اپنی اولاد کو عزت دو

سید محمد میاں مدنی
معاشرے میں تباہی کی ایک بڑی وجہ والدین کا بچوں کو وقت نہ دینا بھی ہے والدین صرف دن رات پیسہ کمانے کی دھن میں مصروف عمل رہتے ہیں اگر کبھی اولاد میں بیٹھے تو ڈانٹ پیٹ کے سوا کچھ نہیں ماں باپ گھر آئے نہیں کہ بچوں میں سناٹا سائیں سائیں کرنے لگا بچے ایسے ادھر ادھر دیکھنے لگے جیسے مجرم سے تفتیشی تفتیش کرنے آگیا، درحقیقت والدین تو وہ عظیم رشتہ ہیں کہ گھر آئیں تو اولاد ایسے انکی طرف لپکے جیسے گھر آئے مہمان کے ادب میں قدم بڑھاتے ہے
اس کے برعکس اسلامی تعلیمات اولاد کو عزت دینے کی ہیں قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم
”اکرمو اولادکم ”
اپنی اولاد کو عزت دو
حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکو عملی طور پر کر کہ دکھایا۔ایک مرتبہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ سیدہ فاطمتہ الزہرہ سلام اللہ علیھا تشریف لائیں حضور کا گھر اور سیدہ کا گھر بالکل ساتھ ساتھ تھا روز کا آنا جانا تھا لیکن حضور کھڑے ہو گئے اور دوقدم چل کر استقبال فرمایا یہ ہی نہیں بلکہ ہاتھ مبارک کا بوسہ بھی لیا اور پہلے بیٹی کو بٹھایا پھر خد تشریف فرما ہوئے یہ ہے ” اپنی اولاد کو عزت دو ”
مبادہ وہ وقت نہ آئے کہ اولاد آپ سے جان چھڑانے لگے۔چاروں طرف بکھرے ان مسائل کا حل صرف اور صرف اسوہ رسول اکرم ہے یہاں تک ہی نہیں بلکہ ایک شخص حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میں نے اپنے بیٹے کے لئے گفٹ لیا ہے آپ کو گواہ بنانا چاہتا ہوں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا دوسرے بچوں کو بھی دیا ہے کہا
نہیں یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے فرمایا ”جا واپس چلا جا میں ظالم کا ساتھی نہیں بنتا ”
یوں تو تیری اولاد میں نفرت پیدا ہو گی۔ کسی ایک کو ترجیح دوگے تو باقیوں میں تم زہر ڈال رہے ہو یہ ہیں نبوی تعلیمات ہمیں اپنی اولاد کو دوست بنانا ہو گا کہ اولاد بلا خوف و خطر آپ سے اپنے ہر راز کو شیئر کرے اگر ایسا نہ ہوا تو انسانیت میں چھپے درندہ نما انسان آپکی اولاد سے ایسا کھیل کھیلے گے کہ آپ ایڑیاں اٹھا کر دیکھتے رہ جائیں گے معاشرہ کے جوان کا یہ المیہ اگر ختم ہو جائے تو معاشرے کی تباہی کے نوے فیصد اسباب کا سد باب ہو سکتا ہے
والدین سے بہتر کوئی ہم راز اور دوست نہیں
خدارا اولاد کو وقت دیجئے اور معاشرے کے بڑھتے مسائل کا سد باب کیجئے
اگر اولاد کی تربیت نہ ہوئی امریکن۔ آکسفورڈ وغیر میں ہی پڑھتے رہے تو اسلام سے ہی دور چلے جائیں گے آئیں معاشرے کو زینت بخشیں تربیت کے ساتھ ساتھ اولادوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائے قرآن سے تعلق مضبوط کریں جو والدین کا مقام و مرتبہ بھی سمجھائے اور اپنی پہچان بھی کرائے کہ میں کیا ہوں اور مجھے کیا کرنا ہے
اولاد کی تکریم و تعظیم یہ بھی ہے کہ انکی تربیت شجرہ اسلام کے سائے میں کریں اگر اولاد کی تربیت میں کوتاہی برتی گئی تو اسکا انجام والدیں اور اولاد دونوں کو بھگتنا پڑے گا
شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا
”کہ پہلی اینٹ اگر ٹیڑھی رکھی گئی تو دیوار جس قدر بلند کر لیں پھر بھی وہ ٹیڑھی رہے گی”
ماں جس طرف اولاد کا رخ موڑے گی وہ بڑی آسانی سے اسے قبول کرے گی تربیت صرف جسمانی توانائی کا نام نہیں بلکہ تربیت
”ہمہ جہت افزائش ” سے عبارت ہے
ایک جملہ بولا جاتا ہیکہ
”تم ہمیں اچھی مائیں دو ” ہم تمہیں اچھامعاشرہ
(اچھی قوم) دیں گے۔ یہ جملہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ماں وہ شخصیت ہے جو اپنی اولاد کو سدھار سکتی ہے اور اچھے اخلاق کا مالک بنا کر ان کے مستقبل کو روشن کر سکتی ہے اس طرح پورا معاشرہ بہتر بنایا جا سکتا ہے
والدین کو چاہئے کہ اولا کی تعظیم وتکریم اور تربیت میں مثالی کردار ادا کریں اور معاشرے کی برائیوں کا سدباب کریں تاکہ آنے والی نسلیں اخلاق و کردار میں اعلی ہوں
جس بچے کو اس درسگاہ سے بچپن میں ہی دینی غیرت تقوی کا درس اور پارسائی کو سبق ملا ہوگا
یقیناً وہ بچہ بڑا ہو کر ظلمتوں کے ویران راستوں میں کبھی گمراہ نہ ہو گا
Comments are closed.