قربانی فضائل، مسائل، آداب

ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
(چیف ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی)
E-mail:- [email protected]. Mob:-
9826268925
قربانی کی ابتداء:
قرآنِ حکیم کی اس آیت ِمبارکہ
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکًا لِّيَذْکُرُواٱسْمَ ٱللہِ عَلَىٰ مَا رَزَقَہُم مِّنۢ بَہِيمَۃِ ٱلْأَنْعَـٰمِ (سورۃ الحج 34)
’’اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں ۔‘‘
سے معلوم ہواکہ قربانی شروع ہی سے ہر اُمت یعنی ہر قوم پر مقرر کی گئی تھی جبکہ قربانی دینے کے طریقے مختلف تھے۔ قرآنِ مجید میں یہ مذکور ہے کہ سب سے پہلے ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی، ایک بیٹے کی قربانی قبول ہوگئی جبکہ دوسرے کی ردّ کردی گئی۔ قربانی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے پیارے لخت ِ جگر سیدنااسماعیل علیہ السلام کی قربانی اللہ کی راہ میں پیش کردی اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کو شرف ِ قبولیت بخشتے ہوئے ان کے بیٹے کی جگہ جنت سے بھیجے گئے دُنبے کو ذبح کروا دیا۔
قربانیوں کا یہ سلسلہ بدستور جاری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب محمد ﷺکو بھی بذریعہ وحی قربانی دینے کا حکم فرمایا:
إِنَّآ أَعْطَيْنَـٰکَ ٱلْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَٱنْحَرْ (سورۃ الکوثر) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمائی ،لہذا آپ اپنے رب کے لیے نماپڑھیں اور قربانی بھی دیں۔
قربانی کی فضیلت :
حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو قربانی کرنے پر کیا اجر و ثواب ملے گا؟ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے بدلہ ایک ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرام نے پھر سوال کیا کہ جن جانوروں کے اوپر اون ہوتی ہے، ان کی قربانی کرنے پر کیا اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ملے گی۔ (مشکوٰۃ المصابیح 1/129)
حدیث شریف میں ہے کہ قربانی کرتے وقت خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے نزدیک مقبول ہوجاتا ہے لہٰذا بشاشتِ قلب و خوش دلی سے قربانی کرو۔ (ترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ذو الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عید الاضحٰی کے دن فرزند آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ (زندہ ہوکر) آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے پس اے خدا کے بندو دل کی پوری خوشی سے قربانی کیا کرو۔(معارف الحدیث 3/246)
قربانی کے ایام:
قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے، اس کے لئے اللہ نے وقت متعین کر رکھا ہے، قربانی سال بھر میں صرف تین دنوں تک جائز ہے اور وہ ذو الحجہ کی دسویں، گیارہویں، بارہویں تاریخیں ہیں، ان تین دنوں میں جب چاہے قربانی کر سکتے ہیں لیکن ان میں پہلا دن سب سے افضل ہے۔ (در مختار 463)
قربانی کا وقت:
عیدالاضحیٰ کی دسویں تاریخ سے لیکر بارہویں تاریخ کی شام (آفتاب غروب ہونے سے پہلے) تک قربانی کا وقت ہے۔ اس میں جب چاہے قربانی کی جاسکتی ہے۔ روشنی وغیرہ کا معقول انتظام ہو تو رات میں بھی قربانی جائز ہے، البتہ اگر روشنی وغیرہ کا معقول انتظام نہ ہو اور تاریکی کی وجہ سے صحیح طور پر ذبح نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر رات میں قربانی کرنا خلاف اولیٰ اور مکروہ تنزیہی ہے۔ (البحر الرائق 8/322)
