Baseerat Online News Portal

آخر کیا ہے سناتن دھرم کی حقیقت ؟بھارتی مسلمان ہندی ہے یا ہندو ؟

 

احساس نایاب شیموگہ کرناٹک

آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کا بار بار یہ کہنا کہ بھارت کے مسلمان ہندو ہیں یعنی بھارت کا ہر شہری ہندو ہے کیونکہ ان کے اباو اجداد ہندو تھے جنہونے مغلوں اور اُن سے پہلے بھارت میں آئے غیرملکی مسلم حکمرانوں و تاجرون کے خوف سے اپنا دھرم پریورتن کرلیا اور ہندو سے مسلمان ہوگئے اس حیثیت سے بھارت کے ہر مسلمان کے اندر ہندوؤں کا ڈی این اے ہے ۔
موہن بھاگوت کے اس بےتُکے نظریہ کی دیگر سنگھیوں کے ساتھ ساتھ چند مسلم رہنماؤں نے بھی تائید کی ہے۔ جو بیشک دنیاپرستی و بزدلی کی انتہا ہے
ابھی کس نے تائید کی کیوں تائید کی یہ الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی بات ہوگی فی الحال آج کے دو اہم سوال ہیں
پہلا : بھارت کا مسلمان ہندو ہے یا ہندی ؟
دوسرا: سناتن دھرم کو ڈینگو ملریا اور اہیچ آئی وی کیوں کہا گیا ؟
دراصل آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت بھارت کی جس اکثریت کو ہندو کہتے ہیں انہیں ہندوؤں نے سناتن دھرم کو اہیچ آئی وی اور ڈینگو ملیریا سے بھی زیادہ خطرناک کہا ہے ۔
خیر فی الحال ہم پہلے سوال پر آتے ہیں بھارت کے مسلمان ہندو یا ہندی ؟ یہان سیدھی اور صاف بات ہے بھارت ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر بسنے والا ہر انسان چاہے وہ بچہ ہو بوڑھا ہو، مرد ہو عورت ہو یا تھرڈ جنڈر ہی کیوں نہ ہو ہر انسان اللہ سبحان تعالی کے بندے ، رب کائنات کی تخلیق ہیں اس حیثیت سے سارے مسلمان ہیں ،
اپنی بات کو ثابت کرنے کے خاطر ایک اور دلیل یہ ہے کہ ۔۔۔۔
اسلام دنیا کا اولین مذہب ہے
اس لئے بھارت کا اصل مذہب اسلام ہی تھا جو کچھ اخلاقی بگاڑ کے بعد اپنی اصل شکل و صورت کھو بیٹھا
آج بھلے کوئی کسی بھی مذہب کے پیروکار کیوں نہ ہوں
بابا آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے ناطے ہر انسان کا آپس میں خون کا رشتہ ہے اور اس لحاظ سے دنیا کا ہر انسان مسلمان ہی ہے اور سب کا مذہب ایک ہی ہے اسلام ۔۔۔
لیکن آج کئی وجوہات سے لوگ گمراہ ہوچکے ہیں ۔۔۔۔ اور اس گمراہی کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگاسکتے ہیں کہ کئیوں کا یہان تک ماننا ہے کہ وہ بندروں کی نسل سے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ کوئی گائے کو ماں کہتا ہے، کوئی بندر کو بھگوان مانتا ہے، کوئی چوہے کو ہاتھی کی سواری کہتا ہے یا کوئی آدھے انسان آدھے جانور کے شکل کی بنی مورتیوں کی پوجا کرتا ہے ۔ جن کا اپنا کوئی اصل وجود ہی نہیں ہے اور یہ سب ایک قسم کا شیطانی فطور ہے جو ہر دور میں سر چڑھ کر بولتا رہا ہے ۔۔۔۔
جبکہ ایک پڑھا لکھا، سمجھدار باشعور انسان کبھی ان عجیب و غریب عقائد کو نہیں مانے گا ۔۔۔۔
خیر کوئی خود کو کچھ بھی سمجھے حقیقت تو یہ ہے کہ ازل سے لے کر ابد تک دنیا کا ہر انسان انسان ہی کی اولاد ہے
وہ بھی ایک ایسے انسان کی جنہونے اللہ سبحان تعالی کی وحدانیت کی گواہی دی ۔۔۔۔
آدم علیہ السلام دنیا کے پہلے انسان، اللہ سبحان تعالی کی طرف سے بھیجے گئے پہلے نبی اور عالم انسانیت کے والد ہیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والا انسان آپ ہی کی اولاد ہے ۔
دوسری بات کچھ لوگوں کا الگ الگ ماننا ہے کہ
بھارت میں اسلام اور اسلام کو ماننے والے مسلمانوں کی تاریخ محض آٹھ سو یا ساڑھے چودہ سو سال پرانی ہے۔۔
