بہارکے مسلم شہدائے آزادی

محمد نافع عارفی
کارگزارجنرل سکریٹری آل انڈیاملی کونسل بہار
رابطہ نمبر:9304145459
ایسٹ انڈیا کمپنی کو ملکہ الیزبتھ اول کے عہد میں بھارت میں تجار ت کی اجازت ملی، اس وقت ہندوستان کی سلطنت اورنگ زیب عالم گیر ؒ کے ہاتھوں میں تھی۔کمپنی اپنے تجارتی سازوسامان کے ساتھ سورت پہنچی، 1613ء میں تجارتی مقاصد کا حوالہ دے کر کمپنی نے کوٹھی کی تعمیر کی اجازت چاہی اورہندوستان کی سرزمین پر انگریزوں کے پہلی کوٹھی کی بنیاد پڑی، اسی کمپنی نے رفتہ رفتہ ہندوستان میں اپنے بال و پر پھیلائے اوریہ ملک غلام بنتاچلا گیا، اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد شاہ عالم ثانی ہندوستان کے بادشاہ بنے،لیکن اورنگ زیب کی وفات کے بعد ہی ملک افراتفری کا شکار ہو گیا،ہندوستان کے مختلف علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجودمیں آگئیں،اسی طوائف الملوکی کے دورمیں ایسٹ انڈیاکمپنی نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کئے،ملک کے بعض علاقوں میں اپنی خود مختاری کا اعلان بھی کردیا،بعض نوابوں اورراجاؤں نے انگریزوں سے ہاتھ ملالیا۔دلی کے تخت پر شاہ عالم ثانی ضرور تھے،لیکن بہت سارے علاقے خودمختارہوچکے تھے۔ اورنگ زیب عالم گیر ؒ نے مرشد قلی خان کوبنگال کا نواب اورناظم مقررکیا تھا،لیکن وہ بھی عملی طورپر بادشاہ بن بیٹھے تھے۔بہار کے حاکم علی وردی خان نے مرشد قلی خان کو شکست دے کر فتح حاصل کرلی۔ علی وردی خان بہترین حکمراں ثابت ہوئے۔1756ء میں علی وردی خان کا انتقال ہوااوران کے نواسے نواب سراج الدین نے زمام اقتدارم سنبھال لی، سراج الدولہ کو پہلے تو اپنے خاندان کے لوگوں ہی سے نمٹنا پڑا، خانہ جنگی سے کسی طرح نجات ملی تو اصل دشمن سامنے آیا اورپتا چلا کہ تمام تر لڑائی کے پیچھے تو انگریز تھے،اس دوران انگریزوں نے قلعہ فورٹ ولیم بہت ہی مستحکم کرلیا تھا، جب نواب سراج الدولہ نے قلعہ کی واپسی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے انکارکردیا،اورسراج الدولہ نے انگریزوں پر حملہ کیا اورکلکتہ ان سے چھین لیا،سراج الدولہ انگریزوں کے خلاف تلوار اٹھانے والے پہلے ہندوستانی اورپہلے مسلمان تھے۔لیکن سراج الدولہ کی یہ کامیابی دیرپا ثابت نہ ہو سکی۔ جیسے ہی یہ خبرمدراس پہنچی کہ کلکتہ انگریزوں کے ہاتھ سے چھن گیاہے، انگریز افواج کے سپہ سالار کلائیونے نواب صاحب کے فوج کے سالار میر جعفر سے خفیہ معاہدہ کرلیا،جس کی دغا کی وجہ سے پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ شہید ہو گئے۔ 23/ جون 1757ء کو پلاسی کی جنگ ہوئی۔29/جون 1757ء کو میر جعفر کی غداری کی وجہ سے نواب صاحب شہید ہوئے،اورایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک وسیع خطہ پر قبضہ جمالیا،یہ انگریزوں اورہندوستانیوں کی پہلی جنگ تھی،جس میں ہندوستانیوں کوشکست جھیلنی پڑی۔دھیرے دھیرے ہر محاذ پر ہندوستانی شکست کھاتے گئے،اوربہادرشاہ ظفرکا دورآتے آتے پورا ہندوستان انگریزوں کا غلام ہوچکا تھا،بہادر شاہ صرف علامتی طورپر بادشاہ رہ گئے تھے۔ٹیپوسلطان جیسے درجنوں نواب وقائدین شہید کردئے گئے۔1803ء میں لارڈ لیک انگریزی فوج کے ساتھ دہلی میں داخل ہوا،مرہٹوں کو نکال دیا اوربادشاہ کا پینشن مقررکردیا،انگریزوں کی پالیسی بظاہر یہی تھی کہ بادشاہ کو علامتی طورپر باقی رکھاجائے، لیکن ملک کے تمام تر اختیارات ایسٹ انڈیاکمپنی کے لیے تسلیم کرالیے جائیں اوریہ نعرہ اسی دورمیں عام ہوا کہ خلق خدا کی،ملک بادشاہ سلامت کا،اورحکم کمپنی بہادر کا“۔
