مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

اے ایم یو نے انڈیا ٹوڈے کی یونیورسٹی رینکنگ میں تیسرا مقام حاصل کیا
علی گڑھ، 14 اگست: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے انڈیا ٹوڈے بیسٹ یونیورسٹیز سروے 2023 میں تیسرا مقام حاصل کیا ہے، جس پر کیمپس میں خوشی و مسرت کا ماحول ہے ۔
یونیورسٹی کی رینکنگ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ایم سالم بیگ نے بتایا کہ انڈیا ٹوڈے کی شریک کار ادارے مارکیٹنگ اینڈ ڈیولپمنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹس (ایم ڈی آر اے) نے جنوری سے جولائی 2023 کے درمیان سروے کیا جس میں 120 سے زیادہ اشاریوں پر کارکردگی کا تجزیہ کیا گیا ۔ ان کلیدی اشاریوں کو پانچ اہم پیرامیٹرز : ساکھ اور گوورننس،اکیڈمک و ریسرچ ایکسیلینس،انفراسٹرکچر اور کیمپس میں رہنے کا تجربہ،شخصیت اور لیڈر شپ ڈیولپمنٹ، اور کریئر پروگریشن و پلیسمنٹ میں تقسیم کیا گیا تھا۔
750 سے زائد اداروں میں اے ایم یو ممتاز کارکردگی کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا۔ معیاری تعلیم، تحقیق اور جامع ترقی کے تئیں عزم کے باعث اے ایم یو نے جنرل (سرکاری) یونیورسٹیوں کے زمرے میں 2000 میں سے 1718.8 کا مجموعی اسکور حاصل کیا۔ اس شاندار کارکردگی کی بدولت اے ایم یوکو جے این یو اور دہلی یونیورسٹی کے بعد تیسرا مقام عطا کیا گیا۔
اے ایم یو کی عمدہ کارکردگی ،امتیاز و معیار کے تئیں اس کے پختہ عزم کا ثبوت ہے ۔2022ء کے سروے میں یونیورسٹی نے چوتھا مقام حاصل کیا تھا اور 2023ء میں ایک پائیدان کی ترقی یونیورسٹی برادری کے لئے باعث مسرت ہے۔ مزید یہ کہ سب سے زیادہ پی جی کورسز پیش کرنے والی سرکاری یونیورسٹیوں میں اے ایم یو کا دبدبہ ایک تعلیمی طاقت کے طور پر اس کی حیثیت کو نمایاں کرتا ہے۔
تعلیمی حلقے ، عملی قابلیت کو پروان چڑھانے، اختراعی تحقیق اور جامع ترقی کے تئیں اے ایم یو کے پختہ عزم و لگن کو تسلیم کر رہے ہیں۔ اپنے تہنیتی پیغام میں وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے اس کامیابی کو تدریسی عملے اور طلباء کی انتھک محنت کا منہ بولتا ثبوت قرار دیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اے ایم یو ہندوستانی تعلیمی منظر نامے میں تعلیم و تدریس اور تحقیق و ترقی کے روشن منارے کے طور پر اپنے مقام کو مستحکم کرتے ہوئے مزید بہتر مستقبل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
٭٭٭٭٭٭
’’تحریک آزادی قومی یکجہتی کی نمائندہ رہی ہیـ‘‘
شعبہ عربی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خصوصی تقریب کا اہتمام
علی گڑھ، 14 اگست: شعبہ عربی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جشن یوم آزادی کے موقع پر ـ’’سامراجیت، تحریک آزادی اورہندوستانی سماجیات کے ادبی و لسانی تناظر‘‘ کے موضوع پر خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ صدر شعبہ عربی پروفیسر محمد ثناء اللہ ندوی کی دعوت پر شعبہ تاریخ ،اے ایم یوکے استاد پروفیسر پرویز نذیر نے پر مغز خطبہ پیش کیا۔