دراصل یہ ایک سفید جھوٹ ہے اور سراسر غلط بات پھیلائی گئی ہے کیونکہ جس وقت یہ دنیا بنائی گئی، جس وقت بابا آدم نے ہند کی پاک سرزمین پر اپنا پہلا قدم رکھا اُسی لمحہ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ کائنات کا کونہ کونہ اسلام کی خوشبو سے مہک اُٹھا یہ اور بات ہے کہ بابا آدم کی اولاد میں کئی لوگ شیطانی مکر و فریب میں آکر راہ راست سے بھٹک گئے، باجود اللہ سبحان تعالی نے ان بھٹکے مسافروں کو راہ حق دکھانے کے خاطر ان کے درمیان وقتا فوقتاً انہیں میں سے لاکھون پیغمبروں کو بھیجا گیا اور ان لاکھوں پیغمبروں میں ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں میں آخر الزماں اور پوری کائنات کے لئے رحمت العالمین بن کر تشریف لائے اور ایک بار پھر کائنات کے ذرے ذرے کو اسلام کی روشنی سے منور کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی دین حق کا پرچم دنیا کے کونے کونے میں ایک بار پھر لہرایا گیا جس کی زندہ مثال وطن عزیز بھارت ہے جہان آج بھی ہماری قدیم تاریخی وراثتیں موجود ہیں جن میں کچھ تعصب کے زد میں آچکی ہیں ۔۔۔۔۔۔ جو آنکھ کے اندھوں ، کان کے بہروں اور عقل سے پیدل شرپسندوں کو یہ بتاتی ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی تاریخ کتنی قدیم ہے ۔۔۔۔۔۔
گجرات کے بھاؤ نگر کے گونگھا میں ایک قدیم تاریخی مسجد ہے کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حیات مبارکہ میں ہوئی ہے یعنی ساڑھے چودہ سو سال قبل ۔۔۔۔۔ یہ مسجد کسی عرب ملک کی زمین پر نہیں ہے بلکہ بھارت کے مودی والے گجرات میں بنائی گئی ہے اور یہ دنیا کی اُن گنی چنی مسجدوں میں سے ایک ہے جس کا رُخ یروشلم کی طرف ہے یعنی مسجد کا قبلہ خانہ کعبہ کی طرف نہ ہوتے ہوئے یروشلم کی طرف ہے , اس سے اس مسجد کی تاریخی حیثیت اور اس کی اہمیت کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں.
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت کے بعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا
اللہ سبحان تعالی کے اس حکم سے قبل ہی بھارت کی سرزمین پر یہ مسجد تعمیر ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔
افسوس مسلمانوں کا پہلا مرکز پہلا قبلہ آج بدحال و ویران پڑا ہے لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں مسجد اقصی کے لئے آنسو بہانے والے مسلمانوں نے اپنے ملک کی اس تاریخی مسجد کو فراموش کردیا ہے ۔۔۔۔
خیر جہاں گجرات کی یہ تاریخی مسجد تعصب کی زد میں ہے وہیں بھارت کے کیرلا میں ایک اور تاریخی مسجد ہے
کیرلا کے کونڈا کلور تعلقہ کے میکھلا گاؤں میں جو آج بھی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے اس
مسجد کا نام ہے چیرامن جمعہ مسجد جو سن چھ سو انتیس میں بنائی گئی، یہ مسجد ایک ہندو راجا کے حکم سے بنائی گئی تھی اور یہاں آج بھی مسلمان باقاعدگی سے نماز ادا کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد بھی ساڑھے چودہ سو سال قبل کیرلا میں بنائی گئی تھی ۔ اس مسجد سے جُڑے کئی حیرت انگیز اور دلچسپ واقعات تاریخ میں آج بھی موجود ہیں ۔۔۔۔۔
جن میں کیرلا کے چیرامن پیرومل کے ہندو راجا کے مسلمان ہونے اور مسجد تعمیر کرنے کا واقعہ ایمان افروز ہے۔ہمیں لگتا ہے کہ یہ مضمون اس واقعہ کے بغیر ادھورا ہے سو آگے بڑھیں اس سے پہلے راجا کے اسلام قبول کرنے کا ایمان افروز واقعہ کچھ یون ہے ۔۔۔۔۔
یہ اُس دور کی بات ہے جب
عرب اور عرب کے باہر اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوچکا تھا اور
دنیا کے کونے کونے سے لوگ لمبا سفر طئے کرکے عرب کے شہر مدینہ پہنچ رہے تھے اور مدینہ مین اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر اسلام قبول کررہے تھے ۔۔۔۔۔
