کیا ’سناتن دھرم خطرے میں ہے‘؟

 

ڈاکٹر سلیم خان

’اسلام خطرے میں ہے‘ کا  نعرہ  سن سن کرپریشان ہونے والوں  یہ جاسن کر حیرت ہوگی کہ  فی الحال وطن عزیز میں سناتن دھرم کے اوپر خطرات منڈلانے لگے ہیں۔  یہ عجب اتفاق ہے کہ ایسے  وقت میں سناتن دھرم پر  حملہ ہورہا ہے جب خود  ساختہ  ہندو ہردے سمراٹ اپنے آپ کو وشو گرو ثابت کرنے کی خاطر    جی ٹوینٹی کی تیاریاں کررہا ہے ۔ اس تماشے کے ذریعہ   عوام کو یہ جھانسا دیا جارہا  ہے کہ غیر اعلانیہ ہندو راشٹر آسمان کی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے۔  ایسے میں تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کے بیٹے اودئے ندھی اسٹالن کے بیان پر اپنے  ردعمل کا ا ظہار کرتے  ہوئے مودی جی کو  سناتن دھرم کےمعاملے میں پوری قوت کے ساتھ مناسب جواب دینے کا مشورہ دینا پڑا۔  وزیر اعظم بولے   سناتن دھرم ملک کے کروڑوں لوگوں کی آستھا کا مرکز ہے اوراس پر ہونے والی تنقیدو ں کا جواب دیانا سبھی کا فرض ہے اس لئے مناسب ردعمل ظاہر کرنا ضروری ہےکیوں کہ اودئے ندھی  اپنے بیان پر قائم ہے۔ ا ن الزامات پر یوں ہی خاموش نہیں رہا جاسکتا ۔ چھپنّ انچ کی چھاتی والے وزیر اعظم کو یہ پھسپھسا ردعمل زیب نہیں دیتا ۔ اس کا مطلب  ہے کہ ’سناتن دھرم ‘ واقعی خطرے میں ہے اور اپنے سارے لاو ٔ لشکر کے باوجود سنگھ پریوار کے لیے اس  حملے کا مقابلہ کرنا  مشکل ہے۔

اودئے ندھی کی شدید مخالفت دہلی یا ناگپور  کے بجائے رام نگری ایودھیا میں ہوئی ۔سناتن مذہب پر تبصرہ کو لے کر ایودھیا کے تپسوی چھاؤنی کے سَنت جگت گرو پرمہنس آچاریہ نے اودے ندھی کا پُتلا جلانے سے قبل  اس   کا سر قلم کیا۔ اس موقع پر پرمہنس آچاریہ نے اعلان  کیا کہ جو بھی اودئے ندھی کا سر قلم کر کے لائے گا، اسے 10 کروڑ روپے کا انعام دیا جائے گا۔یہ تو ایسی بات ہے کہ نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی ۔ مہنت  جانتے ہیں کہ ان کے  ہندوتوا نوازوں میں اودئے ندھی کا سرقلم کرنے کی ہمت نہیں ہے اس لیے بغیر دس کروڈ روپئے کا اعلان کردو۔ اب اگر  کوئی  مہنت سے پوچھے کہ   سنیاسی تو  دھندہ کاروبارنہیں  کرتے اس لیے تمہارے پاس دس کروڈ  کی رقم کہاں سے آگئی اور کیا تم نے اس  پر انکم ٹیکس ادا کیا گیا؟  تو اس  اس گیدڑ بھپکی کا پول کھل جائے گا۔ ویسے حکومت بھی اپنے ہندو رائے دہندگان کی ناراضی سے بچنے کے لیے مہنت کی تفتیش نہیں کرے گی۔