صدر شعبہ نے اپنے استقبالیہ کلمات میں جنگ آزادی کی تحریک کے تاریخی پس منظر اورزمینی سطح پر کارفرما مختلف عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خاں نے رسالہ تہذیب الاخلاق کے اجراء اور’’ اسباب بغاوت ہند‘‘ کی تصنیف کے ذریعہ سامراجیت کامقابلہ کیا۔ملک کی آزادی میںعلی برادران کی خلافت تحریک،جرمنی میں غدر پارٹی اور برلن کمیٹی کی خدمات، افغانستان میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، مولانا برکت اللہ بھوپالی اورچمپک رمن پلئے کی عبوری حکومت، تحریک ریشمی رومال،مٹھیا تحریک ،راجہ رام موہن رائے کے جاری کردہ مرآۃ الاخبار، مولانا ابوالکلام آزادکے نیرنگ عالم، الھلال،البلاغ، الجامعۃ اور عربی زبان وادب کے مشہور شاعر مولانا فضل حق خیرآبادی کی عربی شاعری ’’ الثورۃ الھندیۃ‘‘ کے علاوہ علامہ زین الدین ملیباری کی کتاب ’’تحفۃ المجاہدین‘‘ نقوش جاوداں کا درجہ رکھتے ہیں۔صدر شعبہ نے جنگ آزادی کے سلسلہ میں انڈین نیشنل کانگریس اور مصر کی وفد پارٹی کے باہمی تعاون کا بھی ذکر کیا جس کی نمائندگی سنہ ۱۹۳۹ء کے پریپوری سیشن میں نظر آتی ہے۔ یہ زاوئے ادبیات کی بین موضوعاتی تفہیم میں معاون ہوتے ہیں۔
مہمان مقرر پروفیسر پرویز نذیر نے اپنے خطاب میں خاص طور سے عربی زبان وادب کا تاریخ سے گہرے رشتہ کا ذکر کیا۔ انہوں نے سامراجیت کو نشاۃ ثانیہ سے جوڑتے ہوئے ’’گولڈ، گلوری، گاڈ‘‘ (دولت، سیاسی نمود اور کلیسا) کے مثلث کو ہندوستان کو قید غلامی میں لانے کا بنیادی حربہ بتایا اور استعماری طاقتوں کے مظالم اور ہندوستانی عوام کی بے حسی ولاغری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انگریزوں نے اپنی طاقت کی زور پر ہندوستانیوں کی سوچنے وسمجھنے کی صلاحیتوں کو کمزور کردیا تھا ، یہاں کے عوام مختلف ریاستوں وطبقات میں منقسم تھے ، انگریزوں نے تجارت کی غرض سے یہاں کے عوام کو کمزور کرنا شروع کردیا اور یہاں سے قیمتی اشیاء اور دوسرے نوادرات اپنے ملک میں پہونچانا شروع کردیا جس سے یہاں کی مصنوعات کمزور پڑ گئیں، نیز ہندوستانی عوام کو سیاسی وسماجی ، واقتصادی طور پر ذہنی غلام بنادیا تھا ۔ ایسے حالات میں اس وقت کے نباض اور دانشوروں نے ہندوستانی عوام کے لئے نشأۃ ثانیہ کا خواب دیکھا جن میں شیر میسور ٹیپو سلطان شہید ، مولانا ابوالکلام آزاد،سرسید احمد خاں، حاجی شریعت اللہ، راجہ رام موہن رائے اور دیگر شخصیتوں اور تاریخ میں معروف تحریکوں اور اداروں نے عوامی بیداری کے ذریعہ بڑی خدمات انجام دیں۔ مرأۃ الاخبار کے ذریعہ لوگوں کو ذہنی واقتصادی غلامی زنجیروں سے آزاد کرانے کی مہم چھیڑی گئی،سرسید احمد خاں نے انگریزی تعلیم کو لازم قرار دیا کہ اسی زبان کے ذریعہ ہم دشمنوں کا مقابلہ کرکے طاقتور ومظبوط ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے خاص طور سے جدید تعلیم اور علی گڑھ تحریک کا ذکر تے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خاں نے سائنٹفک سوسائٹی کے ذریعہ نئی روشنی اور بیداری لاتے ہوئے ہندوستان کی آزادی میں بہت بڑا کردار اداکیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی کے شائع ہونے والے’’ پیسہ اخبار‘‘ نے پہلی بار ’’جنگ آزادی‘‘ کے لفظ کا استعمال کیا۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کے لئے عوامی جذبات کو فروغ دینے میں اس اخبار کا بنیادی کردار رہا ہے۔
مہمان خصوصی پروفیسر محمد اظہر، ڈین، انٹرنیشنل اسٹڈیز فیکلٹی اور صدر شعبہ علوم مغربی ایشیاء ، اے ایم یو نے اپنے خطاب میں صدر شعبہ عربی کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہمیں بڑی مسرت ہے کہ شعبہ عربی یوم آزادی کی تقریب کے موقع پر اس نوع کے خطاب کا اہتمام کر رہا ہے جس سے ہمارے طلبہ تاریخ کے بہت خوابیدہ گوشوں سے روبرو ہوتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور سے مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، سرحدی گاندھی، مولانا ابولکلام آزاد اورسرسید احمد خاں کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ شخصیتیں ہیں جن کے بغیر ہندوستانی عوام ذہنی وسیاسی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کرسکتی تھی، آج ہم لوگوں پر ان کے احسان عظیم ہیں۔