قربانی کس پر واجب ہے؟
ہر وہ شخص جس پر صدقہ فطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے یعنی وہ بالغ مسلمان جو قربانی کے دنوں میں نصاب کا مالک اور مقیم ہو یہ ضروری نہیں کہ وہ ایک سال سے نصاب کا مالک ہو، نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس اپنی بنیادی ضرورت کے علاوہ کوئی بھی سامان یا نقد رقم اتنی موجود ہو جو ساڑھے باون تولہ چاندی یعنی 612 گرام 360 ملی گرام کی قیمت کو پہنچ کو پہنچ جائے۔
(شامی کراچی 6/312)
ہر صاحب نصاب پر علیحدہ قربانی واجب ہے:
اگر کسی گھر میں والد، والدہ، بیوی، بھائی، بہن، بیٹا، بیٹی سب ایک ساتھ رہتے ہوں اور ان میں کا ہر ایک شخص علیحدہ طور پر نصاب کا مالک ہو تو ہر ایک کے ذمہ قربانی کرنا واجب ہے۔ صرف گھر کے سربراہ کی طرف سے قربانی کر لینا کافی نہیں یا ایک دو بکرے کرکے سب کی طرف سے کافی سمجھ لینا بھی صحیح نہیں، اسی طرح مرحوم والدین اور دوسرے بزرگوں کی طرف سے قربانی کرکے یہ سمجھ لینا کہ اب پورے گھر کے افراد کے ذمہ سے وجوب ساقط ہوگیا صحیح نہیں ہے۔ (آپ کے مسائل 182/4)
قربانی کے جانور کی عمریں:
بکرا، بکری مکمل ایک سال کا ہونا ضروری ہے، بھیڑ، دنبہ اگر اس قدر موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہوتا ہے تو چھ ماہ کی عمر میں اس کی بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ گائے، بیل، بھینس، بھینسا کم سے کم دو سال کا ہونا ضروری ہے مگر اونٹ میں شرط یہ ہے کہ پانچ سال سے کم نہ ہو۔ گائے، بیل، اونٹ، بھینس، بھینسا میں اگر سات آدمی شریک ہو کر قربانی کریں تو درست ہے مگر سات سے زائد کا شریک ہونا درست نہیں اگر کم شریک ہو تو کوئی حرج نہیں۔ (درمختار) لیکن ساتوں شرکاء کی نیت قربانی یا عقیقہ کا ہونا ضروری ہے، اگر کسی ایک فرد کی بھی گوشت خوری یا گوشت بیچنے کی نیت ہے، تواس ایک فرد کی بدنیتی کی وجہ سے کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔ (فتاویٰ محمودیہ 232/4)
کن جانوروں کی قربانی درست ہے:
حاملہ، بانجھ جانور، امریکن یا جرمنی گائے جسے جرسی کہتے ہیں جو عام گایوں کی طرح کھاتی پیتی ہے ان کی قربانی درست ہے، وہ جانور جو بالکل قریب الولادت ہو اور اس کے بچے کے مرنے کا اندیشہ ہے تو اس کی قربانی مکروہ ہے، اگر قربانی کر دی گئی تو قربانی ہوجائے گی مگر بچہ زندہ نکلنے پر اس کو بھی ذبح کرنا پڑے گا۔ (فتاویٰ محمودیہ 339/11)
اسی طرح وہ جانور جس نے کتیا کا دودھ پیا ہو اس کی بھی قربانی درست ہے، ایسے ہی خصی شدہ جانور کی قربانی درست ہی نہیں بلکہ افضل ہے۔ (در مختار) کیونکہ خصی شدہ جانور کا گوشت زیدہ لذیذ اور خوش ذائقہ ہوتا ہے اور اس میں بکرے کی طرح بو بھی نہیں ہوتی نیز تاجروں کے یہاں خصی جانوروں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دو خصی مینڈھوں کی قربانی کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ (مشکوٰۃ 128/1)
کن جانوروں کی قربانی درست نہیں:
