عدمِ اعتماد کا کھیل ، کوئی پاس کوئی فیل 

 

ڈاکٹر سلیم خان

کھیل کا مقابلہ  صرف اچھے کھلاڑیوں سے نہیں جیتا جاتا بلکہ اس کے لیے موثر  حکمت عملی اور منصوبہ بندی بھی ضروری ہوتی  ہے ۔ اچھا کپتان یہ کام اپنے دوستوں کے مشورے سے   کرتا ہے ۔ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اس کا بہترین مظاہرہ حزب اختلاف کے اتحاد ’انڈیا ‘نے کیا ۔ اس کے  برعکس بر سرِ اقتدار بی جے پی کی رعونت نے  اس کا بیڑہ غرق کردیا کیونکہ ان لوگوں  کا دماغ آسمان پر اڑ رہا  تھا اور زمین پر یعنی ایوان کے اندر  رسوائی   ان کی منتظر  تھی۔  عام حالات میں میڈیا حزب اختلاف کے ساتھ مل کر عوام کے مسائل کو اٹھاتا ہے لیکن وطن عزیز میں انتظامیہ کے ساتھ  قومی بلکہ گودی میڈیا  حزب اقتدار کا دم ُ چھلہ بنا ہوا ہے۔ وہ چند ہڈیوں  کی خاطر  حکومت کے آگے دُم ہلاتا ہے۔ اس کے سبب  مودی سرکار یہ سمجھنے لگی ہے کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا کیونکہ میڈیا ان  کے مخالفین کو اول تونظر انداز  کرے گا اور اگر متوجہ ہوگا بھی تو صرف خامیاں دکھائے کیونکہ سرکاری خوشامد کے عوض بہت کچھ ملتا ہے ۔ سرکار ی مراعات کے علاوہ دھن دولت اور عیش و عشرت وغیرہ۔

ذرائع ابلاغ کی بے مہار حمایت  نے بی جے پی رہنماوں کی  بے فکری  اور  نااہلی میں بے شمار اضافہ کردیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے دوران  بار بار یہ حقیقت عیاں ہوتی رہی۔اس مرتبہ سرکار کو گھیرنے اور میڈیا کو متوجہ کرنے کی خاطرایوانِ زیریں  میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ۔ ایوان کی میز پر ضروری دستاویزات رکھے جانے کے بعد وقفہ صفر کے دوران   اسپیکراوم  برلا نے اعلان کیا  کہ انہیں مسٹر گوگوئی کی طرف سے وزراء کی کونسل میں عدم اعتماد کی تحریک موصول ہوئی ہے۔ وہ اس تحریک کو منظوری فراہم کرتے ہیں ۔لوک سبھا اسپیکر نے مزید فرمایا  کہ ایوان کےقائدین  سے صلاح و مشورہ کے بعد وہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لئے وقت کا تعین کریں گے۔ موجودہ مدتِ کار  میں مودی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے  یہ پہلی  تحریک عدم اعتماد  تھی ۔  گزشتہ  ماہ  26 تاریخ کو اس  پر بحث کیلئے منظوری ملنے کے بعد اس مہینے  8؍ اگست تک  سرکار کو تیاری کے لیے  جملہ تیرہ دنوں کا وقفہ ملا مگر اس نے اسے گنوادیا ۔

 بھارت میں رائج  برطانوی طرز عمل کے پارلیمانی نظام کو ویسٹ منسٹر کہا جاتا ہے۔ اس میں پارلیمان کے اندر ’اجتماعی ذمہ داری‘ کے تحت کونسل آف منسٹر پر تمام  ارکان کو اعتماد میں لے کر  پارلیمانی  اعتماد بحال رکھنے کی ذمہ داری ہے ۔ اس نظام حکومت میں اگر وزیر اعظم ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے تو اسے استعفیٰ دینا پڑتا ہے  اور اس صورت  میں حکومت گر جاتی ہے۔اجتماعی ذمہ داری کو ناپنے کا طریقہ کار کوعدم اعتماد کہا جاتا ہے۔ ہندوستان  کے آئین کی دفع  75 اجتماعی ذمہ داری کی بات کرتی  ہے اور پارلیمنٹ کے رولز آف پروسیجرس نمبر 198 میں عدم اعتماد کا طریقہ  درج ہے۔حزب اختلاف کا کوئی بھی  رکن یہ موشن لا سکتا ہے بشرطیکہ لوک سبھا کے 50 ممبران اس کی تائید کریں ۔ قرارداد کی  منظور ی سے 14 دن کے اندر اسپیکراس پر بحث کے لیے لوک سبھا کا اجلاس بلانے کا پابند ہے۔بحث  کے بعد لوک سبھا میں ووٹنگ کروائی جاتی ہے۔ اس میں حکومت کو 543 میں سے 272؍ اراکین کی حمایت  ثابت کرنی ہوتی ہے۔  بی جے پی کے پاس  چونکہ واضح اکثریت تھی اس لیے  سرکار  کے استحکام کی بابت کوئی تجسس نہیں  تھا۔

