Baseerat Online News Portal

ظریفانہ: مودی ، بھاگوت  اور سونک

 

ڈاکٹر سلیم خان

کلن ترنگی  نے للن  بجرنگی سے پوچھا بھیا کل کہاں مر گئے تھے ۔ کئی بار فون لگایا ، میسیج کیا تنگ آکر گھر بھی گیا مگر مایوسی ہی مایوسی ہاتھ آئی۔

 للن بولا بھائی کل ایک بہت بڑے آدمی سے  ہماری ملاقات ہوئی ۔ اس دوران میں نے  فون  بند کیا تو پھر کھولنا ہی بھول گیا ۔

اچھا ایسا کون سا بڑا آدمی تھا بھیا۔  کہیں پردھان جی نے تو سمئے نہیں دے دیا تھا؟

پردھان جی! ان کے پاس ہم جیسوں  غریبوں کے لیے بلڈوزر تو ہے سمئے نہیں ہے۔

تم جیسوں کے لیے نہیں تو کس کے لیے ہے؟ تمہیں لوگوں کی  بدولت  تو وہ  پردھان بنے ہوئے ہیں؟

ایسا تم کو لگتا ہے مگر ان کو نہیں لگتا ۔

اچھا تو انہیں کیا لگتا ہے؟

پردھان جی کو لگتا ہے کہ وہ ہم سے بے نیاز ہیں ۔ سنا ہے  وہ خود لو انسان نہیں  بھگوان سمجھتے  ہیں۔

یار یہ تو بہت بڑا پاگل پن ہے؟

جی ہاں مگر کیا کریں ہمارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔

گھبراو نہیں ہم لوگ تیاری کررہے ہیں ۔ اگلے سال ان کا دماغ درست کردیا جائے گا۔

ارے جب وہ ہم سے نہیں ملتے تو تم سے کیسے ملیں گے؟

ہم کہاں  ان سے ملنا  چاہتے ہیں؟

اچھا تو علاج کیسے کروگے؟

ہم نے اس کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے ۔ ریموٹ کنٹرول سے علاج ہو گا۔ 

ریموٹ کنٹرول! ایسا کون سا ریموٹ کنٹرول تمہیں مل گیا ہے جو بادلوں چیر کر ان تک پہنچ جائے ؟ ہمیں بھی تو بتاو ؟؟

ارے بھیا اس ریموٹ کنٹرول کا نام الیکشن  ہے۔ اس بار جنتا نے سوچ لیا ہے۔ اب کی بار مار ہی مار۔

اچھا تو کیا تم ہمیں چیلنج کررہے ہو؟ اگر ایسا ہے تو ہم بھی ہیں تیار۔

خیر وہ تو  ٹھیک ہے یہ بتاو کہ تمہاری  جس مہان آدمی سے ملاقات ہوئی   وہ  موہن بھاگوت تو نہیں  تھے ؟

ارے لعنت بھیجو ۔  میں نےتو اب  موہن بھاگوت کا بیان پڑھنا  ہی بند کردیا ہے ۔

کیوں ؟ اس بیچارے بزرگ نے ایسا کیا کردیا جو تم اس قدر بیزار ہوگئے؟

کیا کردیا ؟ یہ پوچھو کہ کیا نہیں کیا ۔ مجھے تو لگتا ہے ان پر بڑھاپا غالب آگیا ہے؟

وہ تو ایک فطری کیفیت ہے ۔ ہم لوگ اگر جیتے رہے تو ہماری بھی یہی حالت ہوجائےگی ۔

ہاں مگر اس وقت ہم متضاد بیانات دے دے کر لوگوں کو  کنفیوز تو نہیں کریں گے ۔ اپنے گھر میں چپ چاپ بیٹھ رہیں گے ۔

لیکن بھیا اتنے  بڑے سنگھ پریوار کا سربراہ کیسے خاموش رہ سکتا ہے؟

ٹھیک ہے ،  سرسنگھ چالک کا بولنا اگر ضروری ہے تو کسی ایسے آدمی کو عہدہ سونپ کر کنارے ہوجائیں جسےیاد رہتا ہو کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا ؟

