ملی ذمےداریاں یا عہدے سپرد کرنے کے چند اہم اصول

ڈاکٹر محمد واسع ظفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملی ذمےداریوں اور عہدوں کو رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے امانت بتایا ہے اور انہیں سونپنے کے سلسلے میں چند اصول بھی قائم فرمائے ہیں جن کی ان دیکھی کرنے کی وجہِ سے ہی ملی ادارے انتشار، تنزلی و انحطاط کا شکار ہیں۔
ان میں سے ایک بہت ہی اہم اصول جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا وہ یہ تھا کہ آپ امارت، عہدے یا ذمےداریاں کسی ایسے شخص کے سپرد نہیں کرتے تھے جو خود اس کا خواہشمند ہو۔ روایتوں میں ہے کہ اشعری قبیلے کے دو اشخاص ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ کے توسط سے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ملے اور عہدوں کی درخواست کردی۔ جس پر رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
’’لَنْ (أَوْ لَا) نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہُ “ (صحیح البخاری، رقم الحديث ٢٢٦١، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔
یعنی "جو شخص حاکم بننے کا خود خواہشمند ہو، اسے ہم ہرگز حاکم نہیں بنائیں گے۔”
یہ روایت صحیح ابن حبان میں بھی جس کے الفاظ ہیں:
’’اِنَّا وَ اللهِ لَا نُوَلِّی عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ اَحَدًا سَاَلَہٗ، وَ لَا اَحَدًا حَرَصَ عَلَیْهِ“ (الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان، رقم الحديث ٤٤٨١، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔
مفہوم: "اللّٰہ کی قسم! ہم اس کا کا نگراں کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کریں گے جو اسے مانگتا ہو اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو اس کی حرص رکھتا ہو۔”
(نیز دیکھیں سنن نسائی، رقم الحدیث ۴)
دوسرا اہم اصول یہ ہے عہدے اور ذمےداریاں ایسے شخص کے سپرد کئے جائیں جو اس کا اہل ہو یعنی اس کی مطلوبہ صلاحیت رکھتا ہو۔ حضرت ابوذر رضی اللّٰہ عنہ نے ایک بار رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے امارت کی درخواست کی تو آپؑ نے فرمایا:
"يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةُ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا ۔“ (صحیح مسلمؒ، رقم الحديث ٤۷۱۹)
مفہوم: "اے ابوذر! تو کمزور ہے اور بلاشبہ یہ (امارت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس سلسلے میں جو ذمےداریاں اس پر عائد تھیں اس کو ادا کیا۔”
ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ ایک مجذوب قسم کے صوفی انسان تھے، رسول اکرم صلی اللّٰہ سے اور ان کی سنتوں سے بے حد محبت کرتے تھے، مال و دولت کی انہیں کوئی لالچ بھی نہیں تھی بلکہ وہ مال و دولت کو جمع کر کے رکھنے کو درست بھی نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے اس موقف کی وجہ سے بعض صحابہ کو ان سے اختلاف بھی رہتا تھا۔ ان سب کے باوجود رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں انتظامی امور کے لئے کمزور بتایا اور انہیں یہ کہہ کر منع کردیا کہ یہ عہدہ ایک امانت ہے، اور جو اس کے حقوق کو ادا نہیں کرے گا اس کے لئے یہ قیامت میں ذلت ورسوائی کا سامان بنے گا، اس لئے تم اس میں مت پڑو۔
عہدے اور ذمےداریاں نا اہل لوگوں کے سپرد کرنے کو آپؑ نے امانت کا ضیاع اور قیامت کی ایک نشانی بتایا ہے۔ آپؑ نے فرمایا:
"إِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ ، فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ ، قَالَ : كَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ : إِذَا أُسْنِدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ” (صحيح البخاري، رقم الحديث ٦٤٩٦)
مفہوم: "جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا گیا: اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم! امانت کس طرح برباد کی جائے گی؟ آپؑ نے فرمایا جب کام (ذمےداری) نااہل لوگوں کے سپرد کئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔”
پتا یہ چلا کہ عہدے نااہلوں کو سپرد کرنا بھی ایک قسم کی خیانت ہے جس میں آج کل لوگ بری طرح سے مبتلا ہیں ۔ ملی اداروں میں وراثت اور اقربا پروری کا دور دورہ ہے۔ ملت کے مخلص اور لائق ترین افراد جو عہدوں کےلئے پیروی، چاپلوسی، سیاست یا لابی بازی نہیں کرتے انہیں ان عہدوں سے محروم رکھا جاتا ہے جس کا لازماً نتیجہ داخلہ انتشار، تنزلی و انحطاط کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ تو قوم کے ساتھ اس سے بڑھ کر خیانت اور کیا ہوگی؟ ساتھ ہی یہ اہل اور لائق ترین افراد کے ساتھ ظلم بھی ہے۔ اس لئے جو لوگ ایسے عہدوں پر ہوں یا ایسی مشاورتی کمیٹیوں میں شامل ہوں جنہیں کسی کو منتخب کرنے کا اختیار رہتا ہے وہ اس بات کا اہتمام کریں کہ لائق ترین افراد کی تلاش ہو اور انہیں ہی ذمےداری سپرد کریں ورنہ خدا کے دربار میں وہ بھی خائن تصور کئے جائیں گے۔
ملی ذمےداری تو ایسے لوگوں کے بالکل ہی سپرد نہیں کئے جانے چاہیے جو اس کے حریصِ ہوں۔ ساتھ ہی ایسے لوگوں کے بھی سپرد نہیں کئے جانے چاہیے جو اپنے ذاتی ادارے چلاتے ہوں بلکہ عہدہ سونپنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص ذاتی ادارے کے قیام کی طرف راغب دکھائی دے تو اسے فوراً اس عہدے سے برخاست کر دینا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ذاتی ادارے کے قیام اور اس کے فروغ میں لگ جائے وہ ملی ادارے کو نقصان پہنچائے بغیر نہیں رہے گا کیونکہ نہ وہ اپنی پوری توجہ اس ادارے پر دے گا اور نہ ہی اپنی مکمل صلاحیت اس پر لگائے گا۔ امت میں آج بھی باصلاحیت اور مخلص افراد کی کمی نہیں، بس انہیں پہچاننے اور آگے لانے کی ضرورت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین!
Comments are closed.