جب عیب حُسن ہوجائے!

 

از : قاضی محمدفیاض عالم قاسمی

 

اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں الگ الگ خصوصیتیں رکھی ہیں، پانی میں پیاس بجھانے کی صلاحیت ہے ، آگ میں جلانے کی طاقت ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بندوں کے اعمال میں حُسن اور عیب کو ودیعت کر رکھا ہے،شریعت کے ہرحکم میں حُسن ہوتاہے،اورہرنہی میں عیب ہوتاہے، کسی کی مدد کرنا حُسن ہے ، کسی پر ظلم وستم کرنا عیب ہے ، سچ بولنا حُسن ہے، جھوٹ بولنا عیب ہے ۔ غیبت کرنا،چغلی کرنا،بہتان لگانا عیب ہیں، جب کہ معافی ، خیر خواہی اورحسن سلوک کرنا حسن ہیں۔نماز پڑھنا حُسن ہے ، نہ پڑھنا عیب ہے ،حُسن اور عیب کی بنیاد پر ثواب اور عقاب کا دارومدار ہے ، جو چیزیں حُسن ہیں،ان کے کرنے پر ثواب ملتاہے اور جو عیب ہیں ان کے کرنے پرگناہ ہوتاہے۔(خلاصہ صحیح مسلم، حدیث نمبر:١۹٥٥)

شریعت اسلامی نے اکثر اعمال میں یہ طے کردیا ہے کہ یہ عمل حُسن والا ہے یاعیب والا، اور جہاں طے نہیں کیا وہاں پر فقہاء امت نے اپنے اجتہاد سے متعین کیاہے۔اس تعیین میں کسی قدر اختلاف بھی ہوا ہے ، نماز میں بار بار رفع یدین کرنا شوافع کے نزدیک نماز کا حُسن ہے ، اس لئے ان کے نزدیک رفع یدین مستحب ہے۔جب کہ احناف کے نزدیک حُسن نہیں ہے،اس لئے ان کےنزدیک مستحب نہیں ہے؛ کیوں کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ نماز میں خشوع وخضوع کے ساتھ سیدھے رہا کرو۔(سورۃ البقرۃ:٢٢۸)

کچھ چیزوں کو شریعت نے سماج اور عوام پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جس کو حُسن سمجھیں وہ حُسن ہے ، اور جس کو عیب سمجھیں وہ عیب ہے ، بلکہ یہ سماجی حُسن و عیب زمان ومکان کی وجہ سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں، جیسے بچوں کا کرسی پر بیٹھنا پہلے عیب سمجھا جاتاتھا، کرسی دادا، ابا،نانا، استاذ محترم یا حافظ جی کے لئے مخصوص ہوا کرتی تھی، اب اس کا عیب ہونا ختم ہوگیاہے ، اب سارے بچے اسکول میں کرسیوں پر بیٹھتے ہیں، اور استاذ جی کھڑے کھڑے پڑھاتے ہیں۔ بہو کا اپنی ساس کو جواب دینا کسی زمانے میں عیب تھا اب عیب نہیں رہا ہے ، شمالی ہند میں مسلم خواتین کا ساڑھی پہننا عیب ہے جب کہ مشرقی اور جنوبی ہند میں یہ کوئی عیب نہیں ہے ، بلکہ شادی کے بعد ساڑھی پہننا حُسن ہے اور نہ پہننا عیب ہے ۔

یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم کس چیز کو عیب سمجھتے ہیں اور کس کو حُسن ، اگر ہم نے حُسن کو عیب اور عیب کو حُسن سمجھ لیا تو شریعت کے ہر حکم پر اعتراض ہوگا، قدم قدم پر ہم ٹھوکریں کھائیں گے، اور آج کل کے دانشور حضرات ٹھوکریں کھا بھی رہے ہیں، ایک اور مثال لیں، عورت کا گھر میں نماز پڑھنا حُسن ہے یا عیب؟ شریعت نے اس کو حُسن قرار دیا ہے ، اور یہی چیز مردوں کے لئے عیب قرار دیا ہے ، یعنی مردوں کا مسجد میں جاکر نماز پڑھنا حُسن ہے گھر میں پڑھنا عیب ہے ۔ شریعت نےمردوں پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ مسجد کو آباد کریں وہیں جاکر جماعت سے نماز پڑھیں، اور عورتوں کو رعایت دی گئی کہ مسجد کے بجائے گھر کو آباد کریں ۔گھروں میں اپنی نماز پڑھ لیاکریں،مسجد میں آنے کی ضروت نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرماکہ اگر عورتیں مسجدوں میں جاکر نماز پڑھنے پر اصراکریں تو منع نہ کرو، لیکن ان کے گھران کے لئے بہترہیں۔(ابوداود:۵۶۷) اب اگر کوئی یہ کہے کہ عورتوں کو بھی مسجدوں میں جاکر نماز پڑھنا چاہئے تو گویا کہ وہ حُسن کو عیب سمجھ رہاہے ، وہ عورتوں کو دی گئی رعایت اور کنسیشن کوختم کرناچاہتا ہے۔

خواتین کا پردہ کرنا حُسن ہے یا عیب شریعت کہتی ہے کہ عورت کا پردہ کرنا،پردے میں رہنا، بلکہ گھرہی میں رہنا حُسن ہے ۔ اس کے بالمقابل عورت کا بے پردہ رہنا، حجاب استعمال نہ کرنا، بلا ضرورت گھر سے باہر جانا، غیرمحرموں کے ساتھ گھومنا پھیرنا، جلسوں ، مشاعروں اوردیگرپروگراموں کی کھلے چہرے زینت بننا عیب ہیں ۔پردہ کے تعلق سے حُسن وعیب کو شریعت نے متعین کردیاہے،اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود قرآن کریم میں اس کاحکم دیاہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ مسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نظریں نیچے رکھیں،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اوراپنی زیبائش وآرائش کو ظاہرنہ کریں، سوائے اس کے جو کھلارہتاہے،اوراپنے گریبانوں پر دوپٹے ڈال لیاکریں۔(سورۃ النور:۳۰)دوسری جگہ ارشادہے: اے پیغمبر! اپنی بیویوں ، بیٹیوں،اورمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنے آپ پر گھونگھٹ لٹکالیاکریں، اس سے امیدہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی(کہ کوئی شریف عورت ہے)تو ان کو تکلیف نہیں پہونچائی جائےگی،اوراللہ تعالیٰ بہت بخشش کرنے والے اوربڑےمہربان ہیں۔(سورۃ الاحزاب:۵۹)۔

کسی عورت کا کسی اجنبی مرد کے ساتھ یا مرد کا کسی اجنبی عورت کے ساتھ بلاوجہ بات چیت کرنا، اس کے ساتھ گھومنا پھیرنا، دوستی یاری کرنا، فوٹو کھینچنا،فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ پر وائرل کرنا، غیر محرموں کے ساتھ میل جول کرنا، ہنسی مذاق کرنا،ہاتھ ملانا، مصافحہ اور معانقہ کرنا یہ ساری چیزیں شریعت میں عیب ہیں، اور ماضی قریب میں ہمارے معاشرے میں عیب ہی تھیں، لیکن دھیرے دھیرے ان عیبوں کی نحوست ختم ہوتی جارہی ہے۔قرآن کریم میں ہے :اورجب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کرمانگو۔(سورۃ الاحزاب:۵۳) دوسری جگہ عورتوں سے کہاگیا ہے:اے پیغمبروں کی بیویو! تم اورعورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو، تو کسی اجنبی سے نرمی سے بات نہ کیاکرو، کہ جس کے دل میں بیماری میں وہ تمہاری طرف مائل ہوجائیں، ہاں بہتر بات کہاکرو۔اپنے گھروں میں رہاکرو، جیسے گزشتہ زمانے میں عورتیں زیب وزینت کااظہارکرتی تھیں، اس طرح زینت ظاہرنہ کیاکرو۔(سورۃ الاحزاب:۳۲) یہ سارے احکام چوں کہ قرآن کریم میں ہیں،اس لئےیہ سارے احکام حُسن والے ہیں،ان میں رائے زنی یا تاویل کی ضرورت نہیں۔

