Baseerat Online News Portal

اسلام میں تعدد ازدواج : حکمت اورمعنویت

 

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ،نئی دہلی

یہ دین اسلام کی خصوصیت ہےکہ اس نے جتنے بھی قوانین اوراصول انسانوں کو دیٸے ہیں وہ حکمت ومعنویت کے لحاظ سے فطرت انسانی سے ہم آہنگ، بلکہ عین انسانی مزاج ومذاق کے مطابق اور انسان اپنی عقل وخرد سے جتنا سوچ سکتاہے اس سے بھی زیادہ اصول عدل وانصاف پر مبنی ہے۔ خواہ انسان مذھبی عصبیت کی وجہ سے اسے تسلیم نہ کرے مگر ادنی سوچ وفکر کی صلاحیت رکھنے والا شخص بھی اس کی حکمت بالغہ کا انکار نہیں کرسکتا.
تعددازدواج کی حکمت ومصحت کا ادراک کرنے سے پہلے اس بات کو سمجھناضروری ہےکہ خالق کاٸنات نے مردوعورت دونوں کو ایک دوسرے کا محتاج کیوں بنایاہے اورایک انسان کو لاٸف پارٹنر کی کیوں ضرورت ہے؟اورساتھ ہی میں یہ بھی کہ انسان ہی نہیں بلکہ ہرجاندار کے اندر تولیدی اورافزاٸش نسل کی صلاحیت خلاق عالم نے کیوں رکھی ہے؟ جب ہم انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات کو دیکھتےہیں توپتہ چلتاہے کہ وہ اپنے اپنے جوڑوں سے اسی وقت ملتےہیں جب انھیں اپنی ذریت کوآگے بڑھاناہوتاہے یایوں کہئے کہ ان کے اندر اس کااحساس اسی وقت فطری طریقہ پر جاگتاہے جب ان کو اپنی اگلی نسل کو وجود میں لاناہوتاہے۔ ان کی اس فطرت سے اندازہ ہوتاہے کہ اس تولیدی صلاحیت کامقصد صرف اورصرف افزاٸش نسل ہے۔ ٹھیک اسی طرح انسان بھی ایک حیوان ذی شعور اوراشرف المخلوقات ہے اوراللہ نے اس کے اندربھی جوتولیدی صلاحیت رکھی ہے اس کامقصدبھی وہی افزاٸش نسل انسانی ہے۔ یہ انسانی بدقسمتی اورعقل ودانش کاغلط استعمال ہے کہ وہ اپنی اس عظیم صلاحیت کو محض مستی اورانجواٸے کا سامان سمجھتاہے یاسمجھ بیٹھاہے، یااس کے ذہن ودماغ میں بٹھادیاگیاہے اورآج کا انسان اسی راہ پہ چل پڑاہے۔ حالانکہ اس بات سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتاہے کہ باوجود اس جنسی ہوس رانی کے ہرانسان کے دل میں اللہ نے اولاد کی خواہش رکھی ہے۔ قران کافلسفہ یہ بتاتاہے کہ انسان جس طرح دنیوی مال واسباب میں کثرت کاخواہاں ہے اسی طرح کثرت اولاد بھی اس کی فطری خواہش کاحصہ ہے، اگر انسان کو اولاد نہ ہوتو انسان اپنے آپ کو ادھورا تصور کرتاہے اورکوشش بسیار کے بعدبھی اولاد نہ ہوتو کتنوں کی زندگی مایوسی کاشکار ہوکررہ جاتی ہے۔