صدر جلسہ پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے اپنے صدارتی کلمات میں صدر شعبہ عربی کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی آزادی میں مختلف زبانوں کا نہایت اہم کردار رہا ہے، انہوں نے بھارتیندو ہرش چندر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک قصہ ’’ بھارت دور دشا ‘‘ کے نام سے لکھا تھا جس نے ہندوستانیوں کو خواب غفلت سے جگانے کا کام کیا ، نیز اس نے انگریزوں کے خلاف آواز بلند کرکے جنگ آزادی میں اہم کردار اداکیا ۔ بھارتیندوہرش چندر نے قرآن کا جزوی ترجمہ بھی کیا۔ انہوں نے جئے شنکر پرشاد، میتھلی شرن گپتا اور شیام لال گپتا پارشد کے کارناموں کا ذکر کیا جو قومی یکجہتی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کامائنی اوربالابودھنی جیسی تخلیقات اوررسائل نے خواتین کی ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جس کے عکس جھانسی کی رانی جیسے کردار میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس پروگرام میں شعبہ کے تمام اساتذہ، طلباء وریسرچ اسکالر موجود تھے۔ پروگرام کا آغاز صدیق احمد ( ریسرچ اسکالر) کے تلاوت کلام پاک سے ہوا اور شکریہ کے کلمات شعبہ کے استاد ڈاکٹر عرفات ظفر نے ادا کئے۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو میں آزادی کا امرت مہوتسو سے متعلق تقریبات کا اہتمام کیا گیا
علی گڑھ، 14 اگست: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مختلف اداروں، کالجوں، اسکولوں اور شعبہ جات میں ’آزادی کا امرت مہوتسو ‘کے تحت یوم آزادی سے قبل مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔اس کے ساتھ ہی تقسیم ہند کی ہولناکیوں کی یاد میں اور میری ماٹی میرا دیش کے عنوان سے بھی پروگرام منعقد کئے گئے ۔
اے ایم یو سٹی گرلز ہائی اسکول نے ”آزادی کا امرت مہوتسو” کے موقع پر ”صحت اور تندرستی” کے موضوع پر ڈاکٹر ارم عالم کے ساتھ طالبات کے لیے مکالمے کا اہتمام کیا، جو پیشہ سے ڈاکٹر ہیں ۔ ڈاکٹر ارم عالم، جو بی ایل ایکس میکس اسپتال سے وابستہ ہیں ، نے اسکول کے دنوں کی اپنی یادیں تازہ کیں اور طالبات کو اپنے خوابوں پر عمل کرنے اور انہیں حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے طالبات پر زور دیا کہ وہ سیکھیں، نظر ثانی کریں اور یاد رکھیں، یہی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
اسکول پرنسپل ڈاکٹر محمد عالمگیر نے مہمان مقرر کا استقبال کیا۔
نیشنل سروس اسکیم نے یوم آزادی کی خوشی میں 14 اگست کو یونیورسٹی کے سینٹینری گیٹ سے بابِ سید تک ایک پربھات پھیری کا اہتمام کیا۔
ڈاکٹر ارشد حسین، پروگرام کوآرڈینیٹر، این ایس ایس نے پروگرام افسران، دفتری عملہ اور طالب علم رضاکاروں کو ”پنچ پرن” کا حلف دلایا۔
سینٹر فار اسکل ڈیولپمنٹ اینڈ کریئر پلاننگ، ویمنس کالج، اے ایم یو میں آزادی کا امرت مہوتسو اور میری ماٹی میرا دیش کے عنوان سے تقریبات کا اہتمام کیا، اور جی 20 سربراہی اجلاس کی ہندوستان کی صدارت کا جشن منایا۔ اس موقع پر عملہ کے اراکین، ٹرینرز اور طالبات نے پنچ پرن کا عہد لیا۔
