Baseerat Online News Portal

حالات کاتقاضا اورہم

مفتی احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
موجودہ ملک کی جو صورت حال ہے اس میں خاموش رہنا ظالم کو مزید ظلم پر شہ دینے کے مترادف ہے۔ کبھی کبھی ظلم کا جواب ظالم کا پنجہ مروڑ کربھی دیاجاتاہے۔اسی لٸے تو حدیث میں آیاہے کہ”من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ“ کہ جس شخص نے ظلم ہوتے ہوٸے دیکھا اسے چاہیے کہ اپنی طاقت سے اسے ختم کرے۔
مولانا احمدعلی قاسمی مرحوم کہاکرتے تھے کہ یہ قوم صرف طاقت کی زبان جانتی ہے۔ اگر اس کے سامنے طاقت کا مظاہرہ نہ کیاگیا تو اسی طرح کمزوروں کے سامنے سینے چوڑاکرتی رہتی ہے۔ اس لٸے اس ملک میں اگر ظلم کو روکنا اورملک کے امن وامان کو بحال کرنا اور بچانا ہےتو بولنا تو پڑے گا۔ نکلنا بھی ہوگا۔ ڈنڈے بھی کھانے ہوں گے اور٨ فیصد برہمن جو ملک میں فساد پھیلاکر اورمختلف ناموں سے دہشت گرد تنظیمیں بناکر اورہندوؤں کو پرتھوی راج اوراکھنڈ بھارت یعنی صرف ہندوؤں کا بھارت کا خواب دکھا کر ملک پر قابض ہے۔ عدلیہ سے لیکر دفاعی شعبوں تک ملک کے اعلیٰ عہدوں پر سانپ کی طرح اپنے لوگ بیٹھا رکھے ہیں اورراجہ مہاراجہ کی طرح حکمرانی کررہے ہیں ۔ ملک کی دوسری اقلیتوں اوردلتوں کو لالچ اور ٣٠ کڑور کی اتنی بڑی مسلم اقلیت کو ڈراکر، دھمکاکر، ماب لنچنگ کرکے اور گھروں پر بلڈوزر چلاکر تباہ کردینے کے درپیے ہے۔ جو بات سنودھان کی کرتاہے اورکام مالکانہ ذہنیت سے کرتاہے۔ ملک کی ساری سرکاری ایجنسی کو قانون کی بجاٸے مالک کی طرح استعمال کرتاہے، ان کے سامنے آکر یہ بتاناہوگا کہ آخر یہ حق انھیں کس دستور نے دیاہے اور کس امید پر یہ سارے ستم ہم سہتے چلے جارہے ہیں؟ لاشیں اٹھارہے ہیں۔ اپنے نوجوان بیٹوں کی شہادت کاتماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ آج بجاٸے مسلمانوں کے ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کی دعوت کے قنوت نازلہ اور آیات کریمہ کے اوراد کی دعوت دے رہے ہیں۔ ذراکوٸی بتاٸے کتاب وسنت اوراٸمہ مجتہدین کی آرإ کی روشنی میں، کیا ظلم کے خلاف اللہ نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی جدوجہد چھوڑکر صرف قنوت نازلہ اورقرانی آیات کے ذکر کا اہتمام کیاتھا؟ ذرابتاٸے کہاں سے لوگوں نے نکالاہے ظلم کے دفاع کا یہ طریقہ؟ حد کردی ہے مولویوں نے، پڑھیے منع نہیں ہے، مگر صرف یہی نہیں ہے۔ پیچھے پشت پر تلوار لٸے دشمن کھڑا ہے اورہم بجاٸے اسے روکنے کے آنکھ بند کٸے دعاکیٸے چلے جارہے ہیں ۔یا اللہ ایساکردے ویساکردے پوری بھیڑ مسجد توڑنے آرہی ہے اورتوڑرہی ہے اورصرف دعاکررہے ہیں، یااللہ مسجد بچالے ۔سوچٸے! یہ تو اپنے آپ کو دھوکے میں ڈالناہے۔ ہمارے طریقہ کار پر تو بس اسی کا رونا رویاجاٸے گا: ”وہ ناداں گرگیا سجدے میں جب وقت قیام آیا“۔
