نوجوان اپنے اندر حسینی کردار پیدا کریں،دین کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینا ہی شہادت حسین کا سبق ہے:ملی کونسل بہار

یوم عاشورہ کے موقع پر خرافات اوربدعات سے پرہیز کریں مسلمان
پٹنہ:27جولائی(پریس ریلیز)آل انڈیا ملی کونسل بہار کے زیر اہتمام آج ایک آن لائن نشست یوم عاشوراء سے متعلق رکھی گئی،جس کا عنوان”موجودہ حالات میں یوم عاشوراکا سبق“تھا۔اس نشست کی صدارت آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کی۔اس نشست میں ملی کونسل کے ذمہ داروں کے علاوہ اہم شخصیات شریک تھے۔نشست کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔آل انڈیا ملی کونسل بہار کے نائب صدر مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اجل سے ہی سچ اورجھوٹ،حق اورباطل کی جنگ ہوئی ہے۔شیطانی ٹولہ ہمیشہ اسلام کے خلاف کھڑا رہا ہے اورہردور میں اہل حق نے اس کا مقابلہ کیا اورکبھی اہل حق نے باطل سے مقابلہ کے اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔یوم عاشوراء کے دن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ابدی اورجاودانی پیغام یہی ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی حق کا ساتھ دینا چاہیے اورباطل کے سامنے سپردگی کے مقابلہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کردینا ایمانی غیرت کا تقاضہ ہے،یہی سبق سیدنا حضرت حسین نے امت کو دیا۔وہ نوجوانوں کے سردار تھے،اس لیے نوجوانوں کو بطور خاص حضرت حسین کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے اورانہی کے نقش پا کی اقتدا کرنی چاہیے۔
جب کہ آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدرمولانا انیس الرحمن قاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایاکہ ماہ محرم عظمت والا مہینہ ہے،جس کا مقصد امن ہے،تقویٰ ہے؛اسی لیے اس مہینہ کے 9اور10تاریخ میں روزہ رکھنا مستحب ہے؛کیوں کہ اسی تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سیدنا موسیٰ علیہ السلام اوران کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی تھی اورفرعون کو ہلاک کردیا تھا۔آقا صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ اس دن کا روزہ رکھتے ہیں،آپ نے پوچھا کہ تم روزہ کیوں رکھتے ہو؟انہوں نے عرض کیا کہ اس دن چوں کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے ظلم سے نجات دی تھی،اس کے شکرانے کے طور پر ہم یہ روزہ رکھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہم موسیٰ علیہ السلام کے پیروی کے زیادہ حق دار ہیں اورآپ نے صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا،البتہ فرمایاکہ دو روزہ رکھو تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہوجائے۔انہوں نے مزید کہاکہ محرم کی دسویں تاریخ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دردناک واقعہ بھی پیش آیا،ان کی شہادت امت کے نوجوانوں کو یہ درس دیتی ہے کہ وہ شجاعت،عدالت،انصاف،سادگی اوراخلاص کی صفات اپنے اندر پیدا کریں،قناعت پسند بنیں اوراللہ سے ڈرنے والا بنیں۔واضح رہے کہ امت کے نوجوانوں کا کردار ایمان ویقین کی مضبوطی سے بنے گا؛اس لیے ملکی سطح پر بھی اورعالمی سطح پر بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت،،رزاقیت،اس کی ربوبیت اورکارسازی پر مضبوط ہونا چاہیے۔انسانوں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ڈر اورخوف ایمان سے دور ہوتا ہے۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی کا سبق یہی ہے کہ اللہ کے دین کی حفاظت میں وقت،مال اوربوقت ضرورت جان کی قربانی پیش کرنی چاہیے۔یوم عاشوراء میں ہندوستان کے مختلف شہر اوردیہاتوں میں تعزیے نکالے جاتے ہیں اوراس کے علاوہ دوسرے ناجائز امور سرزد ہوتے ہیں۔ایمان والوں سے اپیل ہے کہ وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی صحیح سنت پر چلیں،امن وامان کو قائم رکھیں،پڑوسی اورملکی باشندوں کے ساتھ مل کر رواداری کا ثبوت دیں۔اپنی زبان وجسم سے کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہونے کا موقع نہ دیں۔
جناب مولاناابراراحمد مکی نئی دہلی نے کہاکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت حق کی راہ میں عظیم تر قربانی ہے،ان سے پہلے حضرت علی،حضرت عثمان، حضرت عمر،حضرت حمزہ،حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہم جیسے سینکڑوں صحابہ کرام بلکہ انبیاء کرام نے بھی اللہ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔اس میں یہ سبق ہے کہ دین کے لیے انتہائی جدوجہد کرنی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے،خواہ اس راہ میں جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔محرم الحرام کو ویسے ہی منانا چاہیے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام نے منایا۔اسلام کسی خرافات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
اس نشست کا آغاز میں آل انڈیا ملی کونسل کے کارگزار جنرل سکریٹری مولانا محمد نافع عارفی نے کہاکہ دنیا میں ابتداسے دوطرح کے کردار رہے ہیں،ایک شیطانی ٹولے کے کردار اورایک رحمن کے مطیع وفرماں برداربندوں کا کردار ہے،ایک اہل حق کا کردار ہے اورایک اہل باطل کا کردار ہے۔حق ہمیشہ آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا اورہمیشہ سرخرو ہوکر نکلا،اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرمادیا تھا کہ ہم تمہیں مال کی کمی،جانوں کے اتلاف،بھوک،خوف سے آزمائیں گے اوران حالات سے مقابلہ کا طریقہ بتلایا کہ صبر کے ساتھ نماز کے ذریعہ مجھ سے راہ حق میں مدد طلب کرو،سیدنا حضرت حسین علیہ السلام نے کربلا میں جو شہادت پیش کی،وہ دین کی حفاظت کے لیے تھی،ان کے لیے گوارا نہیں ہوسکتا تھا کہ ان کے جیتے جی دین کا کوئی حکم پامال ہوجائے۔حضرت حسین علامت ہیں حق اورباطل کی تمییز میں،جو حسینی ہوگا اورحضرت حسین کا چاہنے والا ہوگا،وہ اللہ اوراس کے رسول کی شریعت پر سختی سے عمل پیرا ہوگا،حسینی کردار یہ ہے کہ حالات کتنوں ہی سخت ہوں،حق کا ساتھ نہ چھوڑا جائے اورباطل کے سامنے سینہ سپر ہوجائے۔
Comments are closed.