سنٹر میں قومی پرچم ’ترنگا‘ کے رنگوں پر مبنی ہندوستانی ملبوسات کی عکاسی پر ایک مقابلہ بھی منعقد کیا۔ فیشن السٹریشن کورس کی کل 23 طالبات نے اس میں حصہ لیا۔ پروفیسر نگار زبیری مہمان خصوصی تھیں، جبکہ تقریب کی جج ویمنس پولی ٹیکنک کی محترمہ اقرا سلیم تھیں۔
ساجدہ پروین نے پہلا انعام جیتا جبکہ دوسرا اور تیسرا انعام بالترتیب اریبہ حسن اور حبیبہ ندیم کے حصے میں آیا۔
سنٹر کی ڈائریکٹر پروفیسر نعیمہ خاتون نے طالبات پر زور دیا کہ وہ قومی تقریبات میں بھرپور طریقے سے شرکت کریں کیونکہ اس سے عام لوگوں میں ملک سے محبت کا پیغام عام کرنے اور حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ تقریب کی نظامت اسٹوڈنٹ کونسلر ڈاکٹر ثمرین حسن خان نے کی۔
اے ایم یو اے بی کے ہائی اسکول (گرلز) میں ”میری ماٹی میرا دیش” اور ”ہر گھر ترنگا” مہم کے حصے کے طور پر کئی تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور ‘تقسیم کی ہولناکیوں کا یادگاری دن’ منایا گیا۔ ان تقریبات میں صبح کی ایک خصوصی اسمبلی، پنچ پرن کا عہد، ترنگا کے ساتھ سیلفی، پارٹیشن ہارر نمائش، شجرکاری مہم اور طالبات کے ذریعہ بنائے گئے ماڈلز اور چارٹس کی نمائش شامل تھی۔
عبداللہ اسکول میں، ”میری ماٹی میرا دیش” مہم ،آزادی کا امرت مہوتسو اور ہندوستان کی جی 20 کی صدارت کے تحت ”جن بھاگیداری” کے عنوان سے تقریبات منائی گئیں ۔
عملہ کے اراکین اور بچوں نے میری ماٹی میرا دیش مہم کے تحت ”پنچ پرن” کے تحت حلف لیا، اور اسکول کی سپرنٹنڈنٹ محترمہ عمیرہ ظہیر کی قیادت میں شجرکاری مہم میں حصہ لیا۔
یونیورسٹی کے شعبہ نباتیات میں اساتذہ اور طلباء نے میری ماٹی میرا دیش پروگرام کے تحت ”پنچ پرن” کاحلف اٹھایا۔
دریں اثنا، ‘تقسیم کی ہولناکیوں کے یادگاری دن’ کے تحت شعبہ انگریزی نے رالے لٹریری سوسائٹی کے ساتھ مل کر ایک بیداری پروگرام کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر تقسیم کی ہولناکیوں اور اس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی اذیت اور مصائب کے بارے میں ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں صدر شعبہ پروفیسر محمد عاصم صدیقی نے تقسیم ہند کی ہولناکی کے یادگاری دن کو ادب اور انسانی علوم کے طلباء کے لیے خاص طور سے اہم قرار دیا ۔
رالے لٹریری سوسائٹی کے کوآرڈینیٹر مسٹر دانش اقبال نے مختلف ہندوستانی زبانوں کے ادبی مطالعات میں تقسیم کی خوفناک کہانیوں کی معنویت پر روشنی ڈالی۔
پوسٹ گریجویٹ طالب علم سدرہ نور اور محمد اشہر علی نے اس موضوع پر نظمیں پیش کیں اور طالبات کے ایک گروپ نے اجتماعی طور سے ایک نغمہ پیش کیا جس میں محمد بلال، اسرا طارق، وارثہ احمد، عائشہ بابر، ڈمپل سنگھ، ادیب سلطان اور فریحہ کفیل شامل ہوئے۔
سنٹر فار پروفیشنل ڈیولپمنٹ آف اردو ٹیچرز (اردو اکادمی) میں تقسیم ہند کی ہولناکی کے یادگاری دن کے عنوان سے منعقدہ پروگرام میں اساتذہ، غیر تدریسی عملے کے اراکین، ریسرچ اسکالرز اور طلباء کثیر تعداد میں شریک ہوئے ۔
پروگرام کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے کہا کہ اس کا مقصد تقسیم کے دنوں میں عام لوگوں کے دکھوں کو یاد رکھنا ہے کیونکہ تقسیم کے دوران بڑی تعداد میں خاندان بے گھر ہوئے اور بہت سے لوگ مارے گئے۔
اس موقع پر ایک نمائش لگائی گئی تھی جس میں جدوجہد آزادی اور تقسیم سے متعلق متعدد کتابیں اور تصاویر شامل کی گئی تھیں ۔ سنٹر نے پنچ پرن عہد اور کوئز کے ساتھ ہی میری ماٹی میرا دیش کے عنوان پر ڈاکٹر رفیع الدین کے لیکچر کا بھی اہتمام کیا ۔