پرمہنس آچاریہ نے اعتراف  کیا  کہ وہ  اودئے ندھی کے ذریعہ سناتن مذہب کو مچھر، ڈینگو، ملیریا اور کورونا کی طرح  ختم کرنے کی بات سے  کافی مایوس ہوئے ہیں۔ 10 کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کرنے کے بعدوہ  بولے’’ اگر کوئی اس کا سر نہیں لایا تو میں خود اس کا سر قلم کرنے جاؤں گا۔ میں نے تلوار تیار کر لی ہے۔ میں خود سرکاٹنے کے لیے روانہ ہونے والا ہوں ‘‘۔پرمہنس اگر خود یہ کرسکتے ہیں تو دوسروں کو زحمت دے کر اپنا نقصان کرنے کی کیا ضرورت؟  خود کرنے سے  پیسے  بھی بچ جائیں گے۔ ایسوں کے بارے میں  مشہور کہاوت  ہے’  گرجنے والےبرستے  نہیں‘۔ اپنی قوم کو عار دلاتے ہوئے وہ بولے  اگر اودئے ندھی ایسا کسی دوسرے مذہب کے لیے بولتے  تو ان کے چیتھڑے اڑ جاتے۔مہنت کے مطابق  اودے ندھی راکشش  بن چکا ہے اور اس کا وَدھ (قتل)ان کے ہاتھوں سے ہی ہوگا۔اودئے ندھی کی مانند امیت مالویہ اور پرم ہنس کے خلاف بھی مقدمہ درج ہوچکا ہے۔ اب پتہ چلے گا کہ وہ عدالت کے اندر  بھی اپنے بیان پر قائم رہتے ہیں یا بدل جاتے ہیں؟ ویسے اودئے ندھی اور ان کے والد  یعنی  تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے اپنے بیٹے کے بیان کی تائید  کی اور دونوں باپ بیٹے کا اس بیان  پر  قائم ودائم  ہیں۔  اس لیے کہ وہ  ساورکر کے نہیں بلکہ پیری یار سوامی کے پیروکار ہیں ۔

جگت گرو پرمہنس آچاریہ نے دعویٰ  کیا کہ لاکھوں سال پہلےصرف سناتن ہی  ایک مذہب تھا۔ سناتن مذہب کا کوئی آخر نہیں ہے، اسے کبھی مٹایا نہیں جا سکتابلکہ  اس کو مٹانے کی کوشش کرنے والا ضرور مٹ جائے گا۔اس دعویٰ کے جواب میں  کرناٹک کے وزیر داخلہ اور کانگریس کے سینئر لیڈر جی پرمیشورا نے ہندودھرم کی ابتدا کے حوالے سے  ٹمکور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سوال کردیا  کہ بدھ مت اور جین مت جیسے مذاہب کی ابتدا ہندوستان میں ہوئی، اسلام اور عیسائیت بیرون ملک سے یہاں آئے، لیکن ہندو مذہب کہاں سے آیا ؟اور اسے  کون لایا؟؟ آج تک اس کا پتہ ہی  نہیں چل سکا۔انہوں نے کہا کہ ہندو دھرم کی ابتدا سے متعلق سوالات کے جوابات مبہم  ہیں۔جی پرمیشور نے  بدھ مت، جین مت ، عیسائیت اور اسلام کا ذکرکے کہا کہ ان تمام مذاہب کا ایک ہی مقصد بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود ہے۔اس فہرست  میں سناتن دھرم کی عدم موجودگی اس خیال کو تقویت پہنچاتی ہے کہ  وہ اس مذہب کو انسانی فلاح و بہبود کا ضامن نہیں مانتے ۔

  کرناٹک کے وزیر داخلہ کی مانند  کانگریس  کے قومی صدر ملکارجن کھرگے کے بیٹے پریانک کھرگے نے بھی  کہا تھا  ہے کہ  جو مذہب  برابری کا حق نہیں دیتا اوراس بات کو یقینی نہیں بناتا کہ آپ کو انسان ہونے کا احترام ملے، وہ مذہب نہیں بیماری ہے۔  سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم کے بیٹے اوررکن  پارلیمان کارتی چدمبرم نے بھی  اودئےندھی اسٹالن کے بیان کی حمایت   میں  کہا کہ سناتن دھرم ذات پات کے امتیاز پر مبنی معاشرے کیلئے ضابطہ کے  علاوہ  کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سناتن دھرم کے حامی قدیم دور کو واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کارتی  نے  ذات پات کو ہندوستان کے لیے ایک لعنت قرار دیا ۔ڈی ایم کے رہنما  اے راجہ بھی دو قدم آگے نکل کر بولے  اودئے ندھی اسٹالن نے سناتن دھرم کا  ڈینگی اور ملیریا سے موازنہ کرکے عاجزی کا مظاہرہ کیا ہےاس کا تقابل تو  ایڈز یا کوڑھ  سے کیا جانا چاہئے جس کے ساتھ سماجی بدنامی جڑی ہوئی ہے۔

