عمل تعلیم کیاہے؟؟؟

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
[email protected]
اللہ تعالی کے ہاں سےانسان بنیادی تعلیم حاصل کرکے آیا ہے،قدرت نے ہرنومولودکو کھاناپینا،سوناجاگنا،دیکھنا،سننا،سونگھنا اوراپنی ضروری حاجات کوپوراکرنااورروکر اپنی ضروریات کے اظہارکاطریقہ وغیرہ سکھاکربھیجاہے۔ماں کے پیٹ میں انسان کے کل اعضاء کوان کے فرائض اداکرنے کی تعلیم سکھادی جاتی ہے،چنانچہ جسم کےاعضائے رئیسہ سمیت کل نظام جو بلامبالغہ سینکڑوں یاہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں یااس سے بھی زیادہ جزیات کامالک ہے اورباہم مربوط ہے،انسانی جسم میں روح کے داخل ہونے سے ماقبل ومابعد ساتھ ہی کلی یاجزوی طورپر قدرت سے حاصل کی گئی تعلیم کے مطابق اپناکام شروع کردیتاہے۔گویاپیدائش سے قبل ہی انسان کی تعلیم کاعمل شروع ہوجاتاہے اوراس جبلی تعلیم کے بل بوتے پر بنی آدم کو اس دنیامیں اپناعرصہ حیات پوراکرناہوتاہے۔اللہ تعالی کی شان ہے ہرانسان کواس کے ماحول کے مطابق اس کے اعضاکی تعلیم دے کر اس دنیامیں بھیجاجاتاہے،پہاڑی علاقے کے بچے ،انتہائی سردعلاقے میں جنم لینے والے،خشک اورگرم خطوں کے باسی،سمندری جزیروں میں بسنے والے اورسرسبزوشاداب میدانی علاقوں کی فصلوں میں واردہونے والوں، گویاسب کوان کی آب و ہوا،فضا،موسم اور ماحول کے مطابق عرصہ حیات گزارنے کی تعلیم فراہم کردی جاتی ہے۔
اس دنیامیں آنکھ کھولنے کے بعدانسان کوایک بارپھر عمل تعلیم سے گزاراجاتاہے جیسے کان سے نکلنے والے ہیرے کوجوہری کے سپرد کردیاجاتاہے جواس کی تراش خراش کرکے اس میں چمک پیداکردیتاہے۔چنانچہ عمومی خیال ہے کہ "رویے کی تبدیلی” تعلیم کہلاتی ہے۔اولین انسان حضرت آدم علیہ السلام کواللہ تعالی نے بذات خود عمل تعلیم سے گزاراچنانچہ انسانی آغازسے ہی تعلیم سے بحث انسانی اعلی دماغوں کامرکزفکررہی ہے۔سچائی کی تلاش کانام تعلیم ہے(سقراط،م ۳۹۹ ق م)،صحت مندمعاشرے کی تنظیم کاعمل تعلیم کہلاتاہے(افلاطون،م ۳۴۷ ق م)،تعلیم اخلاقی تربیت کی طرف خوشی اوردرد کیے جذبات کی راہنمائی پرمشتمل ہے(ارسطو۳۲۲ ق م)،صحت مندجسم میں صحت مندروح کاحصول مقصدتعلیم ہے(جان لوک۱۷۰۴ء)،تعلیم کامقصد انسان میں ان ان تمام کمالات کی نشونماہے جواس کی فطرت کاحصہ ہیں(ایمانول کانٹ ۱۸۰۴ ء)،تعلیم دوسروں کے لیے جیناسیکھنے کاعمل ہے(آوسٹ گوئٹے۱۸۵۷ ء)،تعلیم ایک نسل کی روایات کواگلی نسل تک منتقل کرنے کانام ہے(فرینڈوڈی ایزیریڈو۱۹۷۴ ء)،غلامیوں کی زنجیریں توڑ کرآزادیوں کی طرف لاناتعلیم ہے(جان روسو ۱۷۶۲ ء)،علوم و فنون کی بجائے فطرت کوپروان چڑھاناتعلیم ہے(پسٹالوزی۱۸۲۷ء )،بچوں کی ذاتی میلانات اورکارکردگی کے مطابق ان کی تربیت کانام تعلیم ہے(فریڈرک فروبل۱۸۵۲ء)، تعلیم افراد اور فطرت سے متعلق بنیادی طور پر عقلی اور جذباتی رویوں کے تشکیل پانے کا عمل ہے(جان ڈیوی ۱۹۵۲ ء)،انسانی کرداراورصلاحیتوں پر پڑنے والے اثرات کوکسی خاص سمت میں موڑ دیناتعلیم ہے(جان اسٹیورٹ مل ۱۸۶۵ ء)، تعلیم وہ ہے جو انسان کو بحالت ِجنگ و امن اپنی اجتماعی اور نجی زندگی کے فرائض دیانت و مہارت اور عظمت کے ساتھ ادا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے(جان ملٹن ۱۶۷۴ ء)۔
