Baseerat Online News Portal

آج کا دن، قیمتی سوغات اور مہمیز لگانے والے کلمات

 

طہ جون پوری
31- مئی – 2023

____________________________________

چند روز قبل، معروف قلم کار *مولانا ضیاء الحق صاحب خیر آبادی عرف حاجی بابو* ( تعارف کے لیے تاریخ خیر آباد: صفحہ: 26 تا 34 دیکھیں) کے ذریعے معلوم ہوا، کہ *مولانا ضیاء الدین صاحب قاسمی ندوی* فلاں تاریخ میں *ممبرا ضلع تھانے مہاراشٹر* تشریف لارہے ہیں. اور آپ کے لیے ساتھ میں چند کتابوں کا قیمتی تحفہ بھی موجود ہے. چناں چہ مولانا سے کل گذشتہ یعنی 30 مئی 2023، کو بعد نماز فجر فون پر رابطہ کیا، اور خیر خیریت معلوم کرنے کے بعد، شہر *ممبئی* تشریف لانے کی درخواست کی. لیکن چوں کہ مہمان، اپنے میزبان کے متعینہ پروگرام کا پابند ہوتا ہے، اس لیے پھر میں نے، مولانا کے میزبان *مولانا تابش قاسمی ندوی* سے رابطہ کیا.

*مہمانان گرامی قدر کا مختصر تعارف*

*مولانا ضیاء الدین صاحب قاسمی ندوی*

مولانا ضیاء الدین صاحب قاسمی ندوی کی پیدائش: 5/ اگست 1957 کو، اتراری خیراباد میں ہوئی. پرائمری تعلیم سے لیکر، عربی چہارم تک کہ تعلیم مدرسہ منبع العلوم خیرا آباد میں حاصل کی. اور پھر دارالعلوم دیوبند و دارالعلوم ندوہ دونوں علمی کنویں سے، تشنگی دور کی. مولانا موصوف کو اللہ نے بڑی خوبیوں سے نوازا ہے. مولانا موصوف اگر کہا جائے، تو کندہ نا تراش کو، شان دار انداز سے تراش کرکے، قابل بنادیتے ہیں. بڑے ہی خوب صورت انداز میں خوردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس کی صلاحیتوں کو مہمیز لگاتے ہیں. اللہ مولانا موصوف کو، تادیر بصحت و عافیت رکھے.
مولانا موصوف کا شان دار اور جان دار تفصیلی تعارف: *تاریخ خیرآباد اور تذکرہ علماء و دانش وران* 252 تا 258 پر موجود ہے. اس کو پڑھنا چاہیے.

*مولانا تابش قاسمی ندوی*

مولانا تابش صاحب کا تعلق، خیر آباد ضلع مئو، صوبہ اترپردیش سے ہے. ابھی جواں سال فاضل ہیں. قرآن پاک کی خوب صورت تلاوت کرتے ہیں. فی الحال یہیں ممبرا میں مدرسہ رحمہ میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں.

*مولانا زین العابدین صاحب ندوی*

مولانا کے ہمراہ یہ نوجوان فاضل بھی تھے. سلطان پور، اترپردیش سے تعلق ہے. آج کل یہیں مدرسہ رحمہ، ممبرا، میں دینی خدمات پر مامور ہیں. بعد نماز فجر ماشاء روزانہ درس قرآن کا معمول بھی ہے.

خیر مولانا تابش صاحب نے، درخواست قبول کرلیا. اور مولانا کو ساتھ میں لانے کا پروگرام بن گیا. چناں چہ آج: 31/ مئی 2023 کی دوپہر، ظہر کے وقت، مولانا تشریف لائے. نماز ظہر ادا کی. اور پھر ماحضر تناول فرمانے کے بعد، کچھ دیر گفتگو ہوئی. لیکن چوں کہ یہ وقت، آرام کا بھی تھا، اس لیے مولانا نے تھوڑی دیر آرام بھی کرلیا. کتابوں کا قیمتی تحفہ: جس میں *مولانا وزیر احمد اعظمی ندوی صاحب* کی دو کتابیں: یارانِ مہر و وفا، میری محسن شخصیات، اسی طرح معروف محدث مولانا ڈاکٹر محمد ابواللیث صاحب خیرابادی، پروفیسر و استاد کرسی اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی ملیشیا، کی خود نوشت سوانح حیات: بہ نام: *سرگزشت حیات*، (تعارف کے لیے: تاریخ خیرآباد اور تذکرہ علماء و دانش وران، صفحہ: 239 تا 245)، نیز *کتابوں کی سیر* مولف مولانا ضیاء الحق صاحب خیر آبادی، عرف حاجی بابو، اور *تاریخ خیرا آباد اور تذکرہ علماء و دانش وران* مرتبین: مولانا مولانا عبداللہ خالد قاسمی و مولانا ضیاء الحق صاحب خیرابادی مو صول ہوا. اول الذکر مرتب کا تعارف بھی اس کی کتاب میں صفحہ: 21 تا 25 موجود ہے.

قیلولہ کے بعد، یہ پروگرام بنایا گیا کہ مولانا عبد الرزاق ندوی صاحب مقیم حال ممبئی اور مولانا عمران ندوی صاحب، ممبئی ،جن کا آبائی تعلق سلطان پور اترپردیش سے ہے، کہ ان دو بزرگوں کی اگر یہیں تشریف آوری ہوجائے اور بعد نماز عصر چائے کی مجلس لگ جائے. تو اچھا رہے گا ان شاء اللہ. چناں چہ بحمداللہ تقریباً پانچ بجے دونوں بزرگان کی آمد ہوئی. علیک سلیک ہوا. ملتے ہی ان بزرگوں کے سامنے لگتا ہے یادوں کے نقوش سامنے آگئے اور پھر ذرا قرن اول کو آواز دینا، والی کیفیت رہی. اتنے میں نماز عصر کا وقت ہوا. بعد نماز عصر، چائے کی مجلس پر، ان بزرگوں نے، پھر سے رخ سخن ماضی کی طرف، موڑ دیا. اب ذکر خیر تھا، محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمہ اللہ کا، مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ کا، زبردست عالم دین مولانا ابوالعرفان صاحب ندوی رحمہ اللہ کا. دل نے تو چاہا، کہ ان سب جبال علم کا ذکر خیر مزید ہو، لیکن قلت وقت نے، دستک دینا شروع کردیا، چناں چہ واپسی کی تیاری ہوگئی. اور کچھ دیر بعد مجلس ختم. اور علم دوسری طرف چل چلے.

اس مجلس میں اس بات کا احساس ہوا، کہ ہم سب کو پڑھنا چاہیے اور خوب خوب پڑھنا چاہیے. مطالعہ کا شوق پیدا کرنا چاہیے. کتابوں سے انس پیدا کرنا چاہیے. اپنی اس قیمتی زندگی میں کچھ کرنا چاہیے. یہ باتیں محض ایک باتیں نہ تھیں بلکہ حقیقت میں مہمیز لگانے والے کلمات تھے.

اللہ تعالیٰ سب کو خوش رکھے. صحت و عافیت کے ساتھ رکھے.

Comments are closed.