حیاتیاتی دنیا اورانسان کے تہذیبی اقدار
مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
یوں تو ہرجاندار اپنی زندگی میں فطری طورپر کچھ نہ اصول اورطرزحیات کا پابندہے۔جیسے پرندے کی زندگی پیڑ پودوں پر، جنگلی جانوروں کی زندگی جنگل میں، آبی جانداروں کی زندگی پانی میں، کیڑے مکوڑوں اورحشرات الارض کی زندگی زمین کی اوپری سطح کے محفوظ مقامات یامٹی۔ سب اپنے اپنے طورپر زندگی بھی گزارتےہیں اوراپنی جان بجانےکےلٸے غذااورخوراک بھی تلاش کرلیتے ہیں، ان میں سے بعض خود اپنی ہی جنس کےدوسرے جانور کولقمہ بنالیتےہیں، کچھ دوسرے جانورکواپنی خوراک بناتےہیں، کچھ جاندار گھاس پھوس پرگزاراکرتےہیں، کچھ حشرات الارض ایسے بھی ہیں جومٹی کی اوپری یانچلی سطح میں رہتےہیں اور وہ مٹی ہی چاٹ کر زندہ رہتےہیں، جن میں بعض مچھلیاں بھی ہیں۔سانپ خود اپنےجنس سانپ کوبھی کھاجاتاہےاوردوسرے جانورکابھی شکارکرتاہے۔کیکڑا ایساجانورہے جس کے بچے پیداہونےکےبعد پہلے خود اپنی ماں کی جسم کےسارےگودے کھاکرپلتے ہیں اورکیکڑے کامادہ ایک ہی بارزندگی پاتاہے، ایک ہی بارسیکڑوں کی تعداد میں بچہ دیتاہے اورپھرمادہ کی زندگی کااختتام ہوجاتا ہے اوراس کاسبب خود اس کےبچے بنتےہیں۔اس کی حکمت کیاہے وہ تو صرف ہمارارب اورخالق کاٸنات ہی جانتاہے، انسان تو صرف قیاس کرسکتا ہے، حکمت نہیں بتاسکتا۔مذکورہ بالا سب ہی جانداراپنی خشکی، بری اوربحری دنیامیں آزاد رہتےہیں۔غذاوہ بھی کھاتے ہیں، پانی وہ بھی پیتےہیں۔جان بچانے کےلیٸے محفوظ مقامات وہ بھی تلاش کرتےہیں اوربناتےبھی ہیں ۔ہرجنس اپنی جنس کےاشارے اورآوازکوبھی جانتے اورسمجھتے ہیں۔پتنگوں اورتتلیوں کی اپنی الگ دنیاہے، ساون اوربھادو میں اس کی پیداوارمیں اضافہ ہوجاتا ہے، کیونکہ یہ ہریالی کے دلدادہ ہوتے ہیں اوروہی ان کی زندگی کی ضمانت ہوتےہیں۔اسی لیے موسم برسات میں دیہی علاقوں اورکھیت کھلیانوں میں رنگ برنگ کی تتلیاں اورپتنگےزیادہ نظرآتےہیں۔ ہرے پتوں اورپھولوں کارس چوس کرغذاحاصل کرتےہیں، مگران کی زندگی بہت مختصرہوتی ہے۔ مگرانسان ایک ایساجانورہےجو آزادپیداتوہوتاہے، مگرآزاد نہیں ہے۔ پہلےکبھی آزادہوا کرتا تھا، مگراب آزادنہیں ہے۔ہرملک کاباشندہ اپنے ملک کے ملکی حصارکاپابندہے۔اس سے باہربغیراجازت کے نہیں جاسکتا، نہ گھوم سکتاہے نہ پھرسکتاہے، نہ کماسکتاہے اورنہ آزادانہ زندگی گزارسکتاہے۔ جس طرح پالتوجانورقیدمیں ہے اسی طرح آج کاانسان قانونی اورملکی سرحدوں کی قید وبنداور زنجیرمیں جکڑاہواہے اورنام اس کوآزادی کادیاجاتاہے ۔
”خردکانام جنوں رکھ دیا۔جنوں کاخرد“۔
انسان اور تہذیب
انسان وہ حیوان ہےجسے حیوان ناطق کہاجاتاہے، حالانکہ بولتے تودوسرے جانوربھی ہیں مگرہنستے نہیں ہیں ۔انسان کوجوچیزدوسرےجانوروں سے ممتازکرتی ہے وہ ہے اس کابولنے کے ساتھ ہنسنا اورتمدنی زندگی بسرکرنا ۔انسان کی تہذیب اسی تمدن کاحصہ ہے۔ تمدن طرز زندگی ہے اورتہذیب لباس وپوشاک، اٹھنے بیٹھنے،انداز شرم وحیا اورکھانے پینے اورسونے جاگنے، بودوباش اختیار کرنےکے طورطریقے، پاکی اورناپاکی اوربول وبرازکےلیے پردے کےاہتمام ۔ان تمام کے مجموعے کو عربی میں ”حضارة“کہتےہیں۔۔زبان اورلب ولہجے گفت وشنید کےاندازاورافہام وتفہیم اورادب فلسفہ، موسیقی ونغمگی اسے ثقافت کانام دیاجاتاہے۔تہذیب کاسب سے بڑاعلمبردار انسان کا پروقار لباس ہے۔ عورت ہویامرد دونوں کو اپنی جسمانی ساخت کالحاظ کرتے ہوٸے لباس کاانتخاب کرنا، اس کے اعلی درجے کے مہذب ہونے کی علامت ہے۔ اگرعورت اپنی جسمانی ساخت کاخیال کرتےہوٸے پردہ پوش لباس اختیارنہ کرے اورمرد اپنی ساخت کے اعتبار سے ساترلباس نہ پہنے تواسے غیرمہذب کہاجاٸےگا۔ دنیاکی کسی قوم میں تہذیب وتمدن کا وہ معیارنہیں ہے جومعیاراسلام نے انسانی دنیاکودیاہے اوراسی کی آغوش میں انسانی اقدارکاسرمایہ ہے۔
اے کاش ہم مسلمان بحیثیت تہذیب وتمدن کےامین کے دنیاکوبتاسکتے ہم توخودہی غیرسندیافتہ اوربے ہنگم طرزحیات کے دلدادہ ہوگئے۔ اللھم اھدنا الی صراط مستقیم.
Comments are closed.