جو مسلمان بھی اپنے بچوں کو مہیاکرتاہے اور غیرمسلم بھی؛بلکہ حیوانات بھی اپنے چھوٹے بچوں کی غذا کی فکر کرتے ہیں ،مائیں دودھ پلاتی ہیں اور باپ ان کی حفاظت کرتاہے،دوسری جرورت اخروی زندگی سے متعلق ہے ،اولاد میں کی اللہ معرفت ہو، رسول اللہﷺ کی محبت ہو، ایمان ان کے دل ودماغ میں جاگزیں ہوجائے، ان کو اچھے اعمال کا عادی بنایاجائے، بری باتوں سے روکاجائے،یہ اولاد کا ایک خصوصی حق ہے، یہ انسان پر خاص کر مسلمانوں پر عائد ہوتاہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس خصوصی حق کا بہت موثر انداز میں ذکر فرمایاہے،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اے ایمان والو!اپنے آپ کو اوراپنے اہل وعیال کو اس آگ سے بچائو، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں،اس آگ پر سخت مزاج اوردرشت اخلاق والے فرشتوں کی ڈیوٹی ہوگی، جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کریں گے اور جوکچھ حکم دیاجائے گا، اسے بجالائیں گے۔(تحریم:۶)

افسوس کہ آج کل لوگ اپنے بچوں کی مادی ضرورتوں کی تو پوری فکر کرتے ہیں، بہتر سے بہتر کھلانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی خواہش کے مطابق کپڑے پہنانے کی سعی کرتے ہیں، خود تنگ دستی کی زندگی گزار کر معیار ی اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں، گھر کا اثاثہ بیچ کر مہنگی شادیاں کرتے ہیں، بیٹیوں کو کچھ اس طرح جہیز دیتے ہیں کہ گویا زندگی بھر کی ضرورت پوری کردیں گے، مگر ان کی آخرت کو سنوارنے اور آنے والی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کی کوئی فکر نہیں کرتے ،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں مسلمان لڑکیوں کے غیرمسلموں کے ساتھ ازدواجی رشتہ استوار کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں،اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری لڑکیوں کے والدین کی ہے، وہ اگراپنی ذمہ داریوں کو اداکریں تو یہ نوبت نہیں آئے؛اسی لیے:

(۱) والدین کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ لڑکیاں ہوں یالڑکے ،ان کی بنیادی دینی تعلیم کا انتظام کریں، جتنی اہمیت کے ساتھ بچوں کو اسکولی تعلیم دلاتے ہیں، اتنی ہی اہمیت کے ساتھ مکتب بھی بھیجیں، جہاں وہ قرآن مجید، اسلامی عقائد، عبادات ومعاشرت اورمعاملات کے ضروری احکام اورسیرت نبوی کی تعلیم حاصل کریں، یہ دینی تعلیم کم سے کم ساتویں جماعت تک عصری تعلیم کے ساتھ جاری رکھی جائے، اس کی بہتر صورت مکتب کا نظام ہے، اگرمحلہ کی مسجد میں مکتب کا انتظام نہ ہو تو خاندان کے بچوں اوربچیوں کو جوڑ کر گھر میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے مکتب کا انتظام کیاجائے، ہمارے روایتی مکاتب میںعمومابچوں کو چند سورتیں اورکچھ دعائیں یاد کرادی جاتی ہیں، یہ کافی نہیں ہے، ان کو ایمانیات کے بارے میں بھی بتاناچاہئے، عقیدۂ توحید سے کیامراد ہے؟اسلام اورکفر میں کیافرق ہے؟اللہ کی کتاب اوراس کے رسولوں کی انسانیت کو کیاضرورت ہے؟ایک غیرمسلم سے ہمارا کیا تعلق ہوناچاہئے؟اس میں یہ بھی واضح کیا جائے کہ انسانی مسائل میں وہ ہمارے بھائی ہیں ؛لیکن ان کے ساتھ کسی مسلمان مرد یا عورت کا رشتۂ ازدواج نہیں ہوسکتا۔

بچوں کی اس طرح سے تربیت کرنا ماں باپ کا فریضہ ہے، چاہے مسجد کے مکتب کے ذریعہ ہو، یا گھر کے مکتب کے ذریعہ ،یاٹیوشن کے ذریعہ، اگرچہ ٹیوشن سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوپاتا جو مدرسہ اور مکتب سے حاصل ہوتاہے ؛لیکن اگراس کے سوا کوئی راستہ نہ ہو تو ٹیوشن کیلیے اچھے استاذ کو رکھناچاہئے، ایسانہیں کہ کم فیس پر راضی ہونے والے کسی حافظ صاحب کو رکھ لیاجائے، ایسے سستے ٹیوٹر رسمی تعلیم دے کر شاید آپ کو خوش کردیں ؛لیکن وہ بچوں کی فکر پر اثرانداز نہیں ہوسکتے۔

