Baseerat Online News Portal

داستان سقوط حیدر آباد

 

•حیدرآباد اے فِگارِ گل بَدَاْمَاْں اَلسَّلام
•حیدرآباد اے فِگارِ گل بَدَاْمَاْں اَلسَّلام•

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
09422724040

✦ سلطنتِ آصف جاہی کا شاندار دور
✦ سقوطِ حیدرآباد کے مُحَرّکات
✦ ظلم و جبر کی داستان
✦ سقوط کے اسباب اور وجوہات
✦ قاسم رضوی کا رول
✦ سندر لال و دیگر کمیشن کے حقائق
✦ اِنْضِمام، اِلْحاق یا آزادی، حقیقت کیا؟
پھر جب وہ ہنگامۂ عظیم برپا ہوگا، جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا، اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی، تو جس نے سرکشی کی تھی، اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی، دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔
(سورۃ النازعات: 34 تا 39)
آج اُمّتِ مسلمہ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ اُمّت کے بجائے ایک منتشر ہجوم نظر آتی ہے، ہر کوئی اپنے اپنے بہلانے والے کھلونوں میں مست نظر آرہا ہے۔ شاید اُمّتِ مسلمہ کی فکری، علمی، معاشی، تہذیبی و ثقافتی تَنَزُّلی کی کسے بھی پرواہ نہیں؟ گذشتہ ایام میں بحثیت اُمّت ہم نے کیا کھویا کیا پایا اس کا جائزہ لینے کی حس و حرکت بہت حد تک ماؤف نظر آتی ہے۔ ہمیں اپنے درد و الم کو زندہ رکھنا ہوگا، انہیں میں سے ہمیں ایک نیا لائحہ عمل طئے کرنے کی راہیں ہموار ہونگی۔
انہیں پر آشوب اور کربناک ادوار میں سے ایک دور مسلمانان دکن پر گذرا ہے، جسے زوالِ حیدرآباد کی شکل میں دنیا یاد رکھے گی۔ ہندوستان اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد خطے کی تین بڑی ریاستوں کشمیر، ریاست حیدر آباد اور ریاست جونا گڑھ کا مستقبل غیر واضح تھا۔ ان تینوں ریاستوں نے استصواب رائے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا تھا مگر ہندوستان اور پاکستان ان کو اپنے ساتھ ملانے کی خواہش رکھتے تھے۔ سقوطِ حیدرآباد عملاً ایک مذہبی، سیاسی و سماجی تہذیب اور زبان کا زوال بنا ہے۔ آصف جاہی سلطنت کے ساتویں فرمانروا میر عثمان علی نے 37؍ سال ریاست حیدرآباد پر حکومت کی اور وہ اپنے وقت میں دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے تھے۔

