پس ماندہ مسلمان: نیا جال گھاگھ شکاری

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
اقتدار ایک ایسی چیز ہے کہ مسند اقتدار پر جو شخص بیٹھا ہوتا ہے اس کو اگر چھینک بھی آتی ہے تو خبر بن جاتی ہے اور اگر اس نے کسی بات پر لب کشائی کردی تو میڈیا اور اس کے خوشامدیوں کے لیے عید ہوجاتی ہے۔
کچھ دنوں پہلے ہمارے محترم وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کی میٹنگ میں ایک جملہ اچھا ل دیا کہ پارٹی کو پس ماندہ مسلمانوں کو اپنے سے قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر کیا تھا زر خرید میڈیا جس کو عرف عام میں گودی میڈیا کہتے ہیں، اس نے اس بات پر بڑی بڑی بحثیں شروع کردیں۔ اور کچھ وہ لوگ جو اندریش کمار کی قیادت میں راشٹریہ مسلم منچ سے جڑے ہوئے ہیں اور بی جے پی اقلیتی سیل سے وابستہ ہیں انھوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر مسلمانوں میں انتشار فکر اور سماجی توڑ پھوڑ کا راستہ ڈھونڈھ نکالا۔
یوپی اس وقت بی جے پی کی ایک بڑی تجربہ گاہ ہے۔ بی جے پی نے پہلی بار نگر پنچایت میں تین سو سے زائد لوگوں کو کھڑا کیا جس میں ۶۰ کے قریب مسلمان جیت کر آئے۔ ایک شخص کو یوگی سرکار میں منسٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے اور ضمنی انتخاب میں ایک صاحب بی جے پی کی حمایت سے جیت کر آئے ہیں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور صاحب کو ایم ایل سی بنایا اور انہیں بی جے پی کے نائب صدور میں ایک جگہ دی گئی ہے۔جو صاحب یوگی سرکار میں منتری ہیں انھوں نے اپنی حالیہ ایک تقریر میں کہا کہ اس وقت پس ماندہ مسلمانوں کے لیے جتنا سازگار ماحول ہے اتنا اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ اگرچہ بی جے پی نے مرکزی حکومت میں کسی مسلمان نما شخص کو شامل نہیں کیا ہے تاہم کوئی نام نہاد شخص اگر وزارت کی کرسی پر براجمان کردیا جائے تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
بی جے پی اس وقت جس سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کررہی ہے اور جس طرح اپنی سیاسی چالیں چل رہی ہے وہ صرف سیاسی پارٹیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی جذبات سے اوپر اٹھ کر گہرے غوروفکر کا موضوع ہونا چاہیے۔
پہلی بنیادی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں پسماندہ مسلمان کو کہتے ہیں؟ اگر سماجی، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو پوری مسلمان ملت بھارت میں پس ماندہ قرار دی جائے گی کیونکہ غربت، جہالت، معاشی تنگی اور سماجی بچھڑا پن میں پوری کی پوری قوم سب سے زیادہ پسماندہ ہے بلکہ ملک میں دلت طبقہ جو تاریخی طور پر پس ماندہ مانی جاتی رہی ہے اس سے بھی زیادہ پس ماندہ ہے جو خود سرکاری اعداد وشمار سے ظاہر ہے۔ اس میں اشراف، ارذال اور اجلاف سب شامل ہیں۔ ہندی کے ایک بہت مشہور لیکھک تھے جن کا نام ابھی یاد نہیں آرہا ہے انھوںنے لکھا ہے کہ وہ جب بھی لکھنؤ جاتے تھے تو وہاں کے تانگے والوں کو نواب صاحب کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ یہ اودھ کے نوابوں کی اولادیں ہیں جو اب تانگہ چلارہے ہیں۔
لیکن بہت سے لوگوں نے مسلمانوں کو سماجی اور معاشی اعتبار سے تین خانوں میں بانٹا ہے۔ اشراف جن کے بارے میںمانا جاتا ہے کہ نام نہاد اعلیٰ ذات کی اولادیں ہیں۔ طارق منصور صاحب نے تو اس کا بہت ہی نرالا مفہوم بیان کیا کہ یہ حملہ آوروں کی اولادیں ہیں۔ دوسرے ارزال ہیں جن کو ہندو بیک وارڈ برادریوں کے مثل مانا جاتا ہے۔ اور تیسرے اجلاف ہیں جو دلت طبقہ کے مساوی مانے جاتے ہیں جو انڈی جینس لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لالچ یا ڈر سے مسلمان ہوگئے تھے اور سنگھ پریوار ان کو گھر واپسی کی دعوت دے رہا ہے۔