طریقہ دین کا یہ ہے کہ میدان میں ہم اپنی بساط بھر دفاعی پوزیشن میں بھی ہوں اورپھر قنوت نازلہ کا اہتمام بھی ہو اوررب سے استعانت کی دعابھی کررہے ہوں ۔۔چاہے کوٸی بھی معاملہ ہو، ہماری طرف سے وہی بولے ۔ہماری طرف وہی لڑے۔پارلیمنٹ میں وہی آوازاٹھاٸے ۔ہم بس تماشہ بینی کرتے رہیں، یامارکھاتے رہیں ۔ ہم نے مکمل طور پر ملک کی سیاسی پارٹیوں پر تکیہ کررکھاہے ۔ بھلا بتاٸیے ! سیاسی پارٹیوں کے پاس کوٸی جادوکی چھڑی ہے جو آپ کو بلواٸیوں سے بچاٸے گی ؟ ۔یا آپ اپنے آپ کو خود بچانے کی فکر کریں گے ۔ مسلمانوں کی بزدلی، جہالت اورطاقت دیکھنی ہو تو مسلم محلوں میں رکشے والے، ٹھیلی والے اور سبزی والے کے ساتھ کچھ ہوجاٸے تو دیکھٸے ان کی مردانگی اورگالم گلوج۔( الامان والحفیظ۔) افسوس ایسی قوم ناحق نہ ماری جاٸے گی تو اورکیاہوگا، جسے کوٸی راہ دکھانے والا اور قاٸد ہی نہ ہو تووہ تو ایسے ہی بے ترتیب ماری جاٸے گی اوراس کے گھربھی مسمار کٸے اور لوٹے جاٸیں گے۔ میں مانتاہوں ان بلواٸیوں کی پشت پرانتظامیہ کی طاقت بھی ہے۔ چشم پوشی بھی کی جاتی ہے اورالٹے مسلمان نوجوانوں کو ہی دنگا پھیلانے کے نام پر گرفتاربھی کیاجاتاہے، مگر ان میں بھیڑ کی شکل میں ہمارے پاس آنے کی ہمت اسی لٸے ہورہی ہے کہ ان کو معلوم ہے ہم نہتھے ہیں۔ اپنے دفاع کے لٸے تیار نہیں ہیں۔ کیاخوف ستارہاہے؟کیااپنے دفاع میں کھڑے ہوں گے تو ٣٠ کڑور مسلمان ماردئیے جاٸیں گے ؟ آخر وجہ کیاہے ہماری خاموشی کی؟ ہم بتاتے کیوں نہیں کہ تم کون ہوتے ہومجھے بھارت میں رہنے، جینے اورمرنے کا حق دینے والے ! یہ کون سی مصلحت ہے کہ ہم چپ ہیں، خانہ جنگی ہوگی تو ہوگی، ہم بھی مریں گے وہ بھی مریں گے ۔کیا فوج میں اورڈیفینس میں ٩٩ فیصد ہندوہیں تو کیا مطلب سارے مسلمانوں کو ماردیں گے اورہم یوں ہی کھڑے کھڑے مرجاٸیں گے؟ یہ کون سا ایمان ہے بھاٸی اوریہ کون سا ایٹیٹیوٹ ہے ہمارا؟احسان الحق چترویدی صاحب، اگر توقیر رضاصاحب تشریف لاتے ہیں تو ہم سب چلیں گے بلاتفریق مسلک، یہ ملک وملت بچانے کاوقت ہے، مگر ہم کو مایوس نہیں ہوناچاہیٸے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسے ہی حالات پیداکیٸے جاتے رہے تو ایک نہ ایک دن ملک کی تصویر ضرور بدلے گی۔ ”ہرروزبدلتی ہوٸی تصویر کے آگے
یہ سوچ بدل جاٸے گی تعبیر کے آگے
یہ ظلم کسی روزفناہوکے رہے گا اخلاص سے نکلی ہوٸی تحریر کے آگے
جھکتاہے کوٸی غیرکے آگے تو جھکے وہ
مومن ہو تو جھکتاہے وہ تقدیر کے آگے۔ “

Comments are closed.