وہ جانور جو اندھا ہو، کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی جاتی رہی ہو یا ایک کان تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو یا تہائی سے زیادہ دم کٹ گئی ہو یا وہ جانور اتنا لنگڑا ہو کہ تین پاؤں سے چلتا ہو چوتھا پاؤں زمین پر رکھا ہی نہیں جاتاہو یا رکھتا تو ہو لیکن اس سے چل نہیں پاتاہو یا اتنا کمزور اور مریل جانور ہو کہ قربانی گاہ تک اپنے پیروں پر چل کر نہ جاسکے یا اسی طرح وہ جانور جس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ ہو یا جس جانور کے بالکل دانت نہ ہوں یا اکثر نہ ہوں یا پیدائشی طور پر کان نہ ہو یا ایسا جانور جس میں عورت مرد دونوں کی علامتیں موجود ہوں (ہیجڑا یا وہ جانور جس کی سینگ جڑ سے ٹوٹ گئی ہو یا جس جانور کے چار تھن میں سے دو یا دو تھن میں سے ایک ہی ہو اس طرح کے جانور کی قربانی درست نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ 355/11)
دیکھاوے کی قربانی:
فربہ اور عمدہ ترین جانور کی قربانی یقینا افضل ہے لیکن ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے بارہ پندرہ ہزار کا بکرا چھوڑ کر پچیس تیس ہزار کا بکرا خریدنا یا پھر چالیس ہزار کا بیل یا چالیس پچاس ہزار کی بھینس کا خریدنا پھر اسے لیکر گلی گلی کوچے کوچے پھرانا، اس کا میلہ لگانا قربانی کے اصل مقصد اور اس کے ثواب کو ختم کر دیتا ہے لیکن پھر بھی اس کی قربانی درست ہے، ناجائز نہیں ہے۔ لیکن خیال رکھیں کہ اگر اللہ نے واقعی دولت سے نوازا ہے تو یہ کریں کہ بجائے دس بیس ہزار کا جانور لینے کے اتنے پیسے میں چار پانچ جانور لیکر اپنی طرف سے، اپنے والدین، دادا، دادی، عزیز و اقارب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کردیں اس کا زیادہ ثواب ملے گا کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں بھی دس بارہ ہزار کا عمدہ بکرا اور پندرہ بیس ہزار کی عمدہ بھینس مل جاتی ہے۔
نر و مادہ میں کس کی قربانی افضل ہے؟
نر اور مادہ اگر دونوں قیمت اور گوشت میں برابر ہوں تو مادہ کی قربانی افضل ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ 301/4) اسی طرح گائے اور بھینس وغیرہ میں حصہ لینے کی بہ نسبت بکرے کی قربانی افضل ہے جبکہ اس کی قیمت گائے، بھینس وغیرہ کے ساتویں حصہ کے برابر ہو یا زیادہ ہو۔(فتاویٰ محمودیہ 301/4-205/5)
ایام قربانی میں قربانی کرنے والے کا انتقال:
کسی شخص پر قربانی واجب تھی اتفاق سے وہ شخص ایام قربانی میں قربانی کرنے سے پہلے فوت ہوگیا تو اس سے قربانی کا فریضہ ساقط ہوجائے گا لیکن اگر کوئی شخص ایام قربانی گزر جانے کے بعد وفات پائے اور اس نے ان دنوں میں قربانی نہیں کی تو اس پر لازم ہے کہ وہ وصیت کر جائے کہ اس کی طرف سے ایک بکرا یا اس کی قیمت صدقہ میں دے دی جائے۔ (عالمگیری 297/5)
قربانی کے جانور کی قیمت کا صدقہ:
جس شخص پر قربانی واجب ہے اس نے قربانی کے دنوں میں کسی وجہ سے اپنی قربانی نہ کر سکا تو قربانی کے ایام گزرنے کے بعد بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت کا صدقہ کافی نہ ہوگا بلکہ درمیانہ درجہ کے بکرے کی قیمت ہی صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔
(شامی زکریا 465/9)
قربانی کی قضا اگلے سال:
اگر کوئی شخص کسی عذر کی بنا پر قربانی نہ کر سکا اور قربانی کے ایام گزر گئے تو اس شخص کا اگلے سال دو حصے کرنا کافی نہ ہوگا بلکہ اسی سال ایک بکرے کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہوگا۔(عالمگیری 296/5)
