Baseerat Online News Portal

تبدیلی وسائل زندگی میں ہوتی ہے نہ کہ فطرت انسانی میں!

شمع فروزاں

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی

صدرآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ

آج کی ترقیات اور انکشافات نے زندگی کی قدریںیکسر تبدیل کر دی ہیں، جو کل رینگتا تھا ، وہ آج برق رفتار سواریوں کو وجود میںلا چکا ہے اور ہوا کے دوش پر اڑ رہا ہے ، کل تک دریا کی معمولی موجیں جس کے لئے ایک ناقابل تسخیرمصیبت تھی ، آج وہ سمندر کا جگر چیڑ کر لعل وجواہر کی دنیا سمیٹ رہا ہے، کل کا لکڑیاں جلانے اور چراغ میں تیل ڈالنے والا آج برقی ، آلات و وسائل کی مدد سے پوری دنیا کو اپنی مضبوط گرفت میںلے چکا ہے ، کل تک جو اپنی نحیف آواز میل دو میل کے فاصلے پر پہنچا نا بھی ممکن تصور نہ کرتا تھا ، آج کی حیرت انگیز ایجادات نے اس کی آواز کو آفاقی بنا دیا ہے اور اس کی آواز بیک وقت ایک دو شہر نہیںپوری کائنات میںپھیل سکتی ہے … پھر آخر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ اس دور کا قانون آج کی اس ترقی یافتہ دنیا کا ساتھ دے سکے اور ا ن کے لئے مشعلِ راہ بن سکے !

اس دلیل کو ہمارے مغرب زدہ اور علوم اسلامی سے نا آشناحضرات نے ایسی تسلیم شدہ حقیقت تصور کر لیا ہے کہ گویا اس میں شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہو ؛ حالاںکہ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ جو چیز بدلتی رہی ہے اور بدل رہی ہے ، وہ کیا ہے ؟ کیا انسان کی فطرت بدل گئی ہے ؟ اس کے طبعی تقاضے تبدیل ہو گئے ہیں ؟ یا محض وسائل اور اسباب میں تغیر رونما ہوا ہے ؟ ذرائع زندگی میں فراوانی آئی ہے ؟

اس نکتہ پر جب کوئی شخص غور کرے گا تو اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہے گا کہ ازل سے آج تک دنیا میں جو انقلابات رو نما ہوتے رہے ہیں اور جو تبدیلیاں پیدا ہوتی رہی ہیں ، ان کا تعلق اسباب و وسائل کی دنیا سے ہے ، انسان کی فطرت اور اس کی طبعی افتاد آج سے دس بیس ہزار سال پہلے جو تھی ، وہی اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔

ایک بچہ اپنے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہی اپنے دل میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی خواہش پاتا ہے؛ مگر وہ اپنے دست و پا کو اس سے بے بس پا کر روتا ہے، اشارہ کرتا ہے اور اپنے بڑوں کی گود کے سہارے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے، پھر جب اس کے پاؤں میں اتنی قوت پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود سے جنبش کرے اور کسی قدر چل سکے تو وہ گھٹنوں کے سہارے کیڑوں کی طرح زمین پر رینگنا شروع کر دیتا ہے ، وہ ذرا بڑھتا ہے تو ہلکے ہلکے قدموں کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتا ہے ، جوان ہوتا ہے ، عمر پختہ ہوتی ہے، جسم میں توانائی آتی ہے تو وہی دوڑنے لگتا ہے ، چھلانگ لگاتا ہے ، کود تا ہے اور پھر جلد سے جلد پہنچنے کی کوشش میں بسوں اور ٹرینوں ، جہازوں اور راکٹوں کی طرف مدد کا ہاتھ پھیلاتا ہے ، یہ بتدریج پیدا ہونے والی تبدیلیاں اگر غور کیا جائے تو محض وسائل میں رو نما ہوتی رہی ہیں ، اسباب ِسفر تبدیل ہوتے رہے ہیں ؛ لیکن اس کے پس پردہ کار فرما انسانی فطرت ، یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی خواہش ، ہر جگہ یکساں طور پر باقی ہے اور اس میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوا ہے ۔