✦ سلطنتِ آصف جاہی کا شاندار دور:
1923ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اگرچیکہ اسلامی مملکتیں جو باقی تھیں سعودی عرب’ افغانستان و ایران وغیرہ پر مشتمل تھیں۔ لیکن خوشحالی و شان و شوکت کے لحاظ سے ریاستِ حیدرآباد کو جو بین الاقامی مقام تھا اس کا ذکر آج بھی انگریز مصنفین کی تصانیف میں موجود ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حد تک سہارا دیا۔
مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے خرچ بھی ریاستِ حیدرآباد نے اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ حرمین و شرفین میں روشنی کا انتظام آصف سابع نے اپنے محل سے پہلے کیا تھا۔ اس عظیم مقصد کے لیے "مدینہ بلڈنگ” کے نام سے شان دار عمارتیں جو آج بھی باقی ہیں مکہ اور مدینہ کے لیے وقف تھیں، جن کے کرایے مکہ اور مدینہ کو بھیجے جاتے تھے۔ اس کے علاؤہ حاجیوں کو رہنے کے لیے رباط کے نام سے نظام نے مکہ اور مدینہ میں حرمین سے قریب عمارتیں بنوا دی تھیں۔ آج سے تقریباً سو سال قبل نظام حیدرآباد عثمان علی خاں مرحوم نے جزیرہ نما عرب کے ابتر حالات سن کر سینکڑوں عربوں کو حیدرآباد میں بس جانے کیلئے مدعو کیا تھا۔ حجاز ریلوے انھی کی مالی اعانت سے تعمیر کی گئی۔ وہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد آخری خلیفہ عبدالحمید کو تاحیات وظیفہ دیتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ 1931ء میں انھوں نے اپنے ولی عہد شہزادہ اعظم جاہ کی شادی خلیفہ عبدالحمید کی صاحبزادی عثمانی شہزادی درِ شہوار سے کروائی۔
1965ء میں انڈیا کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے حیدرآباد کا دورہ کیا تو انھوں نے پڑوسی ممالک سے امکانی خطرات سے نمٹنے کے لئے قومی دفاع کے فنڈ میں میر عثمان علی خان سے دل کھول کر عطیہ دینے کی گزارش کی۔ اس فنڈ میں میر عثمان علی خان نے 5؍ ہزار کلو سونا عطیہ کیا جو آج کے اعتبار سے 24؍ ارب، 51؍ کروڑ 50؍ لاکھ روپے ہوتا ہے۔ اردو روزنامہ سیاست کے کالم نگار 10؍ ستمبر 2014ء کے شمارے میں لکھتے ہیں، 17؍ ستمبر کو یوم آزادی منانے کی باتیں کرنے والے فرقہ پرست یہ نہیں بتا سکتے کہ کبھی ان کے کسی لیڈر نے ہندوستان کے لیے ایسا گرا نقدر عطیہ دیا ہے ۔
اس ترقی یافتہ ریاست (حیدرآباد) کے ابھرے ہوئے فلاحی و رفاہی خدمات میں 1856ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام تھا، جس کی وجہ سے اس دور میں حیدرآباد میں تعلیم یافتہ متوسط طبقے کو فروغ حاصل ہوا۔ عثمان علی خاں کے دور میں 1911ء میں تعمیر ہونے والا سب سے بڑا عثمانیہ جنرل ہسپتال جو جدید طبی مرکز ہونے کے ساتھ فنِ تعمیر کا بھی نمونہ تھا۔ مواصلاتی نظام جیسے کئی ایک ادارے وجود میں لائے گئے۔ سماجی اصلاحات اور ذمہ دارانہ حکومت کے لیے متعدد کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔
نظام کو تعلیم سے خاص دلچسپی تھی۔ وہ اپنے بجٹ کا 11؍ فیصد تعلیم پر خرچ کیا کرتے تھے۔ ریاست نے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام سے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے علاوہ ندوۃ العلما اور پشاور کے اسلامیہ کالج جیسے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
حیدرآباد کی اپنی کرنسی، یونانی دواخانہ، چارمینار، ٹیلی گراف، فون، ڈاک کا نظام، الکٹریسٹی، ہوائی اڈے، ریلوے لائنیں، تعلیمی ادارے، اسٹیٹ سنٹرل لائبریری، جوبلی ہال، نظام ساگر، ناگرجنا ساگر ڈیم، علی ساگر، اسمبلی کی موجودہ عمارت، نئی دہلی میں حیدرآباد ہاؤس کی تعمیر، نظام شوگر فیکٹری اور ہسپتال تھے۔ یتیموں اور یسیروں کی مدد کے لئے وکٹوریہ میموریل ہوم کا قیام عمل لایا گیا۔ موجودہ دور میں بھی اس وقت کے تعمیری کاموں سے لوگ آج بھی استفادہ کر رہے ہیں۔
آبائی باشندگان مختلف زبانوں کا استعمال کرتے تھے، ایک بڑا علاقہ تیلگو زبان کا حامل تھا تو دوسرا کنڑ بولتا تھا جب کہ ایک علاقے میں مراٹھی بولنے والے تھے اور ان سب کو اردو زبان جوڑتی تھی جسے 19؍ ویں صدی کے آواخر میں ریاست کی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔
حیدرآباد دکن کوئی چھوٹی موٹی ریاست نہیں تھی۔ 1941ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی ایک کروڑ 60؍ لاکھ سے زائد اور اس کا رقبہ دو لاکھ 14؍ ہزار مربع کلومیٹر تھا، یعنی آبادی اور رقبے دونوں لحاظ سے برطانیہ، ترکی یا اٹلی سے بڑی۔ ریاست کی آمدن اس وقت کے نو کروڑ روپے تھی جو اقوامِ متحدہ کے 20؍ سے زائد ملکوں سے زیادہ تھی۔
ریاستِ حیدرآباد جس کی تاریخ 13؍ ویں صدی کے آخر میں علاؤالدین خلجی کی آمد سے شروع ہو کر بہمنی’ شاہی اور آصف جاہی دور تک بیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہے۔ حیدرآباد دکن پر مسلمانوں کی حکومت کا آغاز دہلی کے سلطان علاؤالدین خلجی کے دور میں ہوا تھا۔ کچھ عرصے تو یہاں کے مقامی صوبے دار دہلی کے ماتحت رہے لیکن 1347ء میں انھوں نے بغاوت کرکے بہمنی سلطنت کی داغ بیل ڈال دی۔
دکن کے آخری حکمران میر عثمان کا تعلق آصف جاہی خانوادے سے تھا جس کی داغ بیل دکن کے صوبے دار آصف جاہ نے 1724ء میں اس وقت ڈالی تھی جب 1707ء میں اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد مغل بادشاہوں کی گرفت ملک کے مختلف صوبوں پر ڈھیلی پڑ گئی تھی۔
اردو کی اہم ترین لغات میں سے ایک "فرہنگِ آصفیہ” سلطنت حیدرآباد کی سرپرستی سے لکھی گئی۔ ریاست نے جن علما کی سرپرستی کی ان میں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ، قرآن کے مشہور مترجم مارماڈیوک پکتھال اور محمد حمیداللّٰہ جیسے علما شامل ہیں۔ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ اور پہلے نثر نگار ملا وجہی پیدا ہوئے، دکن کے سب سے مشہور اردو شاعر ولی دکنی، میر تقی میر، مرزا سودا، میر درد، میر حسن، مصحفی، شاہ حاتم، مرزا مظہر، سراج اورنگ آبادی، داغ دہلوی، امیر مینائی اور قائم چاندپوری جیسے درجنوں شعراء کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔
قمر الدین علی خان دکن کے صوبہ دار کی حیثیت سے دکن میں آصف جاہی خاندانِ نظام کی بنیاد رکھی جس وقت 1748ء میں ان کا انتقال ہوا اس وقت ریاستِ حیدرآباد نربدا سے ترچنا پلی تک اور کوکن سے مدراس تک پھیلی ہوئی تھی۔ دکن میں مسلمانوں نے قریب سات سو سال شان و شوکت اور جاہ و جلال سے حکومت کی۔ سیاسی، تعلیمی، تجارتی، صنعتی، زرعی، فلاحی، اعلیٰ عدالتی غرض ہر شعبے میں وہ ترقی ہوئی کہ حیدرآباد ہندوستان کی مثال اور ترقی یافتہ مملکت بنی۔ ایسی مضبوط ریاست کا صرف پانچ دن کی فوجی کارروائی میں خاتمہ ہونا حیرت ناک ہی نہیں عبرتناک بھی ہے۔