اس مشکل اورنازک دورمیں حضرت شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیزنے انگریزوں کے خلاف جہاد فتویٰ دیا۔چوں کہ حکومت مسلمانوں سے چھینی گئی،اس لیے انگریزوں کے خلاف بغاوت اورجہادآزادی کی ابتدا بھی مسلمانوں نے ہی کی، 1857ء آتے آتے انگریزوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک گئی اورہندوستانیوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا،جس میں مسلمان اورعلماء پیش پیش رہے۔ 1857ء کی بغاوت کو انگریزوں نے غدرکا نام دیا اورہزاروں ہندوستانی بطورخاص مسلمان اورعلماء شہید کردئے گئے۔10/مئی 1857سے 11/ نومبر1858ء تک پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف بغاوت ہوتی رہی اورمسلمان شہید ہوتے رہے۔ علامہ فضل حق خیرآبادی،مفتی صدرالدین خاں آزردہ،وغیرہ نے مشترکہ طورپر دہلی میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔علماء نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی کی قیادت میں شاملی میں انگریزوں سے لوہا لیا،اس جنگ میں مولانا نانوتوی کے خاص مصاحب حافظ ضامن شہید ہوئے،متعدد علما گرفتار ہوئے،بعد کو دارالعلوم کے صدر المدرسین شیخ الہند مولانامحمود الحسن دیوبندی نے تحریک ریشمی رومال شروع کی۔کاش یہ تحریک کامیاب ہوتی،تو آج ملک کے خد وخال کچھ اور ہوتے۔ یہ تحریک1913ء سے 1920ء کے دوران جاری رہی۔1757 کی جنگ ہویا1857ء کی بغاوت ہو یا 1942ء کی بھارت چھوڑوتحریک ہو، یا گاندھی جی کی ستیہ گرہ ہو،ہر جگہ بہار اوربہار کے مسلمان پیش پیش رہے۔ جنگ آزادی کی ابتداسے ملک کی آزادی تک کی پوری تاریخ بہاری مسلمانوں کی قربانیوں اورشہادت کے خون سے لالہ زارہیں۔ہم یہاں اس مختصر مضمون میں چندبہاری شہدائے آزادی کامختصر تعارف پیش کرتے ہیں۔(1)اسرارعلی خاں پٹنہ میں جولائی 1857ء کوموت کی سزاسنائی گئی اورپھانسی دی گئی تھی۔(2)اصغرعلی پٹنہ کے باشندہ تھے۔پیرعلی کے معاون تھے۔1857ء کی تحریک میں حصہ لیا۔7جولائی1867کوپھانسی دی گئی۔(3)پیرعلی بخش پٹنہ کمشنرولیم ٹیلرکے سامنے سرسری مقدمہ چلانے کے بعد7جولائی1857ء کوسزائے موت سنائی گئی اورپٹنہ ڈی ایم کے رہائش گاہ کے سامنے پھانسی دی گئی۔ شائدپیربخش اورپیرعلی ملتے جلتے نام کے دوشخص کوبھی پھانسی دی گئی تھی۔(4) جمن صاحب کوپٹنہ میں موت کی سزاسنائی گئی اورپھانسی دی گئی تھی۔(5)غلام عباس کوپٹنہ میں جولائی1857ء میں پھانسی دی گئی تھی۔(6)غلام علی کوپٹنہ میں جولائی1857ء میں موت کی سزاسنائی گئی اورپھانسی دی گئی تھی۔(7)گھسیٹاخلیفہ کوجولائی1857ء میں پٹنہ میں پھانسی دی گئی تھی۔ (8)محموداکبرکوپٹنہ میں جولائی1857ء کوموت کی سزاسنائی گئی اورپھانسی دی گئی۔(9)واحدعلی پٹنہ،بہارکے باشندہ تھے۔پیرعلی کے معاون تھے۔ 1857ء کی تحریک میں انگریزوں کے خلاف حصہ لیا۔انگریزوں کے ذریعہ گرفتارکئے گئے اورفساداورقتل کامقدمہ چلایاگیا۔