رشتوں کی قدر کیجئے

 

از: محمد اللہ قیصر

دورانِ سفر ڈرائیور صاحب سے گفتگو ہونے لگی، اپنا دکھڑا سناتے ہوئے انہوں نے کہا، آج کل رشتہ داروں سے بہت پریشان ہوں، پریشانی کی نوعیت کیا ہے؟ وہی لین، دین، اس کی ضرورت ،اس کی حاجت، اور کچھ نہیں۔پھر میں نے کہا تھوڑی دیر کیلئے تصور کیجئے کہ آپ تنہا ہیں، جو کماتے ہیں وہ صرف اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں، کچھ فقراء میں تقسیم کیا، کچھ ذخیرہ کیا، اوراس طرح آپ کے پاس ایک بڑا اماونٹ بیلینس ہے، جس سے یہ خوف بھی نہیں کہ مستقبل میں آپ کے مصارف کا انتظام کہاں سے ہوگا یہ سارے رشتے ناطے ختم، آپ کے ارد گرد ان میں سے کوئی نہیں؛ لہذا ان پر اپنی آمدنی کے صَرف ہونے کا اندیشہ بھی نہیں ہے۔

وہ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہو گئے، شاید سوچنے لگے پھر گویا ہوئے: بھائی صاحب: آپ کیا کہہ رہے ہیں، تنہائی کی زندگی تو ایک عذاب ہے، یہ نہیں ہوں گے تو، ہماری خوشیوں میں کون شریک ہوگا، غم کون بانٹے گا، میں نے پھر سوال کیا، اب بتائیں ابھی رشتہ داروں سے ملنے والی چھوٹی موٹی پریشانیوں کے ساتھ زندگی دشوار ہے یا ان کے نہ ہونے سے پیدا ہونے والا سناٹا زیادہ خوفناک ہوگا، مسکراتے ہوئے بولے کہ ان رشتہ داروں کے دم سے ہی تو زندگی میں بہار ہے۔

درحقیقت رشتوں کے بغیر انسان اس تنکے کی مانند ہے جو ندی کی بپھرتی لہروں کے سہارے ہوتا ہے، وہ چاہے جہاں لے جائے، رشتہ داری ایک مضبوط قلعہ ہے جو انسان کو مصائب و مشکلات کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے، وہ انسان کو معنوی قوت فراہم کرتی ہے، جس کے سہارے انسان دشواریوں کے بلا خیز طوفان سے بھی ٹکراجاتا ہے، موت کے منہ میں بھی اسے یہ احساس زندہ رکھتا ہے کہ اس کے اعزاء و اقارب اس کی پشت پر کھڑے ہیں؛ لہذا مصائب کو پیچھے ہٹنا ہوگا، دشواریوں کو ہزیمت اٹھانی ہی ہوگی۔

شریعت میں رحمی رشتہ داروں کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے، حقوق کی تعیین میں الاقرب فالاقرب کی ترتیب رکھی گئی ہے، وَاُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلٰى بِبَعۡضٍ فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ۞

ترجمہ: اور رحمی رشتے دار اللہ کے قانون میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں یقیناً اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔

دیگر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے، اور رشتہ داروں سے قطع تعلق پر سخت وعید ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ قاطِعٌ

رشتہ داری کی حفاظت کرنے والوں کو خوشخبری سنائی گئی کہ ان کے رزق میں وسعت دی جائیگی اور ان کی عمریں بڑھادی جائیں گی

مَن سَرَّهُ أنْ يُبْسَطَ له في رِزْقِهِ، أوْ يُنْسَأَ له في أثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ۔

غور کیجئے بچپن میں بھائی بہنوں کی جماعت ہوتی ہے، خوشی اپنے عروج پر ہوتی ہے پھر سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوجاتے ہیں، بالخصوص آج کے "نظام حیات” میں تو ایک ماں باپ کے بچے شہروں میں اسی طرح گم ہوجاتے ہیں جیسے پرندوں کے چوزے پَر نکلتے ہی آسمان کی وسعت میں پھیل جاتے ہیں اور کچھ دنوں بعد ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں، ان سب سے دوری ہوتے ہی انسانی زندگی چھوٹی موٹی ان بن سے پاک تو ہوجاتی ہے؛ لیکن زندگی میں کیف و سرور باقی نہیں رہتا، بیوی بچے ساتھ ہوتے ہیں؛ لیکن بھائی بہنوں کے درمیان بیٹھ کر ایک دوسرے کی باتوں پر لگنے والا بے تکلف قہقہہ نہیں رہتا، وہ بے فکری نہیں رہ پاتی جو بھائی کے ساتھ رہتے ہوئے ہوتی ہے، زندگی کی ساری تگ و دو "خود سے شروع ہوکر خود پر ہی ختم ہوجاتی ہے”، "زندگی کی تلاش” میں لوگ خود کو کہیں کھو بیٹھتے ہیں، انہیں اپنوں سے ملنے کی فرصت نہیں اور اگر فرصت ہے تو خود غرضی یہ خوف دلاتی ہے کہ دوسری طرف سے کہیں ضرورت کا اظہار نہ ہوجائے.