میں نے یہ محض ایک مثال دی ہے، ورنہ آپ جس چیز کے بارے میں بھی چاہیں ، اس انداز میں تجزیہ کر لیجئے ، آپ محسوس کریں گے کہ تغیرپذیر محض ’’ اسباب ‘‘ ہیں، انسان کی ’’ فطرت ‘‘ اپنی جگہ قائم ہے ، وہ جس طرح کل کبھی رنج و غم اور کبھی مسرت و شادمانی محسوس کرتا تھا آج بھی کرتا ہے، پہلے آہ و واہ سے اس کا اظہار کرتا تھا اب بھی کرتا ہے ، کل جس طرح اس کے دل میں اپنے دشمنوں کے خلاف انتقام کا شعلہ سلگتا تھا آج بھی سلگتا ہے اور جس طرح کل اس کا سینہ مال و دولت اور حرص و ہوس کی آماجگاہ تھا آج بھی اقتصادی ترقی کا بھوت اس کے ہوش و حواس پر سوار ہے ، آج بھی اس کا نفس اس کو اخلاقی تقاضوں کے بالائے طاق رکھ دینے کی تلقین کرتا رہتا ہے ، جس طرح ماضی کا نقشہ ہمارے سامنے ہے ، جس طرح کل جاگیر داری اور زمینداری کی تمنا اس کو بے چین کئے رہتی تھی آج بھی اس کے دل میں حکومت اور اقتدار کی آرزوئیں چٹکیاں لیتی رہتی ہیں — پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی حد تک وہ فکری بنیادیں بھی آج تک قائم ہیں جو پہلے تھیں ، جس طرح پہلے ’’ سچائی ‘‘ کو ’’ اچھائی ‘‘ اور ’’ جھوٹ ‘‘ کو ایک ’’ پاپ ‘‘ تصور کیا جاتا تھا آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی جھوٹ کو کوئی ’’ کارِ خیر ‘‘ تصور نہیں کیا جاتا ، جس طرح کل ’’ایفاء ِعہد ‘‘ محبوب تھا آج بھی ’’عہد شکنی ‘‘ معیوب ہے اور جس طرح کل ’’ایمانداری‘‘ اور’’انصاف پروری‘‘ محمود تھی آج بھی ’’خیانت ‘‘ اور ’’ظلم و جور ‘‘ مذموم ہے ۔

معلوم ہوا کہ عہد حاضر کی دلفریب ترقیاں اور تبدیلیاں چاہے وہ کتنی ہی حیرت انگیز اورتعجب خیز ہوں اورکتنی ہی نئی اور انوکھی ہوں ، بہر حال انھوں نے اسباب ووسائل میں کسی قدر اضافہ کر دیا ہے اور انسان کے لئے زندگی میں راحت کے کچھ سامان فراہم کر دیئے ہیں ؛ مگر وہ چیز اور جسے ’’ انسانی فطرت ‘‘ کہا جاسکتا ہے ، وہ ایک ایسی غیر تغیر پذیر حقیقت ہے جسے زمانہ کی کہنگی اور وقت کا تیز رو سفر کچھ بھی متاثر نہیں کر سکتا ۔

اس مرحلے پر آکر ہم یہ عرض کر نا چاہیں گے کہ اسلام اور اس کے قانونی نظام کا اصل موضوع اسباب و وسائل نہیں ہیں ؛ بلکہ اس کا موضوع انسان ، اس کی فطرت اور اس کے فطری تقاضوں کی مناسب حدود میں تکمیل ہے ، پس جس طرح انسان ایک غیر متبدل حقیقت ہے ، اسی طرح ظاہر ہے اس سے تعلق رکھنے والا قانون بھی ابدی اور دائمی ہوگا ۔