ذبح کے وقت کیا معاون کا بسم اللہ پڑھنا ضروی ہے؟
جانور ذبح کرتے وقت کسی نے قصاب کی معاونت کی یعنی جانور کی ٹانگ پکڑی یا قصاب کو چھری دی یا اس کے لئے چھری تیز کی تو اس صورت میں اس کا بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں ہاں اگر کسی نے ذبح کرتے وقت قصاب کے ہاتھ کے ساتھ چھری پھیری تو قصاب اور معاون دونوں پر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا ضروری ہوگا اگر ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ سمجھ کر بسم اللہ اللہ اکبر کہنا چھوڑ دیا کہ دوسرے نے پڑھ لیا ہوگا یا یہ سمجھ کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ دیا کہ کسی ایک کا بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ لینا کافی ہے تو اس صورت میں کسی ایک کا پڑھ لینا کافی نہ ہوگا بلکہ دونوں کا بسم اللہ پڑھنا ضروری ہوگا اور کسی ایک کے بھی نہ پڑھنے کی صورت میں ذبیحہ حرام سمجھا جائے گا۔
(در مختار 212/5)
ذبیحہ کی آدھی گردن کاٹنے کی حکمت:
ذبیحہ کی آدھی گردن آگے سے کاٹنے کی حکمت یہ ہے کہ اس طرح ذبح کرنے سے سانس اور غذا کی نالی اور خون کی دونون شہ رگ کٹ جاتی ہیں جس سے جانور کی جان جلدی نکل جاتی ہے اوراس سے تکلیف بھی کم ہوتی ہے اگر جانور کی پوری گردن کاٹ دی جائے تو اس میں جانور کو بہت زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔ (بدائع الصنائع 195/4)
ذبیحہ کی گردن کا جدا ہونا:
قربانی کے جانور کو اس طرح ذبح کیا کہ اس کی پوری گردن جدا ہوکر الگ ہوگئی تو یہ ذبیحہ مکروہ ہے البتہ قربانی ہوجائے گی۔
(فتاویٰ محمودیہ 317/4)
ذبح کے وقت اگر بسم اللہ بھول جائے:
اگر کوئی مسلمان ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہنا بھول جائے تو اس کا ذبیحہ حلال سمجھا جائے گا اور اگر اس نے جان بوجھ کر بسم اللہ نہیں پڑھی ہے تو وہ ذبیحہ حلال نہیں ہوگا۔ (آپ کے مسائل 200/4)
ذبح کرتے وقت اگر عیب پیدا ہوجائے:
جانور پہلے صحیح سالم تھا مگر ذبح کرتے وقت جو اس کو لٹایا تو اس کی وجہ سے اس میں کچھ عیب پیدا ہوگیا تو اس میں کچھ حرج نہیں اس کی قربانی درست ہے۔ (آپ کے مسائل 169/4)
قربانی کا جانور اگر گم ہوجائے:
اگر کسی نے قربانی کے لئے جانور خریدا لیکن وہ قربانی سے پہلے گم ہوگیا پھر اس نے دوسرا جانور خرید لیا پھر پہلا جانور بھی مل گیا تو اگر وہ مالدار ہے تو اس کو صرف ایک جانور کی قربانی کافی ہے دوسرا جانور اپنے کسی دوسرے استعمال میں لاسکتا ہے اور اگر کسی غریب آدمی نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا پھر وہ جانور گم ہوگیا تو اس پر دوسرا کرنا لازم نہیں لیکن اگر اس نے قربانی کے لئے دوسرا جانور خرید لیا پھر پہلا بھی مل گیا تو اس پر دونوں کی قربانی کرنا واجب ہوگی۔ (شامی کراچی 326/6)
قرض لیکر قربانی:
اگر کسی شخص کے ذمہ قرض ہو لیکن اس شخص کے پاس رہائشی مکان، کھانے پینے کا سامان، استعمال کے کپڑوں اور روز مرہ کی دوسری چیزوں کے علاوہ اتنی املاک ہوں کہ اگر اسے بیچ دی جائیں تو قرض ادا کرنے کے بعد بھی ساڑھے باون تولہ چاندی یعنی 612 گرام 360 ملی گرام کی قیمت کے بقدر باقی رہے تو ایسے شخص پر قربانی کرنا واجب ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ جیسا کہ اپنی دیگر ضروریات کے لئے قرض لیتا ہے ایسے ہی قربانی بھی قرض لیکر کرے۔ (رد المحتار 453/9)