جانور اپنے ماں، باپ، بھائی، بہن کو چھوڑ کر نیا رشتہ بنا لیتے ہیں ، بعض تو تنہا زندگی گذارتے ہیں،پھر بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؛ لیکن انسانی نفسیات عجیب و غریب ہے، اسے قدم قدم پر بے لوث محبت کرنے والے کی ضرورت پیش آتی ہے، جانوروں کے برعکس انسان ایسے لوگوں کا محتاج ہوتا ہے جو بے بسی اور لاچاری میں "سراہے جانے کی تمنا”، "تحسین و تعریف کی آرزو” اور "اجرت کی طلب” سے پاک ہوکر اس کے سامنے دستِ تعاون دراز کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، بستر مرگ پر پڑے انسان کی خدمت دوسرے لوگ کرتے ہیں تو قیمت وصول کرتے ہیں، مال کی شکل میں یا احسان جتلاکر؛ لیکن شفقت و محبت کے خمیر سے پیدا ہونے والا خدمت کا جذبہ تو صرف اپنوں میں ہوتا ہے جنہیں یہ خوف ستاتا ہے کہ کہیں وہ آپ کو کھو نہ دیں، ان کیلئے آپ کی ذات قیمتی ہوتی ہے، آپ کا اثاثہ نہیں، غور کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ انسان کی تعمیر میں ماں، باپ بھائی بہن،،دادا دادی، نانا نانی، کے ساتھ دیگر قریبی رشتہ داروں کے کردار کی اہمیت نا قابل فراموش ہے، یہ سب انسانی جسم کی نشوونما کے ساتھ ذہن کی ساخت و پرداخت اور اس کی ترکیب و اصلاح میں بڑا رول ادا کرتے ہیں، سماجی اعلی اقدار وہ یہیں سے سیکھتا ہے، پھر اسی کے مطابق دوسروں کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے، سماجی تعلقات اتنے مضبوط نہیں ہوتے کہ مصیبت کی آندھی میں وہ سہارا بن سکیں، وہاں تو صرف بدلہ ہوتا ہے، "جیسے کو تیسا” بے لوث محبت اور بے غرض تعاون کی امید صرف رشتہ داروں سے ممکن ہے، انسان بیمار پڑتا ہے، سارے سہارے دغا دے جاتے ہیں، چاروں طرف ناامیدی کا اندھیرا پھیل جاتا ہے، وہاں بھی آنکھ کھلتی ہے تو غریب اور ناتواں اقارب کی بھیڑ ہی اردگرد خدمت میں مصروف نظر آتی ہے.

حدیث پاک میں صلہ رحمی کرنے والوں کی عمر میں برکت اور رزق میں وسعت کی بشارت سنائی گئی، ظاہری وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ صلہ رحمی کرنے والے ذہنی سکون کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں،

اور جس قدر ذہنی سکون میسر ہوتا ہے، انسانی قوت فکر و عمل اسی قدر فعال ہوتی ہے، جس سے خوابیدہ صلاحیتوں کے ظہور پذیر ہونے کا امکان دو چند ہوجاتا ہے، نیز فکر و عمل کی قوت اسے ہردم حرکت پر ابھارتی ہے، اس سے ذہن کے دریچے کھلتے ہیں اور انسان چاق و چوبند رہتا ہے، کسل مندی، اور سستی سے بچتا ہے، اور انسانی جسم جس قدر حرکت کرتا ہے اسی قدر توانا، مضبوط اور صحت مند ہوتا ہے، واضح رہے کہ جسم کے استحکام کا مدار اعصابی نظام پر ہے، جو جسم کے مختلف اعضاء و جوارح کو کنٹرول کرکے ان کی سرگرمیوں میں ربط و ضبط پیدا کرتا ہے، انسان کا اعصابی نظام جس قدر مضبوط ہوگا جسم اسی قدر صحت مند اور توانا ہوگا، دیگر اعضاء اتنی ہی تندہی سے اپنی سرگرمیاں انجام دیں گے؛ لہذا جسم میں استحکام اور اس کی سرگرمیوں میں نظم و نسق درست رکھنے کیلئے اعصابی نظام کو مضبوط رکھنا لازمی ہے، اطباء کہتے ہیں کہ حرکت جسم کے اعصابی نظام کو مضبوط رکھنے کی کلید ہے، کمزور اعصاب کو مضبوط کرنے کیلئے اطباء دوا سے زیادہ ورزش کی تلقین کرتے ہیں۔

نیز ذہنی سکون سے نشاط پیدا پیدا ہوتا ہے جس سے دماغ میں خون کے دوران کا توازن برقرار رہتا ہے، اس طرح ذہن توانا رہتا ہے، فکر کے ساتھ عمل کا جذبہ ابھرتا ہے، ترکیز اور یکسوئی کی قوت پیدا ہوتی ہے، جس میں انسانی زندگی کی ترقی کا راز ہے۔

رشتے ناطے کا سماجی فائدہ یہ ہے رشتہ دار ایک دوسرے کو "مارل سپوٹ” دیتے ہیں، جس سے زندگی کے تلاطم خیز طوفانوں سے لڑنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے، مصائب کے سامنے خود سپردگی کے بجانے مقابلہ کا جذبہ انگڑائی لیتا ہے، وہ آخری سانس تک لڑتا ہے بالآخر زندگی کی جنگ میں اسے فتحیابی نصیب ہوتی ہے۔

صلہ رحمی ایک طرف انسانی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے تو دوسری طرف سماجی زندگی میں یہی اقارب اس کے دست و بازو بنتے ہیں، اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں؛ اسلئے رشتہ داروں کے ساتھ رہتے ہوئے ظہور پذیر ہونے والے چھوٹے مسائل کو نظر انداز کیجئے، ناقابلِ برداشت ہوں تو مل بیٹھ کر حل کیجئے اور ہر حال میں ان رشتوں کی حفاظت کیجئے ۔

Comments are closed.