ہندوستانی  پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں  آزادی کے بعد  کل 27 مرتبہ عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی۔پہلی بار 1963 میں جواہر لال نہرو کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی مگرنا کام  ہوگئی۔ چین سے جنگ میں شکست کے بعد  یہ تحریک جے پی کرپلانی نے پیش کی تھی ۔ وہ دوبارہ کانگریس کے صدر نہ بنائے جانے پر بھی  نہرو سے نالاں تھے۔  اس کے باوجود ان کے حق میں صرف 62 ووٹ پڑے تھے۔ اندرا گاندھی کی حکومت کے خلاف 15 مرتبہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ۔ لال بہادر شاستری اور نرسمہا راؤ کی حکومتوں کے خلاف تین، تین مرتبہ عدم  اعتماد پیش کیا گیا۔  مرار جی دیسائی اور نریندر مودی نےدو مرتبہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کیا اور ایک ایک مرتبہ راجیو گاندھی اور اٹل بہاری واجپائی کو بھی اس  سے سابقہ پیش آیا۔ابتدا میں عدم اعتماد کی تحریک  متعلقہ مسئلے کی طرف حکومت کا  توجہ دلانے کی خاطر لائی جاتی تھی جیسے کہ اس بار ہوا تھا۔

ایمرجنسی کے بعد  تحریک عدم اعتماد کے بعد سرکاریں گرنے لگیں ان میں سب سے  مرار جی دیسائی کو حکومت پہلی مرتبہ  تو بچ گئی مگر  دوسری بار  گر گئی۔ان  کے بعدوزیر اعظم بننے والے چودھری چرن سنگھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو ممکنہ ہار سے بچنے کے لیے انہوں نےخود لوک سبھا تحلیل کرنے کی سفارش کردی ۔ 1989 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت واپس لینے پر وی پی سنگھ کی سرکار گری ۔ 1997 میں کانگریس نے ایچ ڈی ڈی وی گوڈا  کی  حکومت کو گرایااور پھر  آئی کے گجرال  بھی  عدم اعتماد کی تاب نہ لاسکےاور اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 1999 میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت اکثریت ثابت کرنے میں صرف ایک ووٹ پیچھے رہ گئی اورانہیں  استعفیٰ دینا پڑا۔

  2018 میں تیلگو دیشم پارٹی کی طرف سے پیش کی  جانے والی تحریک عدم اعتماد کو مودی حکومت نے بھاری اکثریت سے ناکام بنایا ۔ اس بار بھی یہی ہوا ویسے  2008 میں منموہن سرکار  اور اس سے قبل نرسمھاراو بھی اپنی اکثریت دکھانے میں کامیاب رہے تھے۔ اس طرح  27 میں سے صرف  سات دفعہ حکومت گری ۔   بظاہر ہر رکن پارلیمان کو پارٹی ہدایات کےخلاف  ووٹ ڈالنے کی آزادی ہے مگر وہپ (whip) کی خلاف ورزی کے لیے اسے  آئین ہند کے دسویں شیڈول میں موجود دل بدلی  قانون کے تحت  رکنیت گنوانی پڑ سکتی ہے اس لیے لوگ ضمیر کے بجائے ہنٹر کے آگے سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں۔اکثریت کے غرور میں  مودی سرکار اس بار عدم اعتماد کی تحریک  کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس کی قیمت چکائی۔ ان تیرہ دنوں کے اندر اگر  اپنا ایک  وفد منی پور  روانہ کردیتی  اور  کچھ ٹھوس اقدامات کیے جاتے  اس کے پاس بحث کے دوران آئیں بائیں شائیں بکنے کے بجائے کہنے کے لیے بہت  کچھ  تو ہوسکتا تھا۔

