کرناٹک ہائی کورٹ کو سلام

ودود ساجد
(روزنامہ انقلاب میں شائع خصوصی کالم "نوائے امروز”)
آج کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک شرپسند کی انتہائی خطرناک قسم کی رٹ کو مسترد کرتے ہوئے ایک بہت ہی شاندار فیصلہ صاد رکیا ہے۔
چیف جسٹس پرسنا بی ورالے اور جسٹس ایم جی ایس کمال کی ڈویزن بنچ نے عرضی گزار سے سوال کیا کہ آخر اپنے گھروں کے اندر اور پرائیویٹ پراپرٹی میں نماز کی ادائیگی سے کس طرح کوئی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے؟
واضح رہے کہ بنگلورو کے نواحی علاقہ میں قائم ایچ بی آر کمپائونڈ میں مقامی باشندوں کے ذریعہ ایک پرانی عمارت کو منہدم کرکے وہاں غریب بچوں کیلئے مدرسہ‘ اسکول اور نماز پڑھنے کے ہال کیلئے ایک نئی عمارت بنائی گئی تھی۔اس علاقہ کے کچھ باشندوں نے کرناٹک ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرکے نماز کی ادائیگی کو خطرہ قراردیا تھا۔
اس سلسلہ میں عدالت نے جب مدعا علیہم (مسلمانوں) سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا تھا کہ اس عمارت میں ایک مدرسہ اور غریب و نادار بچوں کیلئے ایک اسکول تعمیر کیا گیا ہے۔ چونکہ نماز پڑھنے کیلئے قرب وجوار میں کوئی مسجد نہیں ہے اور نمازیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس لئے ہال کو مسجد کے طور پر استعمال کرنا ان کی مجبوری ہے۔ عدالت نے مسلمانوں کے استدلال سننے کے بعد انہیں ’بروہاٹ بنگلورو مہانگر پالیکا‘ سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنے کیلئے درخواست دینے کی اجازت دیدی تھی۔
آج جب دوبارہ اس قضیہ کی سماعت شروع ہوئی تو عرضی گزاروں کے وکیل نے پھر کہا کہ "یہاں نماز کی ادائیگی اور لوگوں کی آمد و رفت سے خطرہ ہے” تو بنچ نے سختی کے ساتھ اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے عرضی گزار کے وکیل سے کہا: "کہ ہم ہرگز اسے قبول نہیں کریں گے۔نماز ادا کرنا کوئی خطرہ نہیں ہے۔مسٹر کونسل ‘آپ نے غالباً یہ بیان ایک غلط مفروضے کی بنیاد پر دیا ہے۔براہ کرم عدالت میں ایسا بیان دینے سے پہلے دو بار سوچئے۔ ہم ایسے بیانات کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ ہمیں اس پر سخت اعتراض ہے۔ آپ ایسا بیان یوں ہی رواروی میں نہیں دے سکتے۔ آپ ایک وکیل ہیں’ ایسا بیان مناسب نہیں ہے۔ آپ کو اس طرح کے یکطرفہ بیان دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ آپ ضابطوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں لہٰذا حکام سے اجازت لیجئے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کسی کا نماز پڑھنا ایک خطرناک سرگرمی ہے؟”
عدالت نے اس عرضی کو بھی غلط اندازوں اور مفروضوں پر مبنی قرار دیتے ہوئے خارج کردیا۔ بنچ نے اس قسم کی عرضی پر اپنے غصہ کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور عرضی گزاروں کی نیت اور ان کے الزامات پر شک و شبہ ظاہر کرتے ہوئے رٹ کو حقارت کے ساتھ مسترد کردیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ اتھارٹی کے اجازت نامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عمارت کو شروع سے ہی ایک خاص مقصد (مدرسہ‘غریب بچوں کیلئے اسکول اور نمازیوں کیلئے عبادت گاہ) کےطور پر استعمال کیا جارہا تھا۔ اب اس پرانی عمارت کو توڑکر باقاعدہ اجازت حاصل کرنے کے بعد منظور شدہ نقشہ کے مطابق نئی عمارت بنائی گئی ہے‘ جسے مذکورہ بالا مقاصد کیلئے ہی استعمال کیا جارہا ہے۔
عدالت نے عرضی گزاروں سے بار بار سوال کیا کہ آخر نماز پڑھنے سے کس طرح کوئی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے؟ عدالت نے زور دے کر پوچھا کہ کیا کوئی لااینڈ آرڈر کی صورتحال کبھی پیدا ہوئی ہے؟ لیکن عرضی گزاروں کے وکیل کوئی جواب نہیں دے سکے۔ عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں لکھا بھی کہ عرضی گزار بار بار کہنے کے باوجود کوئی واضح شواہد پیش نہیں کرسکے۔
ہم کرناٹک ہائی کورٹ کو سو بار سلام کرتے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی مسلمانوں سے بھی ایک گزارش ہے کہ مدرسہ‘ اسکول یا مسجد کی تعمیر کیلئے اپنے علاقہ کے حکام سے ضابطہ کے مطابق اجازت حاصل کریں اور باقاعدہ نقشہ بنوائیں۔ خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں ملی جلی آبادی رہتی ہو یہ اجازت اور بھی ضروری ہوجاتی ہے۔۔۔
Comments are closed.