Baseerat Online News Portal

جنگ ازادی میں علماء کا کردار

 

مکرمی!

ہندوستان کی تحریک آزادی تاریخ دنیا کا سب سے سرخ پنا ہے. اس تاریخ  کا ہر ورق مسلم علماء کے خون سے لہو لہان ہے ۔ تحریک آزادی میں علمار کا کردار بالکل نمایاں ہے ۔ انہوں نے جنگ آزادی میں ان سے پاک دلیر جانبازوں کا کردار نبھایا ہے جس کی آج تک ہندوستان مثالیں پیش کرتا ہے ۔ انہوں نے اس ملک کی خاطر ایسی قربانیاں دیں جن کے سوچتے ہی آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے تن ، من  دھن  ، آس و اولاد سب کچھ کو نلام کر نےکے بعد اس ملک کو آزادی کا مویرا دکھایا ۔

1857، تاریخ ہندوستان کا وہ سال جب ملک کے باشندے انگریزوں کے نیا چاروں کا وندان شکن جواب دینے کیلئے میدان میں اترے۔ ملک کا ہر باشندہ فرنگیوں کے خلاف نعرہ بلند کر رہا تھا۔ اس ملک کے فدائیوں نے انگریزوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ مولوی احمد اللہ شاہ فیضا بادی ان فرائیوں کے بیچ وہ شخص تھے جنہونے انگزوں کی ناک میں سب سے زیادہ دم کر رکھا تھا۔ انگریزوں نے تو یہ تک اعلان کر دیا تھا کہ جو کوئی انہیں  زنده یا مردا انگریزوں کو سپیرد کریگا  اسے 50000 کا انعام دیا جائے گا

اسی طرح ہندوستانیوں کو ہندوستان کے فرنگیوں کے ناپاک جال سے آزاد کرانے کیلے علمائے کرام نے اپنی جان کو گروی رکھ کر اسے آزاد کر یا . اس کام میں کئی علماؤں کی جان نے اپنے خون سے تاریخ کے ورقوں کو سینچا جس میں چند علماء سر فہرست ہے. مولا ابولکلام ازاد مولانا عبد الباري  مولانا عبد الله سندي  مولانا محمد حسين احمد مولانا ام اي    فرنگیوں نے اپنے اقتدار کو قائم کرنے کیلے طرح طرح کی سازشیں رچی تا کہ ہندوستانیوں کے ذہن کو مفلوج کرکے انھیں غلامی کی زنجیر سے دائما قبہ رکھے۔ ہندوستانیوں کے آپسی اتحاد کو برہم کر نے سکے نئ نئی چاچالیں چلی ۔ لیکن ! جب ان سے کچھ بگڑ نہ سکا تو ہندوستانیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا دئیے ۔ کبھی ہندوستانیوں کو گولی کی بوچھار کو شکار بنایا گیا تو کبھی انھیں چلتی ٹرین سے گرایا بھی تو کبھی لوگوں ہندوستانیوں کو جلیان والے باغ میں سر عام قتل کیا گیا

 

 شروعاتی علماء کی طرف سے ،مولانا محمد علی جوہر، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد اللہ جہانگیری، وغیرہ کی دستاویزیں دعوتِ توحید کی حمایت کی۔ آزادی کی بحث پر، علماء پاکستان کی ریاستی جماعتوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ بعض شہری علماء اور قابل الاحترام شخصیات، جن میں مولانا مودودی، سید ابوالاعلی مودودی، الطاف حسین، سید ابوالحسن علی ندوی، امام ابوالاعلی حسن ندوی، مولانا حسن البنا، امام غزالی، آغا شاہی حمید، وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی جدوجہد کو ملکی آزادی اور انسانی حقوق کی حفاظت سے جوڑ کر لگایا۔

 

 آخر کار، اس جنگ کے دوران مسلم علماء کی تعظیم ان کی خدمات کے قابل تعریف ہے۔ انہوں نے اپنے دین اور ملک کے تعلقات کو ایک باہمی تعلق کی نشانی بنایا، جس سے پاکستان اور بھارت کے بیچ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ جنگ کی فتح میں، مسلم علماء بھارت کو نہ صرف بازیاب بلکہ بات ماننے کی خواہش رکھتے رہے۔ انہوں نے اس جنگ کو زبردست کردار عطا کیا پوری دنیا میں لوگوں میں حوصلہ اور آزادی کی ترغیبات کو اگلا۔ آزادی کے حملوں کے دوران، مسلم علماء رہنمائوں کے طور پر کام کر رہے تھے، جو بھارتی آزادی کی سوچ کی پیشگوئی کرتے رہے۔ انہوں نے پوری قوم کو اپنے نقطہ نظر کے لئے رائج کیا۔ ان کے خدمات کو یاد رکھنے سے ہم پاکستان بھارت میں دوستی اور محبت پیدا کرسکتے ہیں۔

 

محمد طارق اطهر

Comments are closed.