بی جے پی کی گھیرا بندی کا باقاعدہ آغاز

عبدالرحمن صدیقی (ایگزیکٹیو ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
دارالحکومت دہلی میں عام آدمی پارٹی کے رہنما اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے پارٹی کی ایک ریلی میں جس ڈھنگ سے وزیر اعظم نریندر مودی پر بڑھ چڑھ کر حملے کیے اور بی جے پی پر ایک کے بعد ایک لگاتار وار کیے اور جس طرح اس ریلی کو عوامی پذیرائی حاصل ہوئی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے ذریعہ ۲۰۲۴ میں بی جے پی کی گھیرا بندی کے عمل کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے اور اس مہم کا اگلا پڑائو پٹنہ میں ہوگا جہاں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ۲۳ جون کو ملک کی سرکردہ اپوزیشن پارٹیوں کا اجلاس طلب کیا ہے ۔ ان سب کو راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا ، کرناٹک الیکشن میں کانگریس کی کامیابی اور راہل گاندھی کے دورہ امریکہ کو ملنے والی پذیرائی سے جوڑ کر دیکھا جائے تو تصویر مکمل ہوجاتی ہے، حال کے دنوں میں بی جے پی کی مقبولیت تیزی کے ساتھ گھٹی ہے۔ اور اسی تیزی کے ساتھ کانگریس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، اور راہل گاندھی کا قد صرف قومی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی اونچا ہوا ہے، بی جے پی ممبر پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کو جس طرح مودی حکومت بچانے کی کوشش کررہی ہے اس سے پورے ملک میں بالخصوص پنجاب ، ہریانہ ، راجستھان اور مغربی یوپی میں بی جے پی کے خلاف زبردست ناراضگی پائی جاتی ہے، ابھی حال کے دنوں میں اڈیشہ کے بالا سور میں ہونے والے ٹرین حادثے نے بھی مودی حکومت کی ساکھ کو بہ نقصان پہنچایا ہے۔
راہل گاندھی کی مقبولیت سے حکومت اس حد تک خوفزدہ ہے کہ پہلے تو پارلیمنٹ میں بولنے نہیں دیاگیا پھر ایک عدالتی فیصلہ کی آڑ لے کر انہیں لوک سبھا کی رکنیت سے محروم کردیاگیا اور ان کا سرکاری بنگلہ چھین لیا، نیشنل ہیرالڈ معاملے میں ان پر پہلے سے ہی کیس چل رہا ہے، ٹھیک اسی طرح ۲۳ جون کو پٹنہ میں اپوزیشن رہنمائوں کی میٹنگ میں شرکت کرنے والے کچھ رہنمائوں کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کے استعمال کا بھی خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے، ان تمام حالات وواقعات کے درمیان یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کے اعصاب پر ۲۰۲۴ کا لوک سبھا الیکشن اور اس سے قبل چار ریاستی اسمبلییوں کے الیکشن میں شکست کا خطرہ بری طرح مسلط ہے۔
۲۰۱۴ میں وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کی فتوحات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب تھمتا نظر آرہا ہے، اس وقت ملک کی چار ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، یہ ریاستیں اترپردیش، اتراکھنڈ، آسام اور گجرات ، کچھ دیگر ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں ہے یا اقتدار میں شریک جیسے ہریانہ میں بی جے پی حکومت جن نائک جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر بنی ہے، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں دھاندلی کے ذریعہ اس نے حکومت پر قبضہ کررکھا ہے اور دونوں جگہ اس کی غیر معقولیت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔
کرناٹک کے چنائو نتائج سے ثابت ہوگیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصیت اور ہندو توا پر ایک حد سے زیادہ بھروسہ نہیں کیاجاسکتا، آر ایس ایس بی جے پی اور حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود پوری آبادی کو فرقہ پرست نہیں بنایا جاسکتا ہے، جتنے ووٹ بی جے پی کو ملتے ہیں اس سے زیادہ ووٹ بی جے پی کے خلاف ڈالے جاتے ہیں، لیکن چونکہ یہ ووٹ منتشر ہوتے ہیں اس لیے بی جے پی اقتدار میں آجاتی ہے، اسی صورتحال کو مدنظر رکھ کر اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یعنی اگر بی جے پی کے مقابلے میں اپوزیشن کا متحدہ امیدوار میدان میں ہوتو بی جے پی کو شکست دی جاسکتی ہے حال کے دنو ںمیں کانگریس پارٹی کی مقبولیت بھی بڑھی ہے، اور اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، ملک کی کئی اہم ریاستوں میں کانگریس کا سیدھا مقابلہ بی جے پی سے ہے، راجستھان ، مدھیہ پردیش کرناٹک چھتیس گڑھ گجرات ہریانہ اتراکھنڈ میں اس کا سیدھا مقابلہ کانگریس سے ہے، کرناٹک میں جنتا دل حاشیے پر چلی گئی ہے، ہریانہ میں جن نائک جنتا پارٹی جو اس وقت بی جے پی کی حلیف ہے وہ دوسری طرف دیکھ رہی ہے، مہاراشٹر میں کانگریس کا این سی پی اور شیوسینا کے ساتھ گٹھ بندھن ہے، بہار میں نتیش کمار اور تیجسوی یادو کے ساتھ اس کا اچھا تال میل ہے، جھارکھنڈ میں وہ ہیمنت سورین کے ساتھ حکومت میں شامل ہے، اترپردیش اور مغربی بنگال میں کانگریس کا سما ج وادی پارٹی ، لوک جن شکستی پارٹی اور ممتا بنرجی کے ساتھ گٹھ بندھن تھوڑا مشکل ہے، کیو ںکہ سب کا ووٹ بینک ایک ہی ہے، امید ہے کہ پٹنہ میں اپوزیشن رہنمائوں کی میٹنگ میں اس کا کوئی راستہ نکل لیاجائے۔
Comments are closed.