میری ماٹی ، میرا دیش !

 

شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

امسال بھی ، سالِ گزشتہ کی طرح ’ آزادی کا امرت مہوتسو ‘ دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے ، یہ مہوتسو ۱۵، اگست کو ، آزادی کے ۷۷ ویں سال کے آغاز ، اور ۷۶ ویں سال کے خاتمے پر ، اپنے اختتام کو پہنچے گا ۔ اس بار ’ میری ماٹی ، میرا دیش ‘ کا نعرہ دیا گیا ہے ۔ یہ نعرہ یقیناً اس ملک کے ہر شہری کی آواز ہے ، اُن شہریوں کی بھی آواز ہے جنہیں بار بار کہا جاتا ہے ’ پاکستان چلے جاؤ ‘ ، اور ان شہریوں کی بھی آواز ہے جن کے اہلِ خانہ برہنہ کرکے سڑکوں پر گھمائے جاتے ہیں ، اور اُن شہریوں کی بھی آواز ہے جن کی زبانیں اُس وقت بھی مارے خوف کے بند رہتی ہیں ، جب اُن سے وہ سارے حقوق چھین لیے جاتے ہیں ، جو انہیں اس ملک کا آئین ، جس کی ماٹی سے انہیں پیار ہے ، اور جو ان کا اپنا پیارا دیش ہے ، فراہم کرتا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آزادی کے ۷۷ ویں سال میں بھی وہ ’ خواب ‘ جو دیکھے گئے تھے ’ تعبیر ‘ سے محروم ہیں ۔ ایک پُرامن معاشرے میں رہنے کا خواب ، ایک ایسے ملک میں چین اور سکون سے زندگی بِتانے ، اور اپنے اپنے مذہب اور دھرم پر عمل کرنے کا خواب ، جس کی آزادی کے لیے خواب دیکھنے والوں کے آبا و اجداد نے اپنی جانوں کو قربان کیا تھا ۔ آج ملک ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اگر مڑ کر دیکھا جائے تو بہت کچھ بدلا بدلا نظر آئے گا ۔ اب اِس دیش میں ، جس کی ماٹی سے یہاں کے رہنے والوں کو پیار ہے ، لوگوں کی حب الوطنی کو ایک مخصوص پیمانے میں ناپنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ اب اگر کوئی یہ سوال کر لے کہ کیوں ساورکر کو ’ ویر ‘ کہا جائے ، تو وہ غدارِ وطن کہلاتا ہے ، اگر یہ سوال کر لیا جائے کہ آر ایس ایس کا اس ملک کی آزادی میں کوئی حصہ نہیں ہے ، تو بھلا کیوں اُسے اور اس کے ’ سرسنگھ چالکوں ‘ کو محبِ وطن سمجھا جائے ، تو بغاوت کا الزام تھوپ دیا جاتاہے ۔ اب صرف ایک تنظیم اور ایک نظریہ ہی اس ملک میں حب الوطنی کی سند کا معیار ہے ، سنگھ اور ’ ہندتو ‘۔ ہر گھر پر ترنگا کا پیغام یقیناً قابلِ تحسین ہے ، لیکن اس پیغام کے ساتھ صرف ایک ’ رہنما ‘ کا پرچار ، اور صرف ایک پارٹی کا تذکرہ ، اُن سارے رہنماؤں اور اُن ساری جماعتوں کی ، جنہوں نے ملک کو آزاد کروانے کے لیے سب کچھ قربان کر دیا ،خدمات پر پانی پھیرنے کے مصداق ہے ، بلکہ ان کی توہین ہے ۔ جیسے سالِ گزشتہ پی ایم نریندر مودی کے کارناموں کی جئے جئے کار کے ساتھ جھنڈا وندن کیا گیا تھا ، امسال بھی اسی طرح پی ایم مودی کے ’ عظیم کارناموں ‘ کا گُن گان ہے ۔ آزادی کی تقریبات کو پی ایم مودی اور بی جے پی سے جوڑ دیا گیا ہے ! اُن ، سفید شرٹ اور خاکی پتلون پہننے والوں کا ، جنہوں نے آر ایس ایس کے ناگپور ہیڈ کوارٹر پر ۵۲ سال تک ترنگا نہیں لہرایا ، ترنگا پریم یوں عود کر آیا ہے جیسے کہ اِن سے بڑا محب وطن نہ کوئی ہے اور نہ کوئی تھا ۔ یہ تو وہ ہیں جنہیں ترنگے کے رنگوں سے بھی اتفاق نہیں تھا کیونکہ یہ رنگ ملک کے تنوع کو ظاہر کرتے ہیں ۔ لیکن دیر آید درست آید کے مصداق سنگھ کو اگر ترنگا سے پریم ہو گیا ہے ، اور اُسے اس کے رنگ اب بھانے لگے ہیں ، تو بہت اچھی بات ہے ، مگر اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ آزادی کی لڑائی کے سارے مجاہدوں کو ایک کنارے کر کے ان خاکی اور سفید پوش سنگھیوں کو آزادی کی جنگ کا حقیقی ہیرو سمجھ لیا جائے ، یا ایسا سمجھانے کی کوشش کی جائے ۔ مودی اور ان کی پارٹی کو ، اور جس نظریے کے وہ پرچارک رہے ہیں ، اس نظریے کے ماننے والوں کو پنڈت جواہر لال نہرو سے خدا واسطے کا بیر ہے ، بیر رکھیں ، لیکن جو حقائق ہیں انہیں نظرانداز نہ کریں ، کہ آزادی کی جنگ میں پنڈت جی کا ، کانگریس کا ، اور مجاہدین کا ، جن میں ہندو ، مسلم ، سکھ اور پارسی سمیت دلت سماج اور آدای واسی شامل رہے ہیں ، کردار خوب واضح ہے ۔ رہی بات مسلمانوں کی ، تو ان کی تاریخ وطن کی محبت سے بھری پڑی ہے ۔ نہ جانے کتنے سر کٹے ہیں ، اور کتنی گردنیں پھانسی پر جھولی ہیں ، تب کہیں جا کر یہ آزادی نصیب ہوئی ہے ۔ بہادر شاہ ظفر سنگھ اور یرقانیوں کے لیے مغل ہو سکتے ہیں ، ملک کے لیے مجاہد آزادی ہیں ، ان کے بیٹوں کے سر کاٹ کر ان کی پلیٹ میں پیش کیے گئے تھے ۔ ٹیپو سلطان کو کوئی مانے نہ مانے ، اس ملک کے وہ شہری جنہیں آزادی کی تاریخ پتہ ہے ، انہیں مجاہدِ آزادی ہی مانتے ہیں ۔ جب ۱۹۴۷ء میں وطن تقسیم ہوا تب خون سے کئی لکیریں کھینچ دی گئی تھیں ، مسلمان سب سے زیادہ تباہ و برباد ہوا تھا ، جو پاکستان گئے وہ اپنی مرضی سے گئے ، جو یہاں رہ گئے ، وہ اپنی مرضی سے یہاں رہے ، کسی کا کوئی نہ جبر تھا نہ احسان ۔ آج اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان چلے جائیں کیونکہ ان کے اجداد نے پاکستان بنوایا ہے ؛ یہ طعنہ دینے والے سُن لیں کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں مسلمان پیش پیش رہے ہیں ، اور ان کا اس ملک پر اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور شہری کا ۔ اور اُن سے تو زیادہ ہی حق ہے جن کا وطن کے لیے آزادی کی لڑائی میں کوئی کردار نہیں تھا ۔ یہ مسلمان اس ملک کو اپنا دیش سمجھتے ہیں ، اور اس ملک کی ماٹی سے پیار کرتے ہیں ، وہ یہیں رہے ہیں ، یہیں رہیں گے ، انہیں کوئی یہاں سے نکال نہیں سکتا ۔ اس لیے ۱۵ ، اگست کو مسلمان سب سے بڑھ کر اور سب سے تیز آواز میں اپنی ماٹی اور اپنے دیش سے محبت کا اظہار کریں ، اور اپنے گھروں پر ترنگے لہرا کر انہیں شرمندہ کریں ، جو ۵۲ سال تک ترنگے کی بےحرمتی کرتے رہے ہیں ۔

Comments are closed.