حالیہ ظالمانہ واقعات جمہوریت کے خوبصورت باغیچہ میں بدنما داغ : غیاث احمد رشادی

حیدرآباد(پریس ریلیز)
امن و سلامتی والا ماضی کا ہندوستان ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے اور حالیہ ظالمانہ واقعات و حادثات سے ہمار ا یہ خوبصورت باغیچہ بدنما داغ میں تبدیل ہورہا ہے۔ ملک بھر میں جاری ظلم و تشدد، جبر و استبداد کے مسلسل واقعات نے باشندگانِ وطن کو ایک عجیب و غریب الجھن میں ڈال رکھا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار مولانا غیاث احمد رشادی صدر منبر و محراب فاونڈیشن انڈیا نے اپنے صحافتی بیان میں کیا اور کہا کہ منی پور میں جاری پچھلے تین ماہ سے تشدد اور فسادات نے جہاں پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے اور پوری دنیا یہ مناظر دیکھ رہی ہے وہیں ہریانہ میں حالیہ فرقہ وارانہ فسادات سے امن پسند اور سیکولر ذہنیت کے سنجیدہ افراد انگشت بدنداں ہیں۔ یہ افسوسناک اور حیرتناک بات ہے کہ جن کے کاندھوں پر عوام کے تحفظ کی ذمہ داری ہے وہی عوام کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر نہتے معصوم مسافروں پر فائرنگ کی جائے تو عوام اب کس پر یقین اور اعتماد کرے گی کہ ان کے ساتھ انصاف و احسان کا برتاو کیا جائے گا؟ سوشیل میڈیا پر وائرل ویڈیو دیکھنے کے بعد ہر کسی کا دماغ دنگ ہے کہ کیا اب یہ ملک اس حد تک بھی پہنچ سکتا ہے ؟ ممبئی ۔جے پور ایکسپریس میں بے گناہ تین مسلمانوں اور ایک پولیس افسر کا قتل نیز دورانِ سفر معمولی نوعیت کے جھگڑے پر فائرنگ کا یہ واقعہ ہر ایک کے لیے دل دہلا دینے والا حادثہ ہے۔ اس منظر کر دیکھنے کے بعد انسانیت کا درد رکھنے والی ہر آنکھ اشکبار ہے اور ہر زندہ ضمیر کو اس واقعہ نے جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے ۔ اس موقع پر مولانا نے کہا کہ ہریانہ کے گروگرام کی انجمن مسجد کے نائب امام کا جس بے دردی سے قتل کیا گیا اور 19سالہ نوجوان کو جس طرح موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یہ پوری ملت کے لیے انتہائی المناک حادثہ ہے ۔ اس شہید نوجوان کے والدین اپنے لڑکے کی آمد کے منتظر تھے اور شہید حافظ سعد نے یکم اگست کو اپنے گاؤں سیتا مڑھی پہنچ کر اپنے والدین سے ملاقات کرنے کے لیے ٹکٹ بھی بنوا لیا تھا لیکن یہ نوجوان اپنے گھر از خود نہیں پہنچ سکا، چارکے کندھوں کے سہارے اس کا جنازہ اس کے گھر پہنچا جو یقینا کسی بھی والدین کے لیے زندگی کا ناقابل برداشت لمحہ ہے اور اس ملک کے ہر شہری کے لیے افسوسناک بھی ہے۔ مولانا نے کہا کہ ہندوستان میں اس طرح کے مسلسل واقعات میں جانے والی ایک ایک جان جمہوریت کے خوبصورت باغیچے پر بد نما داغ بن رہی ہے ۔ پچھلے آٹھ نو سالوں میں جس طرح مسلم مخالف فضا بنائی گئی اور اس انتہائی درجے کی متعصبانہ لہر چلانے میں جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ انجام کی پرواہ کیے بغیر اس طرح کی مذموم فضا بنادی گئی یا پھر ایک منصوبہ بند سازش رچی گئی جس کے نتائج آج بہ آسانی برآمد ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست تنظیموں سے وابستہ افراد کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں اور سڑکوں پر جا بجا انسانیت کو شرمسار کررہے ہیں۔ اچھے بھلے انسانوں کی زندگیوں کو اجاڑ کر جمے جمائے کاروبار کو تہس نہس کرکے وہ فخر محسوس کررہے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ آج انسانی جانوں کی قدر و قیمت باقی نہیں رہی، نہ حکومتوں کو اس کی پرواہ ہے اور نہ لیڈران و سرکاری افسران کو کوئی دلچسپی ہے کہ اس کے سد باب کے لیے کوششیں کی جائیں۔ مولانا نے کہا کہ ملک میں جاری نفرت انگیز لہر کے خاتمہ کے لیے حکومتوں اور میڈیا کو اپنا فریضہ ادا کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ جس راستے سے یہ فضا ہموار کی گئی اسی راستے سے اس کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ ہمیں اس طرح کے واقعات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے بہتر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
Comments are closed.