Baseerat Online News Portal

مسلمانوں میں قادیانی گروہ کی شمولیت کا حقیقت پسندانہ جائزہ

 

از: محمد انصاراللہ قاسمی
آرگنائزر مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھرا
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد۔

مضمون کے آغاز میں اس سوال کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا ضروری ہے کہ کسی مذہبی برادری / کمیونٹی میں شمولیت یا اس سے وابستگی کے لئے کیا چیز ضروری ہوتی ہے ؟ مذاہب کی تاریخ تو یہ رہی ہے کہ دنیا میں جب کبھی نیا مذہبی نظریہ پیش ہوا اور جن لوگوں نےاس نظریہ کو قبول کیا ،وہ ایک مستقل مذہبی برادری کہلائے سابقہ مذہبی عقیدہ اور نظریہ پر اگرچہ ان کے وہم وگمان کے مطابق ان کا ایمان اور یقین رہتا لیکن اس کے باوجود سابقہ مذہبی برادری سے ان کی وابستگی ختم ہوجاتی ہے، کیوں کہ دنیامیں جتنے نبی اور پیغمبر آئے ہیں، انہوں نے خود اپنے ماننے والوں کا ایک امت / ملت / مذہبی برادری کی حیثیت سے تعارف کروایا ہے، اب ایسا نہیں ہوگا کہ نبی کو ماننے والے اور انکار کرنے والے ہم مذہب کہلائیں اور ان کی حیثیت ایک مذہبی برادری کی ہو۔
بہرحال دعویٔ نبوت اور علاحدہ امت دونوںباتوں میں خاص رشتہ اور تعلق ہے ، اس سلسلہ میں حضرت رسول کریمﷺ کے ارشادات سے رہنمائی ملتی ہے ،آپﷺ نے احادیث میں اپنے آخری نبی ہونے کے اعلان کو امت سے جوڑدیاآپﷺ نے فرمایا: انا آخر الانبیاء وانتم آخر الامم (سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر:4077)میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو ،ایک جگہ فرمایا : لانبی بعدی ولاامۃ بعدکم (المعجم الکبیر للطبرانی ،حدیث نمبر:7535)میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ،مطلب یہ کہ نبوت ِمحمدی کا زمانہ قیامت کے قائم ہونے تک ہے، تاقیامت جتنے لوگ پیدا ہوں گے اور نبوت محمدی کی گواہی دیں گے وہ امت محمدیہ ہی میں شامل ہوںگے ،معلوم ہوا کہ نبوت محمدی کا زمانہ اور امت محمدیہ کا سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری اور باقی رہنے والا ہے ، اب کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ نبوت کا دعوی کرے اور امت محمدیہ میں سےاپنی نئی امت تشکیل دے، اگر کوئی بدبخت یہ دعوی کرے تو وہ جھوٹا اور دجال ہوگا اور جو بدنصیب اس کے دعوی کو قبول کریں گے وہ اسی کی امت کہلائیں ،امت محمدیہ سے خارج ہوجائیں گے جیسا کہ ایک اور جگہ نبی ﷺ نے فرمایا:انکم حظی من الامم وأنا خطکم من النبیین (مسند احمد ،حدیث نمبر:15864)امتوں میں تم میرا حصہ (امت)ہو اور نبیوں میں میں تمہارا حصہ (نبی )ہوں۔اس کے برخلاف مرزاغلام قادیانی اپنے دعوی نبوت کی وجہ سے قادیانی فرقہ کا حصہ یعنی نبی ہے اور قادیانی اُس کو نبی ماننے کی بناءاُس کی امت ہیں ۔
آپﷺ کے ان ارشادات کی روسے واضح ہواکہ نبوت کا دعوی محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ اس کی بنیاد پر مستقل ایک نئی امت کی تشکیل ہوتی ہے اور مدعی نبوت کو ماننے والے اُس کی الگ امت کہلائے ہیں گویا دعوی نبوت اور الگ امت ہونا دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہے،دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