تعلیم کے ذریعے ایک طالب علم روحانی انداز سے روشناس ہوسکتا ہے اورخدا وند تعالیٰ کی خوشنودی کامقصدحاصل کرسکتا ہے(امام غزالیؒ)، اساتذہ کو تدریج کے فطری اُصول کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ طالبِ علم کی صلاحیت و استعداد کو بھی دیکھا جائے کہ اس کا ذہن علوم و فنون کی کتنی مقدار برداشت کرسکتا ہے (عبدالرحمن ابن خلدون)،آسمانی شعورتک ادراک حاصل کرنا نظام تعلیم کامنہج ہے(الفارابی)،تعلیمی فلسفہ دینی قیاس کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور فلسفہ قران میں نازل ہونے والی وحی کے عین مطابق ہے(الکندی) ،انسان کا ذہن محض ایک طرح کی صلاحیت یا طبع ہے جو خارجی کائنات سے ذہانت حاصل کرکے اُسے عملی شکل دیتا ہے۔ انسان از خود یا پیدائشی طور پر ذہین نہیں ہوتا۔ تمام انسانوں میں ذہانت مشترک ہے اور شخصی دوام کا نظریہ بے بنیاد ہے(ابن رشدالاندلسی) ،فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا، نیچرل سائنس بائیں ہاتھ میں اور لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا تاج سرپر (سرسیداحمدخان)۔خیروشرمیں تمیزکرنے کی صلاحیت حاصل کرچکنے کے بعد شر کوچھوڑنے اور خیرکواپنانے کانام تعلیم ہے(شاہ ولی اللہ ؒ)،تعمیرخودی اورتکمیل خودی کے ذریعے تشکیل انسانیت تعلیم ہے(علامہ محمداقبالؒ)، ’ابتدائی تعلیم کو عام کرکے ان لاکھوں انسانوں کو، جو لکھنے پڑھنے کی بنیادی صلاحیت سے بھی محروم ہیں، جہالت اور تاریکی سے روشنی میں لانے کے لیے ہمیں عام تعلیم کی اشاعت اور فروغ کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں بھی اقدامات کرنے چاہییں کہ ابتدائی تعلیم کو عام کیا جاسکے۔‘‘(قائداعظم محمدعلی جناح ؒ)، ہمیں ایک ہی ایسا نظامِ تعلیم تجویز کرنا ہو گا جو ہماری ساری قومی ضروریات کو بیک وقت پورا کر سکے۔ اور اس موجودہ تعلیمی ثنویت کو ختم کر دے جو دین ودنیا کی تفریق کے گمراہانہ نظرئیے پر مبنی ہے۔ (مولاناابوالاعلی مودودیؒ)
پس تعلیم ایک ایسا عنصر ہے جوانسان اورجانورمیں بہت سارے مفرقات میں سے ایک بنیادی فرق ہے۔جانوراپنے بچوں کو تعلیم نہیں دیتے بلکہ کسی حدتک انہیں تربیت کے مراحل میں سے گزارتے ہیں اورپھر فطرت خود ان کی نگرانی کرتی ہے اورانہیں زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھادیتی ہے۔جانوروں کی زندگی میں اور انسانی مدنیت میں اسی تعلیم کے ثمرات کے باعث ارتقاء کابھی فرق ہے،چنانچہ جانور،پرندے اور آبی مخلوق آج سے ایک ہزارسال قبل جس طرح رہتے تھے آج بھی اسی طرح رہتے تھے،اسی طرح کھاتے پیتے ہیں،اسی طرح سوتے جاگتے ہیں اوراسی طرح ہی اپنی خوردونوشت کاانتظام و اہتمام کرتے ہیں،چونکہ ان کے ہاں تعلیم نہیں ہے اس لیے ارتقاء بھی نہیں ہے۔