لوگ نامردی کے طعنے تک دینے لگ جاتے ہیں ۔عورت اپنے اہل خانہ کی نظروں میں بے وقعت ہوکر رہ جاتی ہے۔مگر یہ دنیاکی ستم ظریفی ہے کہ فقروفاقہ کے خوف اوردنیوی راحت وآرام میں خلل اورکمی واقع ہونے کے اندیشوں کی وجہ سے اولاد کم ہونے کی آرزو کرتاہے اورمالتھیسی نظریہ کے مطابق قانون سازی کے ذریعہ انسان کی آمد پر بندش لگاتاہے کہ اگر دنیامیں انسان زیادہ پیداہوگٸے تو ہم کھاٸیں گے کہاں سے اوران کی غذاٸی ضرویات کیسے پوری ہوں گی۔ اس کے لٸے کبھی کبھی انسانوں کے درمیان جنگ کاسہارا بھی لینے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ بڑی تعداد میں انسان ہلاک ہوں اورزمین پرآسودگی سے جینے والی انسانی آبادی کاتناسب برقراررہے۔ ”ہم دو ہمارے دو“کی پالیسی بھی اسی منحوس سوچ کا نتیجہ ہے، حالانکہ قدرتی نظام یہ ہے کہ اللہ تعالی روٸے زمین پر فطری قانون کے ذریعہ اتناہی انسان کو پیداکرتاہے جس سے زمین اورکاٸنات کاتوازن برقراررہے۔اگرایسانہ ہوتا اورسب کچھ انسان ہی کے بس میں ہوتاتو انسان اپنے جوڑے سے زندگی میں نہ جانے کتنی بارملتاہے ہربار ایک یااس سے زیادہ بچے پیداہونےچاہیٸے تھے مگر ایسانہیں ہوتا، وہ اسی لٸے کہ اس تخلیقی نظام کو اس رب نے اپنے اختیار میں رکھاہے۔ بہرحال اب بات کرتے ہیں اسی نظام فطرت سے مربوط تعددازدواج کی جیساکہ میں نے پہلے عرض کیاکہ اللہ نے انسان کے اندر تولیدی صلاحیت افزاٸش نسل کے مقصد سے رکھی ہے نہ کہ محض جنسی لذت اندوزی کے لٸے ۔جب بات تولید پر آتی ہے تو پھر شادی انسان کی ضرورت قرار پاتی ہے اورضرورت انسان کی ایک لاٸف پارٹنرسے بھی پوری ہوسکتی ہے اورایک سے زیادہ کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے۔اس کا اندازہ ہرشخص اپنے لحاظ سے کرسکتاہے۔ ایک سے زیادہ نکاح یہ کوٸی فیشن اور شوق نہیں ہے بلکہ ضرورت ہے اورپھر اس کے معاشرتی تقاضے بھی ہیں اوروہ ہے”عدل“اگر عدل وانصاف ممکن نہیں تو پھرضرورت کے باوجود ایک ہی نکاح پر اکتفالازم ہے ۔اسی لٸے قران نے یہ قانون دیاہے”فان خفتم أ لا تعدلوا فواحدة“ (سورہ نسا ٕ ٣) (سواگر تم کو اس بات کا اندیشہ ہوکہ ایک سے زاٸد بیویوں کے درمیان عدل برقرارنہیں رکھ سکوگے توپھر ایک ہی بیوی پر اکتفاکرو)۔