اس بات کو خود قادیانی فرقہ کےبانی اور پیشوا مرزاغلام قادیانی نے بھی تسلیم کیا ہے ،یہ شخص مدعی نبوت کی حیثیت سے اپنے پیروکاروں کو ایک الگ امت قراردیتا ہے ،ایک جگہ مرزاقادیانی کہتا ہے:
’’جوشخص نبوت کا دعوی کرے گا اس دعوی میں ضرورہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرارا کرے اورنیز یہ بھی کہے خداتعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی نازل ہوئی ہے اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام بھی سنادے جو اس پر خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک امت بنادے جو اس کو نبی سمجھتی ہو اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہو ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام /روحانی خزائن ،ج:۵،ص:۳۴۴)
ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے’’ صاحب شریعت نبی‘‘ کی وضاحت کی کہ وہ اپنی امت کے لئے نیا قانون مقررکرتا ہے اور پھر اپنے لئے ’’صاحب شریعت نبی‘‘ہونے کا دعوی یوں کیا ہے:
’’یہ بھی توسمجھو شریعت کیا چیز ہے، جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امرونہی بیان کیے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا……..میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی……..‘‘
(اربعین /روحانی خزائن ج:۱۷ص:۴۳۵۔۴۳۶)
اس کے علاوہ مرزاغلام قادیانی نے اپنے ماننے والوںاور انکار کرنے والوں کو صاف لفظوں میں امت کہہ کر ان کے دوحصے کیئے ہیں ،یہ شخص کہتا ہے :
’’پہلا مسیح صرف مسیح تھا ،اس لئے اس کی امت گمراہ ہوگئی اور موسوی سلسلہ کا خاتمہ ہوا اگر میں بھی مسیح ہوتا تو ایسا ہی ہوتا لیکن میں مہدی اور محمد(ﷺ)کا بروز بھی ہوں ،اس لئے میری امت کے دوحصے ہوں گے ایک وہ جومسیحیت کا رنگ اختیار کریں گے اور یہ تباہ ہوجائیں گے ،دوسرے وہ جو مہدویت کا رنگ اختیار کریں گے یہ قیامت تک رہیں گے ‘‘
(قادیانی ’’اخبار روزنامہ الفضل قادیان‘‘مؤرخہ ۲۶/جنوری/۱۹۱۶)
ان تحریروں کی روشنی میں دواوردوچار کی طرح یہ بات واضح ہے کہ قادیانی فرقہ مرزا غلام قادیانی کو نبی ماننے کی وجہ سے وہ اپنے جھوٹے نبی کی ایک الگ اور مستقل امت ہے ، اس فرقہ کی شناخت ’’امت مرزائیہ ‘‘ یا’’ملت قادیانیہ‘‘ سے توہوسکتی ہے لیکن اس فرقہ کے پیروکار ’’امت مسلمہ ‘‘یا’’ملت اسلامیہ‘‘ میں شامل اور شمار نہیں ہوںگے، اس لئے کہ یہ لوگ عقیدہ ختم نبوت کے منکر ہیں جو کسی بھی فرد یا گروہ کی ملت اسلامیہ میں شمولیت کی بنیاد اور اُس کا واضح معیار ہے ۔

نبی کو ماننے کالازمی نتیجہ اور اثر:
تاریخ مذاہب کی یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں جب کسی نے بھی نبوت وپیغمبری کا دعوی کیا اُس کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ انسان دوگروہوں میں بٹ گئے ،ایک اُس شخص کے دعوی نبوت کو قبول کرنے والا ار دووسرا طبقہ اُس کے دعوی نبوت کا انکار کرنے والا ،ظاہر سی بات ہے اب ان دونوں گروہوں کی مذہبی حیثیت ایک نہیں ہوسکتی اور نہ انھیں ایک پلڑے میں رکھا جاسکتا ہے وہ ایک ملک اور علاقہ کے توہوسکتے ہیں ،لسانی اور خاندانی حیثیت سے وہ ایک ہوسکتے ہیں ،لیکن اپنے مذہبی عقائد ونظریات کے اعتبار سے اُن کی حیثیت بالکل جداگانہ ہوگی جیسے ہندوستان کے تمام باشندگان علاقائی حیثیت سے توسب ہندوستانی ہیں لیکن اپنے مذہبی خیالات اور نظریات کی وجہ سے کوئی ہندو/مسلمان/سکھ/ اور عیسائی ہے ۔