غائب شخص کی طرف سے قربانی:
اگر کسی شخص نے کسی غائب شخص کی طرف سے بلا اس کی اجازت قربانی کر دے تو یہ قربانی درست نہ ہوگی۔ (شامی کراچی 315/16) اگر کسی نے بڑے جانور میں غائب شخص کی طرف سے بغیر اس کی اجازت حصہ لے لیا تو تمام شرکاء کی قربانی بیکار ہوجائے گی، کسی کی بھی صحیح نہ ہوگی۔ (ہندیہ 302/5، بہشتی زیور 213)
جنگلی جانور کی قربانی:
حلال جانوروں میں سے جو جنگلوں میں رہتے ہیں مثلاً نیل گائے، ہرن، بارہ سینگا وغیرہ ان کی قربانی درست نہیں، چاہے ان کو کسی نے اپنے گھر لاکر پالا ہی کیوں نہ ہو۔ (عالمگیری 297/5)
زبان کٹی ہوئی جانور کی قربانی:
بکرے کی زبان کٹی ہوئی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے لیکن اگر گائے یا بھینس کی زبان کٹی ہوئی ہے جس سے وہ چرنے کے قابل نہیں ہے تو اس کی قربانی جائز نہیں۔ (عالمگیری298/5) اس لئے کہ بکری دانت سے کھاتی ہے اور گائے اور بھینس زبان سے کھاتی ہیں۔ (شامی زکریا 470/9)
کیاقربانی کے جانور کا دانتا ہوناضروری ہے:
قربانی کے بکرے کا ایک سال کا ہونا ضروری ہے اگر ایک دن بھی کم ہوگا تو قربانی نہیں ہوگی اور دو دانت والا ہونا اس کے سال بھر ہونے کی علامت ہے کہ یہ جانور مکمل ایک سال کا ہوگیا ہے۔
مشترک قربانی کا گوشت تول کر تقسیم کیا جائے:
قربانی کے شرکاء اگر اپنے اپنے حصہ کا گوشت تقسیم کرکے لینا چاہیں تو وزن کرکے برابر حصہ لیں اندازہ اور تخمینہ سے نہ لیں۔ (شامی کراچی 317/6) شرکاء میں اگر کسی ایک کی قربانی نذر کی ہے تو برابری کے ساتھ تقسیم کرنا واجب ہے تاکہ وہ شخص اپنی نذر کا حصہ نکال کر صدقہ کرسکے۔ (شامی کراچی 317/6) اگر شرکاء نے اپنا حصہ پورے طور پر وصول کرنے کا ارادہ نہیں کیا بلکہ کچھ لیکر بقیہ کو غرباء میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وزن کرکے تقسیم کرنا ضروری نہیں اسی طرح ایک فیملی کے متفرق افراد نے الگ الگ حصہ لیا تب بھی وزن کرنا ضروری نہیں۔ (شامی کراچی 317/6)
کیاغیر مسلموں کو قربانی کا گوشت دینا جائز ہے؟
غیر مسلم پڑوسیوں کو قربانی کا گوشت دینا جائزاوردرست ہے۔ (عالمگیری 300/5) بلکہ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ” میرا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں اس طرح کا سلوک کرنا مستحب اور مستحسن ہے اس سے اجنبیت کم ہوگی، انس بڑھے گا اور ان کو احساس ہوگا کہ مسلمان مذہبی طور پر اتنے فراخ دل اور سیر چشم ہیں کہ اپنی خوشیوں میں غیر مسلم بھائیوں کو بھی شریک کرتے ہیں۔ (کتاب الفتاویٰ 150/4
کیااوجھڑی اور آنت کا کھانا جائز ہے؟
بکرا، بکری یا کسی حلال جانور کی اوجھڑی بٹ، ہزار خانہ، سردان اور آنتیں کھانا حلال ہے کیونکہ یہ چیزیں ان سات اجزاء میں شامل نہیں جن کا کھانا حرام ہے اور یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ ان چیزوں کے کھانے سے چالیس روز تک نماز قبول نہیں ہوتی یہ سب باتیں بے اصل ہیں۔
جانوروں کے ان اعضاء کا کھانا جائز نہیں:
(۱)بہتا ہوا خون (۲)نر و مادہ کی شرم گاہ (۳)خصیتین (فوطے) (۴)غدود یعنی جسم پر بوجھ بیماری ابھرا ہوا گوشت (۵)مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی (۶)پتا (۷)حرام مغز۔ (بدائع الصنائع 219/5)
