Baseerat Online News Portal

مدارس کے طلبا کی گرفتاریاں،ذمہ دار کون؟

مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی نائب امیر شریعت امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ

مدارس اسلامیہ کا تعلیمی سال شروع ہو چکا ہے۔ مدارس کے احباب اپنی گنجائش کے مطابق داخلہ لے چکے ہیں۔ اس درمیان ملک کی مختلف ریاستوں سے جو خبریں موصول ہو ئیں وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں۔شمالی ہندوستان کی ریاستوں بہار، بنگال،جھارکھنڈ اور آسام سے یوپی،ایم پی، گجرات، مہاراشٹر، آندھرا پر دیش،کرناٹک، تامل ناڈو اور کیرالہ جا رہے کم عمر بچوں کو ٹرین  سے اتار کر چائلڈ ہوم میں ڈال دیا گیا ہے،بچہ مزدوری کے خدشات کی وجہ سے ان سے تفتیش کی جا رہی ہے، ساتھ جانے والے اساتذہ کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ تعلیم وتربیت کے نام پر نونہالان قوم اور ملت کے معصوموں کو بے ترتیب باہر لے جانا مدارس کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔انجام سے بے پروا غریب گارجین اپنے بچوں کو صرف اس لالچ میں باہر بھیج دیتے ہیں کہ وہ علم دین حاصل کر کے لوٹیں گے۔گزشتہ چند برسوں میں  نوخیز اور کم عمر بچوں کو خوشحال ریاستوں میں بھیجنے کا تماشہ زیادہ ہو گیا ہے۔نہ چاہ کر بھی میں تلخ کلامی کر رہاہوں، کیونکہ جب زخم ناسور بن جائے تو اس پر نشتر چلاناناگزیر ہو جا تا ہے۔

پہلے ایسا ہو تا تھا کہ بالغ،باشعور اور عربی درجات کے طلبا اعلی تعلیم کے لئے اپنے علاقے سے باہرجاتے تھے،لیکن حال کے برسوں میں عجیب تماشہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مسلمان دور دراز کے مختلف شہروں میں اپنے لخت جگر کوبھیج رہے ہیں۔انجام سے لا پروا کرتا پائجامہ اورٹوپی پہنے نو عمر بچوں کی الگ الگ ٹولیاں بس اسٹینڈ،ریلوے اسٹیشن اور عوامی مقامات پر بیگ اور بکس اٹھائے منزل کی جانب جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ کثیر تعداد میں ایک ساتھ چھوٹے اور نابالغ بچوں کو لیکرسفر کرنا، ان کی نقل وحرکت اور مایوسانہ نشست وبرخاست پہلی نظر میں ظاہر کر تا ہے کہ یہ انسانی اسمگلنگ اور ہیومن ٹر یفکنگ کا معاملہ ہے۔چہروں سے جھلک رہی مایوسی اور کپڑوں سے چھلک رہی غربت کو محسوس کر کے سرکاری افسران، پولیس کا عملہ، حقوق انسانی کمیشن، چائلڈ لیبر مخالف دستہ اور بچپن بچاؤ تنظیم کے کارندے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ معصوم بچوں کو ان کے وطن سے بندھوا مزدور بنا کر بڑے شہروں میں لے جا یا جا رہا ہے۔ان کو لے جانے والے اساتذہ کابار بار ڈانٹ ڈپٹ کر ان پر رعب جمانا سرکاری ایجینسیوں کے شک کو یقین میں بدل دیتا ہے،جس کی وجہ سے ان کو ٹرینوں اور بسوں سے اتار لیا جاتا ہے اور انہیں پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