اس بیچ   وزیر اعظم راجستھان میں پارٹی کو کامیاب کرنے میں جٹے رہے اور وزیر داخلہ بار بار  مدھیہ پردیش کا دورہ کرتے رہے ۔ ان دونوں کے علاوہ پورے ملک میں بی جے پی بالکل بانجھ ہوچکی ہےاس لیے کوئی اور کچھ کرنا تو دور  سوچتا بھی نہیں  ہے۔ بی جے پی کی اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ  فی الحال  فی الحال  ان لوگوں کو   ایوانِ پارلیمان کے اندر اور باہر سیاست کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ ریاستی  انتخاب کے اعلان سے بہت  پہلے یہ لوگ تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں انتخاب کی دھمک سن کر بی جے پی حرکت میں آگئی ہے۔ اپنے فرض منصبی سے غافل   وزیر داخلہ ہر بوتھ کے لیے کارکنان کا تعین  فرما کر انہیں ہدایت دے رہے ہیں۔ بھگتوں کی تربیت کرکےان کی  مدد سے  انتخاب   لڑا جاتا ہے اور الیکشن کے بعد ان کارکنان کو دنگا فساد  کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔  منی پور میں  تشدد کے لیے وہی لوگ ذمہ دار ہیں۔ بی جے پی والے  انتخابی مہم کے دوران بنگلورو جیسے جنوبی ہند کے شہر میں اتر پردیش کے  وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کی خدمات حاصل کرتے  ہیں۔  گوہاٹی سے ہیمنتا بسوا سرما کو احمد آباد بلایا جاتا ہے لیکن جب منی پور میں فساد ہوجاتا ہے تو یہ سارے لوگ گدھے کے سر سینگ کی مانند غائب ہوجاتے ہیں کیونکہ ان  کوامن و امان قائم کرنے کی نہ تو تربیت دی گئی اور ضمیر انہیں اس کے لیے آمادہ کرتا ہے۔  ایسے میں وزیر اعظم اپنی تیسری میقات میں ملک کو دنیاکی تیسری سب سے بڑی معیشت بنانے کا خواب بیچ رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اس سپنوں کے سوداگر منی کے کیمپ دکھا کر ہوش میں لایا جائے اور اگر وہ خمار سے نہیں نکلتا تو آرام کے لیے گھر بھیج دیاجائے۔

عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کے آخری دن  ادھیر رنجن چودھری کا خطاب  اس قدر زوردار تھا کہ اس کے آگے بڑ بولے  وزیر اعظم کی دو گھنٹہ طویل  تقریر بھی نہیں ٹِک سکی ۔ پہلے تو  دھرت راشٹر اور اس  کے بعد نیرو مودی سے وزیر اعظم کا  موازنہ لاجواب تھا۔ وزیر اعظم چونکہ آئیں بائیں شائیں کیے جارہے تھے اس انہیں موضوع پر لانے کے لیے اپوزیشن کو واک آوٹ کرنا پڑا۔ اس طرح  ثابت ہو گیا کہ کس طرح بہتر حکمت عملی اور پیش بندی سے طاقتور مد مقابل کو زیر کیا جاتا ہے۔ عدم اعتماد تحریک چونکہ حکومت گرانے کے لیے تھی ہی نہیں اس لیے اس زاویہ سے اس کا جائزہ درست نہیں ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ منی پور کی سنگین صورتحال کی جانب توجی مبذول کرانے اور حکومت کو گھٹنے تیکنے پر حزب اختلاف نے مجبور کردیا۔ اس کا سب واضح ثبوت وزیر اعظم کا اختتامی خطاب تھا جس میں وہ ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی مانند چیخ و پکار کررہے تھے لیکن ان کی جانب کوئی کان نہیں دھر رہا تھا ۔ خود بی جے پی والے بھی ان کے طول طویل خطاب سے بیزار ہوکر اس کے خاتمہ کی دعا کررہے تھے۔ منی پور کے تشدد اور پھر اس عدم اعتماد کی تحریک نے مودی جی کا کھیل ختم کردیا ہے۔ اب ان کی سیاست سکرات کے عالم میں مبتلا ہوگئی ہے اور آئی سی یو کے اندر آخری سانسیں گن رہی ہے۔   اب کوئی بلوامہ اور سرجیکل اسٹرائیک جیسا تماشا ہی اس کو بچا سکتا ہے۔

 

Comments are closed.