پہلے کسی لڑکی کا کوئی بوائے فرینڈ ہوتا تو اور کسی کو پتہ چل جاتا تو لڑکی شرم سے پانی پانی ہوجاتی اور اب حال یہ کہ کسی کو معلوم ہوجائے کہ اس لڑکی کا کوئی فرینڈ نہیں تو وہ سبکی اور شرمندگی محسوس کرتی ہے،وہ خود اور اس کی سہیلیاں اس کو "بے چاری” سمجھتی ہیں۔ایسی لڑکی احساس کمتری میں مبتلاء ہوجاتی ہے ، وہ سمجھتی ہے کہ اس دنیا میں اس کا کوئی چاہنے والا نہیں، حالاں کہ اس پگلی کو سمجھنا چاہئے ابھی اس کی ماں، باپ، بھائی بہن سب ٹوٹ کر چاہنے والے ہیں، اور شادی کے بعد اس کا شوہر ساس وسسر بھی اس سے محبت کرے گی۔ یہی اس کے حق میں حُسن ہے ۔ شادی سے قبل کسی لڑکے سےمحبت کرنا جس کو وہ ناسمجھی میں حُسن سمجھ رہی ہےایسا عیب ہے کہ اگر شادی کے بعد شوہر، ساس وسسرکو بَھنک بھی لگ جائے تو زندگی اجیرن ہوجائے گی، سا س ونند اور شوہر کے زندگی بھر طعنے سننے پڑیں گے۔

گزشتہ دنوں ایک جوڑا ہمارے یہاں آیا، دونوں کے درمیان کچھ اختلاف ہوگیاتھا، ہم نے دونوں کو سمجھایابجھایا۔ مرد کہنے لگا کہ میں تو اپنی بیوی سے ایسی محبت کرتاہوں جیسی ایک گرل فرینڈ اوربوائےفرینڈ کرتےہیں۔ یعنی اب بوائے فرینڈ اورگرل فرینڈکی محبت کی مثال دی جانے لگی ہے۔اس عیب کو حُسن سمجھاجانے لگاہے۔ جو خود شادی شدہ ہے وہ غیرشادی شدہ جوڑےکی مثال دے رہاہے۔حالاں کہ ایک زمانہ تھا کہ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے بارے میں لوگ طعنہ کے طورپرکہتے تھے کہ یہ دونوں اس طرح رہتے ہیں جیسے میاں بیوی ۔وہ زمانہ اب ماضی بعیدکاہوچکاہے کہ جب گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کانام سننا بھی لوگوں کوگوارہ نہیں تھا۔ یعنی یہ الفاظ بھی عیب کے تھے؛لیکن ہائے افسوس کہ دھیرے دھیرے ان کی نحوست ختم ہوگئی اور عیب حسن بنتارہا۔

اب رہی یہ بات کہ جن امور میں شریعت کی طرف سےحسن وعیب کی وضاحت نہیں ہےتو کن لوگوں کی رائے اورسمجھ کااعتبارکیاجائے؟ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہماشمااور ہرکس وناکس کی رائے کا قطعاً لحاظ نہیں کیاجائے گا، بلکہ امت کے فقہاء کرام، مجتہدین عظام ،ارباب حل وعقد اور اس میدان کے ماہرین کی رائے اور ان کی سمجھ لحاظ سے حسن وعیب کی تعیین ہوگی۔ بہرحال ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم حُسن کو حُسن جانیں اورعیب کو عیب ،ا س سلسلے میں ماہرین اسلام کی بات تسلیم کی جائے۔فقط

Comments are closed.