Baseerat Online News Portal

ساؤتھ انڈیا اور نارتھ انڈیا – ایک جائزہ

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

اگر آپ ساؤتھ انڈین مووی دیکھیں تو آپ کو پولی ٹیکل کرپشن اور انڈرورلڈ کی زبردست عکاسی ملے گی جس کو ایک سوبلٹرن ہیرو چیلنج کرتا ہوا نظر آتا ہے اور آخر میں وہ ان عناصر کا خاتمہ کردیتا ہے۔ اس طرح یہ فلمیں ایک خوشگوار نوٹ پر ختم ہوتی ہیں اور لوگ خوش خوش تھیٹر سے نکلتے ہیں۔ آج کل یہ فلمیں ہندی اور دیگر زبانوں میں ڈب ہوکر نارتھ انڈیا میں بھی مقبول ہورہی ہیں جس نے نام نہاد ہندی فلم انڈسٹری کو سخت آزمائشی حالات میں ڈال رکھا ہے۔ ساؤتھ میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ساؤتھ کے فلم اسٹار باضابطہ پوجے جاتے ہیں جبکہ نارتھ میں بڑے سے بڑے اسٹار کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے۔
میں کرپشن کے بارے میں نہیں کہہ سکتا مگر محسوس ہوتا ہے کہ بائی لیول پر ساؤتھ میں پالیٹکل کرپشن بہت زیادہ ہے۔ پالیٹکل کرپشن نارتھ انڈیا میں بہت زیادہ ہے۔ مگر جب میں بہار، یوپی،دہلی، مدھیہ پردیش اور دیگر ہندی بیلٹ سے ساؤتھ کا مقابلہ کرتا ہوں تو مجھے تین واضح چیزیں نظر آتی ہیں۔ نمبر ایک یہاں جرائم کا پرسنٹیج کم ہے، نمبر دو یہاں روڈ ایکسیڈنٹ کے واقعات کم دیکھنے کو ملتے ہیں اورنمبر تین سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بہت مذہبی ہیں اور پورے مذہبی شعار کے ساتھ جیتے ہیں۔ عورت اور مرد آپ کو ٹیکا چندن لگائے ہوئے ملیں گے۔ مندروں میں بھیڑ کافی رہتی ہے، اپنے تہوار بہت دھوم دھام سے مناتے ہیں اور اپنے کلچر کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ ساؤتھ کے اچھے گھروں میں جوائنٹ فیملی سسٹم دیکھنے کو ملتا ہے اور بڑے بزرگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہے یہا ںکے لوگ فیملی ویلوز پر پوری توجہ دیتے ہیں۔ ساؤتھ کا معاشرہ ٹریڈیشنل بھی ہے اور اس میں کھلا پن بھی ہے۔ تعلیم کا ریشیو اچھا ہے اور مرد و عورت عموماً تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ معاشرہ نارتھ کے مقابلے زیادہ خوشحال اور مالدار ہے۔ مگر ساؤتھ میں آپ کو فرقہ وارانہ منافرت خاص طور سے ہندو مسلم منافرت دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ جو اس خطے کی خاص بات ہے۔ یہاں کے لوگ مذہبی رواداری پر یقین رکھتے ہیں اور کسی کے مذہبی اور ذاتی معاملہ میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ اس علاقے میں ہندی زبان کا اثر کم ہونے کی وجہ سے وہاں جس طرح کی نفرت پروسی جارہی ہے اس سے محفوظ ہیں۔ یہاں کے لوگ ہندی فلمیں تو دیکھتے ہیں لیکن ہندی نیوز چینل خاص طور سے گودی میڈیا سے دور ہیں۔
ساؤتھ انڈیا جس میں کرناٹک، تامل ناڈو، کیرالہ، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور پوڈوچیری جیسے علاقے آتے ہیں یہاں اوبی سی آبادی 60 سے 70 فیصد ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر دلت آتے ہیں۔ اَپر کاسٹ کی آبادی 3-4فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 5 سے 10 فیصد ہے۔
ساؤتھ آکر یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر پولیٹیکل لیڈرشپ نہیں چاہے تو فرقہ وارانہ کشمکش اور فساد کا امکان زیرو فیصد ہے اور اگر کبھی کہیں مقامی طور پر کوئی مسئلہ کھڑا ہوجائے تو اسے فوراً روکا جاسکتا ہے۔ کرناٹک میں جب تک بی جے پی کی حکومت تھی وہاں روزانہ تناؤ کی خبریں آتی رہتی تھیں اور فساد کا ماحول بنا رہتا تھا، جب سے کانگریس کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور اس نے فسادی عناصر کوسخت نوٹس دے رکھی ہے ماحول شانت ہے۔
ماضی میں جو حکمرانوں کے درمیان جنگ ہوتی تھی وہ ہندومسلم جنگ نہیں تھی۔ ہند وراجہ ہندو راجہ سے اور مسلمان راجہ مسلمان راجہ سے جنگ کرتے تھے۔ انگریزوں نے جو بھارت میں دو لاکھ کی مضبوط فوج کھڑی کی تھی اس میں ہندو مسلمان سب شریک تھے۔ عوام میں لڑائی زمین جائداد کے لیے تو ہوتی تھی مگر مذہبی جھگڑے نہیں ہوتے تھے۔ آج بھی یہ جھگڑے نہیں ہوں گے اگر اس کو سیاسی پشت پناہی حاصل نہیں ہو۔ اس وقت جو ہیٹ اسپیچ ہوتی ہے یا ہتھیار بند جلوس نکلتے ہیں اور اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں یہ سب حکومت کی پشت پناہی بلکہ اشارے پر ہوتا ہے۔ کیونکہ ماحول کو فرقہ وارانہ طور پر گرم رکھنے سے حکومت کو سیاسی فائدہ ہوتا ہے اور اس کے لیے اقتدار کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔
2024 میں جو الیکشن ہونے والا ہے وہ بہت اہم ہے۔ بی جے پی کی مرکزی حکومت اقتدار میں دوبارہ واپس آنے کے لیے کوئی کور کسر نہیں چھوڑے گی۔ فرقہ وارانہ فساد اس کا ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ مسلمانوں کو اس صورتحال میں اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہے اور بہت سوچ سمجھ کر اپنے حق رائے دہندگی کا استعمال کرنا ہے۔ سیاسی جنگ سیاسی فراست سے ہی جیتی جاسکتی ہے جذباتی باتوں سے نہیں۔

Website: abuzarkamaluddin.com

Comments are closed.