قادیانی فرقہ اپنے بانی اور پیشوا مرزاغلام قادیانی کے دعوی نبوت کو پوری شدت اور اصرار کے ساتھ تسلیم توکرتا ہے لیکن اس دعوی نبوت کے منطقی اور لازمی نتیجہ کو وہ قبول نہیں کرتا گویایہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدمی زہر کھالے اور پھر اُس کی موت ہوجائے ،اب کوئی ’’عقل مند‘‘اس آدمی کے زہر کھانے کو توتسلیم کرتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں اس کی موت کے واقعہ نہیں مانتا ،اس طرح قادیانی فرقہ اپنے بانی وپیشوا کے دعوی نبوت کے نتیجہ یعنی اپنی جداگانہ حیثیت کو قبول نہیں کرتا ،جب کہ حقیقت اور سچائی یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف اپنے دعوی نبوت کے منطقی نتیجہ کو قبول کیا ہے بلکہ اس نتیجہ سے اس کے پیروکاروں کے عقائد واعمال میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کو بہر صورت باقی رکھنے پر زور دیا ہے ،چنانچہ ایک جگہ مرزاقادیانی نے دعوی نبوت کے لازمی نتیجہ کو یوں بیان کیا ہے:
’’ہر نبی اور مامور کے وقت دوفرقے ہوتے ہیں ایک وہ جس کا نام سعید رکھا ہے اور دوسرا وہ جو شقی کہلا تا ہے‘‘(ملفوظات احمدیہ :ج:۱،ص:۱۴۳) ایک اور جگہ مرزاقادیانی کا دست راست محمد علی لاہوری نے لکھا ہے :
’’احمدیت (قادیانیت)کی تحریک اسلام کے ساتھ وہی نسبت رکھتی ہے جوعیسائیت کو یہودیت کے ساتھ تھی ‘‘ (مباحثہ راولپنڈی ص:۲۴۰) غور کیا جائے جب عیسائی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھنے کی نسبت سے یہودی نہیں کہلائے اور نہ یہودی وعیسائی ہم مذہب سمجھے گئے توپھر قادیانی نبوت محمدی پر اپنے دعوی ایمان کی نسبت سے کیسے مسلمان ہوسکتے ہیں اور کیوں کر مسلمانوں اور قادیانیوں کو ہم مذہب ماناجاسکتا ہے؟؟
دوسرے یہ کہ دعوت نبوت وماموریت کے اقرار اور انکار کی بنیاد پر سعید اور شقی جب دوگروہ ہوں گے تویہ دونوں گروہ کبھی ایک نہیں ہوسکتے اور نہ انھیں ایک دوسرے میں ضم کیا جاسکتا ہے ،مذاہب کی تاریخ میں دوحریف حیثیت سے ہمیشہ ان کی شناخت رہی،اس سلسلہ میں ۱۹۷۴ء میں قادیانی فرقہ کو غیرمسلم اقلیت قراردینے کی قانون سازی کے موقع پر پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کردہ دستاویز بہ نام ’’قادیانی فتنہ اور ملت ِاسلامیہ کا موقف‘‘سے ایک اقتباس نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جو دعوی نبوت کو واضح کرنے میں بہت ہی دوٹوک اور چشم کشا ہے، یہ دستاویز جسٹس مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب اور مولانا سمیع الحق ؒ نے مرتب کی ہے ، اس میں بتایا گیا :