✦ سقوطِ حیدرآباد کے مُحَرّکات:
سقوطِ حیدرآباد پر قلم کو حرکت میں لانے کی ایک اہم وجہ ہمارے آبا و اجداد سے سنے ہوئے کربناک ظلم و جبر کی داستان ہے۔ ایک سیاسی معاملہ کو بہانا بناکر کیسے لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور اس پر زخم چھڑکنے کے لئے مختلف ناموں سے ایام و دیوس منا کر مذہبی منافرت کو آج بھی ہوا دی جارہی ہے۔ بے گناہ و مظلوم مسلمانوں کے قتل عام پر خوشی منانے والوں ہمیں سلطنت آصف جاہی اور قاسم رضوی سے کوئی سروکار نہیں، کیونکہ ان کے لئے یہ معاملہ اقتدار و سیاست اور تعصب کی جنگ کا ہوگا۔ ہمارے لئے یہ معاملہ مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کا ہے۔ سلطنتِ آصف جاہی کے زوال کے بعد جس ظلم و جبر کے پہاڑ کو رواں رکھا گیا، اس کے اثرات آج بھی باقی ہیں۔
ایک طویل عرصہ کی غفلت، ناعاقبت اندیشی اور بے شعوری کے نتیجے میں 17؍ ستمبر 1948ء کو آصف جاہی سلطنت کا اختتام ہوا اور پھر حیدرآباد دکن کا "آپریشن پولو” کے ذریعے انڈین یونین میں اِنْضِمام عمل میں لایا گیا۔ یہی 17؍ ستمبر اپنی خوفناک یادوں کے ساتھ ایک بار پھر آ رہا ہے۔ اس تاریخ کو کئی سال گزر گئے ہیں، مسلمانوں نے شاید اس کرب و بلا کو محسوس کرنا چھوڑ دیا ہے مگر کچھ شرپسندوں نے مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے سے پریشان کرنے کا شیوہ جاری رکھا ہے۔
اس روز حیدرآباد (دکن) کی ​​ریاست، جس پر اس کے آخری نظام میر عثمان علی خان کا اقتدار تھا، 13؍ ستمبر کو 4.30 بجے حیدرآباد کی 22؍ سمتوں سے انڈین یونین کی فوج "آپریشن پولو” کے نام سے داخل ہوئی۔ انڈین یونین نے جنوبی کمان کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ای این گوڈارڈ کی سربراہی میں حیدرآباد کے خلاف مختلف اطراف سے محاذ کھول دیے۔ جب کہ شولا پور، وجے واڑہ اور ناگپور کی جانب سے سخت ترین حملے کئے گئے۔ حالانکہ ان حملوں کو عالمی سطح کی رسوائی سے بچنے کے لئے پولس ایکشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں بمبئی کے ایک صحافی ڈی ایف کاراکا نے 1955ء میں لکھا تھا کہ ‘یہ کیسی پولیس کارروائی تھی جس میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، تین میجر جنرل اور ایک مکمل آرمرڈ ڈویژن ملوث تھے؟
"آپریشن پولو” کا نام بھی نظام کے خاندان کی تذلیل و رسوائی کے لیے طئے کیا گیا تھا۔ آصف جاہی اُمرأ و شاہزادے پولو کھیل کے شوقین و ماہر تھے۔ اس کھیل کے لئے بڑی بڑی رقمیں وہ شرطوں و جوؤں پر لگاتے تھے۔
فوجی ایکشن جس کا مقصد آصف جاہی سلطنت کو ختم کرکے ریاست حیدرآباد کو "انڈین یونین” میں شامل کرنا تھا۔ ریاستہائے حیدرآباد 1948ء میں 16؍ اضلاع پر مشتمل تھی (8؍ آندھرا پردیش و تلنگانہ میں، 5؍ مہاراشٹر میں اور 3؍ کرناٹک میں)۔ یہ برطانوی ہندوستان کی سب سے بڑی شاہی ریاست تھی جس کی آبادی تقریباً 16؍ ملین تھی۔ حیدرآباد کی حکومت کا فوجی کارروائی کے ذریعے انڈین یونین سے اِلْحاق کر لیا گیا تھا۔
"آپریشن پولو” اور اس کے بعد پیش آئے واقعات کے دوران حیدرآباد میں کشت و خون کا بازار گرم ہوا، واضح رہے کہ پانچ روزہ فوجی کارروائی میں لاکھوں مسلمانوں کو اپنی جانیں پیش کرنا پڑی۔ دیہی علاقوں میں دیر تک فسادات کا بازار گرم رہا، جس کی مکمل تفصیلات آج بھی صیغۂ راز میں ہیں۔