کرتا پائجامہ اور ٹوپی والوں کو ہراساں کرنے کے بہانے تلاش کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو؛علماء اور اہل مدارس کا یہ عمل گرفتاری کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔گرفتاری کے بعد متعصب میڈیاطوفان کھڑا کر دیتا ہے۔اس کومسلمانوں اور مدارس کو بدنام کر نے کا ایک موضوع ہا تھ لگ جا تا ہے اور پھر وہ بریکنگ نیوز بناکر پیش کر تے ہیں اور پرائم ٹائم میں اس پر مباحثہ شروع کر دیتے ہیں۔طلباکو لے جانے والے علما ء کو ماسٹر مائنڈ کہہ کر، طلبا کی تصویریں ایسے وائر ل کر تے ہیں گویا وہ دہشت گرد اور بم بلاسٹ کے مجرمین ہوں۔جب تک سچائی سامنے آتی ہے اس وقت تک کافی دیر ہو چکی ہو تی ہے۔مدارس اورمسلمانوں کو جتنا بدنام کر نا مقصد ہواس میں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پولیس ان معصوموں کو بچہ مزدوری کے شک میں گرفتار کر تی ہے اور گاڑیوں میں بھر کر لے جاتی ہے۔ان کا مقصد تفتیش کر نا ہو تا ہے، وہ یہ یقینی بنا نا چاہتے ہیں مستقبل کے ویر سپوتوں کو کوئی غلط کام کے لئے تو نہیں لے جا یاجارہا ہے؟ در اصل وہ ان کو تحفظ فراہم کر نا چاہتے ہیں۔عوامی مقامات پر ان کی چوبیس گھنٹے ڈیوٹی رہتی ہے، و ہ بلا تفریق مذہب اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں سرگرم رہتے ہیں۔

ماضی پر نظر ڈالیں تو چند سال قبل تک صرف بالغ اور ذی ہوش طلبہ کو ہی باہر دور دراز کے شہروں میں حصول علم کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ عربی درجات کے طلبا ثانوی اور اعلی تعلیم کے لئے دوسری ریاستوں کا رخ کر تے تھے۔تقریباگزشتہ ایک دہائی سے ایک نئی چیز دیکھنے کو مل رہی ہے۔مالدار ریاستوں کے مدارس میں مقامی طلبا کا رخ کم ہو تا جا رہا ہے،نظماء حضرات معمول کے مطابق مدارس چلانے کیلئے پسماندہ ریاستوں کے طلبا اور اساتذہ پر منحصر ہو تے جا رہے ہیں۔اس کے لئے اساتذہ کو اس بات کا پابند بنا تے ہیں کہ سالانہ طویل چھٹی کے بعد شوال میں وہ اپنے ساتھ پچیس پچاس طلبا کو بھی لے کر آئیں۔ اس کے لئے اساتذہ کو مامور کیا جا تا ہے، انہیں کرایہ اور خرچ کی شکل میں رقومات دی جا تی ہیں۔رمضان کی مالی فراہمی کے بعد شوال میں یہ اساتذہ اپنے علاقے میں بچوں کے چندہ کے لئے نکل پڑتے ہیں۔گارجین اور والدین کوآمد ورفت کے کرایے کے ساتھ ہر طرح کی سہولت اور مراعات فراہم کرنے کا لالچ دیا جا تا ہے۔بہتر کھانا، عمدہ رہائش، مناسب علاج،معیاری تعلیم اور دیگر سہولیات دینے کا آفر کیا جا تا ہے۔ ایسے میں گاؤں اور دیہات کے فاقہ کش اور غریب و نادار والدین جھک جاتے ہیں اور اپنے جگر گوشوں کوخود سے الگ کرنے اور دور بھیجنے پر آمادہ ہو جا تے ہیں،جب کہ یہ ایسے بچے ہو تے ہیں جنہیں نہ کپڑا دھلنے کا سلیقہ ہو تا ہے، نہ ناک صاف رکھنے کا ڈھنگ۔

بچوں کو بطور چندہ لانے کا یہ مہلک مرض ان اداروں میں زیادہ ہو گیا،جو بڑے شہروں میں کرایے کے ایک یا دو کمرے میں چلتے ہیں، مکاتب نما ان اداروں کو جامعہ اور دارالعلوم کا نام دیا جا تا ہے۔یہاں نہ تعلیم کا درست انتظام اور نہ تربیت کا کوئی اہتمام ہے۔بچہ لانے والوں کو ایک ایک بچے پر دو سے چار ہزار روپے دیا جاتا ہے۔باضابطہ مول تو ل ہو تی ہے اور ڈیمانڈ کیا جا تا ہے۔ان گنہگار آنکھوں نے ایسے کئی ادارے دیکھے ہیں جو شخصی اور ذاتی طور پر چلائے جا رہے ہیں۔یہ کردار نہ صرف علما برادری کو بدنام کر رہا ہے، بلکہ بڑے مدارس کے بجٹ میں بھی سیندھ لگا رہا ہے،مستحق ادارے مالی اعتبار سے کمزور ہو رہے ہیں،قرض کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، ان کے اساتذہ کوکئی کئی ماہ تنخواہیں نہیں مل پاتیں۔ بڑے شہروں اور ترقی یافتہ ریاستوں میں بچہ لانے کا یہ عمل ایک دھندہ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور یہ دینی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