بھارت کے کیرلا میں چیرامن پرومل نامی ایک راجا تھا جو لوگون کی نظر میں دوراندیش اور بہادر تھا
اس کے تعلق سے مورخین لکھتے ہین کہ ایک رات راجا اپنی رانی کے ساتھ اپنے محل کے باہر گھوم رہے تھا ایک دم سے راجا چیرامن پیرومل کی نظر آسمان پر موجود چاند پر پڑی جو اچانک سے دو تکڑوں میں بٹ گیا تھا
راجا پیرومل ابھی اس کرشمہ کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ دو تکڑے میں بٹا چاند دوبارہ آپس میں مل گیا, یہ دیکھ کر راجا کے ہوش اڑ گئے ۔۔۔۔۔
راجا چیرامن پیرومل نے اپنے دل کو بار بار یہ کہہ کر بہلانے تسلی دینے کی کوشش کی کہ اُس نے جو کچھ بھی دیکھا ہے وہ شاید اس کی آنکھوں کا دھوکہ تھا
لیکن اس کے دل نے یہ بات ماننے سے نکار کردیا کیونکہ راجا جانتا تھا کہ اُس نے جو دیکھا ہے وہ اس کی آنکھوں کا دھوکہ نہیں بلکہ سچ تھا
راجا چیرامن پیرومل کی وہ پوری رات بس یہی سوچ میں گزرگئی کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے ۔۔۔۔
اگلے دن راجا چیرامن پیرومل نے اپنا دربار بلایا جس میں علاقے کے بڑے سے بڑے جوتش اور ہندو عالم موجود تھے, راجا نے دربار میں موجود جوتشوں و ویدوانوں کے آگے رات کا پورا واقعہ بیان کیا
لیکن دربار میں موجود جوتش اور ویدوانوں کے پاس اس کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں تھا
راجا کی برقراری، بیچانی یونہی برقرار رہی ایک دن راجا کی ملاقات عرب سے آئے تاجروں سے ہوئی راجا نے اُن عرب تاجروں کے آگے اُس رات والا پورا واقعہ بیان کیا تو تاجروں نے راجا کو بتایا کہ آپ نے جو کچھ بھی دیکھا ہے وہ بالکل سچ ہے اور یہ کرشمہ ہمارے ملک میں رہنے والے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے, عرب تاجروں کا یہ جواب سن کر راجا پیرومل کی بےچینی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے لگی, راجا نے عرب جاکر پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔۔۔
راجا نے اپنا سارا راج پاٹ چھوڑ دیا اور اپنے تخت پر اپنے وارث کو بٹھایا اور خود عرب سے بھارت آئے تاجروں کے ساتھ عرب ملک کے لئے روانہ ہوگیا
عرب پہنچ کر راجا چیرامن پیرومل کی ملاقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی راجا نے پیغمبر اسلام سے وہ سارے سوال کئے جن سے راجا کئی دنوں سے پریشان بےچین تھا
پیغمبراسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر اور اُن سے اپنے سارے سوالوں کے اطمینان بخش جوابات سُن کر راجا چیرامن پیرومل کو قلبی سکون ، اطمینان پہنچا اور راجا نے فورا اسلام قبول کرلیا
اسلام قبول کرنے کے بعد راجا نے کچھ وقفہ عرب میں ہی گزارا لیکن کچھ وقت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرف سے راجا کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ بھارت جاکر بھارت کے لوگوں مین اسلام کی دعوت و تبلیغ کریں, آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے راجا پیرومل کے ساتھ صحابہ ملک بن دینار و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ بھارت کے لئے روانہ ہوئے , سفر کے دوران راجا بیمار ہوگیا راجا کی طبیعت اتنی بگڑ گئی کہ راجا کو یہ احساس ہوگیا کہ وہ بھارت کو واپس نہیں لوٹ پائے گا اسی لئے راجا نے اپنے ہاتھوں سے ایک خط لکھا اور اُس خط کو کوڑومگلور کے راجا کی طرف روانہ کردیا ۔۔۔۔
اُس خط میں راجا نے یہ لکھا کہ شاید اب مین بھارت دیش کبھی بھی نہیں آپاؤنگا لیکن میرے سبھی دوست ساتھی بہت جلد بھارت پہنچنے والے ہیں ان کی ہر طرح سے مدد کی جائے اُن کی جو بھی ضرورت ہو اُسے میری ضرورت سمجھا جائے اور اُس ضرورت کو جلد از جلد پورا کرنے کی کوشش کی جائے …..
