مودی حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک پیش

نئی دہلی(ایجنسی) لوک سبھا کے اسپیکر نے نئے اپوزیشن اتحاد ( انڈیا) کی قیادت کرنے والی کانگریس اور ایک دیگر اپوزیشن بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس) کی طرف سے مودی حکومت کے خلاف الگ الگ پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریکوں کو قبول کرلیا ہے البتہ ابھی اس پر بحث کے لیے وقت مقرر نہیں کیا گیا ہے۔
بحث کے لیے منظور کرنے سے قبل اسے کم از کم 50اراکین کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ کانگریس کے پاس ضروری حمایت موجود ہے لیکن بی آر ایس کے صرف نو اراکین ہیں اور وہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد میں شامل نہیں ہے۔
543 رکنی لوک سبھا میں حکمراں این ڈی اے اتحاد کے اراکین کی تعداد 331 ہے جب کہ اپوزیشن ’’انڈیا‘‘ کے صرف 114اراکین ہیں۔ اس لیے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے ان کے پاس خاطر خواہ تعداد نہیں ہے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ تحریک اس لیے پیش کی ہے تاکہ منی پور میں تقریباً تین ماہ سے جاری نسلی تشدد پر ایوان میں بحث کرائی جاسکے اور اس مسئلے پر وزیر اعظم نریندر مودی کو ’’منہ کھولنے کے لیے مجبور کیا جاسکے۔‘‘
VIDEO | "Regarding the no-confidence motion, we are well aware that the numbers are not in our favour. But it not about the numbers, the PM will have to speak in the Parliament following a no-confidence motion," says RJD MP @manojkjhadu on reports of the opposition mulling to… pic.twitter.com/0EMmbpSfVI
— Press Trust of India (@PTI_News) July 26, 2023
منی پور میں اکثریتی ہندو میتئی اور مسیحی فرقے سے تعلق رکھنے والے کوکی قبائیلوں کے درمیان 3 مئی سے جاری تشدد میں اب تک 150سے زیادہ افراد ہلاک اور 50000 سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں۔ 250سے زائد گرجا گھروں اور عبادت گاہو ں کو آگ لگادی گئی ہے اور کروڑوں روپے کے اثاثے جل کر راکھ ہوچکے ہیں۔ دو کوکی خواتین کے برہنہ پریڈ کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم مودی پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے۔
اپوزیشن کا الزام ہے کہ وزیر اعظم مودی نے اتنے سنگین معاملے پر اب تک جان بوجھ کر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ منی پور میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔
وزیر اعظم مودی نے 20جولائی کو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے آغاز سے قبل پارلیمنٹ کے باہر روایتی طورپر ایک بیان دیا تھا۔ تاہم اپوزیشن منی پور پر ان کے 36 سیکنڈ کے بیان سے مطمئن نہیں ہے اور پارلیمنٹ میں بیان دینے کے مطالبے پر مصر ہے۔ اس معاملے پرپارلیمنٹ میں گزشتہ کئی دنوں سے تعطل جاری ہے۔
مودی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی یہ دوسری تحریک ہے۔ پہلی تحریک 2018 میں پیش کی گئی تھی۔ جس پر حکومت کو 325 اور اپوزیشن کو 126ووٹ ملے تھے۔
بعض رپورٹوں کے مطابق پارلیمنٹ کی تاریخ میں آج تک عدم اعتماد کی 27 تحریکیں لائی گئی ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک کامیاب ہوئی۔ اپریل 1999 میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی حکومت ایک ووٹ سے عدم اعتماد کی تحریک ہارگئی تھی اور حکومت کو استعفی دینا پڑا تھا۔
بی جے پی رہنما اور پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی کا کہنا تھا، ’’مودی حکومت کی پہلی مدت میں بھی اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی لیکن 2019 کے الیکشن میں ہماری سیٹیں 282 سے بڑھ کر 303 ہوگئیں۔ انہیں عدم اعتماد کی تحریک لانے دیجئے اس مرتبہ ہم 350 سے زائد سیٹیں جیتیں گے۔‘‘
Comments are closed.