Baseerat Online News Portal

تکثیری سماج میں اپنی دینی شناخت پر قاٸم رہنابھی دعوت ہے

مفتی احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

مسلمان اپنی تہذیب وثقافت کے تیٸں اتنے پوپلے ہیں کہ فورا دوسروں کی تہذیب کو قابل فخر سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں، اس لٸے مسلمانوں کے محلے الگ ہونے چاہیں۔ واہ رے بھاٸی کیا سوچ ہے! آپ ایک جمہوری ملک میں اورتکثیری سماج میں رہتے ہیں، پھر بھی الگ رہنے کی خواہش ۔ ایک مسلمان کو تو اپنے اسلامی آداب واخلاق کے ساتھ غیر مسلم محلے میں بودوباش اختیارکرنا چاہیے، مردوں کو چاہیٸے کہ وہ ظاہری طورپر لباس وپوشاک سے لیکر وضع قطع میں پابند شرع رہے اورخواتین اورمسلم بچیوں کو اوراپنے گھرکی خواتن کو باحجاب رکھے تاکہ اس کی زندگی دعوت اسلامی کا مظہر بن جاٸے ۔ ”وجعلناکم امة وسطالتکونوا شھدا ٕ علی الناس “جولوگ علاحدہ مسلم آبادیاں بسانے کی بات کرتے ہیں۔ کیا علاحدہ رہنے سے یہ فریضہ ادا ہوگا؟ حدیث رسول کامقصد کفر اورشرک سے انتہادرجہ کی نفرت کا احساس دلاناہے ۔کفر اورشرک سے نفرت ہونی چاہیئے، کافر اورمشرک سے نہیں ۔اگر آپ علاحدہ رہنےلگے تو آپ دین کی دعوت کس کو دیں گے؟
دوسری تہذیبوں کو اختیار کرنے کاخدشہ وہ قومیں محسوس کرتی ہیں جن کی تہذیب پھس پھسی اورمن گھڑت اصولوں پر مبنی ہو ۔اسلامی تہذیب تو الہی منشور سے ماخوذ ہے، اسے تو مضبوط اورلاٸق تقلید ہوناچاہیے ۔اگر نہیں ہے تو یہ خود مسلمانوں کے اپنی تہذیب سے بغاوت کا شاخسانہ ہے۔ فلتأمل۔
مسلمانوں کے اپنی تہذیب اور دینی شاخت کے ساتھ دوہرے رویٸے کاالمیہ یہ ہے کہ وہ خود پابند تہذیب نہیں ہے، مگر اپنے گھر کی خواتین کو اسلامی شعار اورحجاب اپنانے کی نہ صرف یہ کہ خواہش رکھتے ہیں بلکہ انھیں پابند کرنے پر زوردیتاہے۔ آج پوری مسلم دنیا کے مردوں اورمسلمانوں کا یہی حال ہے، وہ خود طرززندگی یورپ کی اپناٸے ہوٸے ہے اوراپنی خواتین سے مطالبہ ہے کہ وہ خدیجہ اورفاطمہ کا لباس پہنے ۔یہی وجہ ہےکہ ان ملکوں میں خواتین کی طرف سے اکثرحجاب کے خلاف ردعمل دیکھنے میں آتارہتاہے۔ اپنی تہذیب وثقافت سے تعلق ومحبت کاعالم یہ ہے کہ اقبال کو بھی مسلمانوں کے طرز حیات پر شکوہ کرناپڑا :
”وضع میں تم ہونصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جھنہیں دیکھ کے شرماٸے یہود
تکثیری سماج کی بنیاد:
تکثیری مذھبی سماج اورمعاشرہ کی بنیاد یورپ اورنوآبادیاتی اپارٹمنٹ سسٹم کورواج دینے والےلوگوں نے نہیں رکھی، بلکہ اس کی بنیاد خود اسلام نے اوررسول اللہ نے مدینہ میں میثاق مدینہ کے ذریعہ رکھی اوراپنے ساتھ یہودیوں کو جان ومال کے تحفظ کے ساتھ مدینہ میں پناہ دی، مگرجب انھوں نے مدینہ میں رہ کر خود رسول اللہ کے ساتھ ریشہ دوانیاں شروع کردیں تب ان کو مدینہ سے نکالا گیا اورپھر سارے یہودی خیبر میں جمع ہوگئے اور وہاں سے اسلام کے خلاف سازشیں کرنے لگے اورمجبور ہو کر مسلمانوں کو خیبر فتح کرنا پڑی جس کی تکمیل سیدنا علی مرتضی کی سپہ سالاری میں ہوٸی اوراسی تناظر میں پہلی اوردوسری جنگ عظیم کے زمانے میں یورپ کے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کو پناہ دی گئی جس کانتیجہ ہے کہ اس وقت پوری دنیامیں پچاس فیصد مسلمان مسلم اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزاررہے ہیں۔اس کو اگرپیش نظررکھاجاٸے توعلاحدہ آبادی کاتصور قطعامفید نہیں ہے ۔موجودہ تناظر میں دوسری اقوام کے ساتھ اشتراک عمل اورسماجی معاملات میں مشترکہ ایجنڈا کی ضرورت ہے۔ تاکہ معاشرے کے ہرطبقہ کو زندگی کے معاملات اورشہری حقوق میں انصاف مل سکے۔کسی چیز کو غلط سمجھتے ہوٸے بھی ان میں شرکت کیے بغیرمشترک سماج میں گواراکیاجاسکتاہے۔ انسانی بنیاد پر تمام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کریں اسلام اس سے نہیں روکتا ۔فکری بنیاد پر ایک دوسرے کو متحدکریں ۔یہ تکثیری سماج کے تقاضے ہیں اوریہ مشترکہ بنیادیں ہمیں میثاق مدینہ میں بھی ملتی ہیں اورہجرت حبشہ میں بھی۔اس لٸے آج دوریوں کی نہیں تمام طبقات سے اپنے اپنے اصولوں پر باقی رہتے ہوٸے نزدیکیاں پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ اس لٸے اپنی قوم میں اپنی تہذیب کے تعلق سے غیرت کو بیدار کیجٸے۔خود بھی اسلامی شعار اپناٸیے ۔ منہ چراکر بھاگنے کی ترغیب مت دیجٸےاورحالات کومدنظررکھتے ہوٸے مشترکہ سماج بناٸیے۔

Comments are closed.