یوں راجا چیرامن پیرومل خط لکھنے کے بعد راستے ہی مین انتقال فرما گئے لیکن مالک بن دینار اور ان کے سبھی ساتھی بھارت پہنچے آور کوڑونگلور کے راجا نے خط مین لکھی گئی باتوں کے مطابق مالک بن دینار کی ہر طرح سے مدد کی یہی وہ راجا تھا جس نے بھارت کی پہلی مسجد بنانے کا حکم جاری کیا تھا جس مسجد کو مالک بن دینار کی نگرانی مین بنایا گیا آور اس مسجد کو نام دیا گیا چیرامن جمعہ مسجد جو آج بھی دنیا بھر کو اپنے ہونے کی شہادت دے رہی ہے جسے ایک ہندو راجا نے بنایا تھا ۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ
تمل ناڈو کی پلئیا جمعہ پلئی کی جمعہ مسجد بھی اپنے آپ میں تاریخی مقام رکھتی ہے یہ بھی چھ سو اٹھائیس ایسوی میں بنائی گئی تھی اور ان مسجدوں کو بنانے والے کوئی حملہ ور نہیں تھے بلکہ عرب کے کئی تاجر اور صوفی درویش تھے جن کے حسن اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر بھارت کے کئی ہندو اسلام قبول کرکے مسلمان ہوئے اور بھارت مین مسلمانون کی آبادی کو دیکھتے ہوئے اُس وقت مسجدیں تعمیر کی گئی
بھارت میں اسلام نہ مغل بادشاہوں کے ذریعہ آیا نہ ہی اسلام تیر و تلوار کے زور پر قائم ہوا بلکہ بھارت میں اسلام کا آغاز آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے لے کر کئی نبیوں و صوفی درویشوں کے ذریعہ پہنچا ہے اور ایک وقت کے بگاڑ کے بعد دوبارہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر بھارت کے بڑے سے بڑے راجا مہاراجاؤن نے گمراہی بھرے عقیدوں و مذاہب کو ترک کرکے اسلام کو اپنایا۔۔۔۔۔۔ بیشک اسلام اس روئے زمین پر زندہ جاوید ہے ۔۔۔۔۔
بہرحال یہ تھی بھارت میں مسلمانوں کی تاریخ جسے دشمنان اسلام مسخ کرکے، جھوٹی و بےتکی کہانیاں گڑھ کر بھارت کا مسلمان ہندو ہے ، دلت ہے، فلاں فلاں بندر ہے جیسی افواہ اڑا کر بردران وطن کو گمراہ کیا جارہا ہے جبکہ دنیا کا اولین مذہب اسلام ہی ہے اور مذہب
اسلام کا بھارت سے کوئی تعلق نہ ہونے کی بات کہنا، یا اسلام کو پردیسی ملک کا مذہب کہنا، اسلام کی تاریخ محض ساڑھے چودہ سو سال بتانا یہ سراسر جھوٹ، جہالت اور یہودی برہمنوں کی شرانگیزی ہے ۔۔۔۔ اور اس جھوٹ کی تائید کرنا خود کو مسلمان کہنے والوں کی بزدلی دنیاپرستی اور منافقت ہے ۔۔۔۔
بیشک وہ ایمان فروش بزدل منافقین ہی ہین جو دشمنان اسلام کے آگے ڈنگے کی چوٹ پر خود کو مسلمان کہنے سے بھی ڈرتے ہیں ، اور ان بزدل منافقین کا ہر دور میں یہی شیوہ رہا ہے کہ ہمیشہ انہونے طاقت و اقتدار کے آگے اپنا قبلہ بدل لیا، یقینا تاریخ انہین کبھی معاف نہیں کرے گی نہ ہی اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہیں معاف کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
جو بھی مسلمان واقعی میں اللہ اور اللہ کے پاکیزہ کلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں ان پر یہ یقین لازم ہے کہ بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر انسان آدم علیہ اسلام کی اولاد ہے اور آدم علیہ السلام کا مذہب اسلام ہے آپ مسلمان ہیں اللہ کے نبی ہیں اور بیشک دنیا کا اولین مذہب اسلام ہے ۔۔۔۔۔
