Baseerat Online News Portal

فطرت سے محاذ آرائی انسانی حماقت

خبر در خبر

نوراللہ نور

انسان اپنی ساری دانشمندی اور پوری توانائی کے باوجود سراپا عجز و ناتوانی کا مجسمہ ہے، جاہ و ثروت کی بہتات بعد بھی وہ قدرت کو چیلنج نہیں کرسکتا ، اسے اپنی ارتقاء کا گھمنڈ جتنا بھی ہو مگر فطرت اور قوانین فطرت اس کے دسترس سے باہر کی چیز ہے، شمس و قمر تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے مگر اسکی ماہرانہ تراش خراش اور طلوع و غروب کے نظام کو اختیار میں کرنا اس کی وسعت سے پرے ہے، تکنیکی وسائل کا سہارا لے کر بحری جہاز بنائے جاسکتے ہیں ، بحری بیڑوں کے ذریعے سمندر کی چھاتی چیڑ کر بحر انٹلانٹک اور بحر اوقیانوس کی مسافت طے کرنا ممکن ہے مگر اس کی بپھرتی لہروں پر یک مشت بھی قابو نہیں پایا جاسکتا ، اس کی سرکش لہروں پر کنٹرول صرف ایک ذات کے قبضہ قدرت میں ہے۔
ہر صدی میں کوئی نہ کوئی سر پھرا زعم میں مبتلا ہوکر ماورائے فطرت کام انجام دینے کی کوشش کی مگر خائب و خاسر لوٹا ، نظام کائنات کو اپنی بے بضاعت استعداد کی بنیاد پر تسخیر کرنے کی سعی کی مگر تہی دست لوٹنا پڑا۔
انسانی جتھے نے بڑی تگ و دو اور اپنی ساری توانائی صرف کرنے کے بعد ایک بلب کو ایجاد کیا مگر وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ضیا پاشی پر قادر نہیں ہوسکے بلکہ وہ اس کے بعد بھی نور و ظلمت کے خالق کی طرف نگاہیں جمائے بیٹھے رہے
یقیناً انسانی گروہ نے اپنی خرد و دانش کا استعمال کر کے مریخ تک بلکہ اپنی دنیا سے ماورا دوسری دنیا تک رسائی حاصل کرلی مگر ” کن ” کے ذریعہ تخلیق کائنات کا فلسفہ ہنوز ان کی سمجھ سے بالاتر ہے، انہوں نے مریخ پر کمند ڈال دی ، خلاؤں میں راہ نکال لیں مگر اس کامیابی کے باوجود بھی اپنی بے بسی کے کے معترف ہیں۔
دریا کے تلاطم کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے ” ٹائٹینک” وضع کی اور اپنے مزعومہ خیال کے مطابق سمندر کی سرکش موجوں سے لوہا لینی کی ٹھانی اور فطرت کو آنکھ دکھانے کی کوشش کی مگر تاریخ گواہ ہے کہ فطرت سے دو دو ہاتھ کرنے کی یہ ضد سینکڑوں انسانی ہلاکت کا سبب بنی ، اس کشتی کے ساتھ ساتھ اس کے ناخدا بھی قصہ پارینہ بن گئے اور انسانوں کا وہ جنونی گروہ اور اس کی ناقص تخلیق بس ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔
اپنی عاجزی ، بے بضاعتی کے باوجود انسان اپنی انا پر مصر اور قوانین فطرت سے محاذ آرائی آمادہ ہے ، اس نے ایک بار فطرت کو چیلنج کیا اور اس صدیوں سے گمشدہ افسانوی کشتی کے سراغ میں نکلے اور اسے پالیا مگر انسانی اصرار یہیں پر رک جاتا تو کافی تھا مگر اس نے ایک بار پھر اس آبدوز کشتی کو سیر کرنی کی ٹھانی مگر نتیجہ وہی ٹھرا کہ انسان اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تہی مایہ و تہی دست ہے۔
مال و زر کے نشے میں مخمور پانچ افراد پر مشتمل لوگوں نے قدرت کو پھر آ نکھ دکھانے کی جسارت کی ، اپنی بے جا خواہش کی تکمیل کے لئے نظام فطرت کو بونا ثابت کرنا چاہا اور اپنی بے حیثیت آلات لیس کشتی سے دریا کی پیمائش کی کوشش کی اور خدا کی سمندری نظام کو کہتر سمجھنے کی کوشش کی مگر نتیجہ وہی آنا تھا جو ماضی میں ضدی اور خواہش پرست لوگوں کا ہوا تھا وہ اپنے زعم اور سمندری سطح کی پیمائش کے خواب کے ساتھ غرقاب ہوگئے اور یہ بات ثابت ہوگئی فطرت کے اصولوں سے مال و زر کے بدولت مقابلہ آرائی نہیں کی جاسکتی کیونکہ بہر صورت انسان کمزور و ناتواں ہے اور اس کے ہر فکر کی انتہا خالق کے کن کا آغاز ہے
آپ جتنی بھی اسٹریٹجی بنالیں ، جس قدر آلات و اوزار سے لیس ہو جائیں مگر آپ خدا کی تخلیق کردہ اور اس کے منتخب شدہ نظام کائنات کے خلاف نہیں جا سکتے کیوں کہ خالق تو بس ایک ہی ہے۔

نوراللہ نور

Comments are closed.