نصاب و نظام کی افادیت

 

مولانا محسن علی
صدر جمعیۃ علماء گوونڈی

تجدد پسند طبقہ امتِ مسلمہ کے تنزل کا سارا الزام موجودہ نصاب پر ڈال دیتا ہے، حالانکہ وہ خود مثالی نصاب پیش کرنے سے اب تک قاصر ہے لے دے کر میزان اور برج کورس جیسی کچھ چیزوں کے علاؤہ سے انکا دامن خالی ہے، پتہ نہیں وہ کس کمی کو پورا کرنا چاہ رہے ہیں یا مغرب کے لئے قابلِ قبول بنانا چاہ رہے ہیں ویسے مغرب میں مسلمان اپنا مقدمہ خود لڑ رہے ہیں، وہاں بھی درسِ نظامی کی درس گاہیں ہیں اور اس سے نکلے افراد بغیر کسی شرمندگی کے اپنی شناخت کی حفاظت کر رہے ہیں کسی قوم کے لئے اپنی روایات ترک کرنا ہزیمت قبول کرنے کے مترادف ہے، جاپانی وزیراعظم گنگا کنارے ھندوؤں کی رسومات کے لئے وقت فارغ کرنے تیار ہے اور وہیں فیفا ورلڈ کپ میں قطر نے اپنی شرطوں پر اقوامِ عالم کو مجبور کردیا، خلاصہ یہ کہ اقوام اپنی شناخت اپنا حق سمجھتی ہیں مشرقی بھکشو اور سادھو سنت مغرب کے لئے کبھی مسئلہ نہیں رہے سکھوں کی پگڑی مغربی ایوانوں تک انکی رسائی میں مانع نہیں اور اب حجاب مقابلے کے لئے تیار ہے، تو پھر مسئلہ ہی کیا رہ گیا سوائے یہ کہ نوکریوں اور سرکاری عہدوں پر رسائی مشکل ہے جس کی بڑی وجہ تعصب ہے، ورنہ کرونا کے وقت پیدل گھر واپسی والوں کا راستوں پر خیال رکھنا ہو یا بلا امتیاز آفت کے وقت دادرسی یہی داڑھی ٹوپی والے نظر آئے، یہ سب اسی نبوی تعلیمات کا حصہ ہے جو نئے علوم اور نظام سے مستفید ہونے میں کبھی مانع نہیں ہوا، بلکہ نئے تجربات کی سنۃ حسنۃ کہ کر ہمت افزائی کی گئی جیسے شروع اسلام میں فلسفے اور تصوف کے ساتھ ہوا یا آخری صدی میں تبلیغ وجود میں آئی، اب تبلیغ کو پرائمری سمجھے اور فلسفہ و تصوف کو تخصص اور پی ایچ ڈی سمجھا جائے تو ہم اب بھی اقوام عالم میں اپنی شناخت کی حفاظت میں اچھی حالت میں ہے، اس صدی میں ملتِ اسلامیہ ہندیہ کا نصاب مکاتب اور تبلیغی جماعت ہے جو مدارس اور خانقاہوں سے نکلے افراد سے چلا ہے جو پورے عالم اسلام میں ایک مثالی نظام ہے، اس میں بھی مدارس پر جو سب سے زیادہ عتاب نظر آرہا ہے وہ انکے سب سے زیادہ نافع ہونے کی دلیل ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے اکابر نے 1857 کے بعد اسی نظام سے اپنی شناخت کی حفاظت کی اور وقت آنے پر جامعہ ملیہ جیسا ادارہ بھی قائم کیا، اس کے فضلاء نے یونیورسٹیوں میں خدمات انجام دیں اور پارلیمنٹ میں انکی گونج سنائی دی مسلم پرسنل لاء اور مسلم مشاورت جیسے اسٹیج سے قوم و ملت کی خدمت کر رہے ہیں، اکل کواں دسیوں کالجوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اس کے علاؤہ لاء اور ایم بی بی ایس کالجس کا سنگِ میل عبور کر چکا، رحمانی 30 نے بھی جھنڈے گاڑے بھٹکل اور ساؤتھ کے تو کیا کہنے اس نظام سے انہیں کوئی دقت نہیں، پڑوس میں علماء کا ڈاکٹریٹ کرنا عام بات ہے دراصل مسئلہ مدارس کے نظام و نصاب سے نہیں بلکہ نبوی تعلیمات سے ہے جن کا تحفظ مدارس کا نصب العین ہے،
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!