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری سے پہلے سارے بنی اسرائیل ہم مذہب تھے لیکن جب حضرت عیسیؑ تشریف لائے تو فوراً دوبڑے بڑے حریف مذہب پیدا ہوگئے ایک آپ کے ماننے والوں کا جوبعد میں عیسائیت یامسیحیت کہلایا اور دوسرا مذہب آپ کی تکذیب کرنے والوں کا تھا جو یہودی مذہب کہلایا ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے متبعین اگرچہ پچھلے تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھتے تھے لیکن یہودیوں نے کبھی ان کو اپنا ہم مذہب نہیں سمجھا اور نہ عیسائیوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ انھیں یہودیوں میں شامل سمجھا جائے، اسی طرح جب سرکار ِدوعالم ﷺ تشریف لائے توآپﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمیت پچھلے تمام انبیاء علیہم السلام کی تصدیق کی اور تورات، زبور، انجیل تینوں پر ایمان لائے اس کے باوجود نہ عیسائیوں نے آپﷺ اور آپﷺ کے متبعین کو اپنا ہم مذہب سمجھا اور نہ کبھی مسلمانوں نے یہ کوشش کی انھیں عیسائی کہا اور سمجھاجائے،پھر آپﷺ کے بعد جب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کے متبعین مسلمانوں کے حریف کی حیثیت سے مقابلہ پر آئے اور مسلمانوں نے بھی انھیں امت ِاسلامیہ بالکل الگ ایک مستقل (دعوی نبوت)کا حامل قراردے کر ان کے خلاف جہاد کیا حالانکہ مسیلمہ کذاب آپﷺ کی نبوت کا منکر نہیں تھا بلکہ اس کے یہاں جو اذان دی جاتی تھی اس میں ’’اشھد ان محمد رسول اللہ ‘‘کا کلمہ شامل تھا ……
مذاہب عالم کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی مدعی نبوت کو ماننے والے اور اس کی تکذیب کرنے والے کبھی ایک مذہب کے سائے میں جمع نہیں ہوئے لہٰذا مرزا غلام احمدقادیانی کے دعوی نبوت کا یہ سوفیصد منطقی نتیجہ ہے کہ جو فریق ان کو سچا اور مامور من اللہ سمجھتا ہے وہ ان لوگوں کے مذہب میں شامل نہیں رہ سکتا جوان کے دعووں کی تکذیب کرتا ہے ان دونوں فریقوں کو ایک دین کے پرچم تلے جمع کرنا صرف قرآن وسنت اوراجماع امت ہی سے نہیں بلکہ مذہب کی پوری تاریخ سے بغاوت کے مترادف ہے ۔‘‘(فتنہ قادیانیت اورملت اسلامیہ موقف،ص:۳۶تا ۳۸)

خود قادیانی فرقہ کے نزدیک مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت!!
بہرحال دعوی نبوت کے اس لازمی اورمنطقی نتیجہ کے اثرات ہی ہیں کہ مرزاغلام قادیانی اورپھر اس کے بعد اس کے جانشینوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے سے الگ کرتے ہوئے انھیں کافر جہنمی اوردائرہ اسلام سے خارج قراردے دیا، ایک جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے :
’’جوشخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اوررسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے‘‘ (تذکرہ،ص:۳۳۶طبع سوم)
ایک اورجگہ مرزاغلام قادیانی کے پیروکارو ں کو دوسرے عام مسلمانوں سے الگ تھلگ رکھنے کی وضاحت یوں کی گئی:
’’کیا مسیح ناصری (حضرت عیسیٰ علیہ السلام )نے اپنے پیروؤں کو یہود بے بہبودسے الگ نہیں کیا،کیا وہ انبیاء جن کی سوانح کا علم ہم تک پہونچا ہے اور ہمیں اُن کے ساتھ جماعتیں بھی نظر آتی ہیں ، انھوں نے اپنی جماعتوں کو غیروں سے الگ نہیں کردیا،ہر ایک شخص کو ماننا پڑے گا بے شک کیا ہے ،پس اگر حضرت مرزاصاحب بھی جو کہ نبی اوررسول ہیں اپنی جماعت کو منہاج نبوت کے مطابق غیروں سے الگ کردیاتونئی اور اورانوکھی بات کو نسی کی ‘‘
