Baseerat Online News Portal

اسلام کا سماجی نظام باہمی اخوت اور رواداری

مفتی محمداحمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
اس بات کو دنیا تسلیم کرے یا نہ کرےمگر یہ مسلم ہے کہ اسلام نے سماجی زندگی کے جواصول دنیاکو دئیے ہیں اوراس میں جس طرح کا سماج ہر طبقہ کے ساتھ باہمی روابط اوررواداری کا نظام کتاب وسنت کے ذریعہ دنیا کو دیاہے ۔ایسا نظام نہ تو دنیاکے کسی قانون میں ہےاورنہ مذہبی کتاب میں ہے۔ چاہے ہمسایوں کے ساتھ حسن اخلاق اورتعاون وہمدردی کا معاملہ ہو یاسماج کے کمزور اوربےسہارالوگوں اورمحتاجوں کی اعانت ودادرسی کا اورخود بین المسلمین اخوت اورمودت ومحبت کا۔ سچائی یہ ہےکہ قانون روماسےلیکر UNOکے انسانی حقوق کے چارٹر اورمغرب اوریورپ کے قانونی مواداور جوڈیشیری سسٹم تک میں اسلامی سماجیات کے اصول وضوابط کی جھلک موجود نظر آتی ہے اوراس کا اعتراف مغربی مصنفین اورقوانین کے مرتبین نے بھی کیاہے۔اس کا اندازہ اچھی طرح ”احکام اھل الذمہ“اورفقہائے اسلام اورائمہ مجتھدین کے مرتب اورمدون کردہ فقہی ذخیرہ۔سے لگایاجاسکتاہے۔مثال کے طورپر ہمسایوں اورپڑوسیوں کے حقوق کو لے لیجئے ،اس میں ایک طرف قرانی آیات کی تفصیل اوردوسری طرف نبی رحمۃ للعالمین کی ہدایات دونوں کو دیکھیں اورپھردنیاکےسماجی نظام سے موازنہ کریں بالخصوص آج کے تکثیری سماج میں،اسلام کا نظام سماجیات انسانی اقدارکو اوج ثریاتک پہونچانے والا نظر آئے گا۔
اس کی ایک مثال میں آپ حضرات کی نذر کرتاہوں ۔آپ کے پڑوس میں اورہمسایہ خواہ کسی بھی دین اورمذہب کا پیروکار ہواس کو ضرر پہونچانے کو نبی رحمت ﷺ نے ایمان کے منافی بتایا ۔” خداقسم وہ شخص مومن ہوہی نہیں جس کے شر سے اس کاہمسایہ محفوظ نہ ہو “ واللہ لایومن، واللہ لایومن،من لایامن جارہ بوائقہ“ ۔پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں اتنی تاکید آپ ﷺ نے فرمائی کہ صحابہ کرام عرض کرتے ہیں ۔ہم لوگوں کو گمان ہونے لگاکہ کہیں ہمسایوں کو ہمارے مال میں وارث نہ قراردے دیاجائے ۔دنیاکے کسی بھی سول قانون اوراخلاقیات میں ہمسایوں کی اتنی قدردانی کہ رشتہ دار ہونے کا احساس ہونےلگے، نہیں ملےگا۔
اب آئیے بین المسلمین سماجی رواداری کی بات کرتے ہیں۔ نبی رحمت نے ہماری آپس کی رواداری کے بارے میں فرمایا ”المومن للمومن کبنیان یشد بعضہ بعضا“ کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی اینٹوں کے مانند ہیں جوایک دوسرے کو باندھے رکھتے ہیں ۔ یہ بات اسی وقت ہوسکتی ہے جب محبت ہو،ہمدردی ہو، رواداری ہو ،ایک دوسرے کی عزت آبرو ،جان اورمال کا پاس ولحاظ ہو ۔ ایک دوسرے کی تکلیف میں تڑپ اٹھنے کا جذبہ ہو ۔دل ہرطرح کے کینہ،حسد، بغض سے پاک ہو۔’’ مثل المومن فی تراحھم وتعاطفھم وتوادھم مثل الجسد الواحد ،اذااشتکی عضو تداعی لہ بالسھر والحمی۔“ کہ آپسی محبت میں ،ہمدردی میں ،رواداری میں ایک جسم کی مانند ہیں ۔اگرجسم کےکسی عضو کو کانٹالگ جائے تو اس کی ٹیس اورجلن کوجس طرح پوراجسم محسوس کرتاہے ایسےہی ایک مسلمان کی تکلیف کو خواہ کسی بھی نوعیت کی ہو دوسرے مسلمان کومحسوس کرناچاہیے ۔
ہمیں فخر ہے اسلام کے ایسے سماجی اورسوشل اصول وضوابط پر ۔اللہ تعالی ہرمسلمان کو اسلام کے ایسے شفاف نظام کو قبول کرنے اورزندگی میں اتارلینے کی توفیق عطاکرے ۔آمین

Comments are closed.