رواں برس بہار کے بیگوسرائے، دانا پور، پٹنہ میں مدارس کے طلبا ٹرین سے اتا ر لئے گئے، ان کو لے کر سفر کرنے والے اساتذہ کا چالان کر کے جیل میں ڈال دیا گیا، بچوں کوچائلڈ ہوم بھیج دیا گیا۔کم وبیش کچھ اسی طرح کا معاملہ بنگلور، حید ر آباد، کو لہا پور،مہاراشٹر اور تمل ناڈو میں بھی پیش آیا۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ مدارس کے بچے حراست میں لئے گئے ہیں،گزشتہ برسوں میں بھی یہ ہوا ہے، حیرت اس بات کی ہے کہ علماء نے یہ کونسا نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔علماء اور ارباب مدارس کایہ عمل دینی اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کاماحول اور موقع فراہم کر رہا ہے اور مدارس بدنام ہو رہے ہیں۔آج کے اس پر آشوب ماحول میں اداروں کے سربراہوں اور نظماء کواحساس کرنا چاہیے کہ انہوں نے مدرسے نہیں بدنامی کی دکانیں کھول رکھی ہیں۔

 

سب سے پہلے والدین اور گارجین حضرات سے کہنا چاہوں گا کہ جو نوعمر بچے دینیات، حفظ اور ابتدائی عربی درجات پڑھنے کے خواہش مند ہیں، ان کے لئے ہر علاقے میں دینی تعلیم وتربیت کا نظم ہے تو پھر آپ اپنے جگر گوشے کو نظروں سے دور کیوں کرتے ہیں۔ملک کے سلگتے ماحول میں ان کے لیے دور کا سفر محفوظ نہیں ہے، اس لئے  اپنے بچوں کو مقامی مدارس میں ہی داخل کرائیں، البتہ جب وہ بڑے ہو جائیں تو اعلیٰ تعلیم کے لیے دور دراز کے مدارس میں بھیج سکتے ہیں۔اس کے باوجود اگر باہر بھیجنے کی ضد ہی ہے تواپنے بچوں کو خود لے کر جائیں، کسی دوسرے کے ساتھ بھیجنا ہو تو ان کو اتھارٹی لیٹر دیں  ”جس میں اس بات کی وضاحت ہو کہ وہ بحیثیت گارجین اپنے بچوں کو اپنی مرضی سے فلاں صاحب کے سپرد، فلاں مدرسہ میں تعلیم کے لیے بھیج رہے ہیں“۔قدیم طلبامدرسہ کے مکمل کاغذات،آئی کارڈ کے ساتھ سفر کریں تاکہ چیکنگ وغیرہ کے وقت بتا سکیں کہ وہ فلاں مدرسہ پڑھنے جا رہے ہیں۔اسی طرح ایک شخص کے ساتھ زیادہ بچوں کو نہ بھیجیں۔اس سے پولیس کو شک پیدا ہوتا ہے پھر بچے اور ان کو لے جانے والے دونوں مصیبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔

چند معروضات شمالی ہند کی پسماندہ ریاستوں کے ارباب مدارس سے بھی کہ آپ مہمانان رسول ﷺ کے لئے معیاری تعلیم کے ساتھ مناسب کھانا، رہائش اور دیگر سہولیات کا انتظام کر یں۔قوم وملت کی رقومات کو تعمیر سے زیادہ تعلیم پر خر چ کر یں، طلبا کی سہولت کا خیال رکھیں۔ علماء اور ارباب مدارس آنکھیں کھولیں، ارد گرد کو دیکھیں اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں۔یہ بچے ملک وملت دونوں کی امانت ہیں ہمیں مشکل حالات میں سب کچھ بچا کر آگے بڑھنا ہے،ہماری صلاحیت، ایمانداری،ہمت اور حوصلہ کے امتحان کا وقت ہے۔

اٹھو وگر نہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

Comments are closed.