Baseerat Online News Portal

جنگ آزادی میں علماء کی قربانیاں(۱)

شمع فروزاں

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
صدرآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
آج ہمارا ملک آزاد ہے ، اس کے در و بست آزاد ہیں ، ہم خود اس کی تقدیر کے مالک ہیں اوراس کے سیاہ و سفید کا فیصلہ کرتے ہیں ؛ لیکن ہماری تاریخ میں ایک ایسا دور بھی گذرا ہے ، جب ہم خود اپنے وطن میں غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے ، ہم اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں تھے —– ہمیں یہ آزادی کیونکر حاصل ہوئی ؟ اس آزادی کے جبین و عارض پر کس کس کے خونِ شہادت کی سرخی ہے ؟ ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے ان سپوتوں ، مادر وطن کے لائق فرزندوں اوراس کی عزت و ناموس کے ان پاسبانوں کی یاد تازہ کریں ۔
ہندوستان کی آزادی کی تاریخ دنیا کے تمام انقلابات سے اس حیثیت سے جداگانہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں مذاہب اور مذہبی قائدین کا نمایاں کردار رہا ہے ، بابائے قوم مہاتما گاندھی جی ، مفسر قرآن مولانا ابو الکلام آزاد اور سکھ مذہبی رہنما تارا سنگھ یہ سارے لوگ وہ تھے ، جو مذہب کی آغوش میں پلے اور ساری زندگی مذہب کے زیر سایہ گذار دی ، یہ سب جنگ آزادی کے سالاروں میں تھے —- اسی پس منظر میں اس وقت ہمارا موضوع ہندوستان کی آزادی میں مسلمان علماء کا حصہ ہے ؟
۱۶۰۰ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں قدم رکھا اور بتدریج اپنی فوج اور پولیس بھی رکھنی شروع کردی ، یہاں تک کہ ہندوستانیوں سے انگریزوں کا پہلا معرکہ ۱۷۵۷ء میں پلاسی کے میدان میں پہلے شہید آزادی سراج الدولہ کے ساتھ ہوا ، یہ گویا انگریزوں کی طرف سے اس امر کا اعلان تھا کہ وہ اس ملک میں محض تجارت پر قناعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ؛ بلکہ اس ملک کی سیاسی تقدیر بھی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں ۔
انگریزوں سے دوسرا بڑا معرکہ ۱۷۶۴ء میں بکسر کے میدان میں میر قاسم کے ساتھ ہوا اور اس میں بھی میر قاسم کو شکست ہوئی ، ادھر جنوب میں فرما نروائے میسور سے انگریزوں کی تین جنگیں ہو چکی تھیں ، جن میں دوبار انگریز شکست کھا چکے تھے ، ۱۷۹۹ء میں آخری معرکۂ میسور ہوا اور بعض مسلم والیانِ مملکت کی غداری و جفاکاری کے باعث یہ معرکہ بھی ہندوستانیوں کے خلاف رہا ، اسی معرکۂ میسور نے ۱۸۰۶ءمیں اس تحریک کی صورت اختیار کی جو ’’ غدر ویلور ‘‘ کہلاتا ہے ، اورجس کو بعض مؤرخین نے ۱۸۵۷ء کی تحریک حریت کا ریہرسل قرار دیا ہے ، بقول جنرل برگس :
’’ جنوب میں ہمارے اقتدار کو مٹانے کے لئے غیر مطمئن مسلمانوں کی طرف سے یہ پہلی کوشش تھی ، اسی طرح آپ کو تاریخ میں یہ واقعہ بھی ملے گا کہ 1857ء کے واقعہ میں سرنگا پٹنم کے مسلمانوں نے سلطان ٹیپو شہید کی قبر پر جا کر مجاہدین کی فتح کے لئے دعاء کی تھی ‘‘ ( مقالہ : کے ، ایم اشرف ، انقلاب ۱۸۵۷ء)