سناتن  دھرم پر تازہ  یلغار کرنے والے نئی نسل کے سیاستداں ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف نہ صرف ایف آئی آر درج ہوئی ہے بلکہ عدالتِ عظمیٰ سے بھی رجوع کیا گیا لیکن وہ خوفزدہ نہیں  ہیں ۔ پریانک کھرگے نے واضح کیا کہ ان کے بیان کا مقصد کسی بھی مذہبی جذبات کو مجروح کرنا نہیں تھا۔ ان  کے مطابق انہوں نے  کہا تھا کہ کوئی بھی مذہب جو انسانوں کے درمیان تفریق کرتا ہے وہ مذہب نہیں ہے۔ وہ  آئین کی پیروی کرتے ہیں اس لئے ان کا  مذہب آئین ہے۔ اگر بی جے پی والے ان کے  خلاف ایف آئی درج کرکے انہیں  حراست میں لینا چاہتے ہیں تو  اس سے انہیں  کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں جتنی ایف آئی آر درج کرنی ہے درج کرنے دیں۔ بی جے پی  اس کیلئے مکمل آزادی ہے۔ ایسے میں آر ایس ایس کو کیل کانٹوں سے لیس ہوکر میدان میں آنا چاہیے تھا مگر اس کے سربراہ نے ایک بزدلانہ بیان دے کر اپنے پیروں کلہاڑی مارلی ۔

سنگھ  کے سربراہ  موہن بھاگوت نے ریزرویشن کی حمایت میں اعتراف   کرلیا کہ سماج میں موجود امتیازوتفریق کو دور کرنے کیلئے یہ اہتمام  ضروری ہے۔ وہ بولے’’ سماجی  نظام میں ہم نے اپنے ہی لوگوں  کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور یہ تقریباً۲؍ ہزارسال سے ہو رہا ہے۔‘‘اس بار موہن بھاگوت کی زبان پھسل گئی اور انہوں نے ایک کے بجائے دو ہزار سال کہہ دیا۔  مسلمانوں اور عیسائیوں پر ملک کے سارے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانے  والے سر سنگھ چالک  بھول گئے کہ   دو ہزار سال قبل اس ملک میں وہ دونوں قومیں نہیں تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت سے یہ ظلم کون کررہا ہے؟ آزادی کے سترّ سال بھی یہ اونچ نیچ کیوں جاری  ہے اور اس کو دور کرنے کی خاطر وہ مزید دو سو سال تکلیف اٹھانے کی بات کیوں کررہے ہیں؟ توپھر امرت کال کا ہنگامہ  کس کام کا؟  بھاگوت  نے سماجی عدم مساوات کو ایک تاریخی حقیقت کے طور تسلیم کرکے سناتن دھرم پر ہونے والے سب سے بڑے اعتراض کا اعتراف کرلیا ۔

سنگھ کی جانب سے یہ کمزور مزاحمت اس لیے سامنے آئی کیونکہ صدیوں کی عافیت پسندی نے برہمنوں کو بزدل بنادیا ہے۔ ان لوگوں نے جنگ و جدال کا کام راجپوتوں کو سونپ کرخود کے لیے دھرم کرم کی آڑ میں عیش و عشرت کااہتمام  کیا ۔ ملک کے اندر ذات پات کا نظام قائم کرکے دوسروں کو محروم تو رکھا مگر وقت کے ساتھ  قوت مدافعت سے محروم ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان آئے تو یہ ان کے درباری بن گئے اور انگریز غالب ہوئے تو ان کی باجگذاری کرنے لگے ۔ فی الحال جمہوری نظام میں جوڑ توڑ اور سازش  کرکے حکومت پر قبضہ تو  کرلیا ہے مگر دھرم پر حملہ ہوا تو اس کے جواب میں  خاطر خواہ  طریقہ پرپیش قدمی  نہیں کرسکے۔ شیو سینا رہنما  پرینکا چترویدی نے سناتن پربی جے پی کی فکر کو ’دکھاوے اور ڈھکوسلے‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اودئے ندھی کے بیان کا  توڑ پیش نہیں کرسکے گی۔ سماج وادی پارٹی کے سوامی پرساد موریہ نے  بھی کہا کہ بی جے پی صرف سناتن لفظ کی مارکیٹنگ کررہی ہے۔ اسے اس مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے صرف اپنی سیاست چمکانی ہے جس کے لئے وہ اس لفظ کا استعمال کرکےعوام کو فریب دینے میں مصروف ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ سناتن کی تازہ مخالفت نے سنگھ پریوار کی بزدلی کو بے نقاب کردیا ہے۔

Comments are closed.