اکثر سننے میں آتا ہے کہ نو مسلم سب سے زیادہ قرآن سے متاثرہو کر اسلام قبول کرتے ہیں اور پیدائشی مسلمانوں کے بگاڑ کی بڑی وجہ قرآن سے دوری بتلائی جاتی ہے، بقول اقبال ؎
اور تم خوار ہوئے تاریکِ قرآن ہو کر!
حضرت شیخ الہند جب مالٹا سے لوٹے تب بھی یہی پیغام دیا، اور بعد میں بڑی بڑی تفاسیر لکھی گئیں اور دروس اور دورۂ قرآن کے بڑے بڑے حلقے قائم ہوئے، مگر کچھ لوگوں نے دیگر تعلیمی و اصلاحی کوششوں کو قرآن مخالف قرار دے دیا کہ ان میں مشغولی کی وجہ سے قرآن سے دوری ہورہی ہے، اور کسی درجہ میں یہ الزام صحیح بھی تھا کہ منطق اور کلام کا بعض پر ایسا غلبہ تھا کہ وہ قرآن ہی کی تاویل کر لیتے تھے، "خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں” والا معاملہ تھا ان پر جائز تنقید کے علاؤہ مدارس کے نصاب پر انگلی اٹھی کہ ترجمہ اور جلالین کے علاؤہ بھت بھت تخصص فی التفسیر کا ایک سال دے کر قرآن کی حق تلفی کی گئی ہے، دوسری طرف تبلیغی جماعت جو محض اصلاحی تحریک تھی اس پر بھی یہ اعتراض کیا گیا کہ فضائلِ اعمال تعلیم کو قرآن پر فوقیت دی گئی ہے، اور خانقاہی نظام کو بھی زوال کا زمہ دار ٹھرایا کہ وہاں قرآن سے زیادہ اذکار و تسبیحات کی بھرمار ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صحابہ کی طرح قرآن کی مدد سے عالم پر چھا جاتے مگر خانقاہوں سے ترک دنیا کا ایسا سبق ملا کہ امت در در ٹھوکر کھا رہی ہے، ان اعترضات پر گفتگو سے پہلے ان لوگوں کی حالت دیکھ لیجیے جو قرآن لے کر اٹھے اور انھوں نے کہا قرآن ہمارے لئے کافی ہے، ایسے لوگ ماضی قریب میں کیا اب بھی ہمارے درمیان موجود ہے مگر کیا وجہ ہے کہ انکی تحریک کی عمر اور ان کے متبعین کبھی بھی مؤثر تعداد تک نہیں پہنچ سکے، بھت جلد ذہنوں سے بھی نسیا منسیا ہو گئے ان کی کتابوں کو شاز و نادر ہی قاری نصیب ہوتا ہے اس کی وجہ انکے وہ خیالات تھے جو انکے دعوی کے مطابق عین قرآن ہے، مگر سوادِ اعظم اس کو غیر سبیل المومنین قرار دیتا آیا ہے مگر ان تجدد پسندوں کی نظر میں یہ اسلامی پاپائیت ہے اسلئے انکی بات نہیں چلنے دی جارہی ہے، ان کی ذہنیت سمجھنے کے لئے قرونِ اولیٰ کے سب سے پہلے فتنے کو دیکھ لیجیے جنہوں نے الا حکم الا لله کہ کر قرآن کو سپریم تو قرار دیا مگر تشریح کے لئے کسی کا قول لینے سے انکار کر دیا، یہاں تک کہ نبی کی تربیت یافتہ جماعت سے مناظرے کئے اور انکے ساتھ قتال کیا، محض اس وھم پر کہ یہ لوگ آپس میں اسی لئے لڑ رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے قرآن سمجھا ہی نہیں، اللہ ایک! رسول ایک! قرآن ایک! پھر آپس میں کیوں لڑرہے ہیں اور فرقوں میں بٹ رہے ہیں، مگر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انکے متعلق بتلا گئے تھے کہ اسلام سے ایسی تیزی سے نکل جائے گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے، اور جلیل القدر صحابہ نے انکے اس عمل کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قرار دیا اور انکا اتنا خون بہایا کہ یہ فتنہ پوری طرح ختم ہوگیا، اس سے یہ پیغام گیا کہ امت میں آپسی اختلاف کو برداشت کرنے اور رواداری و احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے جان و مال کی حرمت کا خیال رکھنا ضروری ہے، اب سوال ہوتا ہے کہ پھر صحابہ کیوں لڑ رہے تھے؟ تو صاحبو یہ سیاسی مسئلہ تھا جو بغیر لڑائی کے حل نہیں ہوتا اسلئے آگے چل کر امت کے علماء اور صلحاء نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی، اس کی ابتدا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے استعفے سے ہوئی، یہاں تک کہ سرکاری عہدوں سے بھی ایک طرح کی دوری بنائے رکھی جیسے امام ابوحنیفہ کا عمل، آئندہ مزید کچھ لکھنے کا ارادہ ہے واللہ مستعان!
مضمون کے آغاز میں علماء و مشائخ کی سیاست سے دوری کا ذکر ہوا جس کا مطلب یہ نہیں کہ بالکلیہ کنارہ کش ہوگئے تھے، بلکہ انھوں نے عوام الناس کے دلوں کو میدانِ عمل بنایا جس سے انکی عزت و اطاعت سلاطین سے بھی زیادہ ہونے لگی، ایک بار کا قصہ ہے کہ ہارون رشید مکہ مکرمہ مسجد حرام میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں ان سے ملنے ہزاروں لوگ آئیں ہوئے تھے، اور دوسری طرف ایک کونے میں اپنے زمانے کے بڑے عالم حضرت عبداللہ بن مبارک بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک خلیفہ ایک شور سنتے ہیں، پوچھنے پر کہ یہ شور کیسا ہے؟لوگوں نے کہا کہ عبداللہ بن مبارک اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں ان کو چھینک آئی تو سارے مجمع نے یرحمک اللہ کہا یہ اس کی آواز تھی بادشاہ نے کہا کہ سبحان اللہ اصل تو بادشاہت یہ ہے، عوام کا جمِ غفیر علماء و مشائخ کی مجالس میں حاضر ہوتا دین کا علم سیکھتا اور گناہوں سے توبہ تائب ہوکر جاتا، نیک حکمران بھی ان مجالس میں شریک ہوتے جس کی برکت سے ظلم و استبداد سے رکے رہتے، کچھ انا کے مارے حاکم اپنے لئے خصوصی مجالس کا اہتمام چاہتے کہ جہاں غریب عوام کا گزر نا ہو، مگر ان کے اس ناجائز مطالبہ کو قبول کرنے کے بجائے سختیاں برداشت کرنے لئے تیار رہتے جیسے امام بخاری علیہ رحمہ کے ساتھ ہوا، سلطنت عثمانیہ تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا یہاں تک خلافت کی قبا چاک کردی گئی اب گوروں سے وفاداری کی بنیاد پر بادشاہت ملنے لگی، جنہوں نے اول تو علماء کا کردار انتہائی محدود کردیا کہ خطبہء جمعہ بھی انکی مرضی کے مطابق ہوگا اور ہر وہ تحریک جس سے انکے اقتدار کو ادنی سا بھی خطرہ ہو سخت ممنوع قرار دیا گیا، اب علماء کو اس خاموشی کے بدلے خوب آسائشوں سے لاد دیا جاتا ہے اور نا ماننے کی صورت میں قیدو بند یا ملک بدر کردیا جاتا ہے، برصغیر کی قسمت اس معاملے میں اچھی رہی کہ یہاں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سلسلے والوں نے یورپ کے مرد بیمار ترک کی سلطنت کے زوال سے پہلے ہی خصوصاً اپنے وطن اور بالعموم پورے عالم کے لئے ایسے قلعوں کی تعمیر شروع کردی جہاں سے یہ اپنے دین کا دفاع کرسکے، اور اب تک یہاں کے تربیت یافتہ امت کے بچوں کو قرآن پڑھا رہے ہیں اور عام مسلمانوں کو دین سے جوڑے ہوئے ہیں، لارڈ میکالے کے نصاب کے سامنے آج بھی بوریاں نشینوں کا نصاب اور دجالی نظام کے نیو ورلڈ آرڈر کا مقابلہ احیاء دین کا یہ سادہ سا نظام کر رہا ہے { وَمَكَرُوا۟ وَمَكَرَ ٱللَّهُۖ وَٱللَّهُ خَیۡرُ ٱلۡمَـٰكِرِینَ }!

 

Comments are closed.