✦ ظلم و جبر کی داستان:
17؍ اور 18؍ ستمبر 1948ء کی شب شرپسندوں کی عید کی رات تھی، دہشت کی ایک خوفناک لہر شروع ہوئی۔ مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی، جہاں کوئی مسلمان نظر آتا ختم کر دیا جاتا۔ شرپسندوں و مذہبی منافرت پیدا کرنے والے نظامِ باطل کے کارندوں نے فوجیوں کو ایک ایک مسلمانوں کے گھر اور مال کی نشان دہی کروائی۔ مسلمانوں کو جی بھر کر لوٹا گیا۔ مسلمان عورتوں کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی۔ لاکھوں بچوں کو یتیم کیا گیا۔
آج بھی حیدرآباد کے لوگ اس مہینہ کو ظلم کے حوالے سے ستمبر کو "ستم کا مہینہ” کہتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ موسیٰ ندی میں اتنی لاشیں پھینکیں گئیں کہ اس کا پانی سرخ ہو گیا۔ کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا جس کی تفصیل سروجنی نائیڈو اور مہاتما گاندھی کے نواسے جیسے ایماندار کانگریسیوں نے بیان کی ہے، ان کی حقیقت پر مبنی رپورٹیں آج بھی منوں بھر فائلوں کے نیچے پڑی ہونگی۔ قتل عام، عورتوں کی عصمت ریزیاں، زمینوں پر ناجائز قبضے، خانہ تلاشی کے نام پر لوٹ مار، آتشزنی، غارت گری کا بازار 17؍ ستمبر کے بعد بھی گرم رکھا گیا۔ ان پر آشوب دور کا ذکر کرتے ہوئے والد محترم کے ماموں جان (ہمارے دادا) نے مجھے بتایا کہ اس وقت شاید ہی کوئی ایسا درخت بچا ہوگا جس پر مسلمانوں کی لاش کو لٹکایا نہ گیا ہوگا، بڑی تعداد میں کنوؤں کو مسلمانوں کی لاشوں سے بھر دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سقوطِ حیدرآباد کے بعد صوبۂ دکن کے مسلمانوں کا ذہنی و فکری انتشار آج بھی کہیں نہ کہیں انہیں بے بس کر دیتا ہے۔
مسلمانوں پر ناقابلِ بیان ظلم و استہزاء کے پہاڑ توڑے گئے، وہ علاقے جہاں مسلمان آبادی کے لحاظ سے اکثریت میں تھے، وہاں مسلمانوں کو سوچی سمجھی سازش، منصوبے اور عملی اقدامات کے تحت جان و مال کا نقصان پہنچایا گیا۔ خصوصاً عثمان آباد، گلبرگہ، بیدر، پربھنی، ناندیڑ، بیڑ، اورنگ آباد اور جالنہ جیسے اضلاع میں مسلم آبادی کو مٹانے کے دانستہ اقدامات کیے گئے۔
ہندوستانی جریدہ ’’انڈیاٹوڈے‘‘ نے اعتراف کیا کہ یہ ظلم زیادہ تر مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ جریدہ لکھتا ہے کہ بھارتی حکومت نے اس دوران اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ محقق پانڈو رنگا ریڈی کے مطابق زیادہ تر لوٹ مار مسلمان تاجروں کی ہوئی، بعد ازاں انھیں قتل کر دیا گیا۔

