نوجوانوں کی ترقی میں سماج کا کردار

از قلم : مدثر احمد شیموگہ ۔کرناٹک
کچھ سال قبل تک اس بات پر ڈسکشن ہوتے تھے کہ سماج کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار کیسے ہونا چاہئے ، سماج کے لئے نوجوان کیا کچھ کرسکتے ہیں ،لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ، اب سماج کو اس بات کی فکر کرنے کی ضرورت ہےکہ نوجوانوں کی ترقی میں سماج کا کیا کردار ہونا چاہئے ؟۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ میں تازگی، جذبوں میں حرارت اور خوابوں میں وسعت ہوتی ہے۔ اگر ان خوابوں کو سراہا جائے، ان جذبوں کو سمت دی جائے اور ان سوچوں کو مقصد دیا جائے تو یہی نوجوان آنےوالے وقت میں سماج، قوم اور انسانیت کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرسکتے ہیں۔لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب سماج اپنی ذمہ داری کو پہچانے اورنوجوانوں کی درست رہنمائی کرے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اکثر نوجوان یا تو نظر انداز کیے جاتے ہیں یا پھر ان سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ یا تو مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر غلط راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ آج کا نوجوان صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ وہ جدیدٹیکنالوجی سے واقف ہے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا سے جڑا ہواہے۔ وہ سوال کرتا ہے، جواب مانگتا ہے، اور اپنے مقام کے لیے کوشش بھی کرتا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کا نوجوان ذہنی دباؤ، روزگار کی کمی، تعلیمی نظام کی خامیوں اور سماجی ناہمواری، گمراہی اور بدگمانیوں کاشکار بھی ہے ، ڈرگس ، جوا اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا سامنا کر رہاہے۔کئی نوجوان اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر بیٹھتے ہیں، کچھ سوشل میڈیا کی چمک دمک میں کھو جاتے ہیں، کچھ خود کو احساسِ کمتری کا شکار کر لیتے ہیں،اور کچھ انتہا پسندی، جرائم یا نشہ آور چیزوں کی طرف بھی مائل ہو جاتےہیں۔ یہیں پر سماج کا کردار سب سے اہم ہو جاتا ہے۔ ایک باشعور اور مہذب سماج وہی ہے جو اپنی نوجوان نسل کی تربیت، رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرے۔تعلیم کو مقصد سے جوڑناسماج کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں، اساتذہ اور والدین کے ذریعے تعلیم کو محض ڈگری کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ اسے مقصد،کردار سازی اور ہنر سے جوڑے۔ نوجوانوں کو یہ سمجھایا جائے کہ تعلیم زندگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہے، نہ کہ صرف نوکری پانے کا ہتھیار۔ اخلاقی تربیت، سچائی، دیانت، محنت اور صبر جیسی صفات نوجوانوں میں پیدا کرنامعاشرے کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔ مساجد، اسکول، خاندان اور میڈیا کو یہ کام بخوبی انجام دینا چاہیے۔ حکومت، ادارے اور تنظیمیں نوجوانوں کے لیےروزگار، انٹرن شپ، ہنرسکھانے کے کورسز، لیڈرشپ پروگرام اور کاروباری رہنمائی فراہم کریں تاکہ وہ خود پر بھروسہ کرنا سیکھیں۔ ہر علاقے میں نوجوانوں کے لیےکائونسلنگ سنٹرس قائم کیے جائیں جہاں سیکالوجسٹ، کیریئرکونسلرز، سوشیل ورکرز اور علماء نوجوانوں کو ان کی دلچسپی اور صلاحیت کےمطابق رہنمائی فراہم کریں۔ سماج کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو نمایاں کرےجنہوں نے محنت، تعلیم اور اخلاق سے ترقی حاصل کی ہو۔ نوجوان جب دیکھیں گےکہ کامیابی کا راستہ محنت، علم اور خلوص سے ہو کر گزرتا ہے تو وہ فطری طور پر اسی راستے کو اپنائیں گے۔ انہیں بات کرنے، سوال کرنے، غلطی کرنےاور سیکھنے کا موقع دیا جائے۔ اگر انہیں ہر جگہ مسترد کیا جائے گا، تو وہ یا تو باغی بنیں گے یا بے حس۔نتیجہسماج اگر نوجوانوں کو بوجھ سمجھنے کی بجائے اثاثہ سمجھے، اگر وہ تنقید کی بجائے رہنمائی کرے، اگر وہ بےاعتمادی کی جگہ اعتبار دے، تو نہ صرف نوجوان ترقی کریں گے بلکہ پورامعاشرہ خوشحال، پرامن اور ترقی یافتہ بنے گا۔ نوجوانوں کی ترقی صرف ان کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ترقی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم آج کا نوجوان سنواریں، تاکہ کل کا معاشرہ روشن ہو۔
Comments are closed.