جہاں مرشد آباد اور بکسر کی شکست نے بنگال سے نواحِ دہلی تک انگریزوں کو غلبہ عطا کردیا ، وہیں میسور کی فتح نے جنوب میں انگریزوں کے لئے مزاحمت ختم کردی اور حقیقت یہ ہے کہ خود دہلی میں بھی مغلیہ حکومت کی شمع سحری ۱۶؍ ستمبر ۱۸۰۳ء ہی کو بجھ گئی تھی ، جس دن شہنشاہ عالم نے برطانیہ کی سرپرستی قبول کرلی تھی ۔
ہندوستانی کسانوں پر ٹیکسوں کاناواجبی بوجھ ، مقامی صنعتوں کی تباہی و بربادی اور ملک کے اصل باشندوں کے ساتھ تذلیل وتحقیر کے سلوک نے محبان وطن کو بے چین و بے قرار کردیا اور یہ بے قراری آخر ۱۸۵۷ء کی تحریک کی صورت آتش فشاں بن کر پھوٹ پڑی ، یہ وہ نشہ تھا جس نے ہندو اور مسلمان ، برہمن اور شودر ، زمیندار اور جاگیر دار اور زارع و کاشتکار سبھوں کو ایک صف میں لاکھڑا کیا ، غور کیا جائے اور بہ نظر انصاف دیکھا جائے تو آزادی کے لیے ان تمام اہم معرکوں میں مسلمان پیش پیش تھے اور انہوں نے دشمنان وطن کو خون جگر کے جام بھر بھر کر دیئے کہ ان کی تشنہ کامی دور ہو اور وطن عزیز کی عزت و آبرو سلامت رہ جائے ۔
انگریزوں نے ہندوستان میں جو علاقے چھینے تھے ، ان میں مراٹھوں ، راجپوتانہ اور پنجاب کاعلاقہ چھوڑ کر قریب قریب سبھی مسلمانوں ہی کے زیر اقتدار تھے ؛ اس لئے مسلمان ہی ان کا زیادہ نشانہ تھے اور فطری طور پر مسلمان ہی ان سے نبرد آزما بھی تھے ، سرولیم میور نے جو انٹلی جنس ریکارڈ جمع کیا ہے ، اس کے مطابق ’’ بد ذات مسلمانوں کو عبرت دلانے کے لئے ، جھجر،بلب گڑھ ، فرخ نگر کے نوابوں اور 24 شہزادوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا‘‘ ( سر ولیم میور : انڈین ملٹری انٹلیجنس ریکارڈ ۱ ؍ ۲۷۳ ، ۱۹۰۲ء ) ، مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں یا تباہ کردی گئیں اور مسلمانوں سے ان کی غیر منقولہ جائداد کا 35%بہ طور تعزیری جرمانہ وصول کیا گیا ، جب کہ ہندوؤں کو 10%فیصد کے ساتھ چھوڑ دیا گیا ، اور جب دوبارہ دہلی فتح ہوا تو ہندوؤں کو تو چند ہی ماہ میں واپسی کی اجازت مل گئی ؛ لیکن مسلمان ۱۸۵۹ء سے پہلے نہ لوٹ سکے ، ریکس کا بیان ہے : ’’ مسلمان باغی کا مترادف کلمہ تھا ‘‘ ۔( انقلاب ۱۸۵۷ء )
۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بارے میں پنجاب کی انگریزی سرکار نے شروع ہی سے اعلان کردیاتھا کہ بغاوت کا آغاز در اصل ہندوستانیوں اور مسلمانوں کی طرف سے ہوا ، مسلمانوں کو بہ قول کیو براؤن بغاوت کا محرک سمجھا جاتا تھا اور ہندوؤں کو ان کا آلۂ کار ، سندربن کے انگریز کمشنر نے باضابطہ گورنمنٹ گزٹ میں اعلان کیا کہ جو ملازمتین خالی ہوتی ہیں ، ان پر سوائے ہندوؤں کے کسی کا تقرر نہ کیا جائے ؛ ( انقلاب ۱۸۵۷، ص : ۳۵ ) اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا سب سے نمایاں حصہ رہا ہے اور انہوں نے اس میں پیش قدمی بھی کی ہے ، اور چونکہ ہر دور میں مسلمان ہر نئے قدم کے لیے علماء کی طرف دیکھتے رہے ہیں اور ان کے اشارۂ انگشت میں اپنے لیے دین و دنیا کی بھلائی تصور کی ہے ، اس لیے ان کی ہر تحریک کا رشتہ علماء ہی سے جاکر جڑتا ہے ۔