ہوم سائنس شعبہ نے بھی نئی نسل کو تقسیم کی ہولناکیوں سے آگاہ کرنے کے لیے ایک پروگرام کا انعقاد کیا۔ ڈاکٹر صبا خان نے تقسیم کے دنوں میں لوگوں کے دکھوں کو اجاگر کیا اور دکھوں کا مداوا کرنے میں حریت پسندوں کے کردار پر روشنی ڈالی۔ تقسیم کی ہولناکیوں پر ارم ناز نے ایک آڈیو ویژول پرزنٹیشن کیا ۔
ویمنس کالج میں ‘فائن آرٹس سیکشن’ اور ‘ویمنس کالج لٹریری سوسائٹی’ نے تقسیم کی ہولناکیوں کا یادگاری دن منایا جس میں انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (آئی سی ایچ آر) اور اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار دی آرٹس کی طرف سے تیار کردہ ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا۔ ڈاکٹر مشتاق وانی نمائش کے کوآرڈنیٹر تھے۔
رمشا رفعت، بصرہ حسن اور اقصیٰ نے تقسیم کی ہولناکیوں پر تقریریں کیں، جب کہ بی ایف اے کی طالبات صائمہ عرشی اور علیزہ ضمیر نے کچھ نامور فنکاروں کی پینٹنگز پیش کیں، جن میں تقسیم کے درد اور کرب کو دکھایا گیا تھا۔
دوسری طرف آفتاب ہال میں بھی ’تقسیم کی ہولناکی کے یادگاری دن‘ پر ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا۔
پروفیسر علی اطہر (شعبہ تاریخ) نے لیکچر دیا جس میں لوگوں کی اذیتوں، مصائب اور درد کو اجاگر کیا گیا۔ قبل ازیں پرووسٹ ڈاکٹر سلمان خلیل نے مہمان مقرر کو خوش آمدید کہا ۔
اے ایم یو کے احمدی اسکول میں، ڈجیٹل میڈیا کے ذریعے تصویروں کی ایک نمائش کے ذریعے ‘تقسیم کا ہولناکیوں کا یادگاری دن’ منایا گیا۔
اسکول پرنسپل ڈاکٹر نائلہ راشد نے کہا کہ یہ نمائش ہمیں پچھلی صدی میں انسانی آبادی کی سب سے بڑی نقل مکانی کی یاد دلاتی ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں بھی گئیں۔
٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو کی فیکلٹی آف لاء کے دو سابق طلباء نے مادرِ علمی کا نام روشن کیا
علی گڑھ، 14 اگست: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لاء کے دو سابق طلباء نے اپنی عالمی تعلیمی دستیابیوں کے ذریعہ یونیورسٹی کا نام روشن کیا ہے۔ فہم احمد خاں نے جولائی 2023 میں عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی آف کیمبرج سے کامیابی کے ساتھ ایل ایل ایم مکمل کیا، تو دوسری طرف محمد ذیشان احمد کو تعلیمی سال 2023-24 میں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز ، یونیورسٹی آف لندن میں ایل ایل ایم کرنے کے لیے باوقار مارنگ گومکے جے پال سنگھ منڈا اوورسیز اسکالرشپ سے نوازا گیا ہے۔
جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ جناب ہیمنت سورین نے ایک تقریب میں ذیشان احمد کو اسکالرشپ سرٹیفکیٹ اور اعزازی نشان پیش کیا۔
جمشید پور (جھارکھنڈ) سے تعلق رکھنے والے ذیشان احمد نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر جھارکھنڈ حکومت اسکالرشپ نہ دیتی تو یونیورسٹی آف لندن میں پوسٹ گریجویٹ کورس کرنا ان کے لیے ایک خواب ہی رہ جاتا۔
قابل ذکر ہے کہ ذیشان احمد نے 2020 میں اے ایم یو سے بی اے ایل ایل بی مکمل کیا اور 2022-23 میں عظیم پریم جی یونیورسٹی، بنگلورو سے انھوں نے ایل ایل ایم کیا۔
وہ ’دی وائر‘ کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں اور قانون سے متعلق کچھ پورٹلز اور مشہور تعلیمی جرائد میں تحقیقی مقالے شائع کر چکے ہیں جس میں سیج سے شائع ہونے والا انڈین جرنل آف پبلک ایڈمنسٹریشن بھی شامل ہے۔ وہ شہریت مطالعا ت کے لیے وقف ایک پورٹل ’پریچے‘کے ایڈیٹروں میں سے ایک ہیں۔
فہم اور ذیشان نے مذکورہ کامیابی کے لیے اپنے اساتذہ کے تئیں ممنونیت کا اظہار کیا ہے ۔
Comments are closed.