(۲) دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ساتویں کلاس کے اوپرلڑکوں اورلڑکیوں کی تعلیم کیلئے ایسے تعلیمی اداروں کا انتخاب کرنے کی کوشش کی جائے جس میں دونوں کے کلاس روم الگ الگ ہوں، بچوں اوربچیوں کیلئے عام طورپر یہ زمانہ نوجوانی کا ہوتاہے، اس میں بہکنے اوربگڑنے کا اندیشہ زیادہ ہوتاہے، اگرجائزہ لیاجائے تو نوجوانوں میں جو بے راہ روی ہوتی ہے، اس کا بنیادی سبب مخلوط تعلیم ہے، یہ نہ صرف اخلاق کونقصان پہنچاتی ہے؛بلکہ تعلیمی یکسوئی میں بھی خلل پیداکرتی ہے، اسی لیے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کے علاحدہ تعلیمی ادارے قائم کرنے چاہیے،دینی تنظیموں کو ،بڑے مدارس کو ،شہر کی کثیر الوسائل مسجدوں کوایسے اسکول قائم کرنے چاہئیں ،اسی طرح مسلمان تاجروں اورکاروباریوں کو تعلیم کے میدان میں اپنا سرمایہ لگاناچاہئے، اس سےا ن شاء اللہ ان کو مالی منفعت بھی حاصل ہوگی اور آخرت کا نفع بھی ،بہرحال لڑکیوں کو حتی المقدور مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانے سے بچناچاہئے، اگرایسا ادارہ آپ کے محلہ میں نہ ہو ،فاصلہ پر ہوتو ٹرانسپورٹ کا خرچ برداشت کیجیے،؛لیکن بچیوں کو ان اداروں تک پہنچائیے،اگرآپ کے خیال میں اس کا تعلیمی معیار کم ہو تو آپ ان اداروں میں پڑھاتے ہوئے الگ سے کوچنگ کرکے اس کمی کو پورا کرائیے؛اگر فاصلاتی طرز تعلیم کے ذریعہ تعلیم دلانا ممکن ہو تو اسی راستہ کا نتخاب کیاجائے؛لیکن ان کو مخلوط تعلیمی اداروںسے بچانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔

(۳) تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ اسکول اور کالج جانے والی بچیوں کی مسلسل نگرانی کی جائے، ماں باپ کو کوشش کرناچاہئے کہ وہ آفس جانے کی طرح اس بات کو بھی ضروری سمجھیں کہ خود سے اپنی بچیوں کو اسکول لے جائیں، اوراسکول کا وقت ختم ہونے کے بعد خود اسکول جاکر اپنی بچیوں کو واپس لائیں،یوں ہی بچیوں کے خود جانے یا آٹو وغیرہ سے بھیج دینے کو کافی نہ سمجھیں، ایسےواقعات پیش آئے ہیں کہ لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے نکلے اوراسکول نہیں پہنچے اوریہاں وہاں وقت گزار کر واپس آگئے،اگرماں باپ دونوں مل کر اس ذمہ داری کو اداکرناچاہیں تواوقات کی تنظیم کے ساتھ اس کو انجام دے سکتے ہیں۔

(۴) زیر تعلیم لڑکیوں کے سلسلے میں نگرانی کے پہلو سے والدین کی چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہفتہ میں کم سے کم ایک بار اسکول جاکر پرنسپل سے اپنی بچی کی تعلیم اوران کی حاضری کے بارے میں دریافت کریں، کیوں کہ ایسا بھی ہوسکتاہے کہ سرپرست نے بچوں کو اسکول میں چھوڑدیا، پھر بچے وہاں سے پارکوں میں گھومنے چلے گئے، اوراسکول کا وقت ختم ہونے سے پہلے اسکول پہنچ گئے، اس لیے ہمہ وقتی نگرانی کی ضرورت ہے، اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب خود اسکول جاکر، یا ذمہ داروں کو فون کرکے اوقات تعلیم میں ان کے موجود رہنے کے بارے میں دریافت کیاجائے، اس میں مشقت ضرورہے ؛لیکن جوماں باپ ساری مشقتیں اپنے بچوں کے آرام کیلئے برداشت کرتے ہیں، کیاوہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی آرام وراحت کیلئے اور اپنے اپنے بچوں کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے یہ مشقت برداشت نہیں کرسکتے؟