۱۸۰۶ء میں حالانکہ دہلی میں علامتی طور پر مغلیہ بادشاہت کا ایک بے جان ڈھانچہ موجود تھا ، پھر بھی شاہ عبد العزیز صاحبؒ نے ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیا تھا ، یہ گویا بالواسطہ انگریزوں کے خلاف جنگ کی ترغیب ہی تھی ، شاہ عبد العزیز صاحبؒ اپنی ذات سے ایک انجمن اور دلی میں طالبان علوم اسلامی کا مرجع و ماویٰ تھے ، شاہ محمد اسحاق آپ کے خلف ارشد تھے ، شاہ محمد اسحاق ؒنے ۱۸۴۴ء میں مکہ مکرمہ ہجرت کی ، آپ کے ہجرت کرنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے آپ کی تمام املاک ضبط کرلیں ، اس ضبطیٔ جائداد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی کوئی اندرونی تحریک علماء کی انگریزوں کے خلاف چل رہی تھی اور خفیہ طور پر اپنا کام کررہی تھی ۔
شاہ عبد العزیز ہی نے سید احمد شہید کو نواب امیر علی خاں کی فوج میں عسکری تربیت کے لیے ۱۸۱۰ء میں روانہ کیا تھا ، جب نواب نے انگریزوں سے معاہدہ کرلیا تو سید صاحب واپس آگئے ، پھر سید احمد شہید کی تحریک شروع ہوئی ، یہ تحریک بظاہر رنجیت سنگھ والیٔ پنجاب کے ظلم و بربریت کے خلاف نظر آتی ہے ؛ لیکن در حقیقت یہ سید صاحب کا پہلا ہدف تھا ، اصل ہدف انگریز ہی تھے اور غالباً سید صاحب کا خیال تھا کہ رنجیت سنگھ کو شکست دینے کے بعد سرحد کا علاقہ وہ موزوں تر علاقہ ہو سکتا ہے ، جہاں سے انگریزوں پر وار کرنا مناسب ہوگا ، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جب سید صاحب نے سرحد کی طرف اپنے جاں نثاروں کے ساتھ کوچ کیا ، تو گوالیار بھی تشریف لے گئے ، جہاں مہاراجہ گوالیار نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا اور اعزاز و اکرام کے ساتھ واپس کیا ، آپ نے سرحد سے مہاراجہ گوالیار اور اس کے معتمد خاص غلام حیدر کو خط لکھا اور اس میں انگریزوں کی مخالفت کی ترغیب دی ، آپ کے خط کا پہلا فقرہ ہی اس طرح ہے :
بیگا نگان بعید الوطن ملاک زمین و زماں
گردیدہ و تاجران متاع فروش بہ پایۂ سلطنت
( نقوش حیات : ۲ ؍ ۱۳ ، علماء ہند کا شاندار ماضی : ص : ۱۷۴ )
آپ نے اپنے خط میں یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ جب ملک بیگانے دشمنوں سے خالی ہو جائے گا تو سیادت و ریاست ارباب حکومت کو مبارک ہو ، مجھے اس سے کوئی غرض نہ ہوگی ، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب کے ذہن میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا تصور موجود تھا ، گو آپ رنجیت سنگھ سے نمٹنے کو اس وقت زیادہ بڑی ضرورت تصور کرتے تھے ؛ اس لیے معرکۂ بالاکوٹ کے بعد ہمیں کلکتہ سے دہلی تک ہر جگہ انگریزوں کے خلاف علم بغاوت سید صاحب کے خلفاء و متوسلین کے ہاتھوں میں نظر آتا ہے ، خود دکن میں ۱۸۳۸ء میں اسی حلقہ کے مولانا ولایت علی اور مولانا سلیم تشریف لائے اور نظام دکن کے بھائی مبارز الدولہ نے ایک طاقتور خفیہ تنظیم قائم کی ، جو تختۂ حکومت پلٹنا چاہتی تھی ، بالآخر ۱۸۳۹ء میں مبارز الدولہ کی اس تحریک کا برطانوی ریذیڈنٹ نے پتہ چلایا ، قلعۂ گولکنڈہ میں قید کئے گئے اور ۱۸۵۱ء میں راہی بہ بقاء ہوئے ۔ ( انقلاب 1857، ۱ ؍ ۱۰۸ )
۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی میں جب جانبازانِ حریت میرٹھ سے دہلی آئے اور ۱۱ / جون ۱۸۵۷ء کو علماء سے اس جنگ کی بابت استفسار کیا تو جن علماء نے فتویٔ جہاد پر دستخط کیا ، ان میں اکثر وہی علماء تھے ، جو شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے حلقہ سے تعلق رکھتے تھے ، اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷ء سے پہلے ہی سے علماء انگریزوں کے خلاف مہم جوئی اور منصوبہ بندی میں مصروف تھے ، ہندوستان کی آزادی کی باضابطہ لڑائی مئی ۱۸۵۷ء میں شروع ہوتی ہے ، جب انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کی پہلی مہم ناکامی سے دوچار ہوئی ہے ، اس ناکامی کے بعد ایک ایسی قیامت آئی کہ پوری جنگ آزادی میں اس کی مثال نہیں ملتی ، مغرب کے علمبرداران تہذیب اور مصلحین درس انسانیت نے دہلی میں برسر راہ جگہ جگہ پھانسی کے پھندے نصب کردئیے ،جو شبانہ روز ہندوستانیوں کے سر سے آراستہ کئے جاتے ، میرٹھ سے دہلی تک سینکڑوں درخت تھے ، جو تختۂ دار کا کام کرتے تھے ، معززین و رؤسا کو توپ کے دہانے پر باندھ دیا جاتا ، توپ داغی جاتی اور کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح گوشت کی بوٹیاں بکھر جاتیں ، ان شہداء میںعلماء سینکڑوں کی تعداد میں تھے ، جن میں بہتوں کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں اور ان سے زیادہ وہ ہیں ، جو تاریخ کے دفینوں میں ہیں ۔
جب یہ آتش انتقام کچھ ٹھنڈی ہوئی اورہندوستانیوں کو سانس لینے کا موقع ملا تو پھر جذبہ آزادی نے انگڑائی لی ، اس وقت ملک کے طول و عرض میں ایک سناٹا اور سکوت تھا ، صرف سید احمد شہید کی جماعت کے بچے کچھے لوگ تھے ، جن کے سینے اب بھی جذبۂ جہاد سے معمور تھے ، یہ حضرات زیادہ تر ’ پٹنہ ‘کے محلہ ’ صادق پور ‘ سے تعلق رکھتے تھے اور سرحد کی طرف انگریزوں اور ان کے وفاداروں سے نبردآزما تھے ، مولانا ولایت علی صادق پوری نے ہزارہ میں ایک آزاد مملکت کی بنیادرکھ دی تھی ، مولانا ولایت علی ، مولانا عنایت علی اور مولانا محمد جعفر تھانیسری و غیرہ اس مہم میں پیش پیش تھے ، چنانچہ انگریزوں کے خلاف ’’ انبالہ سازش کیس ۱۸۶۳ء‘‘میں مولانا یحيٰ علی عظیم آبادی اور مولانا محمد جعفر تھانیسری کے لیے سزائے موت اورمولانا عبد الرحیم عظیم آبادی کے لیے ’’حبس دوام بہ عبور دریائے شور ‘‘کا فیصلہ ہوا اور ان سبھوں کی جائداد بھی ضبط ہوگئی ، بعد کو مولانا محمد یحيٰ اورمولانا محمد جعفر کی سزا بھی’’ حبس دوام ‘‘سے تبدیل ہوگئی ، اس کے بعد اس تحریک کی باگ ڈور مولانا احمد اللہ عظیم آبادی نے اپنے ہاتھوں میں لی ، ان پر بھی مقدمہ چلایا گیا اور فروری ۱۸۶۵ء میں ان کے لیے ’’پھانسی مع ضبطیٔ جائداد ‘‘کا فیصلہ ہوا ، مگر بعد کو ان کی سزائے موت بھی عمر قید میں تبدیل ہوگئی اور جون ۱۸۶۵ء کو کالا پانی بھیج دیئے گئے ، مولانا ولایت علی کے ایک خلیفہ مولانا عبدالرحیم لکھنوی نے مالدہ ضلع کے ایک گاؤں میں جہاد کی ترغیب کا ایک مرکز قائم کیا ، وہ یہاں سے سرحد اور پٹنہ کو امداد بھی بھیجا کرتے تھے ، وہ بھی گرفتار کرلئے گئے ، اس کے بعد ان کے صاحبزادہ مولانا امیر الدین نے یہ ذمہ داری سنبھالی ، ان کے خلاف بھی ’’حبس دوام مع ضبطیٔ جائداد ‘‘کا فیصلہ ہوا اور مارچ ۱۸۷۲ء میں وہ کالا پانی بھیج دئیے گئے ۔