اس کے برعکس انسان ماں کی گودسے تعلیم حاصل کرناشروع کرتاہے اور گورتک سیکھنے کے اس مرحلے سے گزرتارہتاہے،اورعمل تعلیم کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔اسی تعلیم کے ثمرات ہیں کہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے کاانسان جن سہولتوں کاسوچ بھی نہ سکتاتھاآج وہ انسان کے کمرہ استراحت تک رسوخ حاصل کرچکی ہیں اوراگرآج سے صدیوں قبل کے انسان کو دوبارہ جنم ملے تووہ دیومالائی کہانیوں کے فرضی قصوں اور تصوراتی کہانیوں میں بیان کیے گئے خیالی واقعات کو گویااپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے مشاہدہ کرلے گا۔یہی تعلیم ہی ہے جوتہذیب و ثقافت میں اضافے اوربڑھوتری کاباعث بنتی ہے،نوجوان جب تعلیم کامقصدلے کر ہجرت کرتے ہیں اوردوردرازکی روایات جہاں اپنے ساتھ لے آتے ہیں وہا ں اپنی قومی و مقامی رسوم ورواج بھی چھوڑ آتے ہیں اوریوں اقوام کے تمدن ایک دوسرے میں نفوذکرتے ہیں اور ایک ہی صدی کے مختصرسے عرصے میں زبانیں نئی لغت کی مالک بن جاتی ہیں،لہجے جدیدسابقوں لاحقوں سے آشناہوجاتے ہیں،بودوباش،خوردونوشت،قیام و طعام اورسفروحضرکے نئے طورطریقے امڈآتے ہیں اوریوں عمل تعلیم کے باعث قدیم و جدید کے درمیان فاصلے بڑھاتاہواانسان نسل درنسل ترقی کی منازل طے کرتاچلاجاتاہے۔
ارتقاء کایہ عمل سوفیصد انبیاء علیھم السلام جیسے نفوس قدسیہ کامرہون منت ہے۔یہ مقدس طبقہ اگردنیامیں مبعوث نہ کیاجاتاتوجنگل کابادشاہ انسان ہی ہوتا۔آج کی چکاچونداورچندھیادینے والی روشنیوں کی دنیامیں بھی جواقوام نبیوں کے پیغام سے دورہیں ان کے سفاکانہ وظالمانہ و بے رحمانہ کردارسے جنگل کے وحشی درندے بھی شرماتے ہیں،حال اورماضی قریب میں افغانستان،کشمیر،فلسطین،برما،بوسینیا،اریٹیریااورسوڈان کے اندر اورماضی بعیدمیں دوبڑی بڑی جنگوں کی داستانوں میں خدا بیزارسیکولرقوتوں کے کردارکو بخوبی مشاہدہ کیاجاسکتاہے۔اللہ تعالی نے انبیاء علیھم السلام کے ہاتھ میں تجارت کے لیے ترازودے کرنہیں بھیجا،لوگوں کو سیدھاکرنے کے لیے ڈنڈاتھماکرنہیں بھیجا،زبردستی حکومت کرنے کے لیے عنان اقتداران کے حوالے نہیں کی اورنہ ہی ان کے ہاتھ میں لاٹھی تھمائی کہ وہ خدائی فوجداربن کرانسانوں کوہانکتے پھریں بلکہ خالق کائنات نے اس مقدس ہستیوں پرآسمان سے کتب نازل کیں،ان کو تعلیم کی فراہمی پرمامورکیا اور ان کے ساتھ بیسیوں نسبتیں ہوسکتی تھیں لیکن ان کے ماننے والوں کو کتاب کی ہی نسبت سے یادکر کے انہیں اہل کتاب کی پہچان عطاکی۔یہ تمام انتظامات عمل تعلیم کی اہمیت پردال ہیں۔انبیاء علیھم السلام کی تعلیم سے دورہوکر عمل تعلیم کے ذریعے ہرطرح کی ترقی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن انسان کوانسان نہیں بنایاجاسکتا،انسان کی نسل کواگرانسانیت بنایاہے تو عمل تعلیم میں انبیاء علیھم السلام کے پیغام کو لازمی مضمون کے طورپرشامل کرناہوگاکیونکہ اسی میں قبیلہ بنی نوع انسان کی فلاح دارین کا رازمضمرہے۔
Comments are closed.