قربانی کے جانور کی کھال، ہڈی اور گوشت کا حکم:
قربانی کے جانور کے بال، ہڈی، گوشت، کھال ہر چیز کا ثواب عند اللہ مقرر ہے لہٰذا ان میں سے کسی چیز کو فروخت کرکے اس کی قیمت سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں یا اسی طرح ذبح کرنے والے کو اجرت کے طور پر دینا یا نائی، دھوبی، بھنگی کو حق الخدمت سمجھ کر قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ قربانی کے جانور کو جس رسی وغیرہ میں باندھا گیا ہو اس کو بھی صدقہ کر دینا چاہئے۔ (شامی 328/6) اسی طرح قربانی کی کھال کو گوشت جدا کرنے سے پہلے فروخت کرنا جائز نہیں۔ (در مختار) قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں لانا یا اپنے دوست احباب کو بطور ہدیہ دینا مباح ہے لیکن اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت کو اپنے مصرف میں لانا درست نہیں بلکہ صدقہ کرنا واجب ہے۔ (عالمگیری 178) قربانی کے جانور کے تمام اجزاء اور اعضاء کا حکم برابر ہے کھال، سینگ، ہڈی وغیرہ فروخت کرنے کا جو حکم ہے بالکل وہی حکم گوشت کا بھی ہے اور جس طرح ضرورت میں کھال فروخت کرکے اس کے پیسے کو صدقہ کر دینا چاہئے اسی طرح اگر گوشت کھانے والے نہیں ہیں یا برباد ہوجانے کا خطرہ ہے یا دفن کرنا پڑتا ہے تو اس صورت میں قربانی کے گوشت کو ایکسپورٹ کرنے والوں کے ہاتھ فروخت کرکے اس کا پیسہ کھال اور چمڑے کے پیسے کی طرح مستحقین کو صدقہ کر دینا بلا کراہت جائز ہے۔ (شامی کراچی 328/6، بدائع 81/5، ہدایہ 434/4) سب سے بہتر ان پیسوں کا مصرف یہ ہے کہ ان دینی مدارس کو دے دینا چاہئے جہاں نادار طلباء علم دین حاصل کرنے میں مصروف ہوں تاکہ صدقہ جاریہ کا ثواب برابر ملتا رہے۔
کیا حاجت مندوں کی حاجت برآری قربانی کا بدل ہوسکتا ہے؟
اسلام میں قربانی کی ایک اہمیت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین عظام اور فقہائے اسلام نے ہمیشہ قربانی کی تاکید فرمائی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عیدالاضحیٰ کے دن فرزند آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی سے زیادہ محبوب نہیں، قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں کے ساتھ زندہ ہوکر آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، لہٰذا اے خدا کے بندو! خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ ‘‘(ترمذی)
اسلام کے ارکان اربعہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج یہ سب مستقل عبادتیں ہیں، اسی طرح صاحب نصاب مسلمانوں پرہر سال ایام قربانی میں قربانی کرنا بھی ایک مستقل عبادت ہے۔ بے نادار افراد کا تعاون، غریبوں کی مدد اور حاجت مندوں کی حاجت برآری کی عبادت ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن ایک کی ادائیگی سے کسی دوسری عبادت کی ادائیگی ساقط نہیں ہوتی اس لئے یہ سوال بہت ہی بیجا ہے کہ ایام قربانی میں ہونے والی قربانی کی قیمتوں کے تعاون سے کئی ہزار غریب گھرانے اپنی غربت کی سطح سے اوپر اٹھ سکتے ہیں روزگار فراہم کر سکتے ہیں اور اپنے شبانہ روز کو آسائشی کے ساتھ کاٹ سکتے ہیں۔ قربانی کرنے سے کہیں بہتر غریبوں کی مدد ہے حالانکہ یہ سوال بالکل ہی مہمل ہے، کیونکہ جانور کی قیمت کا صدقہ کرنا یا کسی دوسرے نیک کام میں لگا دینا اس فریضہ سے سبکدوشی نہیں کرسکتا جیسے روزہ کی جگہ نماز یا نماز کی جگہ روزہ کافی نہیں۔ زکوٰۃ کے بدلے حج اور حج کے بدلے زکوٰۃ کافی نہیں۔ اگر کوئی شخص سب مال بھی اللہ کی راہ میں صدقہ کر دے تو ایک نماز کا فریضہ اس کے ذمہ سے ادا نہیں ہوتا اسی طرح صدقہ و خیرات چاہے جتنا بھی خرچ کر دے لیکن وہ یادگار ابراہیمی کی قائم مقام اور واجب قربانی کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ (تاریخ قربانی:18)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی غرباء و مساکین کی تعداد کچھ کم نہ تھی بلکہ بعض لوگوں کا یہ حال تھا کہ وہ درخت کے پتوں، چھالوں اور کھجور کی گٹھلیوں کو کھا کر گزارہ کیا کرتے تھے۔ لباس کے لحاظ سے بھی بعضوں کا یہ حال تھا گھر کے دو دو افراد باری باری ایک ہی لباس استعمال کرتے تھے، اس کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی اپنی دس سالہ زندگی میں ہمیشہ قربانی کیا کرتے تھے۔ (ترمذی شریف) اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ایک سو اونٹ کی قربانی فرمائی تھی 63 اونٹ خود آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ذبح فرمائے اور 37 اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ذبح کروائے۔ (مسلم شریف)
قربانی کی جگہ اگر قربانی کے پیسوں سے غریبوں کی اعانت ہوتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کی جانب رہنمائی فرماتے۔ تاریخ و سیر کی کتابیں اس پہلو سے خاموش نہیں رہتیں حالانکہ کہیں بھی یہ مذکور نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی جگہ بے نوا افراد کے تعاون پر زور دیا ہو یا بذات خود ان کی مدد کی ہو، غریب بیواؤں کی اعانت اور حاجت مندوں کی حاجت برآری یقیناً ایک عبادت ہے اور یہ عبادت قربانی کے علاوہ فنڈ سے ہی انجام دی جائے تاکہ تمام عبادتوں کی الگ الگ حیثیتیں برقرار رہیں۔ قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا ہی عبادت اور شریعت کا مقتضیٰ ہے۔
ہر چہ داری صرف کن در راہ او
لن تنا لو البر حتی تنفقوا
قربانی کا مسنون طریقہ:
قربانی کے وقت ذبح کرنے سے پہلے مندرجہ ذیل دعاء پڑھ لیجئے۔ تاکہ نیت کی تصحیح اور اخلاص کے ساتھ یہ فرض انجام پائے۔
ذبح سے پہلے جانور کو کھلائیں پلائیں اور چھری خوب تیز کر لیں۔ جانور کو بائیں کروٹ پر قبلہ رخ لٹائیں۔ ذبح سے قبل یہ دعا پڑھیں۔
اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلْذِیْ فطر السمٰوات والارض حنیفا و ما انا من المشرکین، ان صلوٰتی و نسکی و محیای و ممتاتی للہ رب العٰلمین لاشریک لہ و بذالک امرت و انا من المسلمین۔
اس کے بعد گلے پر چھری رکھ کر یہ دعا پڑھتے ہوئے ذبح کریں۔
اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
ذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں۔
اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ ہٰذِہِ الْاُضْحِیَّۃَ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَّ خَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِمَا الصَلٰوۃُ وَالسَّلَامُ
اگر آپ کی طرف سے کوئی دوسرا شخص ذبح کرے تو منی نہ کہے بلکہ من کہے اور ان لوگوں کا نام مع ولدیت لے جن لوگوں کی طرف سے قربانی کی گئی ہے۔
Comments are closed.