خیر اب بات کرتے ہیں بھارت کی پینتیس کروڑ مسلم آبادی کو ہندو کہنے والے سنگھی برہمنوں کی سیاہ تاریخ پر جن کا ڈی این اے آج بھی بھارت کے مقامی لوگوں سے میچ نہیں ہوتا
جبکہ وہ خود غیرملکی حملہ ور ہیں
آج سے کئی سال پہلے آنڈو آرین نام کے لوگ بھارت میں داخل ہوئے یہ لوگ پولینڈ سے لے کر مڈل ایشیاء جسے یوریشیا بھی کہا جاتا ہے اس کے گھاس کے میدانی علاقوں میں رہتے تھے وہ بھارت میں آئے اور اُس وقت کے سندھو گھاٹی تہذیب ( ہڑاپہ تہذیب ) کے لوگوں سے ان کا مقابلہ ہوا جس میں آرینوں نے سندھو گھاٹی تہذیب کا خاتمہ کردیا, آرینوں سے زبردست مقابلہ کی وجہ سے مول نواسی یعنی مقامی لوگ جنوبی بھارت تک جا پہنچے آگے سمندر تھا اور وہ سمندر پار نہیں کرپائے اس لئے وہ جنوبی بھارت میں ہی بس گئے جنہیں ڈریوڈ کہا گیا, اس کے بعد آرینوں نے اتربھارت یعنی شمالی ہند میں اپنا راج قائم کیا اور مقامی لوگوں یعنی ڈراویڈوں ( مول واسیوں ) کو اپنا غلام بنالیا اور ہندو دھرم گرنتھوں کو لکھا گیا پھر ڈریوڈوں کو شودر بنادیا گیا جسے اچھوت یا چھوٹی ذات بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
جبکہ آرین یعنی سنگھی برہمن غیرملکی حملہ ور ہیں جنہونے مقامی لوگوں کے تمام حقوق چھین لئے اور ہمیشہ کے لئے انہیں غلام بناکر ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتے آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
سنگھی برہمنوں کے غیرملکی ہونے کا ایک اور ثبوت حال ہی میں راکھی گڑھی کے کنکال سے ملا ہے ۔۔۔۔۔۔
ہریانہ کے راکھی گڑھی کو ہڑپا تہذہب کا شہر مانا جاتا ہے
راکھی گڑھی سے قریب پانچ ہزار سال پرانہ کنکال برآمد ہوا ہے اس کنکال کی ڈی این اے ہروفائلنگ کی گئی۔۔۔۔
ڈکن کالج آف آرکیالوجی کے پروفیسر وسنت شنڈے اور ڈی این اے سائنٹسٹ ڈاکٹر نیرج رائے کی سربراہی میں بنائی گئی ٹیم نے
سبتمبر 2018 میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں یہ دعوی کیا ہے
کہ راکھی گڑی سے ملنے والے کنکال میں آر ون اے ون ڈی این اے نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔
یوں محض تین سے چار فیصد آبادی والے یہ سنگھی برہمن بھارت میں جن کی تاریخ خود غیرملکی حملہ وروں کی ہے اور آج یہ بھارت کے ایک سو پچیس کروڑ شہریوں سے اپنی شہریت کا ثابت کرنے کی بات کرتی ہے ۔۔۔۔۔
دراصل یہ قوم بیحد چال باز، شاطر
ظالم جابر اور رذلیل قوم ہے، جنہونے جھوٹے عقیدون و علمی برتری کے چلتے عورتوں کے حقوق سلب کئے، انسان کو ذات پات اونچ نیچ مین تقسیم کردیا اور اُن سے جینے کا حق تک چھین لیا
یہ یونانی ڈی این اے والے آج خود کو ہندو کہتے ہیں جن کی تاریخ سفاک و جہالت سے بھری پڑی ہے جنہونے ذات پات اونچ نیچ کے نام پر بار بار انسانیت کو اپنے بدبودار پیرون تلے کُچل دیا، جن کی نظر میں آج بھی انسان کی حیثیت ایک جانور سے بھی بدتر ہے، جنہونے اپنے مفاد کے خاطر جب چاہا بھارت کے اقلیتی طبقوں کو ہندو بنا دیا اور جب مطلب ٹل گیا انہین نیچ کہہ کر ٹھوکر ماردی ۔۔۔۔۔۔
