Baseerat Online News Portal

ہرمسٸلہ کاحل حقیقی دین کو اختیار کرناہے

مفتی محمد احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تو کبھی بھی حضرت علی نے یأ حضرت حسین نے لعن طعن نہیں کیا اور نہ ہی انھوں نے اہل بیعت کو براکہا ۔ دونوں کے درمیان سیاسی اور امور خلافت کے معاملہ میں اختلافات اپنی جگہ پر مگر شخصی طور پر تو ایک دوسرے کو گالیاں نہیں دیں اور نہ ہی کافر گردانا، توہم کون ہوتے ہیں کسی صحابی کو لعن طعن کرنے والے۔ یہ حق ہم کو کس نےدیا؟ کیا اللہ نے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حق دیاہے کہ ہم کسی صحابی کو محض خلافت اور حکومت کے معاملات کی وجہ سے لعن طعن کرکے اپنی عاقبت خراب کریں. میں سمجھتاہوں یہ حق دین نےکسی کو نہیں دیاہے اورحق بات تو یہ ہے کہ حضرت علی اورحضرت حسین اوراہل بیعت تو لعن طعن کرنے کی بجائے حق کے دفاع میں ڈٹ گیے تھے. نہ تو انھوں نے معاویہ اوریزید پر لعنت بھیجی اور نہ کافر قرار دیا بلکہ میدان میں آٸے. تو بات امورخلافت میں حق کی ہے تو میدان میں آناچاہیے نہ کہ لعن طعن کرنا اورکافر گردانناچاہیے۔ لعن طعن کاراستہ تو وہ اختیار کرتاہے جو ذمہ داری سے بھاگتاہے. آج دنیامیں یہی ہورہاہے۔ میں بس اتنا کہناچاہتا ہوں کہ لوگ حقیقی دین اورحقیقی اسلام کی طرف آٸیں.
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کاسوال ہے
ماضی میں گزرے ہوٸے لوگوں کو کوستے رہنا یہ تومسٸلہ کا حل نہیں ہے اور نہ ہم اس کے مکلف ہیں۔ ہم تو کسی کی کردار کشی کے بجاٸے دین پر عمل کے مکلف ہیں اور دین وہ ہے جو قران اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مری احادیث میں ہے اور بس. یہ بات بھی ہمیشہ ہمارے دل میں چبھتی رہتی ہے کہ پوری امت کامنتہاٸے نظر جب نظام خلافت ہے تو پھر مسلمان مغرب کے نافذ کردہ جمہوری نظام حکمرانی کا دلدادہ کیوں ہے. بات دراصل یہ ہے کہ صرف زبانی خلافت کرنی ہے عملی نہیں ۔اگر عملاایساکرناہوتا توکم از کم روٸے زمین کا وہ خطہ جو مسلمانوں کی دسترس میں ہے اور وہاں جو نظام چاہیں نافذ کرسکتے ہیں،وہاں کیوں نہیں خلافت قاٸم کرلیتے ہیں، مگر ایسا کرنایی نہیں چاہتے، صرف زبانی بات کرتے ہیں تاکہ خلافت کے نام پر اپنے مسلک ومشرب کی بس دکان چلتی رہے ۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں تو قران نے کہاہے ”لم تقو لون مالاتفعلون“ حقیقت یہ ہے کہ خود مسلمان دین بیزار ہے وہ خود نہیں چاہتاکہ اس پر دین کی حکمرانی رہے، اگر خلافت قاٸم ہوگٸی تو پھر دین کا پابند ہوناپڑے گا. بارہا دیکھنے میں آیا پاکستان اوربروناٸی کی مثال ہمارے سامنے ہے جب بھی نفاذ شریعت کی بات ہوٸی تو سب سے پہلے خود ان ملکوں میں مسلمان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے، کسی نے یہ کہ کر بات ٹالنے کی کوشش کی کہ پہلے عوام کاذہن بنایاجاٸے پھر نفاذ شریعت کی بات کی جاٸے. تدریجی اصول کی بات کرنے لگے. کسی نے یہ کہا کہ اس دور میں نفاذ شریعت ممکن نہیں ہے وغیرہ وغیرہ تو دینی بیزاری اورتضاد خود مسلمانوں میں ہے، بات اسلام کی ہم کرتے ہیں اوردلبستگی مغربی جمہوریت سے ہے. امت میں جب تک اسلاف جیسا شرعی معاملات میں قلب وجگر اوردینی جذبہ پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک قول وعمل کے نفاق کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ ۔یہی بات تو نظام حکمرانی کے داناٸے راز علامہ اقبال نے کہی ہے:

”تا خلافت کی بنا دنیامیں پھرہواستوار
لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کاقلب وجگر“
بات جب ہم حسین وعلی سے وفاداری کی کرتے ہیں تو انھیں جیسا ہمارا عمل بھی توہوناچاہیے.
شاید کہ اترجاٸے تیرے دل میں میری بات.

Comments are closed.