عظیم آباد ہی میں دوسرا مقدمۂ بغاوت ۱۸۷۱ء میں قائم ہوا ، اس مقدمہ کے ملزمین میں مولانا مبارک علی اور مولانا تبارک علی تھے ، مولانا تبارک علی پر انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے اور ایک کمان کی سالاری کا الزام تھا ، دونوں کے خلاف حبس دوام مع ضبطیٔ جائداد کا فیصلہ ہوا ، مولانا مبارک علی کا تو پہلے ہی انتقال ہوگیا اور مولانا تبارک علی کالا پانی بھیج دیئے گئے —- اسی دور کے مجاہدین آزادی میں مفتی عنایت احمد کاکورویؒ اور مفتی صدر الدینؒ آزر دہ تھے ، جو بڑے پایہ کے علماء میں تھے ، عربی گرامر پر مشہور کتاب ’’ علم الصیغہ ‘‘مولانا نے جزیرۂ انڈمان میں اسارت کے دوران ہی تالیف فرمائی تھی ، معروف محدث مولانا رشید احمد گنگوہیؒ بھی چھ ماہ جیل میں رہے ، مولانا فضل حق خیر آبادیؒ جو اپنے وقت کے امام المعقولات تھے ، فتوی جہاد کے جرم میں ۱۸۵۹ء میں گرفتار کئے گئے ، مقدمہ چلا ،جج آپ کے علمی مقام سے واقف تھا اورچاہتا تھا کہ آپ اس فتویٰ سے انکار کرجائیں ؛ لیکن مولانا اس کے لیے آمادہ نہیں ہوئے ، آخر سزا ہوئی اور کالا پانی بھیجے گئے ، ان سے غلاظتوں کے اٹھانے کا کام لیا جاتا ، وہیں پیوند خاک ہوئے ، نواب مصطفی خاں شیفتہؒ کی شہرت ایک شاعر کی حیثیت سے ہے ،مگر اصل میں وہ بلند پایہ عالم بھی تھے ، اور شیخ عبد اللہ سراج حنفی مکیؒ اورشیخ محمد عابد سندھیؒ جیسے اہل علم سے شرف تلمذ رکھتے تھے ، یہ بھی سات سال قید فرنگ میں رہے ، اسی خونچکاں دور میں دہلی سے مسلمانوں کی ایک جمعیت جمنا پار لے جائی گئی اور انہیں لائن میں کھڑا کر کے گولی سے اڑا دیاگیا ، ان شہداء حریت میں مولانا فضل حق خیر آبادیؒ کے رفیق مولانا امام بخش صہبائیؒ بھی تھے ۔
مولانا رضی اللہ بدایونیؒ عربی و فارسی کے بڑے ماہر شمار کئے جاتے تھے ، گرفتار ہوئے اور خود عدالت میں اپنے جرم کا اقرار کیا ، انگریز کلکٹر خود بھی چاہتا تھا کہ مولوی صاحب جرم سے انکار کردیں ، مگر فرمانے لگے کہ میں تمہاری وجہ سے ایمان اور آخرت خراب کرلوں ؟ اس کے بعد گولی سے اڑا دئیے گئے ، اسی دور میں مولانا محمد حسین ( رائے بریلی )، مولانا ریاض الحق ( بنگال ) ، مولوی علاء الدین ( حیدرآباد ) اور مولوی علاء الدین ( پٹنہ ) بھی نذر زنداں ہوئے ، آخر الذکر نے تختۂ دار کو زینت بخشی اور باقی نے کالے پانی ہی میں جان جاں آفریں کے سپرد کردی ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے شاملی میں انگریزی فوج پر حملہ کیا اور وارنٹ کے باوجود گرفتار نہ ہو سکے ، شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ پر بھی وارنٹ تھا ؛لیکن مکہ ہجرت کر گئے ، یہی حال مشہور عالم مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کا ہوا۔ (جاری)

Comments are closed.