بھارت کی آزادی سے لے کر آج تک انہونے اپنے غرض کے لئے بھارت کی اقلیت کو ہندو کہہ کر بھارت میں اپنی اکثریت ثابت کی، پھر اقتدار حاصل کیا اور مقامی لوگوں کو ہمیشہ سے اپنا غلام بناکر رکھا ۔۔۔۔۔۔
آج اللہ سبحان تعالی کی شان دیکھئیے ان رذلیون کے بنائے گئے مکرو فریب کے سارے جال ایک ایک کر ٹوٹ رہے ہیں اور بردران وطن ان کے منہ پر سیاہ کالکھ پوتھ رہے ہیں اور خود کو سناتنی ماننے سے اعلانیہ طور پہ انکار کرتے ہوئے سناتن دھرم اور خود کو سناتنی کہہ کر منوسمرتی کو ماننے والے ان سنگھی برہمنوادیوں کو ڈینگو ملیریا اور اہیچ آئی وی سے زیادہ خطرناک کہہ رہے ہیں ۔
حال ہی میں تمل ناڈو کے چیف منسٹر
ایم کے اسٹالن کے فرزند اور ٹمل ناڈو کے وزیر اسپورٹس و یوتھ سرویسیس ادھیاندھی اسٹالن جو ایک فلم ایکٹر اور پروڈیوسر بھی ہیں، انہونے ایک پروگرام مین خطاب کرتے ہوئے سناتن دھرم کو مچھر، ڈینگو اور ملیریا سے زیادہ خطرناک کہا ۔۔۔۔۔۔
دراصل سناتن دھرم کے خاتمہ سے متعلق ٹاملناڈو پروگریسیو رائٹرس فورم نے اس پروگرام کا اہتمام کیا تھا۔
پروگرام میں ادھیاندھی نے خطاب کا ْآغاز یہ کہہ کر کیا کہ سناتن دھرم کی مخالفت کے بجائے سناتن دھرم کے خاتمہ کے موضوع پر کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آگے انہوں نے کہا کہ ہم بعض چیزوں کی صرف مخالفت پر اکتفاء نہیں کرسکتے بلکہ انہیں ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مچھر، ڈینگو، کورونا اور ملیریا ایسے ہیں جن کی ہم مخالفت نہیں کرسکتے بلکہ ان کا صفایا کرنا ہوتا ہے۔ سناتن بھی اسی طرح کا ہے اور محض مخالفت سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ اس کے خاتمہ کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سناتن دھرم مساوات اور سماجی انصاف دونوں کے خلاف ہے اور سناتن دھرم کو ذات پات کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔
جہان ایک طرف اس بیان کے بعد بی جے ہی آر ایس ایس کے خیموں میں قیامت کا بھونچال آچکا ہے وہیں سنگھیون کی جانب سے اسٹالن کا سرقلم کرنے والے کو دس کروڑ انعام دینے کا اعلان کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
وہین دوسری طرف تمل ناڈو کی عوام اسٹالن کی دفا میں آچکی ہے اور اسٹالن کی حمایت مین سڑکوں پہ اترچکی ہے ، فی الحال یہ سلسلہ یہیں تک نہیں رُکا بلکہ اسٹالن کے بعد
"ڈی ایم کے” کے ایک اور نیتا "کے راجن” نے مورچہ سنبھالتے ہوئے سناتن دھرم کا موازنہ” اہیج آئی وی ( HIV ) اور کُشت روگ یعنی موذی مرض سے کی ہے ۔۔۔۔۔۔