✦ قاسم رضوی کا رول
ملیٹری ایکشن کے پیچھے ایک بڑی وجہ سیاسی تنظیم مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ قاسم رضوی جس کی جذباتی و سحر آمیز تقاریر کے لوگ اسیر تھے اور نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِن چیف سیّد احمد العیدروس کو بھی سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے اشتراکیت (کمیونسٹ) بغاوت کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی نظر رکھنے کے لیے رضاکار ملیشیا بنائی۔
6؍ اپریل 1948ء کو ہندوستان ٹائمز میں ایک فتنہ انگیز خبر شائع ہوئی کہ قاسم رضوی نے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کا عزم کیا ہے۔ اتحاد المسلمین نے تردید کی کہ اس قسم کی تقریر سرے سے ہوئی ہی نہیں لیکن تیر نکل چکا تھا جو اپنا کام کر گیا اور جواہر لعل نہرو کو پولیس ایکشن کا جواز مل گیا۔ 24؍ اپریل کو انہوں نے آل انڈیا کانگریس اجلاس میں انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ حیدرآباد ہندوستان کے سینے پر ایک ناسور ہے اور الٹی میٹم دیا کہ اِلْحاق یا جنگ دونوں میں سے کسی ایک کے لیے حیدرآباد تیار ہو جائے۔ سردار پٹیل نے اتحاد المسلمین کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا اور ایک آزاد اسمبلی کے قیام کے لیے بھی سفارش کی۔
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے سقوطِ حیدرآباد سے 9؍ ماہ قبل قاسم رضوی کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا تھا کہ "نظام کی حکومت ریت کی ایک دیوار ہے جس کا ڈھہ جانا یقینی ہے۔ رئیس اپنی جان و املاک بچا لے جائیگا اور عوام پس جائنگے۔ ان حالات سے قبل ہر قسم کے تصادم کو روکا جائے اور ہر قیمت ہندوستان سے پر امن سمجھوتہ کر لیا جائے”۔ (حوالہ ‘زوالِ حیدرآباد کی ان کہی داستان’ از مشتاق احمد خان لاہور)۔ لیکن افسوس کہ یہ خط قاسم رضوی نے جوش میں پھاڑ دیا جو اس وقت کی مسلمان قیادت کی سوچ، فکر و دانش کا رخ کے تعین میں ایک اہم ثبوت تھا۔ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی یہ پیشنگوئی درست ثابت ہوئی۔

✦ سقوط کے اسباب، وجوہات اور اثرات:

● آصف جاہی سلطنت کے زوال کے کئی اسباب ہیں چند اسباب و وجوہات پر تبصرہ کرنا ضروری ہے تاکہ آئندہ نسلوں کے سامنے یہ واضح ہو جائے کہ ہم نے کہاں کہاں چوٹ کھائی ہے۔ آصف جاہوں نے جو فحش غلطی کی وہ یہ شیر میسور سلطان ٹیپو کا ساتھ دینے کی بجائے لارڈولزلی کی ذلت آمیز شرائط کو تسلیم کر کے ماتحت حکمران بننے پر اکتفا کر لیا تھا۔ انگریزوں کو اپنا محسن و محافظ بنا لیا تھا، انگریزوں نے کبھی اس کا حق ادا ہی نہ کیا۔ برٹش وائسرائے ماؤنٹ بیٹن نے گورنر جنرل ہوتے ہوئے سلطنت حیدرآباد کو آزادی کی جگہ الحاق کرنے کے لئے دباؤ ڈالا۔ برطانوی حکومت اپنے محسن "یار وفادار” کو یکسر بھول گئی آصف جاہی حکمرانوں کی انگریز پرستی ہی ان کے زوال کا اہم محرک ثابت ہوئی۔

● ساحلی علاقوں اور بندرگاہوں کو ایک پیکٹ کے تحت انگریزوں کے قبضے میں دینا بھی آصف جاہی مملکت کی تباہی کی ایک بڑی وجہ تھی۔