خواتین کے ساتھ سماجی انصاف کا تقاضا

میں نے اوپر یہ بات کہی کہ تعدد ازدواج ایک معاشرتی ضرورت بھی ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ آج دنیا میں خواتین کا استحصال مختلف طریقے سے ہوتاہے۔ ان میں جنسی استحصال سب سے زیادہ ہے۔ اس میں جہاں مردوں کی ظالمانہ ذہنیت کادخل ہے وہیں خود خواتین بھی اس میں برابرکی شریک ہیں ۔خواتین کو عزت دینا اوران کے ہرحقوق کو اداکرنا یہ مردوں کی ذمہ داری ہے. ایک عورت کی ذمہ داری یہ ہےکہ مردوں کو اس سے راہ فرار کا موقعہ نہ دے یااپنے آپ کواپنی فطرت کے آگے مغلوب ہوکر یا جھانسے میں آکر مردوں کے ہاتھوں بے جا استعمال نہ ہو۔آج معاشرہ کی جو صورت حال ہے اسکےدونوں ذمہ دارہیں۔ ایک ہی جنس کو مورد الزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا. وہ معاشرہ جو اپنے آپ کو حرام وحلال کی ہر قید سے خود کو آزادسمجھتاہے اس کےلٸے سب حلال ہی ہے حرام کچھ بھی نہیں. اس معاشرے کے مردوں کی یہ عیاری ہے کہ وہ ایک سے زاٸد عورتوں سے تعلق رکھناتوپسندکرتاہے، بیوی کی طرح دوستی اورفرینڈ شپ کے نام پر ساری چیزیں روارکھنا چاہتاہے مگر اسے بیوی کی طرح اپناکر عزت دینانہیں چاہتا، واجب ہونے والے حقوق سے بھاگتاہے۔باندی کےنام پر اسلام پراعتراض بھی کرتاہے مگربغیرشادی کے رکھیل بھی رکھناچاہتاہے اورریلیشن شپ بھی رکھتاہے، یہ آزاد معاشرے کے مردوں کاحال ہے۔ اسے عورت ایک سے زیادہ چاہیٸے مگر بیوی کے طورپر نہیں ۔اورعورت کا اپنی بہن کے ساتھ یہ رویہ اورظلم کہ اگرپتہ چل جاٸے تو مردکومجبور کرتی ہے کہ تم سب کچھ کرسکتے ہو مگر اسے میرے ہوتے ہوٸے بیوی بناکرنہیں لاسکتے۔ یہی وہ ناانصافی ہے خواتین کے ساتھ اسلام جس کا تعددازدواج کے ذریعہ خاتمہ چاہتا ہے۔یہ قانون تو عین عورت کے حق میں ہے، تویہ تو عورت کے ساتھ انصاف ہے، ناانصافی کا نام کس سوچ کی بنیاد پردیاجاتاہے؟ ذراسوجٸے انسان کی ذہنی پستی کا حال۔۔ ”خردکانام جنوں رکھدیا جنوں کا خرد
جوچاہے آپ کاحسن کرشمہ ساز کرے۔“۔۔ اسلام یہی چاہتاہے کہ عورت بغیر کسی سیکوریٹی کےکسی کے لٸے سامان تفریح نہ بنے اوراس کاطریقہ یہ ہے کہ مرداس سے پہلے نکاح کرے مگر موجودہ معاشرہ عورت سے فاٸدہ بھی اٹھاناچاہتاہے اوراسے اپنانابھی نہیں چاہتا۔بھلا عورت کے ساتھ اس سے بھی بڑی کوئی ناانصافی ہوسکتی ہے.
لیوان ریلیشن شپ اورکورٹ کافیصلہ :
جہاں تک انسانی غیرت کاتعلق ہےتو بحیثیت ایک عورت کے ہرمذھب کی عورت میں یہ چیز پاٸی جاتی ہے اورہرعورت یہ چاہتی ہے کہ کوٸی مرد بغیر اسکے مستقبل کی سیکوریٹی کے اس کی زندگی میں نہ آٸے ۔یہی وجہ ہےکہ بعض باغیرت خواتین نے اپنے جنسی استحصال کی وجہ سے کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایا اوراسے کامیابی ملی۔ آخر کورٹ نے لیو ان ریلیشن شپ کے معاملہ میں اسطرح فیصلہ دیاکہ بیوی ہونے کے باوجود اپنی مرضی سے ایک مرد اورایک عورت باہمی طورپر میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں ۔ بادی النظر میں یہ تعددازدواج ہی کی توشکل ہے۔ دونوں میں فرق بس اتناہےکہ اسلام یہ چاہتاہے کہ دو مسلمان عاقل بالغ کی موجودگی میں شرعی طریقے پر نکاح کرکے حقوق وواجبات کے ساتھ رہ سکتے ہیں اورکورٹ یہ کہ رہاہے کہ اپنی مرضی سے رہ سکتاہے۔مرضی دونوں جگہ ہے۔ میں توکہتاہوں کہ گویا کورٹ نے اسلامی قانون تعددازدواج کو مان لیاہے۔مقصد ایک ہے نوعیت الگ ہے اوربس۔۔چونکہ ہندو شاستر کے مطابق ایک مرد ایک ساتھ دوعورت کو منگل شتر نہیں پہناسکتا اس لٸے کورٹ نے مرضی کی قیدلگادی اوراسلام میں اس کی اجازت پہلے سے ہی ہے اورحقوق میں عدل چاہتاہے اسلیے نکاح کی قید لگاٸی۔ ( قانونی لیو ان ریلیشن شپ میں مرد کے انتقال کے بعد عورت کو جاٸداد میں حصہ ملے گا یا نہیں؟ اس پر اگلی قسط میں بات کریں گے) کورٹ اس فیصلے کے بعد تو اس بارے میں کوٸی نزاع نہیں ہے۔میں فقہ اورقانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے بات کررہاہوں۔ بحث کی پوری گنجاٸش ہے۔

Comments are closed.