مسلمانوں میں پس ماندہ برادریوں کی تعداد کتنی ہے اس کا صحیح صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ ذات کی بنیاد پر ان کی گنتی نہیں ہوتی ہے۔ بہار میں ذات کئی بنیاد پر گنتی کی جارہی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کی بھی اس بنیاد پر گنتی کی جانی چاہیے تاکہ یہ صحیح صحیح معلوم ہوسکے کہ مسلمانوں میں کتنی برادریاں ہیں اور ان کی صحیح تعدادکیا ہے؟ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ پس ماندہ برادریاں مجموعی طور پر اشراف مسلمانوں سے زیادہ ہیں اور وہ پچاس پچہتر فیصد کے قریب ہیں۔
بہت سے لوگ مسلمانوں میں الگ الگ ذات کی بنیادوںپر مبنی جماعتوں یا تنظیموں کی تشکیل پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ جبکہ میں ذاتی طور پر ایسی کسی کوشش کو بنظر تحسین دیکھتا ہوں کیونکہ اس کے نتیجہ میں ان برادریوں میں سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی بے داری آئے گی اور ان کو ان کا کھویا مقام حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ میں مانتا ہوں کہ مسلمانوں میں اشراف نام کا کوئی طبقہ نہیں ہے، یہ اس دور کی بات ہے جب نواب، جاگیر دار، زمیندار ہوا کرتے تھے، اب تو سب برابر ہیں اور جو نام نہاد اشراف کی اولادیں تھیں دو نسلوں کی تباہی کے بعد انہیں شعور ہوا کہ پدرم سلطان بود کے سنڈروم سے نکلیں اور عام آدمی کی طرح جدوجہد کریں تبھی ان کا گھر کا چولہا جلے گا، ورنہ فاقہ، ذلت نکبت ان کا مقدر بن جائے گی۔ اب ان میں سے کچھ لوگ پڑھ لکھ کر کچھ نوکری اور تجارت کررہے ہیں اور ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اس لیے یہ واہمہ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
بہرحال یہ ایک سماجی اور سیاسی ایشو ہے۔ میں مسلمان پس ماندہ قیادت کو کوئی مشورہ نہیں دینا چاہتا کیونکہ اگر کوئی مشورہ دوں گا تو وہ مانیں گے نہیں۔ ان میں سے زیادہ لوگ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اس طرح کی گروہ بندی کررہے ہیں۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان کو خوب عروج دے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔ صرف کوشش کرنا چاہتا ہوں کہ نیا جال لائے پرانے شکاری۔ ان نادان چڑیوں کی طرح نہ بنیں جن کو تو پورا سبق یا دہے کہ شکاری آئے گا، دانا ڈالے گا، جال بچھائے گا، جال میں اس کے پھنسنا نہیں۔ اور پھر اس کو دہراتے ہوئے جال میں پھنس جاتیں اور شکاری تھوک میں ان کا شکار کرکے کسی بازار میں بیچ دے اب چاہے لوگ اس کو ذبح کرکے کھا جائیں یا پھر پنجرے میں بند کرکے عبرت کا سامان بنادیں۔ اس وقت مدھیہ پردیش، نوح، گروگرام، میوات اور یوپی میں جس بلڈوزر جسٹس کا جشن منایا جارہا ہے اس کے شکار نوے فیصد ہماری پس ماندہ اور غریب برادریاں ہیں اس کے بعد پس ماندہ مسلمانوں سے محبت کا ڈھونگ دام ہم رنگ زمین کے سوا کچھ بھی نہیں۔ فرقہ وارانہ فساد کی زد میں زیادہ تر غریب اور پس ماندہ مسلمان ہی آتے ہیں اور جو کام فسادی نہیں کرپاتے اب اس کو پوری ڈھٹائی سے سرکار کررہی ہے اور غریب پس ماندہ مسلمانوں کے گھر پر بلڈوزر چلا کر ان کو وہاںسے نکلنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ ہے پس ماندہ پریم کی وہ تلخ حقیقت جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
Website: abuzarkamaluddin.com
کالم نگار اردو کی بیسٹ سیلر بک’اکیسویں صدی کا چیلنج اور ہندوستانی مسلمان- بند گلی سے آگے کی راہ‘ کے مصنف ہیں۔
Comments are closed.