اسٹالن اور اُن جیسے لوگ برہمنوادیوں کی زہریلی نیتوں کو بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ یہ ادھ ننگے سنگھی پجاری ایک بار پھر ماضی کو دہرانا چاہتے ہیں اور اپنے مفاد کے خاطر ایک بار پھر وہ اپنے دیوی دیوتاؤں کے آگے چھوٹی ذات کہلانے والوں کی بلی چڑھائیں گے، اُن پہ ظلم و جبر کے وہ تمام پہاڑ توڑے جائیں گے جسے دیکھ کر انسانیت کی روح کانپ اٹھے گی، سنگھی برہمن پھر ایک بار اپنی سیاہ و سفاک تاریخ دہرانا چاہتا ہے وہ بھارت میں منواسمرتی نافذ کرکے بھارت کے ہر انسان کو غلام بنانا چاہتا ہے
سنگھی برہمنون نے اپنی حکمرانی قائم کرنے کے خاطر آج بھارت کے تمام اقلیتی طبقوں کو ہندو کا نام دے دیا ہے۔
ماضی میں بھی ہوبہو یہی ہوا تھا، اکثریت دکھانے کے خاطر بزدل چالباز برہمنوں یعنی آرینس نے اقلیتوں کو ہندو بناکر پیش کیا تھا تاریخ ایک بار پھر وہی سب کچھ دہرارہی ہے جو ماضی میں ہوچکا ہے آج خود کو سیکولر کہنے والا کوئی سیکولر نہیں ہے سارے چہرے پہ نقاب لگائے گھوم رہے ہیں
اور کوئی سوفٹ ہندوازم کا کارڈ پھینک رہا ہے تو کوئی شدت پسندی اختیار کررہا ہے لیکن دونوں ایک برابر ہیں
ورنہ آج بھارت میں دنیا کے اولین مذہب کی سینکڑوں مساجد یوں ریت کے ڈھیر کی طرح ڈھائی نہیں جاتی، نہ ہی ٹرینوں میں پولس کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل ہوتا ، نہ جانوروں کے نام پہ ہمارے نوجوانوں کا خون بہایا جاتا ، نہ مسجدوں میں گھُس کر ہمارے اماموں کے گلے کاٹے جاتے، نہ ہمارے گھروں میں آگ لگائی جاتی ، نہ ہی کاروائی کے نام پہ ہماری دکانوں و مکانوں پر بُلڈوزر چلائے جاتے، نہ ہماری بہن بیٹیوں کو سرعام رسوا کیا جاتا نہ اُن کی عصمت ریزیاں ہوتی ، نہ ہماری مان بہنوں کو انصاف کے لئے کورٹ کچھیریوں کی خاک چھاننی پڑتی اور نہ ہی آج اللہ کی بنائی ہوئی زمین ہمارے لئے تنگ کی جاتی، نہ ہم سے ہماری شہریت کا ثبوت مانگا جاتا، اور نہ اس ظلم و ناانصافی پر سانپ سونگھنے والی خاموشی ہوتی۔۔۔۔۔
افسوس آج ہمارے لئے نہ اسکول کالجس محفوظ ہیں ،نہ ہماری عبادت گاہیں نہ گھر نہ ہی ہماری قبرین محفوظ ہیں
تاریخ میں بھی یہی سب کچھ ہوا تھا مستقبل مین پھر یہی دہرایا جائے گا۔ دلتوں و ادیواسیوں کو ہندو بناکر پہلے مسلمانوں پر ظلم ہوگا ۔۔۔۔۔۔ پھر اگلا نمبر دلتوں، آدی واسیوں و دیگر اقلیتی طبقے کا آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ سنگھی برہمن یہ بخوبی جانتا ہے کہ جب تک بھارت میں مسلمانوں کا وجود ہے وہ اپنے گندے مقصد مین کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اس لئے ان کا پہلا نشانہ بھارت کے مسلمان ہیں ۔۔۔۔۔۔
اس موضوع پر لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے بھارت میں مسلمانوں کے مستقبل کا سوچتے ہیں تو دل کرتا ہے کاغذ پہ اپنا جگر نکال کر رکھ دیں ۔سیاحی کی جگہ اپنے خون سے تحریر لکھیں اپنے درد اپنے احساسات اپنی گھٹن اور قوم سے جُڑے اپنے جذبات کاغذ پر لفظون کی شکل میں بکھیردیں ، کیونکہ
