Baseerat Online News Portal

میرے آئیڈیل

 

 

مفتی احمد نادر القاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

”خیر شبابکم من تشبہ بکھولکم۔وشرکھولکم من تشبہ بشبابکم“۔(کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال۔رقم الحدیث۔431090 ۔مروی عن النبی ﷺ)(نوجونوں میں سب سے اچھانوجوان وہ ہے جو اپنے اسلاف کی سیرت وکردار کا حامل ہو اورعمررسیدہ لوگوں میں سب برا وہ ہے جو نوجوانوں جیسی طرز زندگی اختیار کٸے ہوٸے ہو)

حضرات وخواتین !

میرے آٸیڈیل میرے رسول ﷺاور اسلاف صالحین ہیں۔ ایک مسلمان ماں باپ کو چاہیے کہ بچپن سے اپنے بچوں کو لباس و پوشاک سے لیکر نششت برخواست، اکل وشرب، سلام کلام، گفت وشنید اورآداب زندگی، ہرچیزمیں نبی کاطورطریقہ اوراسلاف کی طرززندگی اپنانے کاعادی بناٸے۔اس لیے کہ یہی عمر بچوں کو اپنی پسند کے شیشے میں اتارنے اورأنے والی زندگی کےلٸے سنوارنے اورفکری تربیت کی ہوتی ہے۔ آج اسی کی کمی کی وجہ سے بچے ان لوگوں کی نقل وتقلید کرتے اورطرززندگی میں ان لوگوں کو اپنا آئیڈیل بنانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، جنھیں مغرب ومشرق کی اوباش دنیا نے آئیڈیل بناکر پیش کیاہے، چاہے کسی بھی میدان کاہو، جیسا لباس وہ پہنتے ہیں، ویساہی ہماری نٸی نسل پہننے کی عادی ہے، جیسا ہیٸر اسٹاٸل ان کے ہیں ویساہی بال رکھنے میں ہمارے بچے فخر محسوس کرتے ہیں. ہزاروں روپیے بے دردی سے اس پر خرچ کرتے ہیں۔ کبھی ہم نے ایک باپ کی حیثیت سے اس پر غور کرنے کی کوشش کی ؟ کبھی ہماری خواتین نے اپنی بچیوں کے بارے میں اس پہلوسے سوچنے اورفکر کرنے کی زحمت کی؟ جواب ہے، نہیں کی۔ یہی حال مغرب سے لیکر مشرق تک اورشمال سے جنوب تک ہے۔کیامسلم ممالک اورکیا غیرمسلم ممالک سب برابر نظر آٸے گا۔ وجہ یہی ہے کہ ہم بحیثیت مسلم قوم کے اپنے اسلاف سے ملے ہوٸے طرزحیات بھول گٸے، جگہ خالی ہوگٸی۔ مغرب نے دیکھا موقع اچھاہے اچک لو، ہم منہ تکتے اورہاتھ ملتے رہ گٸے، یازیادہ سے زیادہ زبانی باتیں کرتے رہے، عملی کوشش اورمحنت نہیں کی ورنہ اولاد کے بگڑنے اوراپنے ہی معاشرے میں حیاسوز مناظر دیکھنے پر افسوس نہ ہوتا۔ اب بھی تو وقت ہے، آنے والی نسل ہی سدھار لیں۔علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب”اقتضا ٕ الصراط المستقیم “ میں جوبات لکھی ہے وہ عہدحاضر میں اسلامی شخصیت سازی کے باب میں نہایت ہی اہم ہے۔ وہ فرماتے ہیں ۔کہ ”آج مسلمانوں کے لٸےمناسب بات یہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں ہرلحاظ سے ممتاز حیثیت کاحامل ہو، اس کے اخلاق اورعادات کریمانہ ہوں، وہ عمدہ اورفصیح عربی زبان بولناجانتاہو، وہ شریعت اسلامی کا پرکٹشنر یعنی زندگی میں دین پر عمل پیراہو، وہ اپنے نبی کے اسوہ اورسلف صالحین کے کردار کواپنانےوالا ہو اوراس وقت جو غیر مسلمین اورکفار کے عادات واطواراورلباس وپوشاک ہیں ایک مسلمان کا ایمانی تقاضاہے کہ ہرممکن ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ ۔“(ج۔1 ص۔422).اس موقعہ پر میں یہ بات بھی پیش کرنا مناسب سمجتاہوں۔ حدیث میں ہے کہ رسولﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں فارسی کمان دیکھی تو نبی ﷺ نے اسے پھینک کر عربی کمان لینے کا حکم فرمایا۔ آج مسلم ملکوں اوربطور خاص عرب ممالک کا حال یہ ہےکہ اپنے اسلحے بنانا تو دور کی بات ہے ہتھیار بھی کسی مسلم ملک سے خریدنے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔حالانکہ ایسابھی نہیں ہے کہ وہ اسلحہ کسی مسلم ملک کے پاس نہیں ہے جس سے وہ خرید سکے ۔جیسے بہت سے میزاٸل اورٹیک جنگی طیارے وغیرہ، مگر نہیں، وہ امریکہ اوریورپی ملکوں سے خریدیں گے۔ کیا یہ طرزعمل اس فرمان رسول کے خلاف نہیں ہے؟ جس کا ذکر اوپر ہوا۔۔اللہ تعالی مسلمانوں کو دین اورتقاضہ دین کی سمجھ عطافرماٸے آمین۔

Comments are closed.