(۵) پانچویں: بچوں کی تعلیم وتربیت کوصرف استاد کے حوالے کردینا اولاد کے ساتھ بھی ناانصافی ہے اوران کےاساتذہ کے ساتھ بھی ،ضروری ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بھی بچوں کی نگرانی کریں، بلاضرورت ان کے ہاتھ میں موبائل دینے سے بچیں، غیرشادی شدہ لڑکوں اورلڑکیوں کو سونے کیلئے تنہا کمرہ نہ دیں، اگردوتین بھائی ہوں تو ایک ہی کمرہ میں ان کا الگ الگ بستر ہو؛لیکن وہ رہیں ایک ہی کمرے میں ،اوراگرایک سے زائد لڑکیاںہوں توان کی رہائش کیلئے بھی اسی طرح کا انتظام کیاجائے، تعلیمی ضرورت کیلئے موبائل کے بجائے لیپ ٹاپ رکھاجائے، اوروہ ایسی کھلی جگہ پر ہو ،جہاں گھر کے لوگوں کی عمومی آمدورفت ہو، بچوں کے فون پر بھی نظر رکھی جائے ،وقتاً فوقتاً ان کے فون چیک کیے جائیں، تاکہ ان کے روابط کا اندازہ ہوسکے، بچوں کو بالکل آزاد چھوڑدینا ،ان پر روک ٹوک نہ کرنا، ان کی نگرانی نہ کرنا اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے اوربچوں کے مفادات کے بھی ، آپ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو اپنے گھر میں کوڑالٹکاکر رکھے؛ تاکہ وہ اپنے بچوں کو صحیح راستے پر قائم رکھ سکے۔

آج کل اس معاملے میں لوگوں کے اندر افراط وتفریط ہے، بعض لوگ بچوں کی اصلاح میں اتنی شدت برتتے ہیں کہ ان کی ناشائستہ ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ سے بچوں میں ضد پیداہوجاتی ہے ،جس بات سے روکاجائے ،وہ اسے اصرار کے ساتھ کرناچاہتے ہیں، اوربعض حضرات اتنے نرم ہوجاتے ہیں کہ وہ بچوں کی تنبیہ کو تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں، یہ دونوں باتیں غلط ہیں، تربیت میں سختی بھی ضروری ہے اوراعتدال کے ساتھ بچوں کی عزت نفس کا لحاظ رکھتے ہوئے سرزنش بھی ۔

(۶) یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ہمارے سماج میں عام طورپر قریب البلوغ بچوں اوربچیوں سے اُن مسائل کے بارے میں بات نہیں کی جاتی ہے، جن سے وہ جوانی کی دہلیز پر قم رکھنے کے بعد دوچار ہوں گے، بچوں اوربچیوں کو سمجھاناچاہئے کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو پاک دامن رکھیں، غیرمحرم صنف مخالف سے دوری اختیار کریں ،فحش لٹریچر سے اپنے آپ کو بچائیں، اپنی رات کو نیند، عبادت اوردینی کتابوں کے مطالعہ میں مشغول کریں، اچھے دوستوں /سہیلیوں کی دوستی اختیار کریں، خاص طورپر لڑکیوں کو بتاناچاہئے کہ کس طرح ہوس پرست مسلم اورغیرمسلم لڑکے پیارومحبت کانام لے کر اپنے جال میں پھنساناچاہتے ہیں، حالانکہ ان کو محبت نہیں ہوتی، صرف اپنی ہوس پوری کرناچاہتے ہیں، اورپھرلڑکیوں کو ایسے مقام پر لاکر چھوڑ دیتے ہیں جہاں ان کا مستقبل تاریک ہی تاریک ہوتاہے، اوران کیلئے زندگی بوجھ بن جاتی ہے، لڑکیوں کو ایسے واقعات بھی سناناچاہئے جن میںاوباش لڑکوں نے مسلم لڑکیوں کو اکساکر ان سے شادی رچالی اور یاتوان کو قتل کردیایاپھر بے سہارا بناکر چھوڑدیا۔

نکاح کیلئے مذہبی ہم آہنگی کس قدر ضروری ہے ،اس پربچوں اوربچیوں سے کھل کر بات کرنی چاہئے، اورصحیح صورت حال سمجھانی چاہئے ؛کیونکہ صرف ڈانٹ ڈپٹ سے ذہن کو بدلانہیں جاسکتا، بین مذہبی شادیوں کے واقعات توپہلے بھی ہوتے تھے، لیکن بہت کم ہوتے تھے، اوریہ زیادہ ترتعلیم اورملازمت کے مخصوص ماحول کا نتیجہ ہوتے تھے ؛لیکن موجودہ حالات میں فرقہ پرست طاقتیں اس کو ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کررہی ہیں؛ اس لیے ایسے واقعات میں اضافہ ہواہے، اس پر خصوصی توجہ کرنا وقت کا اہم فریضہ ہے۔

Comments are closed.