یار کیسی بات کرتے ہو۔ آج کے زمانے میں جو سیکیورٹی اور ٹھاٹ باٹ ملی ہوئی ہے وہ کیسے چھوٹے گی ؟

دیکھو اگر اگلے سال تمہارے ارمان پورے ہوگئے تو سب چھن جائے گا لیکن اس سے پہلے خود تیاگ دیں تو نام بھی ہوجائے گا ۔

اوہو للن آج کل عیش و آرام کے سامنے نام کا کیا کام؟ تم بھی کس دنیا میں رہتے ہو؟

ارے بھائی مجھے تو ان  کےعیش و آرام سے زیادہ فکر اپنے چین و سکون کی ہے؟

کیوں انہوں نے تمہارا چین کیسے غارت کردیا؟

ارے بھائی وہ کبھی ریزرویشن کی مخالفت کرتے ہیں کبھی حمایت؟ کبھی سب کو ہندو کہتے ہیں کبھی نہیں۔

ارے بھیا چلتا ہے ایسی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا کرتے ایک کان سے سنو  اوردوسرے سے نکال دو۔

کیسے نکال دیں ۔ مشکل سے دلتوں کو سمجھایا کہ مسلمان بادشاہ ظالم تھے تواٹھاکر کہہ دیا دوہزار سال بھید بھاو ہورہا  ہے ۔ اس وقت مسلمان کہاں تھے؟

ہاں یار وہ تو ہے لیکن تم نے ہنوز یہ نہیں بتایا کہ کل سے ملاقات ہوئی  ؟

بھیا ہم لوگوں کی ملاقات رشی بھیا  سے ہوگئی ۔ کیا سمجھے؟

کون رشی  وہ اپنے مندر کا پجاری ؟

نہیں بھائی تم نے کس پھکڑ کا نام  لے کر موڈ خراب کردیا ہم لوگ تو عظیم  برطانیہ کے  مہان پردھان منتری   رشی سونک سے مل آئے ۔

کیا بات کرتے ہو ؟ بہت بڑی اسامی پھنسا لی ۔ مجھے بھی ساتھ لے چلتے ’ایسا موقع پھر کہاں ملے گا‘؟

ہاں یار میں تو چاہتا تھا کہ تم کو بلاوں مگر سب اچانک ہوگیا اور ہمارے پرچارک نے منع بھی  کردیا۔

کیوں ان کو مجھ سے کیا پرخاش ہے ؟

کہنے لگے  اگر رشی سونک نے دھتکار دیا تو تم اس کی ویڈیو بناکر پھیلا دوگے۔

اچھا ایسا کہا ؟ میں انہیں بعد میں  دیکھوں گا۔ پہلے یہ بتاو کہ  رشی  تمہارے ہتھے کیسے چڑھ گئے ؟

جی ٹوینٹی والے دن لاک ڈاون  تھا تو ہم لوگ اپنے پرچارک کے ساتھ قریب کے بڑے  سوامی نارائن مندر میں  چلے گئے۔

ارے بھیا میں تمہارے بارے میں  نہیں رشی سونک کے بارے میں پوچھ رہا تھا ۔

ہاں ہاں وہی تو بتا رہا ہوں۔ وہاں پر رشی سونک بھی ٹائم پاس کرنے کے لیے آگئے کیونکہ  پردھان سیوک کے پاس ان کے لیے وقت نہیں تھا۔

اچھا لیکن ان کے حفاظتی دستے نے اجازت کیسے دے دی؟

ارے بھیا وہ تو روک رہے  تھے مگر خود رشی سونک نے  ہمیں اپنے پاس بلوا لیا توحفاظتی دستے  بے بس ہوگئےَ۔

اچھا اتنے بڑے آدمی نے تمہیں بلایا یار یہ تو کمال ہوگیا ۔

اور نہیں تو کیا ۔ اسی لیے تو وہ بڑا بنا ہے  ورنہ ایک ہمارےپردھان ہیں ۔ کسی ہندوستانی کو منہ ہی نہیں لگاتے بس باہر والوں کے گلے پڑتے رہتے ہیں۔

