پوار پریوار: گول مال ہے بھائی سب گول مال ہے

ڈاکٹر سلیم خان
این سی پی کے چچا بھتیجے کی جنگ تصفیہ کی غرض سے الیکشن کمیشن کے سامنے ہے۔ دونوں فریقوں نے اپنا جواب داخل کردیا ہے اور لوگ سانس روک کر فیصلے کا انتظار کررہے ہیں ۔ اس پارٹی کا انتخابی نشان ایک ایسی گھڑی ہے جو دس بج کر دس منٹ پر رکی ہوئی ہے اور اسی میں عافیت ہے ۔ اس گھڑی کے دو کانٹے شرد پوار اور اجیت پوار ہیں ۔ ان میں سے ایک اپنی کبرسنی کی وجہ سے چوبیس گھنٹے میں ایک چکر پورا کرپاتا ہےاور دوسرا تیز طرار کا نٹا ایک گھنٹے کے اندر گھوم پھر کر وہیں آجاتا ہے جہاں سے چلا تھا لیکن ان لوگوں کی یہ گردش پارٹی کی گھڑی پر ظاہر نہیں ہوتی اندر ہی اندر چلتی ر ہتی ہے۔ رفتار سے قطع نظر دونوں کانٹوں کا طواف ااقتدار کے ارد گرد جاری رہتا ہے۔ امسال جولائی تک دونوں چاچا بھتیجے کلاک وائز گھوم رہے تھے مگر پھر اچانک بھتیجے نے اپنی سمت بدل کر اینٹی کلاک وائز گھومنا شروع کردیا ۔ اس وقت چاچا کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے خوب کھری کھوٹی سنائی ۔ 20 جولائی کو شرد پوار نے اپنے بھتیجے کو کھوٹا سکہ قرار دے کر کہا انہوں نے پارٹی کا بہت نقصان کیا ہے۔ ان کی باتیں سن کر کافی افسوس ہوا۔ پارٹی توڑنے سے قبل اجیت پوار کو بات کرنی چاہیے تھی۔
ہندوستانی سیاست میں بھیشما پتامہ کہلانے والے شرد پوار کا آخری مطالبہ نہایت نامعقول اور مضحکہ خیز تھا۔ اس لیے کہ بکرے کو ذبح کرنے سے قبل اس سے رائے مشورہ نہیں کیا جاتا ۔ این سی پی نامی بکرے کی ملکیت پر جتنا بڑا دعویٰ شرد پوارکا ہے ، اس کے اتنے ہی بڑے دعویدار اجیت پوار بھی ہیں۔2 جولائی 2023 کو این سی پی کے 8 ارکان اسمبلی کے ساتھ انہوں نے بی جے پی کی حکومت میں شمولیت اختیار کرکے وہ خود نائب وزیر اعلیٰ بنے اور سارے باغیوں کو وزیر بنوادیا ۔ اس کے تین دن بعد5 جولائی ایک خطاب عام میں اجیت پوار نے کمال احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارے ادب و احترام کو بالائے طاق رکھ کر اپنے چچا کو اتنا برا بھلا کہا کہ جس کی جرأت ان کے دشمن بھی نہیں کرسکتے ۔ مثلاً وہ بولے :’شرد پوار کی عمر ہوگئی ہے اور انہیں سیاست سے سنیاس لے لینا چاہیے ۔ ان میں اب پہلے جیساولولہ اور جوش نہیں ہے ۔ وہ پارٹی کی صحیح انداز میں قیادت نہیں کرسکتے ۔
چاچا بھتیجے کی اس نوک جھونک کے 50 دن بعد 25؍ اگست 2023 کو شرد پوار نے اپنے گڑھ بارا متی میں پینترا بدل کر فرمایا :’’ پارٹی میں کوئی پھوٹ نہیں ہوئی ۔ مہاراشٹر کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ اجیت پوار این سی پی کے رہنما بنے رہیں گے ۔ کچھ رہنماوں نے الگ سیاسی موقف اختیار کرکے این سی پی چھوڑی ہے مگر اسے ٹوٹ نہیں کہہ سکتے ‘۔ اس تبدیلی کے پیچھے اجیت پوار کی چار بار اپنے چاچا سے ملاقات کا رفرما ہے۔ پہلے وہ تنہا اپنی چاچی کی عیادت کے لیے گھر گئے ۔ اس کے بعد اپنے چاچا سے ان کے دفتر میں جاکر ملاقات کی اور آشیرواد لیا ۔ اس پر من نہیں بھرا تو سارے باغیوں کے ہمراہ ملنے پہنچ گئے اور پھر پونے شہر کے اندر وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک طرف چاچا اور دوسری جانب بھتیجا بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس قربت کی وجہ صرف ملاقات نہیں ہے۔ شرد پوار نے شیوسینا کے انجام سے سبق سیکھ لیا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ اگر وہ اجیت پوار سے بھڑ جائیں گے تو ادھو ٹھاکرے کی مانند اپنے ارکان اسمبلی ، پارٹی اور اس کے نشان سے محروم ہوجائیں گے ۔ شرد پوار کا سیاسی قد اجیت پوار کے چاچا کے خلاف محاذ کھولنے میں مانع ہے ۔ ایکناتھ شندے جس طرح ادھو ٹھاکرے کی کھلے عام مخالفت کرتے ہیں ایسا کرتے رہنا اجیت پوار کے لیے بہت مشکل ہے۔
پچھلے 40 برسوں نے چاچا اور بھتیجے نے مل کر ایک بہت بڑا ایمپائر کھڑا کرلیا ہے۔ پوار خاندان کے8 لوگوں کے نام پر20 سے زیادہ کمپنیاں چل رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ریوتی بلڈکون نامی تعمیراتی کمپنی میں شرد پوار کی زوجہ پرتِبھا پوارکے ساتھ اجیت پوار کی بیوی سونیترا اور بیٹا پارتھ حصے دار ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ٹرسٹ ایسے ہیں جن میں وہ دونوں موجود ہیں مثلاً بارامتی ودیا پرتشٹھان کے تحت 29 تعلیمی ادارے چلتے ہیں۔ شرد پوار اس کے انتظامی امور کی کمیٹی کے صدر ہیں ۔ اجیت پوار، سونیترا پوار اور سپریا سولے منیجمنٹ کمیٹی کے ارکان ہیں۔ عصرِ حاضر میں تعلیمی ادارے عوامی فلاح بہبود کے لیے نہیں بلکہ منافع خوری کی خاطر کھولے جاتے ہیں ۔ ان سے ہونے والی کمائی فی الحال شکر کارخانوں سے زیادہ ہے۔ ملک میں تعلیم کا بیوپار ہزاروں کروڈ کا کاروبار بن گیا ہے۔ بائی جو جیسا تعلیمی ادارہ ہزاروں کروڈ خرچ کرکے آئی پی ایل کو اسپانسر کرتا ہےْ۔ ایسے میں ان تعلیمی اداروں کا بنٹوارہ بھلا کون برداشت کرسکتا ہے اس لیے سارے سر پھٹول کے باوجود ان لوگوں کو مالی مفاد کا فیویکول ایک دوسرے سے چپکائے ہوے ہے۔
حزب اختلاف کئی بار اجیت پوار اور شرد پوار پر ہزاروں کروڈ کی بے نامی ملکیت کا الزام لگاتا رہا ہے ۔ بی جے پی کے بڑ بولے رہنما کریٹ سومیا نےنومبر2021 میں انکشاف کیا تھا کہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے اجیت پوار کی مہاراشٹر ، گوا اور دہلی کے اندر ایک ہزار کروڈ کا اثاثہ ضبط کیا ہے۔ اس میں ایک شکر کا کارخانہ بھی شامل ہے۔ اس کارروائی کا آغاز 184 کروڈکی غیر اعلانیہ آمدنی کے منظر عام پر آنے سے ہوا تھا۔ ویسے 2019 کے انتخاب سے قبل داخل کردہ اپنے حلف نامہ میں اجیت پوار کی ملکیت 105 ؍ کروڈ روپیوں کے علاوہ 3 گاڑیاں ،2 ٹریکر50 کروڈ کی زمین اور 13.90 لاکھ روپیوں کے زیور تھے۔ اسی طرح 2020 میں جب ایوان بالا کا انتخاب ہوا تو شرد پوار نے اپنے حلف نامہ میں 32.73 کروڈ کے اثاثے کا اعلان کیا ساتھ میں ایک کروڈ کے قرض کا بھی انکشاف کرڈالا۔ 