زندگی کو "جنگ” بننے سے بچائیں

از: محمد اللہ قیصر
کیا آپ نظر انداز کرنے کے ہنر سے واقف ہیں اگر نہیں تو سیکھ لیں، ورنہ زندگی جنگ بن کر رہ جائے گی۔
زندگی میں ہر موڑ پر کسی نہ کسی تکلیف کاسامنا کرناپڑتا ہے، بلکہ زندگی دشواریوں کے سائے میں چلتی رہتی ہے، آپ دشواریوں سے چور ہو کر تھکنے لگتے ہیں تو تازہ دم کرنے کیلئے کہیں کہیں خوشیوں کا ایک خوشگوار ، جھونکا آجاتا ہے پھر وہی روزو شب کے فسانے، دنیا بھر کے مسائل ۔
اس کے بھی اپنے فائدے ہیں ، زندگی کے مصائب بندوں کو ایک طرف احتیاج اور عاجزی کا احساس دلاتے ہیں، تو بندے رب کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوتے ہیں، دوسری طرف اس کی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ رب سے اعانت کی درخواست کے ساتھ اس کی عطا کردہ قوت کا استعمال کرتے ہوئے مشکلات و مصائب کا مقابلہ کیا جائے، پھر وہ کوشش کرتا ہے تو اس کے سامنے یہ راز کھلتا ہے کہ "ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں” ہر لمحہ خوشی کے مرغزاروں میں گذرے تو بندہ عناد اور خود سری کا شکار ہو سکتا ہے ",اذا مسه الخير منوعا” ، بلکہ انسانی تاریخ تو یہ بھی بتاتی ہے کہ خوشی کا تناسب بڑھ جائے یا اس کا احساس حد سے تجاوز کرجائے تو اندیشہ ہے کہ "أنا ربکم الاعلیٰ” کا اعلان نہ کر بیٹھے۔
بہر حال انسانی زندگی مسائل سے گھری ہوتی ہے ذاتی مسائل، عائلی مسائل، اجتماعی مسائل، گھر، آفس، ہر جگہ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جو پل بھر میں خوشگوار زندگی کو مکدر بنا سکتا ہے، مسرتوں کے گلال سے رنگین سرخ چہرے کو غیض و غضب کا دھول چشم زدن میں سیاہ کر سکتا ہے، ذاتی مسائل میں ذہن الجھتا ہے، تو چرچراہٹ پیداہوتی ہے، جو اکثر دوسروں کے ساتھ تعامل کے وقت ظاہر ہوتی ہے، سماجی زندگی میں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان کے ساتھ معاملات ہوتے ہیں، تو فطری طور پر مسائل ظہور میں آتے ہیں، کبھی بات بگڑتی ہے تو الجھ پڑتے ہیں، گالم گلوچ، بے جا بحث، تلخ کلامی، بات آگے بڑھتی ہے تو مار پیٹ، اور قوت نہیں ہے، تو انتقامی جذبہ میں ڈوب جاتے ہیں پھر موقع کی تلاش میں ہر لمحہ اندر ہی اندر سلگتے رہتے ہیں، تڑپتے رہتے ہیں، اس طرح اپنی خوبصورت زندگی کو جہنم بنالیتے ہیں۔
ایسا اسلئے ہوتا ہے کہ لوگ مسائل سے صرف نظر کو ہتک عزتی، سمجھتے ہیں،انہیں اپنی کمتری محسوس کرتے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ نظر اندار کرنے والے اپنے ہدف پر نظر گڑائے آگے بڑھتے رہتے ہیں، اور وہی کامیاب بھی ہوتے ہیں، الجھنے والے کا دامن مسائل کے کانٹوں سے تار تار ہوجاتا ہے، جب تھوڑی سانس ملتی ہے، اور پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو زندگی ناکامیوں کا مجموعہ نظر آتی ہے، اس وقت اپنی حالت زار پر آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔
اسلئے کامیاب اور بار آور زندگی کیلئے مسائل کو نظر انداز کرنا ضروری ہے،
اللہ پاک نے اپنے محبوب بندوں کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ جب ان سے جاہل، اجڈ، جھگڑالو اور مشتعل مزاج لوگ ملتے ہیں تو وہ سلام کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، ان سے الجھ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے، ان کے جہالت زدہ اقوال و افعال میں اپنا سر نہیں کھپاتے،
وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِيۡنَ يَمۡشُوۡنَ عَلَى الۡاَرۡضِ هَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الۡجٰهِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا
ترجمہ:
اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی اور نرمی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب ان سے مخاطب ہوتے ہیں جاہل لوگ تو وہ ان کو سلام کہہ دیتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اسلاف کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جن سے پتہ چلتا کہ انہوں نے کہیں خود کو بے فائدہ اور تضییع اوقات کا سبب بننے والے مسائل میں الجھنے نہیں دیا، جب ایسا موقع آیا، نظر انداز کرکے آگے بڑھ گئے۔
ہر بات میں مواخذہ کی فکر کرنے والے دوسروں سے لڑتے ہیں، جبکہ نظر انداز کرنے والے کی جنگ اپنے نفس سے ہوتی ہے، اور خود پر قابو پانا آسان ہے، دوسروں سے الجھنا بے سود اور وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں۔
نظر انداز کرنا دشوار ،صبر آزما اور مشکل عمل ضرور ہے، لیکن نا ممکن نہیں صبر و ضبط اور حکمت عملی کے ساتھ انجام پر نگاہ ہو تو یہ آسان ہوجاتا ہے، ہاں یہ درست ہے کہ آپ ہربات سے صرف نظر نہیں کرسکتے مواخذہ بھی ضروری ہے، ورنہ ظالمانہ طبیعت رکھنے والوں کے حوصلے بڑھ سکتے ہیں اور ان سے مزید ظلم و تعدی کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے، مفسدوں کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے، ان کو آنکھ نہ دکھائی جائے تو زمین فساد کا گہوارہ بن سکتی ہے، اللہ کے نیک اور شریف بندوں کا جینا دشوار ہوسکتا ہے، اور یہ تو سنت الہی ہے کہ مفسدوں کی حوصلہ شکنی کیلئے اللہ خود اپنے بندوں میں سے کسی جماعت کو کھڑا کردیتا ہے جو ظالموں اور مفسدوں کا قلع قمع کرسکے انہیں ظلم سے روک سکے، اللہ نے اپنی اس سنت کو بندوں پر اپنا فضل قرار دیا ہے۔
وَلَوۡلَا دَفۡعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعۡضَهُمۡ بِبَعۡضٍ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَلٰـکِنَّ اللّٰهَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى الۡعٰلَمین۔
:ترجمہ
اللہ ایک گروہ کو دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالیٰ تو تمام جہانوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔
حدیث پاک حکم ہے "انْصُرْ أخاكَ ظالِمًا أوْ مَظْلُومًا..(اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم)اور ظالم کی مخالفت کرکے اسے ظلم سے روکنے کے عمل کو اس کی مدد قرار دیا گیا۔
چناں چہ جہاں جانی، مالی، دینی یا سماجی کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہ ہو، یا عدم التفات کی صورت میں جس نقصان کا احتمال ہے مواخذہ کی صورت میں اس سے بڑے نقصان کا خطرہ ہو، وہاں نظر انداز کرکے آگے بڑھنا حکمت کا تقاضا ہے۔
نظر انداز نہ کرنے کا اہم ترین نقصان یہ ہے کہ انسان کا ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے وہ اپنے مشن سے بھٹک جاتا ہے، اور ہدف سے نگاہ اچٹتی ہے تو اس کیلئے جو جذبہ، محنت، اور لگن مطلوب ہے وہ نہیں ہوپاتی، نتیجۃ ناکامی ہاتھ لگتی ہے اور بالآخر کف افسوس ملنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا،
Comments are closed.