7جولائی1857ء کوپھانسی دی گئی۔(10)وارث علی پٹنہ،بہارکے باشندہ تھے۔بڑے زمیندارتھے۔ 1857ء کی عظیم بغاوت کے دوران انگریزی طاقتوں کے خلاف بغاوتی سرگرمیوں میں اہم حصہ لیا۔انگریزوں کے ذریعہ گرفتارکر 1857ء میں پھانسی دی گئی۔(11)عبدوخان ضلع بھاگلپور،بہارکے باشندہ تھے۔1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ داری لی۔شہادت حسین خاں کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزادی گئی۔(12)وارث علی بہارکے برٹش انڈین آرمی میں جمعدارکے عہدہ پرمظفرپورمیں مامورتھے۔1846ء کے بعدسے انگریزی طاقتوں کے خلاف محاذمیں سرگرم طورپرحصہ لیا۔ 1857ء میں انگریزوں کے ذریعہ گرفتارکراسی سال پھانسی دی گئی۔(13)بندے علی بہارکے باشندہ تھے۔آرہ کے جج کورٹ کے چپراسی تھے۔ 1857ء کی تحریک میں سرگرم حصہ لیا۔پھانسی دی گئی۔(14)مہربان گوالہ بہارکے باشندہ تھے۔برٹش آرمی کے7ویں ریجیمنٹ کے فوجی تھے۔اپنے برٹش آرمی کے آفیسرس کے خلاف بغاوت کیا۔گرفتارکیے گئے اور5اکتوبر1857ء کوپھانسی دی گئی۔(15)گھسیٹاشیخ بہارکے باشندہ تھے۔1857ء کی تحریک میں حصہ لیا۔1857ء میں پھانسی دی گئی۔(16)غلام یحیٰی بہارکے باشندہ تھے۔ 1857ء کی تحریک میں حصہ لیا۔1857ء میں پھانسی دی گئی۔(17)شیخ بھکاری بہارمیں پیداہوئے۔کھدراکوٹوااسٹیٹ کے مالک تھے۔اورٹکیٹ امراؤسنگھ کے دیوان تھے۔1857۔1858کی تحریک میں سرگرم حصہ لیا۔انگریزوں کے ذریعہ گرفتارکئے گئے۔جائدادضبط کیاگیا۔1858ء میں پھانسی دی گئی۔(18)مبارک علی حاجی موضع حاجی پورضلع ویشالی،بہارمیں پیداہوئے۔ وہابی تحریک میں حصہ لیا۔وہابی تحریک کے رہنماولایتی ولایت علی کے قریب شریک کارتھے۔پٹنہ گئے اوروہاں کے مشہورلیڈراحمداللہ کے ساتھ کام کیا۔احمداللہ کی گرفتاری کے بعدآپ نے تحریک کی قیادت کی۔مارچ1871ء میں گرفتارہوئے اورتعزیرات ہندکی مختلف دفعات کے تحت ان پرمقدمے چلائے گئے۔پولیس نے وحشیانہ طریقہ سے انہیں زدوکوب کیا۔دوران مقدمہ جیل ہی میں شہادت پائی۔(19)احمداللہ 1808ء میں پٹنہ میں پیداہوئے،جناب الہٰی بخش کے صاحبزادے تھے۔کچھ عرصہ تک آپ ڈپٹی کلکٹربھی رہے۔آپ نے وہابی تحریک میں حصہ لیا۔1857ء میں گرفتارہوئے۔تین ماہ بعدرہاہوئے۔تمام سرکاری عہدوں سے برطرف کردیئے گئے، نومبر1864ء میں دوبارہ آپ کوگرفتارکرلیاگیا۔حکومت کے خلاف سازش کرنے کے جرم میں آپ پرمقدمہ چلایاگیا۔27فروری 1865ء کوآپ کوسزائے موت کاحکم سنایاگیا۔بعدمیں سزائے موت کی سزاعمرقیدمیں تبدیل کردی گئی اورآپ کی ساری جائدادضبط کرلی گئی۔آپ کوسزامیں کالاپانی(جزائرانڈومان)بھیج دیاگیااور1865ء میں انڈومان جیل میں قیدکردیاگیا۔21نومبر1881ء کوانڈومان جیل میں آپ نے شہادت پائی۔ آپ کی تدفین میں کسی کوشرکت نہیں کرنے دیاگیا۔(20)مولانایحییٰ علی پٹنہ کے باشندہ تھے۔شہرکی ایک ممتازشخصیت جناب الہٰی بخش کے صاحبزادے تھے۔آپ نے وہابی تحریک میں حصہ لیا۔حکومت کے خلاف تحریکوں میں سرگرم عمل رہے۔امبالہ میں آپ پربغاوت کے جرم میں مقدمہ چلایاگیااورعبوردریائے شورکی سزامیں کالاپانی (جزائرانڈومان) بھیج دیاگیا۔انڈومان جیل میں قیدکیے گئے۔انڈومان جیل میں آپ نے وفات پائی۔آپ کی تدفین میں کسی کوشرکت کرنے نہیںدیاگیا۔

Comments are closed.