● سقوطِ حیدرآباد کا ایک اہم سبب فوجی کمزوری بھی تھا۔ حیدرآباد فوج کے کمانڈر اِن چیف سیّد احمد العیدروس تھے، جو اپنی نااہلی و ناقابلیت اور فوج کی پیشہ ورانہ مہارت سے محرومی کے سلسلے میں بدنامی کا تمغہ حاصل کر چکے تھے۔ کمانڈر اِن چیف کی وفاداری ان کی صلاحیت کے ساتھ انتہائی مشکوک نظر آتی ہے۔ اس نے اہل اقتدار کو اعتماد دلایا اگر جنگ ہوئی تو حیدرآبادی افواج تین سے چار ماہ تک مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے، اس درمیان عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تو جنگ بندی کرنے میں اپنی پیش رفت تو دکھا ہی دے گی۔
سقوط حیدرآباد کے ضمن میں جس سازش کا ذکر کیا جاتا ہے، جس کی تفصیلات اور اہم کردار ہنوز راز میں ہیں، اس سازش کا بلاشبہ ایک اہم کردار العیدروس بھی تھا۔ حیدرآباد کی نیم مسلح اور نیم تربیت یافتہ افواج کا العیدروس کی زیر کمان رہنا سقوط کی ایک اہم وجہ ہے۔ جس کے نتیجے میں
18؍ ستمبر کو نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِن چیف سیّد احمد العیدروس نے باضابطہ ہتھیار ڈال دیے۔ اس وقت کی صورتحال کا آپ مزید مطالعہ کریں۔
کمانڈر اِن چیف کی فوجی صلاحیتوں کے بارے میں ریاست حیدرآباد کے صدرِ اعظم میر لائق علی اپنی کتاب ‘ٹریجڈی آف حیدرآباد’ (Tragedy of Hyderabad) میں لکھتے ہیں کہ انڈین یونین کی فوج کے حملے کے دوران ‘جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا ویسے ویسے اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ فوجی کمانڈر کے پاس کوئی پلاننگ نہیں تھی۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس میں بدنظمی نہ ہو اور فوجی کمانڈر مجھ سے اور سویلین انتظامیہ سے رہبری کا خواہاں تھا’۔
انہوں نے مزید لکھا کہ کمانڈر اِن چیف کی جنگی تیاریوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دورانِ جنگ ان کے فوجی افسر ایک دوسرے کو وائر لیس پر جو پیغام بھیجتے تھے وہ اتنے قدیم کوڈ پر مبنی تھے کہ انڈین یونین کی فوج بڑی آسانی سے انھیں سن لیتی تھی اور انھیں لمحہ بہ لمحہ صورتِ حال کا علم ہوتا رہتا تھا۔

● علمائے کرام و دانشورانِ ملت کے دور اندیشانہ مشوروں اور تجاویز پر توجہ نہ دینا بھی زوال کے اسباب میں شامل ہیں۔

● سیاسی بصیرت، دور اندیشی سے محرومی، مدبّرانہ قیادت کی کمی، عسکری طاقت بڑھانے پر عدم توجہی اور اپنوں کی غداری اور انڈین یونین کا حیدرآباد کے انضمام کو ہر قیمت پر ممکن بنانا سب مل ملا کر حیدرآباد کے سقوط کے ذمّہ دار تھے۔
سقوط کے بھیانک اثرات بھی مرتب ہوئے، سقوط کے نتیجے میں مسلمانوں کی معاشی اور سماجی زندگی کو بری طرح متاثر کیا گیا۔
مسلمانوں کی زمینیں اور اراضی ضبط کی گئیں جس کے نتیجے میں ایک بڑا طبقہ جو پائیگاہوں اور جاگیرداروں سے منسلک تھے یا ان کے دفاتر میں کام کرتے تھے، بے روزگاری و فاقہ کشی سے متاثر ہوا۔
اپریل 1951ء میں حیدرآباد کی افواج باقاعدہ اور نظم جمعیت یا افواج بے قاعدہ دونوں تحلیل کر دی گئیں۔ چند ایک فوجی افسروں کے سوا، باقی سب فوجی جو ہزاروں کی تعداد میں تھے، بے کار ہوگئے۔

✦ سندر لال و دیگر کمیشن کے حقائق:

سقوطِ حیدرآباد کی حقائق پر مبنی دستاویزات میں سندر لال کمیٹی کی رپورٹ آج بھی سب سے اہم دستاویز ہے۔ حکومتی کمیٹی کے سربراہ پنڈت سندر لال اور قاضی عبدالغفار تھے۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پنڈت سندر لال کو سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے مظالم کا جائزہ لینے کے لیے مقرر کیا تھا، عثمان آباد، بیدر، گلبرگہ وغیرہ جیسے اضلاع میں فرقہ وارانہ تشدد میں 27؍ ہزار سے 40؍ ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا، 2013ء میں اس رپورٹ کے بعض حصے افشاں ہوئے۔ عالمانہ تخمینہ 2؍ لاکھ شہری ہلاک کئے گئے۔ قتل کئے جانے والے مسلمانوں کی غیر سرکاری تعداد 5؍ لاکھ تھی۔
اس وقت راجہ ڈھونڈری راج بہادر کو وزیر آبادکاری بنایا گیا تھا۔ انہوں نے حکومت کے نام 5؍ اگست 1949ء کو اپنے نوٹ میں واضح طور پر لکھا کہ فوجی حکومت نے حیدرآباد سے ساڑھے سات لاکھ مسلمانوں کو شمالی ہند روانہ کیا۔
سقوطِ حیدرآباد کے قتل عام اور مظالم کے بارے میں پنڈت سندر لال، قاضی عبدالغفار اور یونس سلیم جیسے معتبر افراد کی تیار کی ہوئی حقائق پر مبنی رپورٹ (جو پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کی ایماء پر تیار کی گئی تھی) کو پٹیل نے بغیر دیکھے داخل دفتر کردیا اس پر کچھ کارروائی تو دور کی بات ہے مختصر یہ کہ المیہ سقوطِ حیدرآباد اور اس کے بعد ہوئے مظالم کی سب سے زیادہ ذمہ داری پٹیل پر ہی عائد ہوتی ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلم اقتدار کی آخری نشانی حیدرآباد سے پٹیل کو شدید نفرت تھی۔
حیدرآباد کے معاملات سردار پٹیل مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔ چنانچہ محمد علی جناح کے انتقال کے فوراً بعد حیدرآباد پر فوجی حملہ، نظام اور مسلمانوں سے کیا جانے والا سلوک، عفت مآب خواتین کی اجتماعی عصمت دری، نظام کی حکومت کے انتظامیہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، ریاست میں مسلمانوں کے وسیع پیمانے پر قتل عام اور اس قتل عام پر پنڈت سندر لال کی رپورٹ کا مسترد کیا جانا بلکہ اس پر کوئی کارروائی کا نہیں کیا جانا وغیرہ کے تمام فیصلے اور عملی اقدامات صرف اور صرف سردار پٹیل کی مرضی سے ہوئے تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اور دیگر بڑے بڑے رہنماؤں کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔
ہندوستانی اخبار "دی پائنیر” نے حیدرآباد قتل عام کی ذمہ داری سردار پٹیل پر عائد کرتے ہوئے لکھا تھا کہ نہرو مسئلے کا حل براستہ اقوام متحدہ چاہتے تھے۔ اس مسئلے پر انھوں نے سردار پٹیل کو کابینہ کے اجلاس میں ڈانٹ پلائی تھی اور انھیں ایک متعصب ہندو قرار دیا تھا۔ نہرو نے سردار پٹیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "میں آپ کی تجاویز کا حصہ نہیں بنوں گا”۔