ہاں یار وہ محمد بن سلمان سے ایسی لجاجت سےمل رہے تھے کہ مجھے بھی شرم آگئی ْ۔ مودی کی اگر اولاد ہوتی تو وہ بھی  سعودی ولیعہد سے بڑی ہوتی۔

جی ہاں مگر ہمارے پردھان نے ایک ہندو وزیر اعظم کو نظر انداز کیا اس کا ہمیں افسوس تھا مگر رشی  نے ہمیں اپنی  مہمان نوازی کا موقع دے دیا۔

اچھا تو تم لوگوں نے ان کی خاطر داری کیسے کی؟

یار ہم لوگ اس کے لیے تیار نہیں تھے تو کیا کرتے ؟  ہمارے پرچارک نے اپنے جھولے سے ساورکر کی کتاب ہندو توا ان کو تحفے میں دے دی ۔

اچھا تو انہوں نے کیا کیا؟

وہ کیا کرتے؟ انہوں نے شکریہ کے ساتھ  تحفہ قبول کیا اور کہا کہ وہ  اسے ضرور پڑھیں گے ۔ انہیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔

 یار یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔برطانیہ کا وزیر اعظم بھلا کتابیں پڑھنے کے لیے کہاں سے وقت نکالے گا؟

کہاں سے کیا مطلب؟ وقت کہیں بنک سے نکالا جاتا ہے؟  انسان جو کام کرنا چاہتا ہے اس کے لیے کام کے درمیان وقت نکال ہی لیتا ہے۔

اچھا تو کیا تمہیں لگتا ہے کہ رشی سونک اس کتاب کو پڑھے گا ؟

جی ہاں اس نے میر ا نمبر لے کر اپنا نمبر بھی دیا ہے۔ میں ایک آدھ ہفتہ بعد واٹس ایپ پر یاددہانی کراوں گا اور کتاب پرتاثرات  کی گزارش بھی  کروں گا۔

چلو! خدا کرے وہ تمہارا واٹس ایپ دیکھے اور اس کا جواب دے ، مجھے تو امید کم ہے۔

تم جیسے لوگ قنوطیت کا شکار رہتے ہو ارے یہ دیکھو کس کا فون آرہا ہے؟

کلن نے دیکھا تو اسکرین پر رشی سونک کا نام تھا وہ بولا اسپیکر چالو کردو  اور اپنے فون سے بات چیت کی شوٹنگ کرنے لگا۔

للن اسپیکر شروع کرکے فون پر کہا پرنام مہودئے آپ نے اس بندے کو یاد کیا۔  یہ آپ  کی ذرہ نوازی ہے۔

سامنے سے آواز آئی اچھا تو کل آپ ہی نے مجھے ہندوتوا نامی کتاب دی تھی نا؟

للن بولا جی ہاں جی ہاں کہیں کھو گئی کیا؟ میں دوسرا نسخہ پہنچا دوں گا ۔

سونک نے جواب دیا نہیں نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ میں  تو پہلے نسخے  کو واپس کرنے کے لیے فون کررہا ہوں ۔ 

کیوں سر ۔ وہ آپ کے لیے ہے۔ آپ اسے اپنے ساتھ لے جائیں اور لائبریری میں سجائیں ۔ ہمیں بہت خوشی ہوگی ،آپ اکیلے ودیشی  ہندو شاسک ہیں ۔

اچھا تو کیا تم لوگ نیپالی حکمرانوں کو ہندو نہیں سمجھتے ۔ وہ چین کے ساتھ ہیں تو کیا ہوا ؟ ہیں تو ہندو ہی نا؟؟

ہم تو نیپال کو ہندوستاَن کا حصہ سمجھتے ہیں ، مگر وہ جی ٹوینٹی میں نہیں نا ہیں؟ وہاں تو صرف آپ ہی آپ ہیں؟

وہ تو ٹھیک ہے مگر اس کتاب کونہ  میں اپنے ساتھ لے جاسکتا ہوں اورنہ اپنےپا س رکھ سکتا ہوں ۔

