اتحاد

الطاف جمیل شاہ
کشمیر
______________معذرت کے ساتھ _______________
اتحاد’ اتفاق, مسلکی منافرت,
یہ سب الفاظ ہر زمانہ میں مطلوب بھی رہے ہیں اور مقصود فلاح بھی اور فی زمانہ ان سب الفاظ کو عملی جامہ پہنایا گیا امت نے جب تک ان چنیدہ الفاظ کو قرآن و سنت کے نظریہ پر رکھ کر اپنا تب تک امت مسلمہ کی اجتماعیت و انفرادیت کو دوام تھا پھر زمانہ جوں جوں گزرتا گیا ان منتخب شدہ الفاظ کی تعبیر و تشریح حدود و قیود بدلتی گیں تا ایں دم یہ ہر طرف سے کچلے جارہے ہیں اب بجائے اس کے کہ ان کو سمجھنے اور سمجھانے اور ماننے کے لئے استعمال کیا جاتا ہم نے اپنے اپنے خول میں بیٹھ کر ان کی اپنی اپنی تعبیر کی یوں ہم آسمان سے اس تیزی سے تنزلی کی دلدل میں دھنستے گئے کہ الاماں و الحفیظ
چلتے چلتے دل بڑا بنا کر پڑھیں
میں بیس سال سے یہ سب مختلف اجتماعات ۔اسلامی تقریبات اور شخصیات وغیرہ سے سنتا ارہا ہوں اور ان تین باتوں کی خوب تشہیر بھی کی جاتی ہے اور خطیب حضرات سے لیکر عوامی مقررین ان مبارک الفاظ کو بیان کرتے رہتے ہیں
_________لیکن انتہائی ادب سے عرض ہے, کہ عرصہ بیس بائیس سال سے یہ بات میں نے شدت سے محسوس کی ہے اور اب بھی کر رہا ہوں کہ ‘ ہمارے ہاں اتحاد ۔ اتفاق ۔ کے معنی صرف یہ ہیں کہ ہماری شخصیات مقدس ہیں ۔ ہمارے افکار و نظریات مبارک ہیں۔۔ ہم تنقید سے بالا ہیں۔ ہمارے نظریہ اور افکار سے متصادم ہر عالم محدث فقیہ لائق تحقیر ہے اور ہم اس کا حق رکھتے ہیں جس کی جب چاہیں عزت و تکریم نیلام کرتے ہوئے اتحاد و اتفاق کے داعی ہونے کا حق ادا کریں اب دیکھیں نا یہ مسلکی منافرت پر چلاتے ہوئے لوگوں اور دانشوروں کے پسندیدہ کسی شخصیت پر ذرا سا کچھ کہئے پھر تماشہ دیکھئے اس کے متبعین اور داعیان اتفاق و اتحاد کا ۔۔
موجودہ اصل مصیبت یہ ہے کہ صبح دس گیارہ بجے والد والدہ کی لات گھونسوں کے سبب اٹھنے والا بھی آج کل ایک بجے کے بعد منہ ہاتھ دھو کر تنقید کا مطلب سمجھانے بیٹھ جاتا ہے اور علماء امت کی کمیوں اور لغزشوں پر رائے دینے بیٹھ جاتا ہے اور اس معاملے ۔میں ہم بھی تھوڑی ہی پیچھے رہنے والے ہیں ہم بھی تو ہاتھ دھو کر مخالف افکار و نظریات کی معتبر شخصیات کو خوب صلواتیں سناتے ہیں اور پھر اپنی معتبر شخصیات کا ذکر خیر آتے ہیں راگ الاپتے ہیں کہ بھائی امت کی موجود حالت کا ذمہ ان کے نام ہے جو امت میں تفرقہ بازی پیدا کرتے ہیں ویسے یہ کام گر ہم کسی غیر مسلم کے سر تھوپ سکتے تو بلا ججھک ایسا بھی کردیتے پر مجبوری ہے سو نہیں تھوپ سکتے
۔۔ میں نے کئی داعیان دیں علماء دانشوروں اور مختلف اسلام پسند نوجوانوں سے بارہا ملاقاتیں کیں اور میں ان ملاقاتوں کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ سکا ہم نے قوت برداشت کی قوت کھو دی ہے ہم ایک کھوکھلے دل و دماغ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے خوگر ہیں اور ایسے تماشہ بین جو خود ہی تماشہ بنتے ہیں اور خود ہی دیکھتے بھی ہیں اور انتہائی درجہ مکاری کا چوغہ لگا کر کسی کی بھی عزت نیلام کر دینے میں نہیں ججھکتے سو اب ہر طرف اس قوم میں نقاد ہیں خود ساختہ ادیب ہیں ۔ مفکرین ہیں۔ شعلہ بیان مقررین ہیں۔۔ من چلے علماء ہیں جو علم سے اکثر نابلد ہی ہوتے ہیں اور یوں ہم نے قسم اٹھائے رکھی ہے کہ امت کو ذلیل ہر صورت کر دینا ہے ۔۔ خیر حیرت کے اور بھی اسباب ہیں آپ بنا کچھ سوچے اگئے پڑھیں بس
چلتے چلتے