✦ اِنْضِمام، اِلْحاق یا آزادی، حقیقت کیا؟:
ہندوستانی وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے نظام سے درخواست کی کہ وہ انڈین یونین کے ساتھ اِلْحاق کی دستاویزات پر دستخط کردیں تاہم نظام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ بلکہ 15؍ اگست 1947ء کو اپنی خودمختاری کا اعلان کردیا اور مکہ مسجد میں نمازِ شکرانہ کا اہتمام کیا۔
اِلْحاق وہ باضابطہ عمل ہے جس سے کوئی ملک کسی نئے حاصل کردہ کمزور علاقہ پر اپنا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرواتا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق اِلْحاق کو تسلیم کرانے کے لیے دیگر ایسی سب طاقتوں کی رضامندی حاصل کر لینا ضروری ہے جن کے مفادات اس عمل سے متاثر ہونے کا امکان ہو۔ جب کہ یہ بحث جاری ہے کہ اسے یوم آزادی کہا جائے یا اِلْحاق یا انضمام، اس سب کا نکتہ یہ ہے کہ اس اہم پانچ روزہ آپریشن کے دوران خصوصاً لاکھوں مسلمانوں کو اپنی روزی، املاک اور جانوں کے نذرانے پیش کرنا پڑے۔ مسلمانوں کے ساتھ جنسی اور جسمانی تشدد کے دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آئے۔ کئی مقامات پر اجتماعی زنا بالجبر کا شکار ہونے والی درجنوں مسلم خواتین نے کنویں میں کُود کر خودکشی کرلی۔ کئی واقعات نہرو حکومت کی طرف سے ’گوڈول مشن‘ پر حیدرآباد میں بھیجی گئی کمیٹی کی رپورٹ کا حصّہ بنے ہیں۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ نوابی و دیگر ریاستیں برٹش ایمپائر کی سلطنتیں و رعایا نہیں تھیں، بلکہ وہ انگریزوں کی جانب سے تحفظ کردہ سلطنتیں تھی، لیکن جب انگریزوں کی بالادستی کا خاتمہ ہوا اور نوابی ریاستیں 15؍ اگست 1947ء کو انگریزوں کے شکنجے سے مکمل طور پر آزاد ہوگئیں، تب ان ریاستوں کے عوام کو انگریزوں کی جانب سے تحفظ کا جو اسٹیٹس حاصل تھا، وہ ختم ہوگیا، تاہم "انڈین یونین” نے جب حملہ کیا تب حیدرآباد کے عوام خود بخود "انڈین یونین” کے شہری نہیں بنے اور جب 1955ء میں اس تعلق سے ایک قانون مرتب کیا گیا، تب نوابی یا دیسی ریاستوں کے عوام کو بھارت کا شہری قرار دیا گیا۔
ایک اور دائمی ثبوت ہائی کورٹ آف جسٹس آف انگلینڈ اینڈ ویلز کے عزت مآب مسٹر جسٹس مارکونسی اسمتھ کی جانب سے 2؍ اکتوبر 2019ء کو دیا گیا فیصلہ ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ لندن کی نیشنل ویسٹ منسٹر بینک میں حیدرآباد کے فنڈ سے متعلق مقدمے میں دیا تھا۔ انہوں نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا "میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ 15؍ اگست 1947ء کے دن سے آپریشن پولو کے خاتمے تک‘ برطانوی حکومت اور ملکۂ برطانیہ کی نظر میں حیدرآباد ایک بیرونی مملکت تھی اور نظام ہشتم ریاست حیدرآباد دکن کے حکمران تھے۔
جسٹس صاحب کا کہنا تھا‘ میرے فیصلہ میں یہ بھی حقیقت ہے کہ حیدرآباد کا انڈیا کے ساتھ الحاق عمل میں آیا۔ آیا پولیس ایکشن کی یادوں کا تعاقب کیا جائے یا نہیں‘ ملکۂ برطانیہ کے تحت حیدرآباد کے موقف کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر حکومت نے بھی اپنا موقف واضح کردیا تھا۔ مذکورہ جج نے اپنے فیصلہ میں واضح طور پر یہ بھی کہا تھا کہ ملکۂ برطانیہ کی حکومت نے جو بیان دیا تھا وہ یہی تھا کہ "آپریشن پولو” (پولیس ایکشن) سے حیدرآباد کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کم از کم ایک انگریز عدالت کے مقاصد کے لیے۔ (یہ فیصلہ دراصل لندن ہائی کورٹ نے معین نواز جنگ کی جانب سے برطانیا کی ایک بینک میں جمع کروائی گئی رقم سے متعلق سنایا۔ صفحہ- 68، پیراگراف 193)۔
سلطنت حیدرآباد کے خانوادے نواب نجف علی خان کا کہنا ہے کہ 17؍ ستمبر 1948ء کے حملے کا زخم بہت گہرا ہے اور ابھی تک تازہ ہے۔ وہ یوم آزادی نہیں بلکہ قتل عام کا دن تھا جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔
نواب نجف علی خان کا کہنا ہے کہ حیدرآباد پر حملے کی سچائی کے لیے سندر لال کمیٹی کو منظر عام پر لانا ضروری ہے۔ انھوں نے انڈین حکومت سے سوال کیا کہ کوئی ریاست اپنے بادشاہ سے آزادی کیوں چاہے گی جب اس نے اپنی رعایا کے خلاف کوئی جرم نہیں کیا ہو۔
حیدرآباد کے اسکالر سید علی ہاشمی کے مطابق اس حملے سے بچا جا سکتا تھا اور اس سے گریز ممکن تھا۔ اپنی کتاب ‘اینیویٹیبل انویژن: 1948ء حیدرآباد’ میں انھوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں ‘برسر اقتدار گروپ یعنی ہندوستان کے حکمراں ایک ترقی یافتہ ریاست (حیدرآباد) کو ہر حال میں ہندوستان میں ضم کرنا چاہتے تھے’۔
حیدر آباد اور انڈین یونین کے درمیان جو سٹنیڈ سٹل ایگریمنٹ (معاہدہ امتناع) طے پایا اس کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔
حیدر آباد کے زوال کا سبب جذبات کو عقل پر غالب کرکے بودے نعروں کے سحر میں مبتلا ہو جانے والوں اور دولت کے انبار اکٹھے کرنے اور ریاستوں کے دفاع سے غافل رہنے والے حکمرانوں کے لئے کہ حیدرآباد دکن کے انجام سے نشانۂ عبرت ہے۔ ملی و قومی معاملات میں صرف جذبات اور دولت ہی کی نہیں فہم و فراست، حکمت اور منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے ورنہ قومیں غلام بن جایا کرتی ہیں۔
دلّی کے زوال کے بعد حیدرآباد برصغیر میں مسلم ثقافت اور ادب کا سب سے بڑا گہوارہ و مرکز بن کر ابھرا تھا۔ سقوطِ حیدرآباد، ایک مذہبی تہذیب و ثقافت جس کی ابتداء دلّی سے سفر کرتی ہوئی دکن میں ایک نئی آب و تاب اور شاندار و خوشحال مستقبل کے ساتھ جلوہ گر ہوئی تھی، آج وہ دردناک تاریخ کا ایک حصّہ بن گئی ہے۔
حیدرآباد نہ صرف ایک سلطنت کا اختتام تھا بلکہ یہ ایک تہذیب، ایک تمدن، ایک نسل، ایک مذہبی اقدار اور ایک زبان و ادب کی پامالی کی بنیاد بن کر عالم اسلام کے لئے نشان عبرت بن گیا ہے۔
حیدرآباد اے فِگارِ گل بَدَاْمَاْں اَلسَّلام
اَلسَّلام اے قصۂ ماضی کے عنواں اَلسَّلام
(جوش ملیح آبادی)
مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
ال افشان، 7/4، شیلیش نگر، ممبرا،
تھانہ- 400612، مہاراشٹر،

Comments are closed.