کیوں سر آپ نے اپنے مسلم رائے دہندگان  کی ناراضی کے خوف  سے یہ فیصلہ تو نہیں کردیا ؟

کیا بکواس کرتے ہو ؟ ان کو اس سے کیا غرض کہ میں کیا پڑھتا ہوں اور کیا رکھتا ہوں ؟؟

للن روہانسا ہوکر کہا اچھا تو پھر کیا مشکل ہے سر؟

رشی سونک نے جواب دیا ۔ میں نے رات یہ کتاب پڑھی اور میرے ہوش اڑ گئے ۔

کیوں سر اس میں ایسی کیا بات ہے؟ یہ تو ہندوتوا کی بائیبل ہے۔

جو بھی اس میں لکھا ہے کہ اگر کسی شہری کی آستھا(عقیدت ) کا مقام  دوسرے ملک میں ہو تو  وہ کبھی بھی اپنے ملک کا وفادار نہیں ہوسکتا ۔

جی ہاں سر ہمارا سنگھ تو یہی مانتا ہے۔ اس لیے ہم سارے مسلمانوں اور عیسائیوں کو غدارِ وطن  سمجھتے ہیں ۔

سونک نے کہااور ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہتے ہیں ؟ ٹھیک؟؟

جی ہاں سر اگلے سال  الیکشن کے بعد جب یہ دیش ہندو راشٹر بن جائے گا تو یہی ہوگا ۔

بہت خوب لیکن اگر انگریزوں نے اسی اصول کو اپنا لیا تو میرا کیا ہوگا؟

آپ کا؟ آپ تو برطانیہ کے وزیر اعظم ہیں ۔ وہاں کوئی آپ کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟؟

ہاں مگر میری آستھا تو ہندوستان میں ہے۔ ان لوگوں نے مجھے بھی دوسرے درجہ کا شہری بنا دیا تو میں وزیر اعظم تو دور شہری بھی نہیں رہوں گا ۔

یہ سن کر للن کا دماغ گھوم گیا۔ وہ بولا لیکن سر  آپ اپنا عہدہ بچانے کے لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی آستھا ہندوستان کے بجائے برطانیہ سے ہے۔

ایسا جھوٹ بولنے کے بجائے میں کیوں نہ ہندوتوا کا انکار کردوں ۔ مجھے اپنی آستھا عزیز ہے اور میری عقیدت مجھ کو ملک کا غدار نہیں بناتی ۔

جی ہاں سر آپ نے درست فرمایا ۔ آپ کی بات صحیح ہے۔

میری بات صحیح ہے تو یہ کتاب اور اس کا نظریہ غلط ہے۔ اس لیے آپ اسے میرے پاس سے لے جائیے ورنہ میں اس کو نذرِ آتش کردوں گا۔

للن بولا ٹھیک ہے سر آپ اس کو جلاڈالیے کیوں کہ میں بھی آپ سے لے کر اس کے ساتھ یہی کروں گا ۔

رشی سونک نے کہا اچھا تو میں تمہاری اجازت سے اسے جلا رہا ہوں ۔ اس کے ساتھ فون بند ہوگیا۔

کلن نے پوچھا یار للن تم  نے اس کتاب کو جلانے کی بات کیوں کہی؟

للن بولا یار ہندوستانی مذہب کو پیروکاراور اس ملک سے عقیدت رکھنے والا رشی سونک اگر اپنے ملک کا وفادار ہے تو اس ملک کا مسلمان  غدار کیسے ہوگیا؟  

کلن نے کہا یارللن میں برسوں کی لاکھ کوشش کے باوجود تمہیں جو بات نہیں سمجھا سکا وہ   کام رشی سونک نے پانچ منٹ کی کال میں کردیا ۔

یار اسی لیے تو انگریزوں نے اس کو وزیر اعظم بنایا ہے۔ سنگھ  پریوار اور پردھان  نے ہماری  آنکھوں پر جو پٹی باندھی تھی رشی سونک  نےاسے  کھول دیا۔

 

 

 

 

 

 

Comments are closed.