ہمیں خوف ہے آنے والے دنوں کو لے کر، بیشک ہم بزدل نہیں ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم بےحس و بےغیرت بھی نہیں ہیں نہ ہی جان کر انجان بنے رہنے کا ڈھونگ ہمیں آتا ہے ۔۔۔ ہم حالات کو لے کر سنجیدہ ہیں فکرمند ہیں، پریشان ہیں کاش جو ہم دیکھ رہے ہیں، جو محسوس کررہے ہیں کاش کوئی اور بھی دیکھ پاتا، کاش کوئی تو محسوس کرپاتا، کاش کوئی تو حالات کی سنجیدگی و خوفناکی کو سمجھ پاتا۔۔۔۔ آج بھارت کا عام انسان بارود کے ڈھیر پہ بیٹھا ہے صرف مسلمان یا دلت ہی نہیں بلکہ آج پوری انسانیت خطرے میں ہے اور یہ محض زبانی جمع پونجی ہرگز نہیں ہے ۔۔۔۔۔
یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے یا کیا جارہا ہے سب کچھ پری پلین ہے بس مسلمان سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتا یا قوم کے نام نہاد لیڈران و ملت فروش رہنما و قائدین نہیں چاہتے کہ قوم کے غیور، جرتمند نوجوان حالات کو سمجھیں ، غدار ملت جان بوجھ کر قوم کو میٹھی تھپکیاں دے کر ہمیشہ کی نیند سلانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
سنہرے خواب دکھاکر قوم مسلم کی قبریں کھودی جارہی ہیں۔۔۔۔
ایکجہتی، سیکولرزم، صبر، برداشت حکمت، مصلحت جیسے ڈھکوسلے لفظون کے بوجھ تلے قوم دبتی چلی جارہی ہے آج نہ کسی کو سر اٹھانے کہ اجازت ہے نہ آنکھ اٹھانے کی ہمت بلکہ ہم سے مخالفت سے قبل غلامی تسلیم کروائی جارہی ہے ، اپنے حق و انصاف کے خاطر اعلان جنگ سے پہلے ہتھیار ڈالوادئے جارہے ہیں
ابھی تو ہمیں ظلم ذیادتی، ناانصافیوں کے خلاف ایک صف ہوکر شانہ بشانہ ایک دوسرے کی طاقت بن کر کھڑے ہونا تھا
جیسے آج ٹمل ناڈو میں اسٹالن جیسے نوجوان لیڈر کی حمایت، اُس کی دفا میں پوری قوم پوری ریاست کھڑی ہے
لیکن ہم غیرضروری مدعوں کو لے کر آپس میں الجھائے جا رہے ہیں۔
ملک میں ون نیشن ون الیکشن ، یونی فام سول کوڈ ، ہندو ہندی، جیسے کئی خطرناک ناگ پھن نکالے ڈسنے کے لئے تیار کھڑے ہیں، شہریت کا معاملہ مکمل دبا نہیں وقتا فوقتاً اس کی چنگاریاں اٹھائی جاتی ہیں، ہمارے آگے 2024 کے انتخابات ہیں جو آنے والے بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل طئے کرے گا، ایسے وقت میں جان بوجھ کر اہل علم کا ایک بڑا طبقہ مودودی ورسس دارلعلوم کررہا ہے بیشک یہ چنگاری کسی اپنے نما منافق کی لگائی ہوئی ہے
تاکہ اہل علم، اہل دانشور طبقہ اس جانب بحث مباحثوں و مناظرون میں الجھا رہے اور دوسری طرف دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہوجائے ۔۔۔۔
ہمیشہ کی طرح یہ مسلمانوں کو
ذہنی انتشار میں الجھائے رکھنے کی کوشش ہے اور اس سازش میں ہمارے اپنے نما ملت فروشوں کا بڑا کردار ہے وہ کہتے ہیں نہ گھر کا بھیدی لنکھا دھائے ۔۔۔۔
یہ وہی بھیدی ہیں جو قوم مسلم کو بزدل و ذہنی غلام ثابت کررہے ہیں

رب کائنات کی طاقت کے آگے مٹھی بھر سنگھی برہمنوں کے آگے گھٹنے ٹیک رہے ہیں
پتھروں کو پوجنے والے مشرکین کے آگے سر جھکائے جارہے ہیں
مگر کسے سنائیں یہاں تو سارے بہرے و بےحس ہیں بس اللہ ہی اس قوم کی لاج رکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ جو خود سے ہو ڈوبنے کو تیار اُسے چُلو بھر پانی میں بھی غرق ہونے سے کون بچائے ؟؟؟

Comments are closed.