لیکن اس کے باوجود بلا شبہ نو دریافت وسائل زندگی ، بدلتے ہوئے عرف اور زندگی کے معاشرتی ، معاشی اور سیاسی ڈھانچہ میں غیر معمولی تبدیلی کا یہ تقاضا ضرور ہے کہ قانون میں اس کی کچھ رعایت کی جائے اور ان نئے تقاضوں اور وسائل سے اسلامی قوانین کو ہم آہنگ کیا جائے اور جزوی اور فروعی حدود میں اسلام ان تقاضوں کو قبول کرے ، اس سلسلہ میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اسلام نے بعض قانونی اور فکری امتیاز اور بنیادی اُصول کو جوں کا توں باقی رکھتے ہوئے ایک مخصوص حد میں ضروری تغیر و تبدل اور واقعی تقاضوں کی تکمیل کے لئے ایسی لچک باقی رکھی ہے جو اس کو فرسودگی سے بچائے رکھے ؛ چنانچہ مشہور فقیہ اور مزاجِ شریعت کے رمز شناس حافظ ابن القیم ( ۱۲۹۱- ۱۳۰) اپنی گراں قدر کتاب ’’ اعلام الموقعین ‘‘ میں اس موضوع پر ایک مستقل باب قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

عرف و عادت ، حالات و مقاصد اور زمان و مکان کے تغیر کی بنا پر مسائل میں اختلاف اور تغیر و تبدل کا بیان ، یہ بڑی مفید اور اہم بحث ہے ، جس سے ناواقفیت کی بنا پر شریعت میں بڑی غلطیاں واقع ہوئی ہیں ، جس نے دشواری ، تنگی اور استطاعت سے ماورا تکلیف پیدا کر دی ہے ، جب کہ یہ بات معلوم ہے کہ شریعت جو مصالح کی غیر معمولی رعایت کرتی ہے ، ان ناقابل برداشت کلفتوں کو گوارا نہیں کرتی ، اس لئے کہ شریعت کی اَساس سراپا رحمت اورسراپا مصلحت ہے ؛ لہٰذا جب کوئی حکم عدل کے دائرہ سے نکل کر ظلم و زیادتی ، رحمت کی حدوں سے گذر کر زحمت ، مصلحت کی جگہ خرابی اور کار آمد ہونے کے بجائے بیکار قرار پائے تو وہ شرعی حکم نہیںہوگا ۔ (اعلام الموقعین، جلد : ۲)

جس قانون میںایک ایسا تغیر پذیر اور لچکدار پہلو موجود ہو اور وہ ہر دور کے سیاسی واخلاقی حالات ، جدید انکشافات و تغیر اور رسوم و عادات کے تحت مناسب تبدیلی کو گوارا کر لیا کرتا ہو اور جس کی اسی وسعت نے اس کو چودہ سو سال تک مسلسل زندہ اور پائندہ رکھا ہو اورتمام انفرادی اور اجتماعی ، سیاسی اور اقتصادی مسائل اس کی روشنی میںحل کئے جاتے رہے ہوں ، اس کو جامد اور کسی زمانے کے لئے ناکارہ کہنا سوائے عناد کے اور کیا ہے ؟ اس قسم کی باتیں عموماً ہمارے مسلمان قانون داں ہی ’’ ارشاد ‘‘ فرماتے رہتے ہیں ؛ حالاں کہ بعض غیرمسلم ہندو اور مستشرقین ماہرین قانون نے عموماً اسلامی فقہ کی تعریف کی ہے اور اس کی افادیت کا اعتراف کیا ہے ، چند سال قبل دہلی میں منعقد ہونے والے ایک سمینار میں سابق جج سپریم کورٹ مسٹر وی ، آر کرشنا آئر نے کہا :

یہ کہنابالکل غلط ہے کہ ہندوستانی سول کوڈ میں اسلامی قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے ؛ بلکہ مستقبل میںاسلامی اُصول قانون ، ہندوستانی سول کوڈ کا ایک بڑاعنصر بن کر رہے گا ۔

اسی سپریم کورٹ کے دوسرے جج نے اپنی تقریرمیں کہا :

ہندوستان کے نظام قانون میں اسلام کی دَین کسی سے کم نہیں ہے اورمسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہندوستان کے قوانین میں اُصولی حیثیت سے اسلامی قانون کے نفاذ کی کوشش کریں ۔ (صدق جدید : ۱۳ ؍ فروری ۱۹۸۱ء)

Comments are closed.