یہ بھی بتاتا چلوں کہ کم و بیش پچاس سال سے ۔ میرے خیال سے پوری وادی میں منظم طریقے سے حب رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے دلوں کو خالی کیا گیا اور اس میں سب سے بڑا حصہ ان خطیب و مقررین کا رہا جو اسلام کی چھوٹی موٹی چند کتب کے بعد خطیب زماں ہوگئے اور توحید کی اشاعت کرتے کرتے ہم نے جذبہ حب رسول ﷺ کو پامال ہی کردیا ۔۔ اسی طرح ہم نے اپنے ماضی کے ان عظیم داعیان دیں جن کے روز و شب اسلامی تعلیمات کی آبیاری کرتے ہوئے گزرتے تھے چکی کے دو پاٹوں میں اس درجہ مسل دیا کہ اب ان عظیم شخصیات کے نام سے ہماری موجودہ نسل بے پرواہ ہوگی ہے اور انہیں معلوم ہی نہیں کہ یہ شخصیات کون تھیں ان کی علمی اور سماجی خدمات کیا رہی ہیں ہم نے ان شخصیات کو یا شرک و بدعت کے نام سے پامال کردیا کہ ان کی آخری آرام گاہیں شرک و بدعات کی آماجگاہ بن گی ہیں۔۔ یا پھر ان کی ایسی کرامات بیان کی جنہیں علم و عقل کسی صورت تسلیم نہیں کرتی پر بضد رہے کہ بس حق یہی ہے اور ان کے اصل کام کو لوگ بھول بیٹھے اب یہ سب ہوچکا ہے اور اب لٹھ لیکر ہم صرف اپنے پیٹ اور اپنی ضد کی تسکین کے لئے جی رہے ہیں وہ زمانہ گیا جب ہم آپس میں بھائی بھائی ہوا کرتے تھے ۔۔ جب ہمارے ہاں محبت ۔ عقیدت ادب احترام کا بھول بھالا ہوا کرتا تھا اب ایسا کچھ نہیں پے کیوں کہ شاید ہم ماضی سے کٹ کر خود ہی بربادی کی راہ پر بہت دور نکل گئے ہیں اور جہاں سے واپسی بے حد ناممکن سی ہے اور اب ہم آپسی خلفشار اور آپسی تصادم آرائی کو پی اسلام سمجھ بیٹھے ہیں اور اسی سوچ کو پروان چڑھائے جارہے ہیں۔
پوچھ سکتا ہوں کیا
کہ ہم بحیثیت امت اب کہاں اور کس حال میں حیات ہیں مسجد ہو گھر ہو اسلامی علوم گاہ ہو یا جدید علوم گاہیں ہوں تجارت ہو سفر ہو تعلقات ہوں رشتہ داریاں ہمسائیگی ہو راستے ہوں مزدوری کو یا زندگی کا کوئی بھی ایک ایسا شعبہ ہے کیا جہاں ہم سینہ تان کر کہہ سکیں کہ ہم یہاں مسلمان کی طرح اور امت مسلمہ کی طرح موجود ہیں شاید نہیں اور اس نہیں میں ہم سب شریک ہیں آپ اس پر ماتم نہیں کریں گئے کیوں کہ یہ ہم سب کی کمزوری ہے چلو اچھا سنو
اخلاقیات کا ایک درخشاں باب کے قرآن و احادیث میں اور امت کی معتبر شخصیات کے ہاں اس کا سخت اہتمام کیا گیا کے اور اس بارے ہزاروں۔ واقعات ہیں کہ امت نے اخلاقی اقدار کے ساتھ غیروں کو اپنا بنا لیا کیا ہم آج کل سوشل میڈیا پر ہی صحیح یہ کہہ سکتے ہیں ہم با اخلاق قوم ہیں شاید نہیں کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں اخلاقیات میں ہم ایک گری ہوئی مخلوق ہیں جنہیں نہ اخلاقی اصول معلوم ہیں اور نہ ہی اخلاقیات پسند ہیں یہاں بھی اب کسی مخالف فکر کو تھوڑا سا چھیڑ کر دیکھیں کہ کس قسم کی زبان استعمال کرے گا اور ہے مگر مسلمان
۔ ۔ ۔ میرے جگر میں تھک گیا ہوں اپنے عزیزوں کا یہ حال دیکھ دیکھ کر اور سن سن کر کاش ہم واقعی اک درد دل کے ساتھ چلنا جینا اور رہنا سیکھ لیتے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے محبوب و مطلوب قائد اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو جان و دل سے قبول کے اسی میں جینے کو ترجیح دیتے اور اپنے اسلاف کے علمی ورثہ کی حفاظت کے لئے کوشاں ہوجاتے گر کبھی ہم سے کوئی خطا ہوتی تو بارگاہ الہی میں معافیاں مانگ لیتے اور اپنوں سے درگزر کرنے کا جزبہ خود میں پیدا کرکٹ سرخ رو ہونے کی راہ پر عازم سفر ہوجاتے
آیے کاش وہ وقت آتا ہم مسکراتے ہوئے سب سے گلے ملتے سب مسلمان رہتے کوئی ہمارے لہجے اور رویے کے سبب ہم سے خوف نہ کھاتا آیے کاش ایسا ہوتا
کیا ہم کسی بھی جگہ مسلمان کی طرح ہیں
بھائی دعاؤں میں یاد رکھنا میں آپ جیسا ہی خطاؤں کا ایک مجسم ہوں سو لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے بس دعا دینا میں محتاج دعا ہوں.
Comments are closed.