(قادیانی اخبارروزنامہ الفضل قادیان۲۶/فبروی /۲/مارچ۱۹۱۸)
ایک جگہ قادیانی فرقہ کے خودساحتہ اور نام نہاد خلیفہ …….جس کو قادیانی ’’مصلح موعود‘‘بھی مانتے ہیں……مرزابشیر الدین محمود نے بہت صاف لفظوں میں گذشتہ انبیاء کرام کی مثال دیتے ہوئے مرزاقادیانی کے دعوی نبوت کا اقرار وانکار کے اثر کو یوں بیان کیا ہے:
’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تومانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمدکو نہیںمانتا اوریا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزاقادیانی)کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اوردائرہ اسلام سے خارج ہے ‘‘ (کلمۃ الفصل ،ص:۱۱۰)
ان حوالوں سے مرزاقادیانی کےدعوی نبوت کو قبول کرنے اور اس کومسترد کرنے والوں کی جداگانہ اعتقادی حیثیت واضح ہوتی ہے یعنی ایک کافر ہے تودوسرا مسلمان، ایک جنتی ہے تودوسراجہنمی ،ایک دائرہ اسلام میں داخل ہے تودوسرا دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
پھر یہ کہ مرزاقادیانی کو نبی وپیغمبر ماننے والوں کے صرف عقائد متاثر نہیں ہوئے بل کہ ان کی سماجی ومعاشرتی زندگی بھی اس کے زیر اثر آگئی، چنانچہ قادیانی فرقہ کے افراد اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو :
۱) نہ سلام کرسکتے ہیں۔ ۲) نہ ان کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ۳) نہ ان سے شادی بیاہ کرسکتے ہیں۔
۴) نہ ان کی نماز ِجنازہ پڑھ سکتے ہیں۔ ۵) بیمار ہونے پر نہ ان کی عیادت ومزاج پرسی کرسکتے ہیں۔
۶) نہ ان کے مرحومین کے لئے دعاء مغفرت کرسکتے ہیں۔ ۷) نہ ان کے مرحومین کو اپنے قبرستان میں دفن کرسکتے ہیں۔
تفصیل دیکھئے !قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ ،دسویں فصل بعنوان :قادیانی صاحبان اور مسلمان ، دین وملت ،ص:۴۰۲،مؤلفہ پروفیسر الیاس برنیؒ
البتہ سماجی اعتبار سے مسلمانوں اور قادیانیوں کی جداگانہ حیثیت کو مرزابشیر الدین محمود قادیانی نے فیصلہ کن انداز میں یوں بیان کیا ہے:
’’غیراحمدیوں(مسلمانوں)سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں،ان کو لڑکیاں دینا حرام قراردیا گیا ، ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا ،اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں ، دوقسم کے تعلقات ہوتے ہیں ، ایک دینی دوسرے دنیوی ،دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکھٹا ہونا ہے اور دنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ وناطہ ہے ، سویہ دونوں ہمارے لئے حرام قراردئیے گئے ……..‘‘ (کلمۃ الفصل ص:۱۲۹،۱۷۰)
ایک جگہ خودمرزاقادیانی نے عام مسلمانوں اور اپنے پیروکاروں کی جداگانہ حیثیت کو واضح کرتے ہوئے دونوں کے درمیان میل جول کوتازہ دودھ اور سڑھے ہوئے دودھ سے تشبیہ دی ،یہ شخص کہتا ہے :