2014 میں شردپوار نے اپنی ملکیت 32.13 کروڈ بتائی تھی یعنی 6 سالوں میں صرف 60 لاکھ کا اضافہ اور ایک کروڈ کا قرض تو ایسے میں کسی انکم ٹیکس کا تو سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پوار پریوار سے ہٹ کر پارٹی کی بات کریں تو این سی پی کا ایک گروہ ہمیشہ سے بی جے پی کے ساتھ دوستی کا خواہشمند رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہندوتوا سے محبت نہیں بلکہ بدعنوانی کے سبب جیل جانے کا خوف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2014 کے اسمبلی انتخاب کے بعد پرفل پٹیل نے بی جے پی کی باہر سے حمایت کا اعلان بھی کردیا تھا ۔ چھگن بھجبل اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ شردپوار نے بی جے پی کے ساتھ مل حکومت سازی کی بات چلائی تھی ۔ چھگن بھجبل نے انکشاف کیاکہ وہ شرد پوار ہی تھے جنہوں نے انہیں دہلی جا کربی جے پی ملاقات کرنے اور وزارتی عہدہ مانگنے کے لیے کہا تھا۔ شرد پوار نے یہ رہنمائی بھی کی تھی کہ کن مسائل پر بی جے پی سے بات کرنی چاہیے اور بتایا کہ کتنے وزراء کے عہدے مانگیں اور پوچھیں کہ کتنے ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمان کی ضرورت ہے۔ وہ 2014 سے پچھلے پانچ چھ مہینوں تک رہنمائی کرتے رہے۔
ان واقعات کو دیکھ کر امسال کتوں کے عالمی دن پرسامنے آنے والی ایک تحقیق بھی یاد آتی ہےجس کے مطابق تقریباً 20ہزار سال قبل کتا دراصل بھیڑیا تھا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسانوں کےاس سب بڑے دشمن کو کس چیز نے اس کا سب سے وفادار جانور بنادیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تقریباً 30 ہزار سال سے10 ہزار سال پہلے کے درمیان جب برف سے ڈھکی زمین کے اوپر گرمی بڑھی تو بھیڑیوں کو شکار کے لیے چھوٹے جانوروں کا ملنا مشکل ہوگیا۔ اس وقت گوشت کی تلاش کچھ بھیڑیوں کو انسانوں کی بستی میں لے آئی ۔ وہاں انہیں انسانوں کا پھینکا ہوا گوشت اور ہڈیاں ملنے لگیں۔ اس طرح یہ دشمن ایک دوسرے سے رابطے میں آگئے۔ وقت کے ساتھ اس جانی دشمن کو اس کی ایک ضرورت یا ہوس نے انسانوں کا وفادار محافظ بنا دیا ۔ اس سائنسی تحقیق کو پڑھ کر اگر کسی ذہن میں اجیت پوار کا خیال آجائے تو اس کی کوئی غلطی نہیں ہے لیکن بھیڑئیے کو جس کام کے لیے کئی ہزار سال لگے اس سفر کو ہمارے سیاستداں چند ماہ میں مکمل کرلیتے ہیں ۔ ایسی منافقانہ اور ابن الوقتی کو دیکھ کر سیدھے سادے لوگ ڈارون پر ایمان لے آتے ہیں۔ اس نے یہ اعلان کر کے ساری دنیا کو چونکا دیا ’’انسان تھا پہلے بندر ‘‘ اور بڑے بڑے نام نہاد دانشور وں نے اس احمقانہ دعویٰ پر یقین کرلیا تھا ۔ جاوید ندیم عثمانی نے اس صورتحال کو کیا خوب بیان کیا ہے؎
سُنا تم نے بھی یہ ہوگا،
کبھی انسان بندر تھا!
گُذرتے وقت نے اس کی،
ذرا ہیئت بدل دی ہے،
مگر ہیں عادتیں وہ ہی،
و ہی فطرت ابھی تک ہے
جو خود کو عقلِ کُل سمجھے،
تو وہ پیدل سواری ہے،
بجائے ڈگڈگی کو جو،
وہی اس کا مداری ہے
Comments are closed.