’’یہ جوہم نے دوسرے مدعیان اسلام سے قطع تعلق کیا ہے اول تویہ خدا خداتعالی کے حکم سے تھانہ کہ اپنی طرف سے اور دوسرے وہ لوگ ریاپرستی اور طرح طرح کی خرابیوں میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور ان لوگوں کو ان کی ایسی حالت کے ساتھ اپنی جماعت کے ساتھ ملانا یا ان سے تعلق رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ عمدہ اور تازہ دودھ میں بگڑا ہوا دودھ ڈال دیں جوسڑگیا ہے اور اس میں کیڑے پڑگئے ہیں ،اس وجہ سے ہماری جماعت کسی طرح ان سے تعلق نہیں رکھ سکتی اور نہ ہمیں ایسے تعلق کی حاجت ہے ‘‘(تشحیذ الاذھان ص:۳۱۱بحوالہ علمی محاسبہ ۴۳۱)
مرزاغلام قادیانی کے دعوی نبوت کی بنیاد پر قادیانی فرقہ نے مسلمانوں کےبالمقابل اپنی مذہبی وسماجی جداگانہ حیثیت کو صرف تقریروں اور تحریروں تک نہیں رکھا بلکہ اس کے عملی مظاہرے اورمثالیں بھی پیش کئے ،چنانچہ خودمرزاغلام قادیانی نے اپنے بیٹے فضل محمد کی نماز جنازہ نہیں پڑھی کیونکہ وہ اپنے باپ کی جھوٹی نبوت کو تسلیم نہیں کرتا تھا اور قادیانی فرقہ سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سرظفر اللہ خان نے بانی پاکستان محمد علی جناح کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی ،اس لئے کہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق اُنھیں مسلمان نہیں سمجھتا تھا، اس کے علاوہ دوموقعوں پر قادیانی فرقہ کے ذمہ داروں نے باضابطہ ایک الگ فرقہ کی حیثیت سے اپنی جداگانہ حیثیت کو قانونی طورسے قبول کرنے پر زور دیا ، چنانچہ ۴/نومبر/۱۹۰۰ء میں مردم شماری کے موقع پر مرزاغلام قادیانی نے برطانوی حکومت سے درخواست کی کہ :’’میرا اورمیری جماعت کا نام مردم شماری میںمسلمان فرقہ احمدیہ لکھا جائے ‘‘
(مجدداعظم حصہ دوم ص:۷۸۳مؤلفہ ڈاکٹربشارت احمد قادیانی لاہوری)

ایک اورجگہ قادیانی فرقہ کے دوسرے مرزا بشیر الدین محمود نے عیسائیوں اور پارسیوں کی طرح اپنے فرقہ کو بھی الگ اقلیت قراردینے کا مطالبہ کیا، اخبار الفضل قادیان کا بیان ہے :
’’میں نے اپنے نمائندے کی معرفت ایک بڑے ذمہ دارانگریز افسر کو کہلوابھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں ، جس پر اس افسر نے کہا کہ وہ تواقلیت ہیں اور تم ایک مذہبی فرقہ ہو ،اس پر میں نے کہا کہ پارسی اور عیسائی بھی مذہبی فرقہ ہیں ،جس طرح ان کے حقوق علاحدہ تسلیم کئے گئے ہیںاسی طرح ہمارے بھی کئے جائیں ،تم ایک پارسی کو پیش کرو اس کے مقابلہ میں میں دودواحمدی پیش کرتا جاؤںگا‘‘(اخبار الفضل قادیان ۱۳/نومبر/۱۹۴۶ء)
غرض یہ کہ ان حقائق کی روشنی میں یہ بات خوب واضح ہوگئی کہ قادیانیوں کے مسلمان نہ ہونے کا فتوی اور فیصلہ ظلم وزیادتی اورمذہبی تعصب وتنگ نظری کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ قادیانی فرقہ کی طرف سے دنیا بھر کی نام نہادحقوق انسانی کی تنظیموں کو باورکروایا جاتا ہے ،بلکہ یہ فتویٰ عقل وانصاف کا عین تقاضہ ہے اور اس سے خود قادیانی فرقہ کا منشا ومقصد بھی پورا ہوتا ہے ،ان سب کے باوجود اگر قادیانی اپنی اس جداگانہ حیثیت کو قانونی ودستوری طورپر تسلیم نہیں کرتے ہیں تو اس کی وجہ مذہب اور عقیدہ کے نام پر جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے اور پُرفریب مہم چلانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ، تاکہ اس کے ذریعہ سامراجی حکومتوں اورلادینی طاقتوں کے زیر سایہ مسلمانوں کے خلاف اپنے تخریبی مقاصد پورے کئے جاسکیں ۔

Comments are closed.